2:21 PM nehal sagheer 0 Comments

یا بتا کیا ہے خطا یاپھر ہدف تبدیل کر
چند روز قبل NDTV پر جو یہ خبر آئی تھی کہ NIA نے مالیگاؤں کے جیل میں بند نو نوجوانوں کو بے قصور بتایا ہے ۔ان کا اس بم دھماکہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ساتھ ہی انہوں نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ ملزمین کے وکلاء اگر انکی ضمانت کی عرضی لگائیں گے تو ہم انکی مخالفت نہیں کریں گے۔ملک کی سب بڑی تفتیشی ایجنسی نے بھی انہیں بے گناہ مان ہی لیا ۔پھر بھی ہماری جمہوری حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگ رہی ہے۔ ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی ہے۔اس کے باوجود ہم سینہ پھلاکر کہتے ہیں کہ ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں ۔حکومت کے اس اندیکھی سے دل میں شکوک وشبہات جنم لے رہے ہیں کہ کہیں یہ بھی اسیما نند کے اعتراف جرم کی طرح تو نہیں کہ اسیمانند کے مجسٹریٹ کے سامنے اقبالیہ بیان دینے کے باوجود جب ان بے گناہوں کی طرف سے وکلاء نے ضمانت کی عرضی داخل کی تو سی بی آئی نے عدالت میں اس جواز کے ساتھ مخالفت کی کہ ابھی مقدمہ تفتیش کے مرحلہ میں ہے اس لئے انہیں ضمانت نہیں دی جانی چاہئے۔
جہاں حاکموں اور حکمرانوں کا وطیرہ ہی ناانصافی اور ظلم والا ہو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔اوپر سے نیچے تک تعصب کا زہر بھرا پڑا ہے ۔ حالات پر معمولی نظر رکھنے والے بھی ذرا سا غور کریں گے تو انہیں یہ بات سمجھ میں آجائے گی۔جب مسجد ،درگاہ اور قبرستان کے دھماکوں میں بھی مسلم نوجوانوں کو ہی گھسیٹ لیا جائے اور ان سے انکے آزادانہ جینے کا حق صرف اس بناء پر چھین لیا جائے کہ یہ نوجوان اس بے حیائی ،بے شرمی اور اسلام بیزاری کے دور میں بھی اس سے دور اور انسانیت سے نزدیک کیوں ہیں ؟وہ کیوں خود بھی برائی سے بچے اور معاشرے کو بھی اس دلدل سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں ؟وہ بھی کیوں نہیں اسی سڑے گلے نظام کا حصہ بنتے؟کیا یہی سب وجہ نہیں ہے ان کے بے قصور گرفتار کیئے جا نے کا؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر مجھے کوئی یہ بتائے کہ انکی بے گناہی کا یقین ہوجانے کے باوجود بھی ہماری حکومت کہاں ہے۔ اسکی انصاف پسندی اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا فخر کہاں سو رہا ہے؟کیا اسی کا نام جمہوریت ہے کہ ملک کی بیس فیصد سے زیادہ کی آبادی کو ذہنی طور پر احساس جرم میں مبتلاء کردیا جائے؟ کیا یہی جمہوریت ہے کہ ظلم کی تحقیق ہونے کے باوجود حکومت یا متعلقہ محکمہ اس سلسلے میں ہلکا سا افسوس کا اظہار بھی نہ کرے ۔مجھے آج بھی یاد آتا ہے کہ کناڈا میں ایک پاکستان نزاد کنیڈیائی شہری کو عدالت نے جب باعزت بری کیا تو وہاں کے وزیر اعظم نے اس شخص سے پوری قوم کی جانب سے انتہائی لجاجت سے معافی مانگی اور کروڑوں ڈالر کا ہر جانہ بغیر کورٹ کے آرڈر کے ادا کیا اور ا سکے بارے میں بھی انکا یہ کہنا تھا کہ یہ حقیر رقم قبول کریں۔اس کے بعد بنگلور کے ڈاکٹرحنیف کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ آسٹریلیائی حکومت اور پولس نے علی الاعلان اپنی غلطی کا اعتراف کیا ۔ڈاکٹر حنیف کے وکیل نے جب ہرجانہ کا مقدمہ کورٹ میں ڈالا تو بغیر کسی حیل حجت کے عدالت نے ڈاکٹر حنیف کو معاوضہ دلوایا۔اسکے برعکس ہمارے حکمرانوں کا رویہ دیکھیں مسلم اقلیت کے تئیں انکا رویہ انتہائی سرد ہے اب تک کسی نے بھی جو احساس ندامت کیا ہو۔ہاں الیکشن کا وقت آجائے تب دیکھئے یہ کیسے مگر مچھی آنسو بہاتے ہیں۔ مسلمان بھی شاید پکے مومن نہیں رہے جب ہی تو ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے ہیں اور اب بھی اسی سوراخ سے ڈسنے کو تیار بیٹھے ہیں۔
مالیگاؤں کے بے گناہوں کو تو اسی وقت رہا کیا جانا چاہیئے جب کہ ایک سرکاری گواہ اپنے بیان سے پھر گیا تھا ۔یہ پھرنا اس کے ضمیر کی آواز کی وجہ سے تھاچونکہ پولس نے اسے ڈرا دھمکا کر اور بلیک میل کرکے ملزمین کے خلاف گواہی دینے پر مجبور کیا تھا تو جلد یا بدیر اسے تو ضمیر کی آواز پر لبیک کہنا ہی تھا۔لیکن ساری شہادتیں اور گواہیاں بھی ان کی رہائی میں معاون نہیں بن رہی ہیں ۔اس کی وجہ ہے ہمارے نظام میں فرقہ پرست متعصب لوگوں کا دخول اور یہ اور کوئی نہیں وہی قوم ہے جس کا دعویٰ ہے کہ وہ برہما کے مستشک سے پیدا ہوئے ہیں اس لئے وہ سارے گناہوں اور پاپ کے باوجود سارے انسانوں سے افضل ہیں ۔دنیا میں اس طرح کی دو ہی قومیں جو ایسا تصور رکھتی ہیں ۔دوسری قوم کا بھی تصور ہے کہ وہ اللہ کی محبوب قوم ہے ۔جبکہ عرصہ ہوا کہ اللہ کے نزدیک اب وہ ایک مغضوب قوم ہے۔کیوں کہ اللہ کے یہاں بڑائی اور بزرگی کا بس ایک ہی پیمانہ ہے اور وہ ہے کون کتنا زیادہ اللہ سے ڈرتا ہے۔
وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے کچھ روز قبل قومی یکجہتی کاؤنسل کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اقلیتیں یہ سمجھتی ہیں کہانہیں نشانہ بنایا جارہا ہے‘‘ اس میں سمجھنے کی کیا بات ہے ایسی ہزاروں مثالیں موجود ہیں جو سورج کی روشنی کی طرح واضح کرتی ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف یہ کہ تعصب برتا جاتا ہے بلکہ انہیں کھلے عام ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔لیکن انہیں کہیں سے اور کبھی بھی انصاف نہیں ملا آزادی کے بعد سے ابتک یہی پوزیشن ہے۔ہمارے سامنے تازہ مثالیں موجود ہیں ۔ممبئی بم دھماکہ 93 کے ملزمین کو مجرم ٹھہرادیا گیا ان میں سے کئی کو پھانسی کی سزا سنائی جاچکی کئی عمر قید کی سزاکے موجب قرار دئے گئے لیکن یہ بم دھماکے جن گھناؤنی حرکتوں کا رد عمل تھے یعنی بابری مسجد کی شہادت اور اس کے بعد ممبئی کا 92-93 کا مسلم کش فسادات اس کے مجرمین نہ صرف یہ کہ آزادانہ گھوم رہے ہیں بلکہ انہوں نے کھلے عام عدلیہ اور مقننہ دونوں کو دھمکایا کہ ہمیں سزاتو دیکر دیکھو۔ ان کی اس دھمکی نے واقعی کام کیا کہ انکے مقدمے ایک ایک کرکے ثبوتوں کی عدم موجود گی کاجواز بنتے ہوئے خارج ہوتے گئے۔بابری مسجد کی ملکیت کا فیصلہ جس طرح عدالت نے کیا وہ سب کے سامنے ہے ۔ نریندرمودی کے خلاف پچھلے آٹھ نو سالوں میں کیا فیصلہ ہوا ؟جس کے خلاف وافر ثبوت موجود تھے جو اب شاید موجود نہیں جب پوری مشنری پر انصاف کا خون کرنے والے حاوی ہوں تو انصاف کیسے ہوگا۔استثناء کو چھوڑ دیں وہ تو ہر جگہ ہے۔لیکن اجمالی معاملہ یہ ہے کہ ملک عزیز میں مسلمانوں پر انصاف کے دروازے بند ہیں ۔
اگر ہمارے ارباب اقتدار واقعی جمہوریت اور انصاف کی حکمرانی چاہتے ہیں تو انصاف کی طرف بلا حیل و حجت قدم بڑھائیں صرف تقریریں کرنے سے انصاف کا عمل شروع نہیں کیا جاسکتا ۔اس کے لئے ایمانداری سے عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔اس کے لئے اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انصاف کو قایم کئے بنا ایک صالح معاشرے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔اور نہ عظیم ہندوستان کی یکجہتی برقرار رہ سکتی ہے۔ ڈنڈے کے زور پرکسی کو مین اسٹریم میں نہیں لایا جاسکتا۔جیسا کہ کئی مرتبہ سرکاری مشنری کی طرف سے اس بات کا اشارہ کیا جاچکا ہے کہ سیمی پر پابندی اس لئے لگائی جارہی ہے تاکہ مسلم نوجوانوں کو ملک کی مین اسٹریم میں شامل کیا جاسکے۔اس سے آگے کہنے کی گنجائش نہیں بچتی چدمبرم بھی انہیں خطوط پر چل رہے ہیں ۔ابھی حال ہی میں انہوں نے ایک انکشاف کیا کہ سیمی کے نوجوانوں کا بابری مسجد کی ملکیت کا فیصلہ کرنے والے ججوں کا قتل کرنے کا پلان تھا لیکن اسے ناکام کردیا گیا ۔کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ انہوں نے کس کی رپورٹ کو عوامی طور پر پریس کے حوالے کیا ۔اسی آئی بی کے رپورٹ کو جس پر ملک کی بیس فیصد اقلیت سمیت بیشتر انصاف پسندوں نے پہلے ہی سوالیہ نشان لگادیا ہے ۔یہ وہی آئی بی ہے جو ہر روز افواہ پھیلانے میں اپنا جواب نہیں رکھتی۔جس کو یوم جمہوریہ ،یوم آزادی اور ہندو مسلم تہواروں کے موقعے پر دہشت گردوں کے آمد کی اطلاع مل جاتی ہے اس کا ہلیہ تک اسے پتہ چل جاتا ہے لیکن وہ کبھی پکڑ میں نہیں آئے۔بعض مبصرین کی رائے صحیح لگتی ہے کہ آئندہ گمراہ کن جالی انکاؤنٹر کے لئے بنیاد بنایا جاتا ہے۔تعجب ہے اتنے بڑے ملک کا وزیر داخلہ انہیں افواہوں کو سچ کا درجہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔اسے آپ اس ملک کی بدنصیبی نہیں تو اور کیا کہیں گے۔
حکومت کی نیت انصاف کرنے کی ہو تو انصاف مشکل نہیں ہے لیکن سب کچھ نیتوں پر موقوف ہے۔اگر حکومت کی نیت ٹھیک ہے تو وہ ان افسران کو تعزیر کے تحت لائے جنہوں نے انصاف کو رسوا کیا ہے۔ انہیں گرفتا رکیا جائے ۔ان پرمقدمات چلائے جائیں اور ایسی کوشش ہو کہ انہیں اپنے گناہوں کی قرار واقعی سزا ملے۔جن لوگوں کی زندگی برباد ہوئی ہے۔ ان کو بھاری معاوضہ دیا جائے ۔اس معاوضہ کو سرکاری خزانہ پر بوجھ نہیں بنایا جائے بلکہ انہی افسران کی تنخواہوں سے انکی گریجویٹی سے لیا جائے اگر ایسا کیا جائے تو کوئی بھی اس طرح کی غلیظ حرکت کرتے ہوئے سو بار سوچے گا۔پر بات یہ ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کی جان ومال عزت وآبرو کو افسران کے علاوہ حکومتوں نے بھی اپنے لئے حلال کرلیا ہے ۔ ہم حکومت پر شک کرنے میں غلطی پر ہیں تو اس کی نشاندہی یقیناًکی جانی چاہئے لیکن ہمیں امید ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوگا ہاں چند ڈپلومیٹک الفاظ کے ذریعہ حکومت کا دفاع ضرور کیا جاسکتا ہے ۔
ہم پھر سیمی کی طرف آتے ہیں 27 ؍ستمبر 2001 کو سیمی پر پابندی لگی تھی پورے دس سال ہوگئے اس ظلم اور ناانصافی کو اس دوران صرف 2008 جسٹس گیتا متل نے پابندی لگانے سے انکار کردیا کیوں کہ کوئی بھی با ضمیر ناجائز کو جائز نہیں کہہ سکتا یہی کچھ گیتا متل نے کیا لیکن مرکزی حکومت کی چابکدستی دیکھئے کہ اس نے محض چند گھنٹوں میں سپریم کورٹ پہونچ کر اس فیصلہ پر حکم امتنائی لے لیا اور سپریم کورٹ کی بھی فعالی ملاحظہ فرمائیں کہ اس نے سالوں سے دھول چاٹ رہی سیمی کی درخواست کو قابل توجہ نہ سمجھا لیکن اسی سلسلہ میں مرکزی حکومت کی درخواست منظور کرلی۔یہاں ہمیں یہ سوچنا پڑتا ہے کہ ہماری جمہوری حکومت میں عدالتیں کس حد تک آزاد ہیں ۔کلدیپ نیر ایک کہنہ مشق صحافی ہیں انہوں اپنے مضمون میں ایک بات لکھی تھی کہ پاکستان کی ہم چاہیں جتنی برائیاں بیان کریں لیکن ایک بات مسلم ہے کہ پاکستان میں عدلیہ اور پریس آزاد ہے۔انہوں نے ملک عزیز میں ان دونوں کی کیفیت نہیں بتائی لیکن اپنی آنکھوں اور ذہنوں کو کشادہ رکھنے والوں سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ۔
نہال صغیر

0 comments: