featured

کشتہء قانون

7:12 PM nehal sagheer 0 Comments


ممتاز میر

  جون ؍جولائی۱۹۹۴ میں ہندوستانی جیلوں کے تعلق سے ایک سروے رپورٹ ٹائمس آف انڈیا میں شائع ہوئی تھی جس میں ہندوستانی جیلوں کی حالت اور اس میں بند قیدیوں کے حالات کی تفصیلات بیان کی گئی تھی۔اب ہمیں اور تو کچھ یاد نہیںبس اتنا یاد ہے کہ مغربی بنگال کی کسی جیل میں اس وقت ایک قیدی ایسا بھی تھا جسے جیل میں ۳۱ سال ہو چکے تھے اورکورٹ میں اس کے کیس کی ابتدا بھی نہیں ہوئی تھی اس وقت ہندوستان پر تاریخ کے بدنام ترین حکمراں نرسمہا راؤ کی حکومت تھی ۔ہم حکمراں ہوتے تو خود جیل جا کر اس قیدی کو جیل سے باہر لاتے  حتی الامکان دلجوئی کرتے۔قانون کے ظلم کا معاوضہ دیتے ۔مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔یہ ہمارے عدالتی سسٹم کی کرامات ہے کہ اس میں ہزار گنہگارچھوٹ سکتے ہیں مگر ایک بے گناہ نہیں چھوٹ سکتا۔مذکورہ قیدی کی سزا کتنی بھی ہو سکتی ہے مگر ۳۱ سال تو ہرگز نہیں ہو سکتی۔یہ کیسا عدالتی نظام ہے جودستور ہند میں تحریر سزاؤں سے زائد تو بلا تکلف بھگتوا سکتا ہے مگرسزا بھگتے شخص کو جیل سے نہیں نکال سکتا۔ کم و بیش ایسا ہی ایک کیس پھر ہمارے علم میں آیا ہے بس فرق اتنا ہے کہ اس کیس میں ملزمین جسمانی اعتبار سے جیل کے باہر ہیں ۔ ضمانت پر ہیں مگر ذہنی اعتبار سے گذشتہ ۲۳ سالوں سے خوف و دہشت کی صلیب پر لٹکے ہوئے ہیں ۔مگر کون ہے جو ہمارے عدالتی نظام کو ’’آتنک وادی‘‘ کہہ دے ۔
  بابری مسجد کی شہادت اور مارچ۹۳ کے ممبئی سیریل بم بلاسٹ کے بعد پورے ملک میں مسلمانوں کی ٹاڈا جیسے بدنام زمانہ قانون کے تحت گرفتاری کی ریوڑیاں بنٹ رہی تھی۔اس بہتی گنگا میں ہاتھ سب سے زیادہ مہاراشٹر پولس نے دھوئے۔ہر ایرے غیرے نے ایک آدھ ’’آتنک وادی ‘‘ کو گرفتارکیا ہی،اور حکومت سے پرموشن بھی پایا ۔بلکہ زیادہ تر گرفتاریاں پرموشن پانے کے لئے ہی ہوئیں۔اور عقل اندھی ہماری حکومتوںنے مسلمانوں کو بے قصورہی گرفتار کرنے پر  دل کھول کرایوارڈ اور پرموشن دیئے۔حالانکہ مسلمانوں میں قصورواروں کی کمی نہیں مگر دل میں ٹھنڈک تو مسلمان بے قصوروں کو گرفتار کرکے ہی پڑ سکتی ہے۔ایسا ہی ایک کیس بھوساول ضلع جلگاؤں کا بھی ہے ۔
بھوساول پولس نے ۲۸ مئی ۹۴ کو ٹاڈا کے تحت ایک کیس رجسٹر کیا اور چند دنوں میںبھوساول اور ممبئی سے ۱۱۔افراد کو گرفتار کیا ۔الزامات یہ لگائے گئے کہ یہ لوگ ملک سے بغاوت کرتے ہوئے بھوساول میں دہشت گردانہ کاروایئیاں انجام دینے کی (صرف)پلاننگ کر رہے تھے تا دم گرفتاری یا تحریر کہہ لو انھوں نے با قائدہ کوئی کاروائی انجام نہ دی ۔وہ پولس جو نجیب کو اب تک نہ ڈھونڈ سکی ،جسے ۲۶؍۱۱ جیسے بڑے اور پیچیدہ آپریشن کچھ علم نہ تھا مگر اس معاملے میں بھوساول جیسی چھوٹی جگہ کی پولس کی ناک کتنی تیز تھی ۔خیر قریب ایک ماہ کی روایتی تفتیش کے بعد جس میں خود ساختہ confessional statement پر دستخط کروالینا آسان ہوتا ہے ان ۱۱ ۔افراد کو حوالہء زنداں کر دیا گیا ۔
اگست ۹۴ مین ناسک ٹاڈا کورٹ میں ان کی ضمانت کی درخواست دائیر کی گئی جس کی سنوائی ستمبر کے آخر میں ہوئی اور ٹاڈا کے اسپیشل جج نے تمام کے تمام ۱۱ افراد کو بلا دریغ ضمانت دیدی ۔تب سے اب تک یہ تمام افراد جیل کے باہر تو ہیںمگر ذہنی اعتبار سے مصلوب ہی ہیں۔ ستمبر ۹۴ سے چند ماہ تک انھیں ہر ہفتے بھوساول پولس اسٹیشن میں حاضری بھی دینی پڑتی تھی اور ہر تاریخ پر ناسک کورٹ میں حاضر بھی ہونا پڑتا تھا ۔ممبئی سے گرفتار افراد کے لئے یہ دوہری مصیبت تھی ۔بہرحال چند ماہ بعد انھوں نے بذریعہء کورٹ بھوساول میں حاضری کی مصیبت ختم کر والی مگر ہر تاریخ پر ناسک کورٹ میں حاضر ہونے کی مصیبت برقرار رہی جہاں عملاً کچھ بھی نہیں ہو رہا تھا ۔بس سب کی Attendance لگتی اور تاریخ مل جاتی ۔آخر تنگ آ کر ان ملزمین نے دسمبر ۹۸ میں  ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ میں یہ رٹ پیٹیشن داخل کی کہ یا تو ہمیں بری کر دیا جائے یا فوراً چارج شیٹ داخل کر کے کیس چلایا جائے۔ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ نے اس پٹیشن کو قبول کرتے ہوئے آرڈر دیا کہ یا تو ملزمین کو بری کیا جائے یا فوراً چارج شیٹ داخل کی جائے ۔اس آرڈر کے بعد پولس نے ایک چارج شیٹ 120(B) کے تحت بھوساول کورٹ میں اور ایک چارج شیٹ ٹاڈا کی دفعات کے تحت ناسک کورٹ میں داخل کیا۔
بھوساول میں 120(B) کے تحت داخل ہونے والے کیس کو جج نے فوراً خارج کر دیا کیونکہ اس دفعہ کے تحت کیس چلانے کے لئے ریاستی حکومت کی ضروری اجازت حاصل نہیں کی گئی تھی۔  ۱۹۹۹ سے ۲۰۰۳ تک یہ معاملہ حسب روایت لٹکتا رہا۔ملزمین ہر تاریخ پر کورٹ کے چکر لگاتے رہے ۔حکومت اور عدالت سوتی رہی ۔پھر۲۰۰۳ میں حکومت مہاراشٹر نے ٹاڈا جو کہ ۱۹۹۵ میں دفن کیا جا چکا تھا کہ کیسیس کے لئے ایک ریویو کمیٹی تشکیل دی جس نے ان ۱۱ ملزمین کے کیس کے لئے سفارش کی کہ ان پر سے ٹاڈا کی دفعات ہٹا دی جائے۔مگر اس وقت کے ٹاڈا جج نے ریویو کمیٹی کی اس سفارش کو ماننے سے انکار کر دیا ۔ہمارے نزدیک محترم جج نے بڑی جرا ء ت کا کام کیا ۔ہم مزید خوش ہوتے اگر وہ اسی جراء ت سے کام لے کر حکومت کو مجبور کرتے کہ وہ اس کیس کے لئے جلد سے جلد سرکاری وکیل کو نامزد کرے کیس چلائے اور اسے ختم کرے۔مگر افسوس کے اس سے آگے ان
 کی بھی کچھ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔پھر سبھی سوگئے۔مگر آخر کب تک سوتے ۔کیونکہ پریشانی تو ملزمین کو ہو رہی تھی۔تنگ آکر ۲۰۱۲میںہمت کرکے جمع جوڑ کرکے ملزمین سپریم کورٹ پہونچ گئے اس امید پر کہ یہ ملک عزیز کی سب سے بڑی کورٹ ہے ۔اس کا بڑا نام ہے آر یا پار کچھ نہ کچھ تو ہو جائیگا ۔اس ہر ماہ کے مرنے سے تو نجات ملے گی ۔بڑی امیدیں لے کر انصاف کے یہ بھکاری سپریم کورٹ پہونچے۔پہلی امید تو یہی تھی کہ بس چند ماہ میں کچھ نہ کچھ رزلٹ سامنے آ جائے گا ۔ایسی خوش فہمیاں ہر اس شخص کے دل میں ہوتی ہیں جو پہلی بار ہندوستانی عدالتی نظام کے چکر میںپڑتا ہے ۔مگر،اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔دیکھتے دیکھتے ساڑھے چار سال کا عرصہ گزر گیا ۔ملزمین کی وکیل محترمہ کامنی جیسوال تو ہر تاریخ پر حاضر عدالت ہوتی رہیں مگر حکومت مہاراشٹر نے ۴ سالوں تک اس کیس کے لئے کوئی وکیل نامزد نہ کیا ۔بہرحال کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ۔نومبر ۲۰۱۶ مین حکومت مہاراشٹر کے وکیل آئے اور کیس کی شنوائی ہوئی۔سپریم کورٹ نے شنوائی کے بعد یہ آرڈرپاس کیا کہ ناسک اسپیشل کورٹ میں اس کیس کو چلا کر ایک سال کی مدت میں ختم کرے ۔اس آرڈر کو دیکھنے کے بعد ملزمین کا تو جانے دیجئے خود ہمارے فرسٹریشن کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا ۔ہم اب تک مختلف عدالتوں کے اس طرح کے پچاسوں آرڈر دیکھ چکے ہیں مگر عمل ہوتے ایسا کوئی آرڈر نہیں دیکھا ۔عدالتی نظام سے منسلک ہر شخص کے پاس تاخیر کے ہزاروں بہانے ہیں ۔اور کیوں نہ ہوں ؟
متاثرہ عوام بے زبان ہے ۔اس کیس میں بھی نومبر ۲۰۱۶ سے آج تک کچھ نہیں ہوا۔کیونکہ حکومت مہاراشٹرٹاڈا(جسے مرے ہوئے ۲۲ سال کا عرصہ گزر چکا ہے)کے اس اسپیشل کیس کے لئے اب تک کوئی سرکاری وکیل نامزد نہیں کیا ہے ۔ملزمین ہر۰ ۲؍۲۵ دن بعدتاریخ پر ناسک کے چکر کاٹ رہے ہیں۔اب ۲۳ سال بعد کچھ ملزمین تو رہنے کے لئے کافی دور جا چکے ہیں۔۵؍۱۰ منٹ کی ایک تاریخ کے لئے کسی کا پورا دن توکسی کے ۲؍۳ دن ضائع ہو جاتے ہیں۔
  ہم جب بھی اپنے ملک کے عدالتی نظام کے بارے میں سوچتے ہیں تو سوچتے سوچتے ہمارا سر پھٹنے لگتا ہے ۔ہمارا نظام گنہگاروں کو تحفظ فراہم کرتا ہے کیونکہ وہ مالدار ہوتے ہیں اور بے گناہوں کو تڑپا تڑپا کر غیر اعلان شدہ سزا دیتا ہے۔اس گناہ کی جو انھوں نے کئے ہی نہیں ہوتے ہیں۔چلئے قانون تو اندھا ہوتا ہے مگر ہمارے Learned Judges ؟کیا نہیں جانتے کہ یہاں غریب کورٹ کچہری کے چکر سے حتی الامکان دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں ،کیوں؟ان حالات میں ان ۱۱ ملزمین کو ۲۳ سالوں سے ہر ماہ عدالت کے چکر لگوانابیرحمی یا کہنا چاہئے دہشت گردی نہیں ہے ؟ساری دنیا اسلامی سزاؤں کی مخالفت کرتی ہے برا بھلا کہتی ہے مگر اسلامی عدالتی نظام پر آج تک کسی نے انگلی نہیں اٹھائی ہے ۔ہم اسلامی سزائیں نہ سہی اسلامی عدالتی نظام تو اپنا سکتے ہیں۔آپ ۲۳ سال گزرنے پربھی اگر اپنے شہریوں کو انصاف فراہم نہیں کر سکتے تو انھیں سزا تو دے سکتے ہیں ۔کم سے کم وہ ایسی معلق زندگی سے تو نجات پا جائیں گے ۔  دوسری بات۔ٹاڈا ۱۹۹۵ میں وفات پا چکا ہے ۔بلکہ صحیح یہ ہے کہ اسے مار دیا گیا  ۔کیوں؟اسلئے کہ بین الاقوامی ماہرین قانون اسے
سیاہ قانون قرار دے رہے تھے۔کوئی اسےDraconian Law  کہہ رہا تھا ۔کیوں؟ اسلئے نا کہ اس سے ہول سیل پیمانے پر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی تھی ۔ماہرین قانون ان آراء تک اس قانون کی گہری اسٹڈی کرنے کے بعد ،اس قانون کے متاثرین کے حالات کا مشاہدہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہونچے تھے ۔ہمارے ماہرین کیسے انسان ہیں ،جن کو دیکھکر وہ اس نتیجے تک پہونچے تھے ،انہی کو اس سیاہ قانون سے کوئی ریلیف نہ دے سکے ۔یہ سادہ لوحی ہے یا نیت کی خرابی۔
   تیسری اور آخری بات جو اس کیس ہی پر نہیں ہر کیس پر فٹ بیٹھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ فرض کیجئے ایک کیس دس سال چلتا ہے ۔ہر ماہ تاریخ پڑتی ہے جس میں کم سے کم ۵ منٹ یا اس سے زائد ضائع ہوتے ہیں ۔اس طرح ایک سال میں ۶۰ منٹ اور ۱۰ سال میں ۶۰۰ منٹ یعنی ۱۰ گھنٹے ضائع ہوتے ہیں ۔ہمارا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اگر کوئی جج نیک نیتی سے سنجیدگی سے ۱۰ گھنٹے کیس کی سنوائی کرلے تو وہ ایک نہیں ۲ کیس کی سماعت مکمل کرکے فیصلہ سنا سکتا ہے ۔قابل صد احترام منصفین کرام !اب اس ملک میں حکمرانوں سے کوئی توقع نہیں ۔بس آخری امید آپ ہو ۔خدارا اپنا اعتبار نہ کھوئیے۔پاکستان ہمارا کیسا ہی دشمن سہی ،مگر وہاں سے کبھی یہ خبر بھی آجاتی ہے کہ عدلیہ کبھی کبھی حکمرانوں کو نکیل ڈالنے کا کام بھی کرتی ہے ۔ہمارے حالات بھی شدت سے اس بات کے متقاضی ہیں۔     
    

0 comments: