featured,

پاؤں تو رگڑئیے، چشمہ ضرور پھوٹے گا

7:32 PM nehal sagheer 0 Comments


قاسم سید
  
سیاست میں کچھ جملے ایسے ہیں جوہرقسم کے سیاستداں کی زبان پر رہتے ہیں اور ضرورت کے مطابق ان کااستعمال ہوتاہے
مثلاً سیاست میں دوستی اور دشمنی مستقل نہیں ہوتی۔ ’قومی تقاضوں‘ کوذہن میں رکھ کر ان کی تشریح کی جاتی رہی ہے جیسے ’قومی تقاضوں‘ کی مانگ پر ملائم سنگھ نےساکشی مہاراج کو ممبر پارلیمنٹ بنایااور بابری مسجد شہادت کے بعدسپریم کورٹ کے فیصلے کی بےحرمتی میںایک دن جیل کی سزابھگت چکے کلیان سنگھ کی پارٹی سے اتحاد کیااور ان کے بیٹے کو کابینہ میں لیا۔ کانگریس نے نظریاتی حریف لیفٹ سے عوام کی خواہش کےاحترام میں دوستی کی اور مغربی بنگال میںایک ساتھ الیکشن لڑا۔ وی پی سنگھ کی قیادت میں کانگریس کے خلاف بی جے پی اور لیفٹ مل گئے دونوں نے بیک وقت وی پی سنگھ سرکار کی حمایت کی جنتادل نے بی جے پی کو انتخابی اتحادی بنایا۔ قومی مفاد سے مجبور ہوکر ملائم سنگھ اور مایاوتی نے یوپی اے سرکار کو کاندھا لگایا۔ اور اب قومی تقاضوں کےآگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے بابری مسجد گرانے کی سازش کرنے والے اور بابری مسجد تحفظ کی خاطر سرکار قربان کرنے کا دعویٰ کرنے والے باہم شیروشکر ہونے کے امکانات تلاش کر رہے ہیں ۔ کانگریس کوزندگی بھر منھ بھر کر گالیاں دینے والے اور گالیاں کھانے والے دوستی اور دشمنی مستقل نہیں ہوتی کاثبوت دینے کی خاطر کڑواہٹ کوبھلاکر ایک دوسرے کے گلے میںباہیں ڈالنے کے لیے بےقرار ہیں یعنی ہندوستانی سیاست کی چمڑی بہت موٹی ہے۔ اصول ،قانون ، روایت ،شرم وحیا،غیرت وخودداری، نظریات جیسے شریفانہ عناصر کہیں اس کے خمیر میں شامل نہیں ہیں۔ اس لیے دلتوں کے سابق مسیحاپاسوان سیکولرزم کی دہائی کے ساتھ واجپئی سرکار چھوڑدیتے ہیں اور ’قومی مفاد‘ میں مودی کادامن تھام لیتے ہیں۔ نتیش کمار سرکار چلانے کے لئے 17سال تک بی جے پی کا ہم پیالہ ہم نوالہ بن جاتے ہیں اور مودی سے ذاتی ٹکرائو کوسیکولرزم کاجامہ پہنا کر اپنے کٹرترین سیاسی حریف لالو کی لالٹین پکڑنے میں ذراسی بھی دیرنہیں کرتے پھراچانک ان پر انکشاف ہوتا ہےکہ بی جے پی توفرقہ پرست ہے اور جب لالو اپنا رنگ دکھاتے ہیں توپھر بی جے پی کے ساتھ گل بہیاں شروع ہوجاتی ہیں یعنی سیاسی ملائی کھانے اور اس ہانڈی پر قبضہ برقرار رکھنے کے لئے کوئی بھی چولاپہننے سے گریزنہیں ۔ ہر قیمت ادا کرنے کےلئےتیاراورنظریاتی ڈھکوسلوں کوالوداع کہنے کے لئے بے شرمی کی سرحد سے گزرنے کا حوصلہ ۔ایک اورلفظ ہے جس نے ہندوستانی سیاست کو بے توقیر اور مسخر ابنایا وہ ہے سیکولرزم سیاستداں، درزیوں کی طرح ہر ناپ کالباس رکھتے ہیں اور کسی کوبھی پہنادیاجاتا ہے لالو کے برادر نسبتی سادھویادو نے ایک بار کہاتھا کہ ہندوستان میں سیکولرزم نام کی کوئی چڑیا نہیں ہے ۔ یہ دراصل سیاسی ضرورتوں کےنقد لین دین کے کام آتا ہے کل جو شخص فرقہ پرست تھا ضرورت ہوئی تو اس میںسیکولر ہونے کا ہر جوہر ڈھونڈلیاجاتاہے اس لفظ کا جتنامذاق اڑایا گیا ہے اور استحصال کیاہے اس نے اپنی شناخت کھودی ہے یہ صرف آئین کی کتاب میں محفوظ ہے لیکن عملی سیاست میںاس کی کوئی لکشمن ریکھانہیں اسی لیے کانگریس اور بی جے پی نظریاتی حریف ہونے کے باوجود اپنے لیڈروں کو ادھرسے ادھر بھیجتی رہتی ہیں تاکہ پارٹی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایاجاسکے ۔سنجے نروپم کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ ہوتے ہیں اور جگدمبیکاپال بی جے پی کے ٹکٹ سے الیکشن لڑکر لوک سبھا پہنچتے ہیں ایسی سیکڑوں مثالیں ہیں ورنہ نرسمہارائواس بات کو یقینی کیسے بناتے کہ گیارہ بجے سے پانچ بجے تک بابری مسجد کی اینٹیں نکالی جاتی رہیں اور انتظامیہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے۔ ملائی کھانے والوں میںاس بات پر غیر تحریر شدہ مفاہمت ہے کہ مظلوم طبقات اور اقلیتوں کو پیروں کی جوتی بناکر رکھا جائے۔ انہیں اقتدار میںشراکت دارانہ بنایا جائے البتہ وقتاً فوقتاً خیرات ومراعات کے ٹکڑے ضرور ڈالے جاتے ہیں تاکہ بے اطمینانی کی چنگاری انقلاب کی آگ میں تبدیل نہ ہوجائے لیکن ان کی گردنوں میں وفاداری پر استوار غلامی کا خود ضرورڈال کر رکھاجائے۔ جس طرح انتخابی پارٹیوں میں پاسوان، اٹھاولے، ادت راج ،پونیا میراکمار اورپرجاپتی وغیرہ جیسی علامتوںکو جگہ دے کر یہ ثابت کیاجاتا ہے کہ مظلوم طبقات کے نگہبان ہیں اسی طرح نمائشی مسلم چہروں کو آگے رکھ کر اس بات کامظاہرہ ہوتاہے کہ آپ کا پورا خیال رکھاجارہا ہے ان کانام لکھنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ علامتی چہرے پیادوں کی طرح بدلتے رہتے ہیں۔ ہندوستان کی ہرپارٹی کی قیادت اعلیٰ طبقات کے ہاتھ میں ہے اور علاقائی جماعتوں کی زمام کارذات پات کی سیاست کے فنکاروں نے سنبھال رکھی ہے۔ مظلوم طبقات کو ان کی حیثیت یاد دلانے کےلئے مظفرنگر، دادری اور اوناجیسے واقعات کااعادہ کیاجاتاہے۔پناہ گزیںکیمپوںمیں رہنے پر مجبور کر کےاحساس دلایاجاتا ہے کہ اگر سراٹھایاتو اس سے بھی براانجام ہوگا۔ نچلی سطح پر بھی ایسی قیادت فریم کی جاتی ہے جو ان کےباڑے میںہنکاکرلے جاتی ہے اور گلہ نگہبانی کا مقدس فریضہ انجام دینے والے اس کا محنتانہ وصول کرتے ہیں۔
اس بے درد، خود غرض ،بے اصول، بے رحم سیاست کاسب سے زیادہ اثر مسلمانوں پر پڑا سچرکمیٹی کی رپورٹ اس کی شاہد ہے اورآگے بھی یہ سلسلہ چلتا رہے گا اگر اپنی دنیا آپ پیدا کرنے اور اپنی ضرورتوں کے مطابق سیاسی حکمت عملی نہیں بناتے ، فی الحال دور دور تک ایسے آثارنظر نہیں آتے کہ مسلمانوں یا ان کی بزرگ قابل احترام قیادت کو بے وزنی ،بے وقعتی اور رسیاسی طورپر صفر ہوجانے کااحساس ہو اور وہ اس کے لیے جرأت مندانہ قدم اٹھانے کے بارے میں سوچتے ہوں وہ صرف جائے پناہ ڈھونڈتے ہیں وحشی ہرن کی طرح ادھر سے ادھرقلانچیں بھرتے ہیں مگر جاں بخشی پھر بھی نہیںہوتی۔ ہندوستانی سیاست نے ہمیں ناانصافی کے اتنے الیکٹرک شاک دیے ہیںکہ اب کچھ کرگزرنے اوراقتدار میںباعزت شراکت کے تصور سے بھی خوف کھاتے ہیں اور معاملہ صرف جاں بخشی تک آگیا ہے۔ یعنی جو جاں بخشی کاوعدہ کرے اسی کے ساتھ ہولیے جس نے نظرالتفات ڈالی جان ودل ہاربیٹھے جس نے مسکراکردیکھا اس کی انگلی پکڑلی جس نے سبز خواب دکھائے اس کادامن تھام لیا۔ اب پانچ ریاستوں میںانتخابات کا اعلان ہوگیا ہے ان میںاترپردیش سب سےاہم ہے کیونکہ یہاں مسلمانوں کی قابل ذکرآبادی ہے۔ مگر اس کی اکثریت اس الیکشن کی تاریخی اہمیت سے واقف نہیں ۔ البتہ خیرخواہان ملت نےفیلڈنگ سجانی شروع کردی ہے اور انہیں سماجوادی پارٹی میں باپ بیٹے کی لڑائی کابڑادکھ ہے ۔ ان کا بس چلے تو دونوں کو ایک جگہ بٹھاکرصلح کرادیں ایسا لگتا ہے کہ اگر ان میںاتحاد نہیں ہوا تو ملک وملت کاعظیم نقصان ہوگا۔ مسلمانوں کی لٹیا ڈوب جائے گی۔ ایک لیڈر اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ دھرنے پر بیٹھنے کاارادہ ظاہر کرتے ہوئےکہاجب تک دونوں کاملن نہیںہوگا وہ اٹھیں گے نہیں، یہ جذبہ قابل قدرہے اور اس وقت اور قابل قدر ہوتا جب مسلم مذہبی جماعتوںکے دھڑوں کو ایک کرنے کے لیے یہ عزم ظاہر کیاجاتا یہ جھگڑا اصولوں کا نہیں یا اقتدار کی بندر بانٹ کاہے۔سماجوادی پارٹی بھی کیا کانگریس کلچر کی اسیرنہیں ہوگئی اور مسلمانوں کے تعلق سے صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلاتی ہے۔ کئی مسلم تنظیموں نے مظفرنگر فساد کے موقع پر بھی اس کاساتھ نہیںچھوڑا تھا مگراب وہ بھی کھل کر حمایت سے گریزکررہی ہیں۔ لیکن یہ مقام عبرت ہےکہ یادو کم وبیش آٹھ فیصد اور سب کچھ ان کے پاس اورمسلمان 20فیصد ہے پھر بھی وہ حاشیہ پر ہے ۔ سماجوادی پارٹی کی سیاست نے یادو طبقہ کواترپردیش کے طاقتور ترین سیاسی گروہ میں تبدیل کردیاہے اور یہ کوئی بری بات نہیں مگر یہ مسلمانوں کی قیمت پر ہوا ہمارے لیے دووعدے زندگی وموت کا سوال تھے۔ دہشت گردی کے الزام میں فرضی طریقہ سے گرفتار کئےگئے نوجوانوں کی باعزت رہائی کےاقدامات کے دوسرے تعلیم وملازمت میں پسماندگی کی بنیادپر مسلمانوں کو ریزرویشن ،آج سماجوادی پارٹی دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے یہ تمام وعدے پورے کردیے کیاحامیان سماجوادی پارٹی میںاتنی جرأت ہے کہ وہ ان دونوں سوالوں کا جواب لیں۔ یقین جانیے اب بھی یہی پیغام آئے گا کہ بی جے پی کو ہرانے کے لئے سیکولر فورسز کو ووٹ دیجئے ہمارے اندر یہ طاقت نہیں کہ بی جے پی کو ہراسکیں ایسا ہوتا تو وہ مرکزمیں نہیں ہوتی ان سے یہ سوال کیوں نہیں کیاجاتاکہ اگر آپ واقعی بی جے پی کو ہراناچاہتے ہیں تو باپ بیٹے ایک کیوں نہیں ہوجاتے ۔ سماجوادی پارٹی ، بی ایس پی اور کانگریس ایک پلیٹ فارم پر کیوںنہیں آجاتیں۔ یہ متحدہ امیدوار کیوں نہیں اتارتیں ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ بی جے پی کو ہرانے کا نعرہ صرف ایک ڈھکوسلہ ہے اور کیاآپ میںاتنا دم ہے کہ ان تینوں کو ایک جگہ آنے کی وارننگ دیں۔ توبی جے پی کے لیے کارپٹ تو یہی پارٹیاں بچھاتی ہیں جو سیکولرزم کی مالاہاتھ میں لیے رہتی ہیں ۔ہم ان کے منافقانہ جال میں پھنس کر گوانتاناموبے کی تصویر بن جاتے ہیں۔ کبھی اپنے بارے میں بھی سوچیئے اور دل ٹٹول کر دیکھئےکہ اترپردیش کی اتنی بڑی آبادی کاایک نمائندہ بھی لوک سبھاکیوں نہیں پہنچ سکا۔ ہم دینے والے کیسے بن سکتے ہیں۔ خود کو ہروقت مظلوم سمجھنے اور سمجھانے کی روش کوچھوڑ کر پراعتماد بنناہوگا اورپھر جہاں پیررگڑدیں گے چشمہ وہیں سے پھوٹے گا ۔
qasimsyed2008@gmail.com

0 comments: