معافی

3:02 PM nehal sagheer 0 Comments

شاہ نواز فاروقی

-اسلامی تہذیب کی تعریف جن تصورات، اقدار اور رویوں سے متعین ہوتی ہے اُن میں ایک تصور، ایک قدر اور ایک رویہ معاف کرنے کا بھی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اصل تہذیب احترامِ آدمیت ہے۔ احترامِ آدمیت کی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت یہ ہے کہ انسان کی عظمت، بزرگی، اس کے جلال و جمال اور اس کے علم و ذہانت کی وجہ سے اس کا احترام کیا جائے۔ لیکن اس احترام میں کوئی کمال نہیں ہے۔ احترام کا کمال یہ ہے کہ انسان کا احترام اس کی کمزوری کی حالت میں کیا جائے۔ معافی کا عمل ایک فرد کی طاقت اور ایک فرد کی کمزوری کی حالت میں ہی وقوع پذیر ہوتا ہے۔ چنانچہ معافی احترامِ آدمی کی زیادہ کامل مثال ہے۔ لیکن یہ معاملہ صرف دو افراد کے تعلق تک محدود نہیں۔ اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ کسی معاشرے کے مہذب ہونے کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اپنے کمزور لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسلامی تہذیب میں معاف کرنے کی اتنی اہمیت کیوں ہی؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خالق ہی، مالک ہی، رازق ہی، قادرِ مطلق ہی.... لیکن وہ سب سے زیادہ معاف کرنے والا بھی ہے۔ اس نے شریعتِ محمدی کے ذریعے انسانوں کو بتادیا ہے کہ گناہ کیا ہے اور وہ گناہ سے کتنا ناراض ہوتا ہے۔ مگر اس کے معاف کرنے کا یہ عالم ہے کہ اگر کسی انسان سے سمندر کے قطروں اور صحرا کے ذروں کے برابر بھی گناہ ہوجائیں اور وہ سچی توبہ لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہ معاف کردے گا۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ قیامت کے روز ایک ایسا شخص خدا کے حضور پیش ہوگا جس کے بے حد طویل نامہ ¿ اعمال میں گناہوں کے سوا کچھ بھی نہ لکھا ہوگا، چنانچہ وہ شخص اپنے مستقبل سے مایوس ہوگا اور اس کا خیال ہوگا کہ جہنم اس کا مقدر ہے۔ مگر اچانک اس کے پاس سے کلمہ طیبہ برآمد ہوجائے گا۔ یعنی وہ شخص اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والا ہوگا۔ چنانچہ میزان کے ایک پلڑے میں اس کے گناہ رکھے جائیں گے اور دوسرے پلڑے میں کلمہ طیبہ رکھا جائے گا، اور اس کے ایمان کا وزن اس کے گناہوں سے بڑھ جائے گا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی معافی کی ایک صورت ہوگی۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کا مشہور واقعہ ہے کہ انہوں نے آپ سے پوچھا کہ کیا انسان کے سارے گناہ معاف کردیئے جائیں گی؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں سارے گناہ۔ حضرت ابوذرؓ نے کہا کہ خواہ انسان نے چوری کی ہو؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں خواہ اس نے چوری کی ہو۔ حضرت ابوذرؓ نے پوچھا: خواہ اس نے زنا کیا ہو؟ آپ نے فرمایاکہ ہاں خواہ اس نے زنا کیا ہو۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم فرمایا اور کہاکہ خواہ ابوذرؓ کو اپنی ناک ہی کیوں نہ رگڑنی پڑے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم افضل البشر ہی نہیں افضل الانبیا بھی ہیں۔ چنانچہ آپ کی معاف کرنے کی صلاحیت کُل عالم سے زیادہ تھی۔ اہلِ مکہ نے کون سا ظلم ہے جو آپ کے ساتھ نہیں کیا؟ آپ کی نبوت کو جھٹلایا، آپ کو شاعر اور کاہن کہا، آپ اور آپ کے اصحاب پر بدترین تشدد کیا، آپ کو آپ کے اہلِ خانہ کے ساتھ شعب ابی طالب میں ساڑھے تین سال تک محدود کردیا، جہاں تنگی ترشی کا یہ عالم ہوا کہ آپ اور آپ کے اہلِ خانہ کو پیڑ پودوں کی جڑیں تک ابال کر کھانا پڑیں۔ یہاں تک کہ آپ کو مکہ چھوڑنے پر مجبور کردیا گیا۔ لیکن جب آپ طاقت ور بن کر مکہ آئے اور آپ نے مکہ فتح کرلیا تو آپ نے اپنے بدترین دشمنوں کو بھی معاف کردیا۔ آپ سے ایک بار دریافت کیا گیا کہ گھروں میں کام کرنے والے نوکر غلطیاں کرتے ہیں، آخر انہیں کتنا معاف کیا جائی؟ آپ نے فرمایا: ایک دن میں 70 بار۔ ظاہر ہے کہ کوئی نوکر ایک دن میں 70 غلطیاں نہیں کرسکتا۔ چنانچہ آپ کے ارشادِ مبارک کا مفہوم یہ ہے کہ نوکر بہت زیادہ غلطیاں بھی کرے تو اسے معاف کردیا جائے۔ حضرت زیدؓ دس سال تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہی، اور ان کا بیان ہے کہ دس برسوں میں آپ نے ایک بار بھی مجھے کسی غلطی پر برا بھلا نہیں کہا۔ آپ کے اسوہ حسنہ کو صحابہ کرامؓ نے مکمل طور پر جذب کیا۔ چنانچہ صحابہ کرامؓ خود معاف کرنے کی علامت بن کر ابھرے۔ ایک سفر کے دوران جن لوگوں نے حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائی اُن میں ایک ایسے صاحب بھی تھے جو حضرت ابوبکرؓ کے رشتے دار تھے اور حضرت ابوبکرؓ ان کی مالی مدد کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ پر تہمت کا واقعہ بہت ہی بڑا تھا اور حضرت ابوبکرؓ حضرت عائشہؓ کے والد تھی، چنانچہ انہیں حضرت عائشہؓ پر تہمت سے فطری طور پر گہرا دکھ ہوا اور انہوں نے کہاکہ اب وہ اپنے اس عزیز کی مالی اعانت نہیں کریں گے جس نے حضرت عائشہؓ پر تہمت لگائی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے کہاکہ یہ طرزعمل صدیق اکبرؓ کے شایانِ شان نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ نے نہ صرف یہ کہ اپنے اس عزیز کو معاف کردیا بلکہ ان کی مالی مدد میں اضافہ کردیا۔ حضرت امام حسینؓ پر ایک بار ان کی ایک ملازمہ نے سالن گرادیا۔ حضرت امام حسینؓ کے چہرے پر ناگواری ظاہر ہوئی۔ ملازمہ ذہین تھی، کہنے لگی: مومنوں کی شان یہ ہے کہ وہ غصے کو پی جاتے ہیں۔ امام حسینؓ نے فرمایا: میں نے غصے کو پی لیا۔ ملازمہ نے کہاکہ مومنین معاف کرنے والے ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسینؓ نے فرمایا: میں نے تجھے معاف کیا۔ ملازمہ نے کہاکہ مومنین احسان کرنے والے ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسینؓ نے فرمایا: میں نے تجھے آزاد کیا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ معاف کرنے کے عمل کے فوائد کیا ہیں؟ قرآن مجید فرقانِ حمید مسلمانوں کو ہدایت کرتا ہے کہ خود کو اللہ کے رنگ میں رنگ لو۔ معاف کرنے کے عمل کی سب سے بڑی بات یہ ہے کہ معاف کرنے والا صبغت اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کا رنگ اختیار کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ وہ اپنے خالق، مالک، رازق اور معبود کے تابع ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ اللہ کے رنگ میں رنگنے کا مفہوم کیا ہی؟ اللہ اہلِ ایمان کو انصاف قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اس لیے کہ انصاف قائم کیے بغیر معاشرے کو قائم نہیں رکھا جاسکتا۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اگر کسی نے ظلم کیا ہے تو اس سے اس ظلم کے مساوی بدلہ لیا جائے۔ لیکن اللہ تعالیٰ یہ بھی کہتا ہے کہ اگر تم کسی کے جرم کو معاف کردو تو یہ انصاف سے زیادہ بڑی بات ہی، کیونکہ معاف کرنے والا اپنے حق سے دستبرداری کا اعلان کرتا ہے۔ یہ احسان کا مرتبہ ہی، اور اللہ تعالیٰ خود احسان کرتا ہے اس لیے وہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ غور کیا جائے تو معاف کرنا احسان کرنے کا عمل ہی، اور یہی اللہ کے رنگ میں رنگنے کا مفہوم ہے۔ معاف کرنے کی صلاحیت انسان کی روح، قلب، نفس اور ذہن میں وسعت پیدا کردیتی ہے۔ اس اعتبار سے معاف کرنے کا عمل انسان کی مجموعی شخصیت کے ارتقا کی ضمانت ہے۔ انسان کی ساخت ایسی ہے کہ تمام منفی خیالات، جذبات اور احساسات انسان کے باطنی ارتقا کے عمل کو روک دیتے ہیں، یہاں تک کہ یہ چیزیں انسان کے لیے قید خانہ بن جاتی ہیں اور انسان ساری عمر اپنے باطن کے زنداں میں کاٹ دیتا ہے۔ دنیا کی ہر قید اس قید کے مقابلے میں ہیچ ہے۔ اس لیے کہ ظاہر کی قید نظر آتی ہے مگر باطن میں انسان کی گرفتاری کسی اور کو کیا خود انسان کو بھی نظر نہیں آتی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو معاف کرنے کا عمل دراصل انسان سازی کا عمل ہے۔ اور انسان سازی کا دوسرا مفہوم تہذیب ہی، اس لیے کہ تہذیب انسان سازی یا Humanization کے مستقلاً جاری عمل کو کہتے ہیں۔ تجزیہ کیا جائے تو معافی جسمانی طاقت کو روحانی طاقت میں بدل دینے کا عمل ہے۔ جسمانی طاقت انسان کو بدلہ لینے پر اکساتی ہی، انتقام پر مائل کرتی ہے۔ جسمانی طاقت اخلاق کی پابند ہو تو انسان کو ”انصاف“ کے تصور سے آگے نہیں بڑھنے دیتی۔ اسلام کے تصورِ حیات میں انصاف بہت اہم ہے۔ اس پر معاشرے کی بقا کا انحصار ہے۔ لیکن اسلام اہلِ ایمان کو انصاف کے تصور سے بھی بلند کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے کہ اپنی مخلوق کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ انصاف کا نہیں کامل احسان کا ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر انسانوں کے ساتھ انصاف کرنے لگیں تو کوئی انسان بھی بربادی سے نہ بچے۔ یہی معاملہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ اگر آپ فتح مکہ کے دن احسان کے بجائے انصاف کرتے تو مکے کے اکثر لوگ سزا سے نہ بچتے۔ معافی ایک عظیم روحانی، اخلاقی، نفسیاتی، جذباتی، ذہنی اور احساساتی ”مساوات“ کا نام ہے۔ معاف کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ وہ اس شخص سے کسی طرح ”برتر“ نہیں ہے جس کو معاف کیا گیا۔ روحانی، اخلاقی، نفسیاتی، جذباتی، ذہنی اور احساساتی مساوات کا یہ عمل انسانوں کے ظاہر اور باطن کو مسخ نہیں ہونے دیتا۔ حضرت نظام الدینؒ نے فرمایا ہے کہ اگر کانٹوں کے جواب میں کانٹے رکھے جائیں تو پوری دنیا کانٹوں سے بھر جائے گی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت معاصر دنیا ہے جہاں انفرادی زندگی سے لے کر قومی زندگی تک، اور قومی زندگی سے بین الاقوامی زندگی تک معافی کا عمل زندگی سے خارج ہوچکا ہے۔ چنانچہ پوری دنیا کانٹوں سے بھرگئی ہے۔ کانٹوں کے جواب میں کانٹے رکھنے کا عمل کہیں ذہانت کہلاتا ہی، کہیں اسے ڈپلومیسی کہا جاتا ہی، کہیں اُسے خوف کے توازن کا نام دیا جاتا ہے۔ تجزیہ کیا جائے تو معاف نہ کرسکنے کا عمل ایک روحانی، اخلاقی، نفسیاتی، جذباتی اور احساساتی معذوری ہے۔ لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ اربوں انسان اس معذوری کو اپنی اہلیت اور اپنی طاقت سمجھتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔

0 comments: