روز روز کے مبارکباد کا فتنہ اور مسلمان

5:45 PM nehal sagheer 0 Comments

عمر فراہی

umarfarrahi@gmail.com

پچھلے سال عید کے بعد جب ہم اپنے ایک دوست سے ملے تو انہوں نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کی کیا اب آپ اتنے مصروف رہنے لگے ہیں کہ اس بار عید کی کوئی مبارکباد بھی نہیں دی - یہی بات میں اپنے دوست سے بھی کہہ سکتا تھا کہ اگر ہم مصروف تھے یا ہمیں دھیان میں نہیں آیا تو آپ ہی فون کر لیتے لیکن آج کے دور کا ایک  مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہر شخص کو دوسرے شخص سے شکایت ہے اور ہر شخص اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کی وفاداری کو آزمانے میں لگا ہوا ہے مگر اسے خود احساس نہیں ہوتا کہ دوسرا بھی تو یہی سوچ رہا ہو گا ۔ اس لئے کیوں نہ وہ خود اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے سلام و کلام میں پہل کرے - بات کو آگے نہ بڑھا کر ہم نے  صرف اتنا کہہ کر بات کو ختم کرنے کی کوشس کی کہ کیا کریں بھائی انٹرنیٹ کے دور میں دنیا وہاٹس ایپ کے گرد گھوم رہی ہے اور اب تو دوست یار بھی جب اچانک راستے پر ملتے ہیں اور بات مکمل نہیں ہو پاتی تو یہ کہہ کر جدا ہو جاتے ہیں کہ چل یار وہاٹس ایپ پر ملتے ہیں - اور یہ بات سچ بھی ہے کہ جدید ٹکنالوجی نے دوستوں کی تعداد میں اضافہ تو کیا ہے لیکن دوستوں میں پہلے جیسے خلوص اور ہمدردی کے جذبات کہاں رہے - انہیں مصنوعی دوستوں کے درمیان لوگ جس طرح مصروف ہو چکے ہیں نہ صرف سلام دعا اور عید وغیرہ کی مبارکباد وہاٹس ایپ پر ہونے لگی وہاٹس ایپ اور فیس بک پر ہی درود و سلام اور آمین بھی بھیجا جارہا ہے اور ماضی میں مسلمانوں کے گھروں سے جو تلاوت کی آواز آتی تھی اب یہ برکت بھی رسمی مباکباد کے فتنے میں سمٹ کر رہ گئی - یعنی محبت اور عبادت کا زبان اور روح سے جو رشتہ تھا اور کبھی جو لوگ رمضان اور عید کے دن لوگوں کے گھر جاکر ملاقات کرتے تھے یہ لوگ فیس بک، وہاٹس ایپ اور ٹوئٹر پر ہی ملاقات کر کے ثواب لوٹ لیتے ہیں - بدقسمتی سے جو لوگ اس جدید ٹکنالوجی سے منسلک نہیں رہے انہیں اس رسمی طورپر بھیجے گئے ثواب سے بھی محروم ہونا پڑ رہا ہے ! کبھی کبھی جب ہم اس بارے میں غور کرتے ہیں تو یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کیا واقعی یہی اسلام ہے یا اسلام میں کیا ایسے بابرکت مواقع پر اس مبارکباد کی رسم کا کوئی تصور بھی ہے ؟ پھر ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اگر اس کلام کی اتنی ہی اہمیت ہے تو اسلام میں سلام کی اہمیت کیا ہے -پھر ذہن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ کہیں اسلام میں سلام کی جو اہمیت اور فضیلت ہے اسے ختم کرنے کیلئے تو یہ روز کی مبارکباد کی بدعت ایجاد نہیں کی جارہی ہے - آپ کہیں گے کہ بھائی روز تو عید آتی نہیں اور مباکباد دینا بری بات بھی تو نہیں !
بات تو سچ ہے لیکن کیا کبھی ہم نے سوچا کہ حلال رزق کے استعمال کی بھی ایک حد ہے اور اس حد سے گذر جانے کو ہی انتہا پسندی کہتے ہیں اور اسلام میں اسراف اور انتہا پسندی بھی مکروہ ہے - اب آپ کے ذہن میں کہیں یہ سوال نہ آجائے کہ ابھی تک تو ہم نے اسلامی انتہا پسندی کا نام سنا تھا یہ مباکباد کے تعلق سے انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کی بیماری کہاں سے آ گئ - اصل میں مغرب کا یہی تو کمال ہے کہ اس نے اسلامی انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کا اتنا زور شور سے پروپگنڈہ کیا کہ کینسر اور ڈینگو کی طرح پھیلتی ہوئی مغربی انتہا پسندی یعنی بے جا خرافات اور لغویات کی طرف لوگوں کی توجہ ہی نہیں جاپاتی یا مغرب نواز میڈیا روز روز کے ڈے کلچر اور اس کی مباکباد اور جشن میں اتنا مشغول کر دینا چاہتا ہے کہ نہ تو آپ کے اندر سے کوئی صالح انقلاب برپا ہو سکے اور نہ ہی عوام کو اتنی فرصت ہی ملے کہ وہ مغرب کی شیطانی انتہا پسندی کی نکیر کرسکیں - مثال کے طورپر انگریزی کے پہلے سال جنوری کے شروع ہوتے ہی 31 دسمبر کی آدھی رات سے شراب اور شباب کے نشے میں مبارکباد کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے تو پھر کوئی ماہ ایسا نہیں گذرتا جس میں کوئی ایسا موقع نہ آتا ہو جب آزادی اور بے حیائی کے متوالے فلاں ڈے کے طورپر شراب کی بوتلیں توڑ کر ایک دوسرے کو مبارکباد دینا نہ بھولتے ہوں اور یہ سلسلہ مسلسل 31 دسمبر تک شروع رہتا ہے یعنی نیو ایر ،انڈیپنڈنٹ ڈے ، ویلنٹائن ڈے ، کرسمس ڈے ، مدر ڈے ، ٹیچرس ڈے ،ویمنس ڈے ، لیبرس ڈے ، فرینڈ شپ ڈے جیسے بے شمارایسے مواقع ہیں جب کوئی نہ کوئی ڈے ہوتا ہے اور لوگوں کو اس کی رسمی مبارکباد دی جاتی ہے - مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ سارے مواقع دوستوں یاروں کی برتھ ڈے ، سال گرہ  اور مختلف مذاہب کے تہواروں کے علاوہ ہیں - ہندوستان میں ہندوؤں کے کم سے کم ایسے دس تہوار تو ہوتے ہی ہیں جب لوگ ایک دوسرے کو مبارکباد دینا نہیں بھولتے- ان تہواروں میں خاص طور سے دیوالی ، دسہرہ ، گنپتی ، شیوجینتی ، کرشن جینتی ، ہولی وغیرہ میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی کاروباری نوعیت کے لحاظ سے مبارکباد پیش کرتے ہیں - اسی طرح مسلمانوں کی عید اور بقر عید ہے - لیکن دیکھنے میں آرہا ہے کہ جس طرح کارپوریٹ یہودی سرمایہ داروں نے اپنے کاروبار کو فروغ دینے کیلئے دیگر قوموں کو ہر ماہ کسی نہ کسی خرافات میں مبتلا کرکے اپنے فیشن ، گلیمر، فحاشی اور ہوٹل کی صنعت کو فروغ دے رہے ہیں مسلمانوں میں بھی عید بقرعید کے علاوہ عید میلادالنبی ، محرم ، گیارہویں شریف ، شب برات کے علاوہ  کئی عرس شریف دھوم دھام سے منایا جانے لگا ہے ان تقریبات اور جلسے جلوس کی سجاوٹ  میں مسلمانوں کے لاکھوں کروڑوں پیسے خرچ ہورہے ہیں جس کا فائدہ بھی غیر مسلم صنعت کاروں کو لازماً پہنچتا ہے مگر کیا ان تقریبات سے مسلمانوں کو بھی کوئی فلاحی اور دینی فائدہ پہنچتا ہے یا مسلم معاشرے میں کوئی اسلامی بیداری پیدا ہو رہی ہے اس کا نتیجہ ہمارے اور آپ کے سامنے ہے - خیر کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کے اپنے عقائد کا معاملہ ہے - ہم بھی یہ بات سمجھ رہے ہیں اس لئے ہم کسی ایک فرقے کو مورد الزام بھی نہیں ٹھہراتے سب کو حق ہے اپنے طورپر اپنی خوشی کا اظہار کرے لیکن اگر ہنسنے اور خوش ہونے کی قیمت ایک ملک اور قوم کی تباہی اور وقت کے ضیاع سے شروع ہو تو یہ اس قوم کے عروج نہیں زوال کی علامت ہے - یقین نہ آئے تو ہندوستان اسپین اور بغداد کے حکمرانوں کی تاریخ پڑھ لی جائے انہوں نے صرف محلات میں کبھی کبھی رقص و سرور کی محفلیں سجا کر یا اس وقت کے علماء نے قومی بیداری میں مسلکی مناظرہ بازی کر کے اپنے قیمتی اوقات کو اس طرح ضائع کرنا شروع  کیا کہ انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ دشمن ان کی دہلیز پر قدم رکھ چکا ہے اور ظل الہی کو جوتے پہنے کی فرصت نہ ملی اور دبوچ لیے گئے - ذرا سوچیں کہ ہمارے پاس تو کھونے کیلئے زمین اور حکومت بھی نہیں ہے مگر جس طرح یہودی سرمایہ داروں کے پھیلائے ہوئے جال میں یوروپ یا مغربی ممالک عیش و عیاشی کے لوازمات میں مبتلا ہو کر معاشی بدحالی سے کراہ رہے ہیں اور اگر ان کی بیویاں اور جوان بیٹیاں بھی آفسوں اور کارپوریٹ انڈسٹریز کی زینت نہ بنیں تو یہ لوگ رہی سہی زندگی کے رومانس سے بھی محروم ہو جائیں مسلم معاشرہ بھی شادی بیاہ اور روز کی برتھ ڈے کی لعنت اور  تقریبات میں بے پناہ اخراجات کے بوجھ اور وزن سے اپنی بچی کھچی عزت و آبرو اور وسائل کو بھی نیلام کرنے پر تلا ہوا ہے - اس میں کوئی شک نہیں کہ اس لعنت میں دیگر اقوام بھی غرق ہیں لیکن کیا دیگر قوموں اور ہم میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے ؟ کیا مسلمانوں کو سچر کمیٹی کی رپوٹ نہیں پتہ یا جس طرح سے دیگر قومیں تعلیم وتجارت اور سیاست میں مسلمانوں کی بنسبت بہت آگے نکل چکی ہیں کیا ان کے ہم پلہ آنے اور ترقی کرنے کیلئے مسلمانوں کو تفریحی مواقع پر بیجا اخراجات کرنا چاہیے - سچ تو یہ ہے کہ مسلمان ہندوستان میں جس پر آشوب ماحول اور مشکل دور سے گذر رہا ہے اگر مسلمانوں کی کوئی قیادت ہوتی تو اس کیلئے عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنا مکروہ قرار دے دیتی - سچ تو یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کا سادگی اختیار کرنا اور اپنے زیادہ سے زیادہ وسائل کو قومی و ملی فلاح بہبود میں خرچ کرنا ہی اصل جہاد ہے - یہ مضمون لکھنے کا ہمارا مقصد اصل میں یہ تھا کہ مسلمان اپنے اصل مسائل سے لاعلم روز روز کی خرافات اور رسومات کو ہی ملی بیداری یا ترقی سمجھ رہا ہے اور مسلمانوں میں شامل کچھ مسلمان نما دشمن تنظیمیں مختلف رسم ورواج کو ایجاد کر کے  مسلمانوں کو مزید خرافات میں مبتلا کر رہی ہیں اور چونکہ مسلمانوں کی بھی اکثریت بہت ہی جذباتی اور دینی علوم سے ناواقف ہے اور کچھ باتوں کو دین اور ثواب سمجھ کر عمل کرنا شروع کر دیتی ہے خاص طور سے آج کل سوشل میڈیا اور بھی فتنے کا سبب بن رہا ہے یعنی کبھی پرنٹ میڈیا اور اس میڈیا سے منسلک تعلیم یافتہ قلمکار جن باتوں کو بغیر تحقیق کے شائع نہیں کرتے تھے وہاٹس اپ اور فیس بک میڈیا پر شامل اناڑی لوگ بھی شریک ہیں اور بغیر کسی تحقیق کے فتنہ پرور تحریکوں کے مواد اور پروپگنڈے کو صرف ایک بٹن دبا کر پھیلانا شروع کر دیتے ہیں - جیسا کہ محرم کے مہینے کی شروعات میں ہمارے سامنے سے کئی ایسی پوسٹ گذری جس پر لکھا ہوا تھا محرم کے  نئے سال کی دعا - اس دعا کے حوالے سے ہر پوسٹ پر جن مختلف احادیث کی کتابوں کا حوالہ پیش کیا گیا تھا وہ یہ ہیں - المعجم الاوسط ,الطبرانی فی الاوسط , المعجم الصحابہ-
سوال یہ ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں باقاعدہ ہجری سال کا  آغاز ہی نہیں ہوا تھا تو یہ اسلامی سال کے آغاز میں دعا کی حدیث کہاں سے آئی اور صرف دعا ہی نہیں یہ روز کی مبارکباد جو عید ،رمضان ، جمعہ کی دی جارہی ہے کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے - اگر فضیلت کی بنیاد پرایسا کیا جارہا ہے تو پھر ہماری روز مرہ کی زندگی میں رمضان کے روزوں سے افضل نماز اور جہاد ہے - کیا ہم نے کبھی  مسجد میں نمازیوں کو نماز کی اور مجاہدین کو جہاد کی مبارکباد پیش کی - کیا ہم اس حدیث سے واقف نہیں کہ اگر مومنوں کو فجر کی نماز کی فضیلت کا اندازہ ہو جائے تو وہ گھسٹتا ہوا مسجد میں جائے - اگر حدیث سے مبارکباد کی سند مل جائے تو ہم سمجھتے ہیں ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کو سب سے پہلے نماز کی مباکباد دینے کا حکم ہوتا اور ہم لوگوں کو فجر مبارک ، ظہر مبارک ، عصر مبارک ، مغرب مبارک اور عشاء مبارک بولتے - مگر حدیث میں مبارکباد کی نہیں سلام کی فضیلت ہے اور اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ صحابہ کرام اگر کچھ وقت کیلئے بھی ایک دوسرے سے پردہ فرما لیتے اور پھر سامنا ہوتا تو سلام میں پہل کرتے - افسوس مبارکباد کی اس بدعت کو مسلمانوں نے بھی اس طرح چلیپا بنا دیا ہے کہ کچھ لوگوں نے  محرم کی مباکباد دینے کیلئے بھی وہی طریقہ اختیار کیا جو ویلنٹائن ڈے وغیرہ کے موقع پر دل کا نشان بنا کر دیا جاتا ہے - حالانکہ کسی کو کسی طرح کی مباکباد دینے کیلئے بدن کے کسی حصے کا استعمال کرنا مناسب تو نہیں لیکن اگر اسے درست مان بھی لیا جائے تو بھی یہ کہاں تک جائز ہے کہ اس عضو کو قرآنی آیات سے  لکھے ہوئے اوراق سے بنا کر مبارکباد دی جائے - اس بار محرم کی مباکباد کیلئے ایسا کیا گیا - مگر یہ بات شاید کم لوگ ہی غور کرتے ہیں کہ پان کی شکل میں جو دل کے نشان کی علامت ظاہر کی جاتی ہے یہ دل کی تصویر نہیں ہے بلکہ ایک عورت کے سینے کے ابھار کا نشان ہوتا ہے- میں سائنس کا طالب علم رہا ہوں میں نے اپنے تعلیمی سال کے دوران دل کی ایسی تصویر نہ تو دیکھی اور نہ بنائی - اب اندازہ لگائیں کہ فحاشی کی تحریک کو فروغ دینے والے کس طرح نہ صرف انسان کے جذبات سے کھلواڑ کرتے ہیں بلکہ اسی راستے سے انسان کے دین اور عقیدے پر بھی ضرب لگاتے ہیں اور ہم ماشاء اللہ اپنے موبائل سے جو ہمارے ایک اشارے کا محتاج  ہےاس دلی مباکباد کو لوگوں تک پہنچا کر اسلام دشمن تحریکوں کا تعاون کرتے ہیں -


0 comments: