مذہب کے نام پر ووٹ کا سوال!

10:47 PM nehal sagheer 0 Comments

ہندوستان میں مذہب ،ذات ،زبان یا علاقہ کی بنیاد پر ووٹ کی اپیل کرنا غیر قانونی ہے ۔لیکن یہ غیر قانونی کام دہائیوں سے جاری ہے ۔کبھی کبھی الیکن کمیشن نے کسی ردعمل کا اظہار کیا تو کیا، ورنہ اس طرح کی شکایتی فائل دوسری شکایتی فائلوں میں کہیں گم ہو جاتی ہے ۔ٹی این شیشن سے پہلے تو کبھی یہاں محسوس ہی نہیں ہوا کہ یہاں ایسا کوئی ادارہ ہے جو انتخابی بدعنوانیوں پر قابو پانے کا دستوری حق رکھتا ہے ۔شیشن نے اپنے عہدہ کی برتری کا استعمال کیا اور سیاسی پارٹیوں اور بدعنوان سیاست دانوں پر شکنجہ کسنے کی کوشش کی ۔لیکن سیاست داں کب ماننے والے ہیں ۔بعد میں چیف الیکشن کمشنر کی قوت کو کمزور کرتے ہوئے اس کے ساتھ دو اور کمشنر بھی لگادیئے ۔شیشن کے بعد جی ایم لنگدوہ نے کچھ حد تک بدعنوانیوں کے خلاف سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے خلاف ایکشن لینے کی کوشش کی ۔مذہب کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دیاہے۔جبکہ بی جے پی اپنے وجود کے دنوں سے ہی مذہب کے نام پر دوسرے فرقہ یعنی مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلاکرہی آج پارلیمنٹ پر قابض ہے۔اس سلسلے میں بابری مسجد کی شہادت اور اس کی تحریک سب سے بڑی مثال ہے۔بابری مسجد کے خلاف بی جے پی کی شر انگیز تحریک جو کہ اڈوانی کی قیادت میں چلی تھی ہندوستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ خونی تحریک تھی ۔اس تحریک سے جو تشدد کی لہر چلی وہ اب تک قائم ہے ۔اس نے ہزاروں لوگوں کی جان لی ۔جس کے ذریعہ بی جے پی نے مذہب کا سہارا لے کر ناخواندہ اور سادہ لوح عوام کا استحصال کیا۔لیکن سیاسی پارٹیوں میں سب سے زیادہ ڈھٹائی اگر کسی کو آتی ہے تو وہ بی جے پی ہی ہے ۔بقیہ سیاسی پارٹیاں اسی کے نقش قدم پر چلتی ہیں۔اگر یہاں قانون اپنا کام چابکدستی اور آزادانہ کررہا ہوتا تو جو لوگ آج اقتدار کے مزے لے رہے ہیں وہ یا تو جیلوں میں قید ہوتے یا ان کا سیاسی کیریئر ختم ہو چکا ہوتا ۔لیکن بد قسمتی ہے اس ملک کی کہ یہاں خونہ خرابہ کرکے ہی لوگ اقتدار تک پہنچ رہے ہیں ۔پھر بھی انہیں یہ زعم ہے کہ وہ اس ملک کے اصلی حق دار اور وطن پرست ہیں ۔جبکہ ان کی شرانگیزیوں کے سبب جو فسادات رونما ہوتے ہیں اور اس سے جو کاروبار اور معیشت کا نقصان ہوتا ہے وہ اربوں کھربوں میں ہے ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ ملک کا اتنا نقصان کرکے بھی کوئی اس ملک کا وفا دار کیوں کر کہلاتا ہے ۔ اسدالدین اویسی کے ممبئی دورے میں تقریر کو لے کر بی جے پی نے الیکشن کمیشن کے سامنے اس بات پر سخت اعتراض جتایا ہے کہ اسد الدین نے مذہب کا نام لے کر فرقہ وارانہ تقسیم کو گہرا کرنے کی کوشش کی ہے ۔ جبکہ اسدالدین کی تقریر میں عدلیہ کے فیصلہ کے خلاف کوئی بات نہیں تھی ۔انہوں نے مسلم محلوں کی پسماندگی اوربنیادی انسانی ضرورت کی عدم دستیابی دیکھ کر کہا کہ اگر آپ لوگ مجھے 25 کارپوریٹر دیدیں تو ہم مسلم محلوں کی تصویر بدل دیں گے ۔ یہ کوئی جرم نہیں ہے کہ کسی ایسے خاص محلوں کی نشاندہی کی جائے جسے تعصب کی بنیاد پر نظر انداز کیا گیا ہو۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی جے پی کی مذکورہ شکایت جو الیکشن کمیشن کے پاس کی گئی ہے ۔جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اویسی کے خلاف اس سلسلے میں کارروائی کی جائے ۔کسی کی شہہ پر کی گئی ہے۔اسد الدین اویسی کے ناگپاڑہ اجلاس میں جس طرح عوامی سیلاب امڈ آیا تھااسے دیکھ کر ان سیاست دانوں کے ہوش ارے ہوئے ہیں اور وہ بدحواس ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے نام پر سیاست تو کی لیکن ان کی الیکشن میں کامیابی کا اثر مسلم محلوں میں ترقی ،صفائی ،بجلی اور پانی کی سپلائی میں بہتری کی صورت میں کہیں نظر نہیںآتا ۔اس لئے وہ اس طرح کی غیر معیاری حرکت کرہے ہیں ۔لیکن جو لوگ اس طرح کی سطحی حرکت کررہے ہیں انہیں اس بار منھ کی کھانی پڑے گی ۔کیوں کہ اسد الدین کبھی جوش میں ہوش نہیں کھوتے وہ نپا تلا جملہ استعمال کرتے ہیں ۔یہ شکایت غالباً مجلس کے پرجوش نوجوانوں کے عزم کو متزلزل کرنے کی نیت سے کی گئی ہے ۔بہر حال سپریم کورٹ کے فیصلہ کے اثرسے اگر اس کو ایمانداری سے نافذ کیا گیا تو یقینی طور پر سب سے زیادہ بی جے پی ہی متاثر ہو گی ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہی وہ پارٹی ہے جس کی خمیر میں مسلم دشمنی کا زہر بھرا ہوا ہے اور لاکھ منافقت کا لبادہ اوڑھنے کے بعد بھی وہ اپنی فطرت سے جان نہیں چھڑا پاتی ۔ان کے لیڈران اپنی اصلیت دکھا ہی دیتے ہیں ۔اس لئے سبرامنیم سوامی کا یہ کہنا کہ سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلہ کا اثر اویسی اور مسلم لیگ کو ہی ہوگا ۔اندر کی کچھ کہانیاں بیان کررہا ہے ۔ جو فی الحال ہندوستان میں سکہ رائج الوقت ہے ۔یعنی کہیں پر نگاہیں کہیں پر نشانہ ۔

0 comments: