دنیا کا تبدیل ہوتا ہوا منظر نامہ

1:07 PM nehal sagheer 0 Comments



اٹھارہویں صدی کے سائنسی انقلاب اور لادینی نظریات کے وجود کے بعد اربوں کھربوں ڈالر اور سرمائے کی طاقت سے اشتراکیت ،آمریت ،کمیونزم،کپیٹلزاور لبرل جمہوریت کو وجود میں لایا گیا تاکہ بیسویں صدی میں خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد ایک بار پھر اسلامی طرز سیاست اور خلافت کو غالب آنے سے روکا جاسکے ۔مگر جس طرح آندھی اور طوفان کی طرح یہ جدید لبرل اور لادینی سیاست اپنے وجود میں آئی اسی رفتار سے فنا کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہے اور اکیسویں صدی میں ایک بار پھر پاکستان سے لیکر افغانستان ایران ترکی مصر اور شام میں تحریکات اسلامی کے عروج سے اسی طرح خوفزدہ ہے جیسے روئے زمین پر جبرئیل کا نزول ہونے والا ہو یا شیطان کرہ ارض پر کسی نبی اور رسول کی آمد سے لرزہ بر اندام ہو جایا کرتا تھا ۔
ہو سکتا ہے یہ کسی دیوانے کی بکواس ہو مگر تاریخ پر نظر دوڑائیے اور دیکھئے کہ اٹھارہویں صدی جدید ٹکنالوجی ،لادینی نظریات اور جدید طرز سیاست کے عروج کا دور ضررور تھا مگر صالحیت اور دین و مذہب کے خاتمہ کا نہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کے خاتمے سے پہلے اور نوے کی دہائی میں ہی اشتراکیت ،کمیونزاور سوشلزم کے ان سارے بتوں کو منہدم کرنے کیلئے کسی حضرت ابراہیم ٗ کو آنے کی ضرورت نہیں پڑی بلکہ وقت کے آزروں نے خود اپنے ہاتھوں سے ان مجسموں کو تہس نہس کردیا ۔اور امریکہ جس کارپوریٹ جمہوری نظام کی کامیابی کے بعد پوری دنیا میں یکساں طور پر نیو ورلڈ آرڈر کو نافذ کرنے کی بات کررہا تھا 2001 یعنی 9/11 کے بعد بیسویں صدی کے خاتمے اور اکیسویں صدی کے آغاز میں خود اس چرچہ کا موضوع بن گیا ہے کہ کیا یہ امپائر خود اپنے پیروں پر کھڑا رہ پائے گا ؟2001 میں جس تیزی کے ساتھ وہ افغانستان میں داخل ہوا تھا القاعدہ اور طالبان کو ختم کرنے کا دعویٰ کیا اور اسی رو میں عراق پر چڑھائی کی صدام حسین کو پھانسی پر چڑھادیا ،ایسا لگ رہا تھا کہ دنیا سے تحریکات اسلامی ،اسلام اور بیباک مسلم قیادت کا خاتمہ ہو جائے گا ،مگر کیا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکا ؟دنیا دیکھ رہی ہے کہ قطر میں وہ اپنے خرچ سے طالبان کی ایمبیسی قائم کرکے ان سے بات چیت کا منصوبہ بناچکا ہے ۔کیا یہ بات چیت صرف قیدیوں کی رہائی اور یوں ہی رسمی گفتگو کیلئے ہے ؟امریکہ اتنا بیوقوف نہیں ہے کہ صرف رسمی گفتگو کیلئے ایسا کرے ۔سچائی یہ ہے کہ جس طرح ماضی میں اسی افغانستان کے اندر سوویت روس کے بڑھتے ہوئے قدم کو روکنے کیلئے اسے افغان مجاہدین کی ضرورت تھی ،مستقبل میں بھی اس کیلئے صرف طالبان ہی ایسے دوست ہو سکتے ہیں جن پر اعتماد کرکے وہ افغانستان میں دوبارہ چین اور روس کی مداخلت کو روک سکتا ہے ۔ جبکہ یہ سچ ہے کہ افغانستان کو اپنے قابو میں کئے بغیر چین کے اپنے تجارتی مفادات حل نہیں ہو سکتے ۔سوال یہ ہے کہ جہاں شام میں امریکہ اور اس کی اتحادی قوتیں صرف اس لئے شامی عوام کو اپنے ہتھیار اور جنگی حکمت عملی کیلئے خفیہ سپاہی فراہم کررہے ہیں تاکہ یہاں جو بھی حکومت قائم ہو امریکہ نواز ہو ۔اپنے اسی مقصد کیلئے افغانستان میں تو جنگ کے یہ سارے سامان پہلے ہی سے موجود ہیں اور اسے واپس لے جانے میں بھی سینکڑوں کروڑ روپئے کاخرچ ہے ۔جبکہ یہی ہتھیار اور سازوسامان اگر وہ طالبان کو دیکر افغانستان میں ان کی حکومت قائم کروادے یا اپنی حمایت کیلئے راضی کرلے جائے تو یہ اس کے حق میں بہتر ہوگا اور وہ آسانی کے ساتھ وسطی ایشیاء کے ممالک میں بھی اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھ سکتا ہے ۔دیگر صورت میں اگر چین نے آگے بڑھ کر طالبان یا کسی اور اتحادسے بات کرنی شروع کردی جیسا کہ اس کام کیلئے پاکستان بھی اس کی پوری طرح مدد کریگا ۔ایسے میں امریکہ پوری طرح اس خطے پر اپنی بالادستی سے محروم ہو جائے گا ۔یہ نظر بھی آرہا ہے کہ چین 2014 میں امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد یہ کھیل ضرور کھیلے گا اور وہ یہ کھیل امریکہ کے دشمنوں کے ساتھ ملکر کھیل بھی رہا ہے ۔چین اپنے اسی مقصد کیلئے پاکستان میں اپنی بندرگاہ قائم کرچکا ہے اور ایران میں چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر کیلئے ایران کو ساٹھ ملین ڈالر قرض کی پیش کش بھی کر چکا ہے جبکہ اسی بندر گاہ کی تعمیر کیلئے ایران اور ہندوستان میں دس سال پہلے ہی ایک ضمنی معاہدہ ہو چکا ہے جسکے تحت ہندوستان نے تقریباً اتنی ہی رقم کی سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا تھا ۔ ایسے میں اکثر مبصرین ہندوستان کو بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر وہ وسطی ایشیاء کے مسلم ممالک میں اپنی تجارت کو فروغ دینا چاہتا اور ایسا کرنا ہی ہوگا تو طالبان سے گفتگو شروع کردے اور ایران کے چاہ بہار بندرگاہ کے بارے میں بھی جلد سے جلد کوئی فیصلہ کرلے۔ہندوستان کی اپنی حکمت کیا ہوگی یہ تبصرہ کرنا ابھی بہت مشکل ہے مگر چین اور امریکہ نے اپنا فیصلہ کرلیا ہے اور یہ ممکن ہے کہ چین بھی سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے طالبان کی حکومت قائم کروا دے جبکہ ایران کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ روس اور چین کے اس اتحاد میں شامل ہو جائے ۔
شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اور مصر میں جو کچھ بھی ہواوہ اسی روس چین اور ایران کے مستقبل کے منصوبے کا ابتدائی کھیل ہے ۔اسی پس منظر میں اسرائیل اور اس کے یہودی سرمایے دار اس اتحاد کی مدد کررہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور چین یا کسی بھی سوپر پاور کے علاوہ اسرائیل خود بھی پوری دنیا میں اقتصادی میدان کا سوپر پاور ہے اس لئے ان سرمایہ داروں کا اپنا مفاد قومیت وطنیت کے نظریاتی تصادم اور لبرل جمہوریت کی بقا میں ہے نہ کہ کلمہ طیبہ اور توحید کی پکار میں جو ایک پاک صاف معاشرے کی نمائندگی کرتا ہے ۔جبکہ یہودیوں کی ناجائز صنعت وتجارت کا فروغ صرف لبرل جمہوری طرز سیاست میں ہی ممکن ہے کیوں کہ یہاں وہ آسانی کے ساتھ اپنی مرضی کے حکمراں تبدیل کرتے رہتے ہیں اوران لبرل جمہوری حکمرانوں کو آسانی کے ساتھ خریدا بھی جاسکتا ہے ۔ اس کے برعکس ایران ،افغانستان اور سعودی عرب وغیرہ میں پہلے ہی سے ان کی تجارت خسارے میں ہے اور ترکی میں شراب وغیرہ کی فروخت پر پابندی اور عورتوں کے حجاب وغیرہ کے فروغ کی وجہ سے ان کی بہت سی فیشن اور فحاشی کی صنعتیں خسارے کا شکار ہیں ایسے میں عرب انقلابات اور اس انقلاب میں اللہ اکبر کی پکار نے ان کی نیند کو اور بھی حرام کردیا ہے ۔مگر جس طرح امریکہ اور اس کے اتحادی اس انقلاب کی حمایت کررہے ہیں اسرائیلی سیاستدانوں اور سرمایہ داروں کیلئے ان کی یہ حکمت عملی اسرائیل سے دشمنی کے مترادف ہے ہاں الگ بات ہے کہ ابھی مغرب اور اسرائیل کے درمیان سرد جنگ کا ماحول قائم ہے اور اس وقت تک قائم بھی رہے گا جب تک کہ عالمی صورتحال پوری طرح واضح نہ ہوجائے ۔ ایسا محسوس بھی ہورہا ہے اور مغربی عوام بھی محسوس کررہی ہے کہ جس نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذ کیلئے انہوں نے مسلم انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف باقاعدہ جنگ کے ذریعے خود کو تباہ کرلیا یہ جنگ ہماری نہیں یہودیوں کی ہے ۔اسی لئے امریکی صدر اوبامہ نے اسرائیل کی طرف سے تمام دباؤ اور اصرار کے باوجود ایران پر حملہ نہیں ہونے دیا مگر وہ کھل کر ایران کی حمایت بھی نہیں کرسکتے اس لئے اس کی معاشی ناکہ بندی کو منظور کرنا پڑا جبکہ بدعنوانی اور رشوت خوری کے اس دور میں ایران کے خلاف معاشی پابندی بھی پوری طرح ناکام ثابت ہو رہی ہے درپردہ روس اور چین اس کی مدد کررہے ہیں اور ممکن ہے کہ ایک دن اسرائیل ایران کے ساتھ ہوجائے کیوں کہ اسرائیل کو تو صرف اپنا مفاد عزیز ہے اور پھر ایک دشمن کو ختم کرنے کیلئے دوسرے دشمن سے ہاتھ ملالینا بھی تو یہودیوں نے ہی دنیا کو سکھایا ہے ۔اسی دوران امریکی صدر نے سعودی عرب کے ساتھ 60 بلین ڈالر کے ہتھیاروں کا معاہدہ کیا ہے ۔اس معاہدے سے اسرائیل کے کان کھڑے ہوجانے چاہئیے تھے کہ آخر امریکہ نے اس کے ایک دشمن ملک کو ہتھیاروں کا اتنا بڑا ذخیرہ دینے کا معاہدہ کیوں کیا ؟مگر امریکہ کی اپنی مجبوری بھی تھی کہ وہ صرف ہتھیار ہی بیچ سکتا ہے اور اس کی اپنی اقتصادی صورتحال بہت اچھی نہیں ہے ۔اپنے اسی اقتصادی صورتحال کے مد نظر اس نے عراق سے اپنی فوجوں کو واپس بلالیا اور افغانستان سے نکلنے کیلئے اچھے اور برے طالبان کا اس لئے شوشہ چھوڑا کیوں کہ اپنے اس مقصد کیلئے اسے مستقبل میں طالبان کی ضرورت درکار تھی ۔جبکہ اسے یہ بھی پتہ ہے کہ اس کے نکلنے کے بعد چین ضرور افغانستان میں مداخلت کرے گا تاکہ اس راستے سے وہ عربوں کے ساتھ کم خرچ میں اپنے تجارت کو فروغ دے سکے ۔کیا یہ بات سی آئی اے کو نہیں معلوم کہ چین کے اپنے عزائم کیا ہیں ؟سی آئی اے کو یہ بھی پتہ ہے کہ یہودی سرمایہ داروں کے اپنے عزائم کیا ہیں اور پھر یوروپ اور امریکہ کی جدید نسل اسرائیل کے بارے میں کیا نظریہ رکھتی ہے اور پھر اسی بات کو دوسرے زاویے سے دیکھا جائے تو موساد کو بھی علم ہے کہ مغرب میں اس کے خلاف فضا ٹھیک نہیں ہے اور اگر یہودی سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کو مغربی عوام اور حکمرانوں کی بدلتی ہوئی ذہنیت کا علم ہے تو وہ خاموش نہیں رہ سکتے اور وہ ان کے اس اتحاد کو توڑنے کی بھی کوشش کریں گے ۔اپنے اسی مقصد کیلئے باراک اوبامہ کی صدارت کے دوران وکی لیکس کے فتنے کو ایجاد کیا گیا اور اس نے سب سے پہلے عراق میں امریکی فوجیوں کی انسانیت سوز تصویروں کو عام کیا جو خود اس کے اپنے اتحادیوں کے درمیان دراڑ پیدا کرنے کیلئے تو تھی ہی عالم اسلام میں امریکہ کے خلاف جو نفرت پائی جاتی تھی اسے اور بھی مزید گہرا کیا جائے ۔کیا اس کھیل کو ویکی لیکس کے مالک جولین اسانج اکیلے انجام دے سکتے تھے ۔ظاہر سی بات ہے عالمی پیمانے پر حکمرانوں کے بیڈ روم تک کی پوشیدہ خبروں کو حاصل کرنا ہزاروں کروڑ ڈالر اور سرمائے کے بغیر ممکن نہیں ہے جو صرف موساد اور اس کے پس پشت یہودی سرمایہ داروں کی بھی سازش تھی تاکہ امریکی حکمراں اور عوام جو اس کے قابو میں نہیں رہے، انہیں دنیا کے سامنے اور انسانی حقوق کی عدالت میں ننگا کیا جاسکے ۔اب اسنوڈین کا جو فتنہ سامنے آیا ہے یہ بھی اسی عالمی اور یہودی سازش کی ایک کڑی ہے جو اسرائیلی خفیہ تنظیم موساد کا تخلیق کردہ معلوم ہو تا ہے جسے بظاہر مسیحا بناکر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر ایک ملک کے شہری کیلئے اپنے ملک کے راز کو افشاں کرنا بہر حال اس ملک کے ساتھ غداری ہے جو اسنوڈین کوکسی بھی صورت میں نہیں کرنا چاہئیے تھا جبکہ وہ اگر اتنا ہی پارسا تھا تو اسے ملک کی خفیہ ایجنسی میں شمولیت ہی نہیں اختیار کرنی چاہئیے تھی مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس نے برطانیہ جرمنی فرانس ترکی اور ہندوستان جیسے ان ممالک کے بارے میں امریکی جاسوسی کا راز فاش کیا ہے جو امریکہ کے دوست اور مستقبل کے اتحاد ی ہیں جبکہ امریکی صدر اوبامہ کا یہ کہنا ہی جائز ہے کہ دنیا کی ہر خفیہ تنظیم اپنے دوستوں اور دشمنوں پر نظر رکھتی ہے ۔ ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ہندوستان کی خفیہ تنظیم انٹیلیجنس بیورونے تو باقاعدہ مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کیلئے ان کے اغوا اور انکاؤنٹر کی منصوبہ بندی کی ۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ اسنوڈین کو اس ملک نے پناہ دی ہے جو امریکی مخالف اتحاد کا رکن ہے ۔بدلتی ہوئی اسی صورتحال کے مد نظر اسرائیل اور اس کی خفیہ تنظیم پوری طرح عرب انقلابات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی خاموشی کی وجہ سے اس کے لئے سردرد بن چکا ہے اور اسے تنہا یہ کام انجام دینا پڑ رہا ہے ۔ماضی میں یہودی اپنی اسی سازش کی وجہ سے یوروپ اور دیگر ممالک سے نکالے گئے یا قتل کئے گئے مگر انہوں نے اپنے روش نہیں بدلی اور وہ اپنی روش بدلیں گے بھی نہیں کیوں کہ بہر حال انہیں عبرتناک انجام تک تو پہنچنا ہی ہے ۔

عمر فراہی۔موبائل۔
09699353811umarfarrahi@gmail.com    

0 comments: