پنجہ یہوداور تحریکات اسلامی کی مزاحمت

3:12 PM nehal sagheer 0 Comments


ایک طرف یہ عام خیال ہے کہ جمہوریت ہی دنیا کیلئے بہترین نظام ہے اور امریکہ اس جمہوریت کا علمبردار اور محافظ ہے ۔دوسری طرف یہی طبقہ اسی امریکہ پر یہ الزام بھی عائد کرتا ہے کہ اسی نے القاعدہ اور طالبانی تحریک کو وجود بخشا اور سوویت روس کے خلاف ان مجاہدین کو اپنے مقصد کیلئے استعمال کیا سوویت یونین کے زوال کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ خود طالبانوں کو حکومت سونپ کر اپنے استعماری عزائم کی تکمیل کیلئے مصروف ہوجاتا مگر اس نے ایسا نہیں کرکے اپنے محسنوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے 9/11 کی تخلیق کی اور اس کا سارا الزام اسامہ بن لادن اور القاعدہ پر تھوپ کر افغانستان پر حملے کا جواز ڈھونڈ لیا تاکہ اسے افغانستان میں اپنا مستقل اڈہ قائم کرنے کا اخلاقی جواز مل جائے اور اسکے جمہوری ملک ہونے کا بھرم بھی برقرار رہے ۔یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی 2000 ؁ء میں ہی تورا بورا کی پہاڑیوں میں بے تحاشہ بمباری کرکے اسامہ بن لادن اور ان کے بہت سے ساتھیوں کو شہید کرنے میں کامیاب ہو چکے تھے۔ مگر اس نے جان بوجھ کر القاعدہ اور بن لادن کو زندہ رکھا تاکہ افغانستان میں اس کا قیام جاری رہے ۔اکثر مبصرین اور دانشوروں کے اس تبصرے کے بعد جو بات ہم سمجھ نہیں سکے وہ یہ کہ آخر جب امریکہ ہی نے القاعدہ اور طالبانی تحریک کو ہوا دی تھی اور یہ لوگ امریکہ کے اپنے ہی لوگ تھے تو پھر امریکہ کو 9/11 کا ڈرامہ تخلیق کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی اور اس نے کیوں اپنی تین بلند بالا عمارت کو تباہ کرکے اپنی معیشت کو تباہ کرلیا اور اب جبکہ اس کے کئی شہر اور شہری کارپوریشنوں اور مختلف اداروں نے اپنے دیوالیہ ہونے کا اعلان کردیا ہے تو اب وہ انہیں طالبان سے خوشگوار ماحول میں بات چیت کے ذریعہ واپس لوٹنے کا منصوبہ بناچکا ہے جو کبھی اس کے دشمن ہوا کرتے تھے ۔جبکہ اگر اس نے 9/11 کی تخلیق نہ کی ہوتی اور طالبان کی حکومت کو قبول کرلیا ہوتا تو آج سپر پاور کے تاج سے محروم نہ ہوتا ۔سوال یہ ہے کہ امریکہ کی بدنام زمانہ خفیہ تنظیم سی آئی اے جو کہ اپنی شاطرانہ چال میں مہارت رکھتی ہے اور بیشک سرد جنگ کے دوران اس نے افغان مجاہدین کی جانبازی کا بھی مشاہدہ کیا ہوگا ۔ آخر اس نے امریکی سیاستدانوں کو وہی غلطی کرنے سے کیوں نہیں روکا جس غلطی کی وجہ سے سویت روس سمٹ کر صرف روس رہ گیا ۔اور ریاستہائے متحدہ امریکہ سمٹ رہا ہے ۔عنقریب وہ صرف امریکہ رہ جائے اور ریاستہائے متحدہ کا لاحقہ تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔مگر جو لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ امریکہ بن لادن کو مرنے نہیں دے گا اس نے ایک دن پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں بن لادن کی شہادت کا اعلان کرکے تبصرہ نگاروں کی اس پیشن گوئی کو بھی غلط ثابت کردیا ۔اس کا مطلب کہ وہ افغانستان کے قدرتی وسائل سے جو فائدہ اٹھانا چاہتا تھا اٹھا چکا اور جنہیں خوف زدہ کرنا چاہتا تھا وہ خوف زدہ ہو گئے ؟ایک بہت ہی قلیل طبقے کا خیال ہے کہ امریکہ کو افغانستان میں اپنی فوج اتارنے کی ضرورت بالکل نہیں تھی اور نہ ہی اس کا ایسا کوئی منصوبہ تھا مگر امریکہ کی نااہل قیادت کو 9/11 کی تخلیق کے ذریعے مشتعل کیا گیا تاکہ وہ افغانستان میں اپنی فوج اتارے اور اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ امریکہ جو سوویت روس کو شکست دینے کے بعد افغانستان کے دلدل سے باہر آچکا تھا اس کے بعد جس طرح طالبان اقتدار میں آگئے اور ان کے اقتدار میں القاعدہ نے عرب انقلاب کی بنیاد رکھی یا حکمت عملی پر غور کرنا شروع کیا یہ خبر اسرائیل اور اس کے مرکز دانش صہیونی مقتدرہ کے حق میں نہیں تھی ۔مگر افغانستان میں غیرت مند طالبانی حکومت کو جو کہ اپنے آپ میں ایک طاقتور جنگجو ہی تھے اور انہیں پاکستان اور ISI کی مدد بھی حاصل تھی ،بے دخل کرنا آسان نہیں تھا جیسا کہ یہود و مشرکین نے مصر کے فوجی سربراہ السیسی اور البرادعی کے ایمان اور ضمیر کو خرید کر اخوانیوں کو بے دخل کیا ۔قیاس ہی کیا جاسکتا ہے اور چند امریکی مورخین پر اعتماد کرتے ہوئے یہ بات سامنے آتی ہے کہ یا تو القاعدہ کے ساتھ ملکر کچھ امریکہ مخالف ریاستوں نے امریکہ کو تباہ کرنے کیلئے اسے افغانستان میں آنے کی دعوت دی یا پھر موساد نے چین اور روس وغیرہ کی مدد سے 9/11 کی تخریب کو انجام دیا تاکہ امریکہ کے ذریعے القاعدہ اور طالبان کے نیٹ ورک کو بھی توڑا جاسکے جیسا کہ انہوں نے یہی غلطی روس سے کروائی تھی تاکہ افغانستان میں کمیونزم اور اسلام دونوں متصادم ہو کر ختم ہو جائیں اور اسرائیل ایک قطبی طاقت کے طور پر امریکہ اور مغرب کے ذریعے اپنے نیو ورلڈ آرڈر کو آسانی کے ساتھ پوری دنیا پر مسلط کرسکے ۔اور اگرامریکہ افغانستان میں روس کی طرح تباہ ہو بھی جا تا ہے تو بھی اسرائیل پر کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اپنی وفاداری بدل دے جیسا کہ نظر آرہا ہے ۔ جو کھیل امریکہ طالبان کو ملاکر کھیلنا چاہ رہا ہے اسرائیل اسے کبھی برداشت نہیں کرے گا اور وہ چین کے ساتھ مل کر ایک بار پھر سرد جنگ کی تاریخ دہرائے گا ۔مصر اور شام میں جو ڈرامہ ہو ااور ہورہا ہے وہ اسی صہیونی سازش کا ہی ایک حصہ ہے جو اپنی بقا کیلئے مسلسل پوری دنیا میں آگ اور خون کا کھیل کھیلتے رہے ہیں اور کھیل رہے ہیں ۔یہ لوگ یہ بھی جان رہے ہیں کہ جس لبرل اور کارپوریٹ جمہوریت کے ذریعے یہ لوگ ہندوستان پاکستان ،بنگلہ دیش اور مغربی ممالک میں ہر پانچ سال بعد اپنی مرضی کے حکمراں تبدیل کرکے اپنی ناجائز اور حرام تجارت کو جاری رکھے ہوئے ہیں اسی جمہوریت اور انتخاب کے ذریعے عرب ممالک کی عوام ان کے مفاد پر حملہ آور ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ اس جمہوری طرز کی سیاست میں بھی ان کا قرآنی دستور پر مبنی شرعی قوانین پر عمل ہے جس نے ان کی ایمانی غیرت کو زندہ رکھا ہے۔کچھ لوگ جو کہتے ہیں کہ مصر کے اخوانی صدر ڈاکٹر مرسی سے جلد بازی کی غلطی ہو ئی ہے اور خاص طور سے سلفی رہنماؤں نے مرسی پر الزام عائد کیا ہے کہ ان کی ضد کی وجہ سے فوج کو مداخلت کرنے کا موقع ملا وہ شاید بھول رہے ہیں کہ 1992 میں الجزائر کے اسلام پسندوں نے بھی جمہوری طریقے سے انتخابات میں حصہ لیکر کامیابی حاصل کرلی تھی ۔مگر ان کی کیا غلطی تھی جو فوج نے ان کو حکومت نہیں بنانے دیا ۔تاریخ کے اس پر آشوب دور کو ہم کیسے بھلا سکتے ہیں جب دولت عثمانیہ کے آخری خلیفہ عبدالحمید ثانی سے کوئی غلطی نہیں ہوئی تھی مگر ان کی فوج میں شامل میر جعفروں اور میر صادقوں نے اپنے ایمان اور ضمیر کو یہودی سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کردیا اور انہیں عوامی بغاوت کے ذریعہ معزول ہونا پڑا۔ اگر بالفرض یہ مان لیا جائے کہ ترکی کے حاکم عبدالحمید ثانی سے کوئی غلطی ہوئی بھی،سوویت روس نے بھی غلطی کی ،ہٹلر اور صدام حسین اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے قتل اور شہید ہوئے تو پھر امریکہ مرحوم سے ایسی کیا غلطی ہوگئی کہ وہ آج اپنے انہیں دشمنوں کے ساتھ ایک میز پر چائے پینے کیلئے آمادہ ہے جنہیں عوام نے جمہوری طریقے سے ایسا کرنے کیلئے منتخب بھی نہیں کیا ہے۔ہم تاریخ کے اس دور پر بھی نظر رکھتے ہیں جب حسن البناء ؒ ،قطب شہیدؒ ،مولانا مودودیؒ زینب الغزالی ،شیخ احمد یٰسین ؒ ،الرنتیسیؒ ،اقبالؒ ،علی میاں ندویؒ اور یوسف القرضاوی وغیرہ نے کسی ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر کوئی حملہ نہیں کیا تھا مگر پھر بھی ان میں سے اکثر کو صرف ان کی علمی صلاحیت اور زور خطابت کی بنیاد پر حق کو حق کہنے کی وجہ سے شہید کیا گیا ،پھانسی کی سزا دی گئی ،اغوا کرنے کی کوشش کی گئی یا پھر سلاخوں کے پیچھے ڈال کر جبر تشدد کے دور سے گزارا گیا ۔یہی وہ حالات تھے جب پرامن تحریک و تدبیر اور جائز مطالبات کو بھی روندا اور کچلا گیا تو بعد کی نسلوں میں سے اکثر نے انتہا پسندی کا راستہ اختیار کیا جو کسی بھی تحریک کا نصب العین تو نہیں ہوتا مگر حالات مجبور کرتے ہیں کہ اس راستے کو اختیار کیا جائے ۔شام کا مسئلہ ہمارے سامنے ہے ،مصر کے حالات اسی رخ پر موڑنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔تقریباً دو سو لوگوں کو ایک ساتھ مصری فوج نے گولیوں سے بھون دیا ۔شاید انہیں حالات سے بد ظن ہو کر الظواہری اور اسامہ بن لادن اور ان کے ساتھیوں نے ہتھیار اٹھالئے اور انہوں نے استعماریت اور صہیونیت کی سازش کو محسوس کرتے ہوئے افغانستان میں ان لوگوں سے ہاتھ ملا لیا جن سے آج امریکہ بات کرنے کو مجبور ہے ۔
بڑی عجیب سی بات ہے کہ دنیا کی دو مسلم تحریکوں اور تنظیموں کا یہ اتحاد ہمیشہ قابل مذمت رہا ہے مگر امریکہ القاعدہ اور طالبان کے گٹھ جوڑ کو سرد جنگ کے نام سے جائز اور تاریخی قرار دیا گیا ۔اکثر مسلم دانشور وں کی بھی یہ دلیل رہی ہے کہ القاعدہ اور طالبان کے اس عملی جہاد سے عالم اسلام کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے اور ان کی وجہ سے افغانستان سو سال پیچھے چلا گیا ۔مگر عالم اسلام میں ایک فکر یہ بھی ہے کہ جس طرح صہیونی مقتدرہ اپنی چال چل رہے تھے کہ کمیونزم اور اسلام کو متصادم کرکے فنا کر دیا جائے ۔افغانیوں نے نہ صرف دونوں سپر پاور وں کا مقبرہ بنادیا اور ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ کمیونسٹ روس کے جبر سے وسطی ایشیاء کی جو مسلم ریاستیں وجود میں آئیں وہ اپنے طور پر یا جمہوری طریقے سے کبھی بھی یہ سوچ نہیں سکتی تھیں کہ وہ روسی سامراج سے آزاد ہو سکیں گی مگر ان کی یہ آزادی افغانستان کے اس عملی جہاد اور روس کی شکست سے ہی ممکن ہوسکی ۔دوسرا سب سے بڑا کارنامہ امریکی استعماریت کا خاتمہ ہے ،جسکے ذریعے اگر صہیونی اتحاد اپنے نیو ورلڈ آرڈر کو بغیر کسی روک ٹوک کے نافذ کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو تمام انسانی دنیا کیلئے مغرب کے غیر اخلاقی طوفان اور فحش سرمایہ دارانہ تہذیب سے نجات پانے کیلئے کسی فرمان الٰہی کا انتظار کرنا پڑتا اور پھر یہ لوگ جس طرح ایران کی اینٹ سے اینٹ بجاکر پتھروں کے دور میں پہنچادیتے اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا مگر اسامہ اور اوبامہ دونوں نے ملکر ایران کو بچا لیا ایران کو اس کا احساس ہو یا نہ ہو مگر اوبامہ نے جس طرح خاموشی کے ساتھ عرب بہار کی حوصلہ افزائی کی ہے اور اپنے خون کا حق ادا کیا ہے ۔کم سے کم عربوں کیلئے اپنے ان اسرائیل دوست حکمرانوں کو جمہوری طریقے سے بے دخل کرنا ناممکن نہیں تو آسان بھی نہیں تھا جیسا کہ ابھی بھی وہ امتحان سے گزر رہے ہیں مگر تبدیلی اب مسلم دنیا کی حقیقت بن چکی ہے جسے وقت کے یزید حسینوں کا سر کاٹ کر ناکام نہیں بنا سکتے اور ایک پائیدار انقلاب آکر رہے گا ۔انشا ء اللہ
umarfarrahi@gmail.com 09699353811
عمر فراہی۔موبائل۔

0 comments: