روس کے لئےایک انتباہ ! شام یوکرین یا کریمیا نہیں ہے

4:23 PM nehal sagheer 0 Comments

عمر فراہی
کیا شام مشرق وسطی کا افغانستان بنےگا... سرد جنگ کا دوسرا چہرہ .....جزیرۃ العرب کی غیر یقینی صورتحال ..... کیا ملا محمد عمراورابوبکر البغدادی امریکی انٹلیجنس کے رابطے میں ہیں .... کیا السیسی روس اور اسرائیل کا ایجنٹ ہے-
مذکورہ بالا تمام مضامین میں ہم عرب انقلاب کی کامیابی اور ناکامی کے بعد سے ہی مسلسل یہ لکھتے آرہے ہیں کہ دنیا کا عالمی منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے- روس جو افغانستان میں سردجنگ کے ذریعے امریکہ سے شکست کھا چکا تھا حالیہ دنوں میں امریکہ کے کمزور پڑ جانے کے سبب ایک بار پھر اپنے کھوئے ہوئے وقار کو حاصل کرنے کی تیاری میں ہے- اس کے اس حوصلے کو اس وقت اور بھی تقویت حاصل ہوئی جب اس نے  یوکرین کے ایک صوبہ کریمیا  میں بغاوت پیدا کر کے اسے بزور قوت روس میں شامل کر لیا اور امریکہ سمیت یوروپ کے کسی ملک میں جرات نہیں ہوئی کہ وہ روس کو اس کی اس حرکت سے باز رکھ سکے - اسی طرح  شام میں بھی روس ایران اور حزب اللہ کے ساتھ مل کر وحشی بشارالاسد کی فوجی  مدد کرتا رہا ہے - مگر شروع کے دور میں جس طرح  ایران اور حزب اللہ بھی کھل کر سامنے نہیں آرہے تھے رفتہ رفتہ نہ صرف ان کا مکروہ چہرہ بھی سامنے آگیا-اب جس طرح  روس  بھی کھل کر شام کی جنگ میں ایک فیصلہ کن کردار ادا کرنے کیلئے  قدم رکھ چکا ہے یہ کہا جاسکتا ہے کہ روس اگر امریکہ کے خلاف افغانستان میں اپنی شکست خوردگی کے احساس کو بھلا نہیں سکا ہے تو ایران کو خود بھی صدام حسین کے خلاف  خلیج کی ہاری ہوئی جنگ منھ چڑھا رہی ہے اور وہ کسی بھی صورت یہ برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہے کہ جزیرۃ العرب کے نوجوان ایک بار پھرسلطنت عثمانیہ کے خطوط پر نکل پڑیں اور یہ خطہ  ایک مضبوط اوروسیع اسلامی ریاست میں تبدیل ہو جاےُ اور ایرانی حکمراں جو خود بھی ایک زمانے سے عظیم تر ایران اور کسرویت کے جنون میں مبتلا ہیں ان کی بالا دستی کے تمام راستے بند ہو جائیں - 
روس اور ایران جتنی بھی تدبیر کر لیں اقبال کی یہ پیشنگوئی بہرحال پوری ہونے جارہی ہے کہ .....
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا 
کہا ہے مجھ سے یہ قبطیوں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا 
اس بات کو صحرائے عرب کے نوجوان بھی سمجھ رہے ہیں اور انہوں نے خود بھی جنگی حکمت عملی کے تحت دیگر ملکوں اور اتحادیوں سے تعلقات رکھتے ہوئے بھی اپنے تعلقات کو مخفی رکھا ہے اورکون کس کے مفاد میں کس کی مدد کر رہا ہے اور کون کس کے ساتھ ہے اور کچھ ایسے خفیہ چہرے  جو ابھی بھی سامنے نہیں آئے ہیں ان کے بھی اپنے عزائم کیا ہیں-ان خفیہ چہروں میں اسرائیل اور مصر کا کردار ابھی تک مشتبہ اور مخفی ہے اور جیسا کہ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ اگرمصرکے صدر ڈاکٹرمرسی کے خلاف بغاوت اورالسیسی کو اقتدار تک پہنچانے میں اسرائیل کے ساتھ  امریکہ کا بھی کردار تھا تو پھر روایت کے مطابق ایک بار تو السیسی کو اسی طرح اوبامہ کا پیر چھونے کیلئے امریکہ جانا چاہیے تھا جیسے کہ شام میں روس کی بمباری کے فوراً بعد بشارالاسد ماسکو میں جاکر پوتین کو سجدہ کر آئے ہیں - اس کے برعکس مصرمیں بغاوت سے لیکرابھی تک السیسی کا دو بار روس کا دورہ کرنا کیا معنی رکھتا ہے... اور شام کے مسئلے میں جس طرح اس خطے کے تمام سنی ممالک اپنی بے چینی کا اظہار کر چکے ہیں روس ایران اور شام کے اس اتحاد پر السیسی کا خاموشی اختیار کیے رہنا یہ ثابت کرتا ہے کہ مصر کا یہ ڈکٹیٹر ایران روس اور اسرائیل کے اتحاد کا حصہ ہے اور بے چارے عرب کے شیخ جو بہادرشاہ ظفرکی طرح آرام سے تخت پر بیٹھ کر دونوں طرف سے لڈو کھانا چاہتے ہیں ان دونوں اتحادیوں کے درمیان بے موت مارے جائیں گے-انہیں کون سمجھائے کہ 
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید 
کہ آرہی ہے دمادم صداء کن فیکون 
  امریکہ بھی اب وہ پہلے جیسا امریکہ نہیں رہا اسے بھی مستقبل کے سپر پاور چین اور روس کو قابو میں کرنے کیلئے طالبان اور داعش کے مضبوط بازو چاہیے نہ کہ شیخوں کی عیاشی...! اوراسرائیل کوساتھ رکھ کر بھی اسے جو ترقی کرنا تھا وہ کر چکا اس لیے اب اسرائیل  کے ساتھ اس کے تعلقات بھی پہلے جیسے خوشگوارنہیں رہے - جس کی جھلک عرب بہار کے دوران اسی وقت نظر آگئی تھی  جب اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے اوبامہ سے کہا کہ وہ مصر کے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کو بچانے کیلئے کچھ کرے ورنہ اقتدار پراسلام پسند قوتیں غالب آجائیں گی مگر اوبامہ نے نتن یاہو کو یہ کہہ کر خاموش کر دیا کہ عرب کے عوام ایک جمہوری عمل کی طرف بڑھ رہے ہیں اور یہ اسرائیل کے بھی اپنے حق میں ہے- بظاہر ایران اور اسرائیل بھی ایک دوسرے کے شدید دشمن نظر آتے ہیں لیکن ان کا اپنا کردار یہ ہے کہ یہ دونوں ملک  اپنی نسلی عصبیت اور افضلیت کی انتہا کو پہنچنے کیلئے کبھی بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملا سکتے ہیں .... کسی کے ساتھ ہو سکتے ہیں اور کسی کے دوست نہیں ہو سکتے - جہاں تک روس اور اسرائیل کے تعلقات کی بات ہے اسرائیل کے وزیر اعظم نتن یاہو نے سی این این کے نامہ نگار  فرید زکریا کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ اعتراف کیا ہے کہ اب اسرائیل اور روس ایک خوشگوار تعلقات کے  دور میں داخل ہو چکے ہیں اور شام میں ان کے فوجی ایک دوسرے سے تعاون بھی کر سکتے ہیں - دنیا کا یہ وہ تبدیل ہوتا ہوا منظر نامہ ہے جس کا صحیح اندازہ عرب کے شیخ اورعام تبصرہ نگار محلوں اور دفتروں  میں بیٹھ کر چند اخبارات کی سرخیوں یا  الیکٹرانک میڈیا  کے جھوٹے پروپگنڈوں  سے کبھی نہیں لگا سکتے مگر جو لوگ جنگ کے میدان میں ہیں اور خطرات کا سامنا کر رہے ہیں ان کی اپنی حکمت عملی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے شطرنج کے چال کی طرح اکثر تبدیل ہوتی رہتی ہے- شاید اسی لیے پچھلے سال جب شامی فوجوں کے ذریعے کیمیاوی گیس کے استعمال کا انکشاف ہوا اور ممکن تھا کہ ناٹو کی فوجیں لیبیا کی طرح شامی حکومت کی بھی اینٹ سے اینٹ  بجا دیتیں امریکہ نے روس کی ممکنہ  مداخلت اور اس علاقے میں روس کے خفیہ اتحادیوں  کے درمیان پک رہی کھچڑی کے  دباؤ میں اپنا قدم واپس ہٹا لیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ  شام کی اس جنگ سے باہر آگیا - امریکہ نے اس کے بعد فری سیرین آرمی کی مدد کا سلسلہ تیز کر دیا- یا یوں کہہ لیجئے کہ  فری سیرین آرمی صرف ایک دکھانے کے دانت  ہیں تاکہ اس خطے میں جائز طریقے سے امریکی جہازوں سے ہتھیار اتارا جاسکے اور دیگر یورپ اور تمام عرب  مالک کو حریت پسندوں کی مدد کیلئے آمادہ کیا جاےُ -  جیسا کہ رائٹر کے ایک نامہ نگار ڈان ویلیم نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ شام کے میں بشارالاسد کے خلاف سرگرم  وہ تمام گروہ جسے دنیا فری سیرین آرمی... النصرہ فرنٹ...یرموک شہید برگیڈیریا دیگر ناموں سے جانتی ہے سب اسلامک اسٹیٹ سے ہی منسلک ہیں یا ان کے  سپاہی ہیں - انڈین ایکسپریس تاریخ 26/10/015
اسی طرح دیگر اخباری رپورٹوں کے مطابق اسلامک اسٹیٹ کے یہ فوجی تقریباً سات سوکی ٹکڑیوں میں مختلف نام سے الگ الگ  محاذوں سے لڑ رہے ہیں- مشرق وسطیٰ کی اس جنگ کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ  جس طرح افغانستان کی جنگ میں پاکستان نے امریکہ اور افغان مجاہدین کے درمیان معاون کا کردار ادا کیا تھا شام میں وہی کردار ترکی نبھا رہا ہے- دوسری مماثلت یہ ہے کہ  جس طرح اس وقت پاکستان میں جنرل ضیاء الحق اپنی اسلامی ذہنیت کی وجہ سے مشہور تھے ترکی کے صدرطیب اردگان کی اسلام پسند ذہنیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا - اتفاق سے جو غلطی ٹونی بلیئراوربش نے کی تھی اور جن کے پاس بعد کا کوئی منصوبہ بھی نہیں تھا عرب نوجوانوں نے اوبامہ اور طیب اردگان کی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے  مشرق وسطی کی تشکیل نو کا آغاذ کر دیا ہے - عرب کے عوام خاص طورسے  نوجوان طبقہ جو ایک زمانے سے عرب ڈکٹیٹروں اور آمروں کی آمریت سے بدظن تھے اس نے اس پوری صورتحال کا فائدہ اٹھایا ہے جس کا اعتراف ٹونی بلیئر نے بھی کیا ہے کہ عراق کی جنگ کی وجہ سے داعش کا وجود عمل میں آیا ہے -بلکہ یوں کہا جائے کہ عرب نوجوانوں نے ہی ٹونی بلیئر اور بش کو غلطی پر آمادہ کیا کہ وہ افغانستان اور عراق پر حملہ آور ہوں اور ان کے اندر یہ بیداری 80 کی دہائی کے بعد اس وقت سے ہی پیدا ہونا شروع ہو چکی تھی جب انہوں نے دیکھا کہ اس خطے میں مسلسل لبرل اور اسلام مخالف اشتراکی ذہنیت کے دین بیزار  فوجی جنرل کسی نہ کسی بہانے اقتدار پر قابض ہو کر صہیونی مفاد کیلئے بکے جارہے ہیں اور  بااثر تنظیم اخوان المسلمون بھی اپنی تمام تر پرامن جمہوری اور عوامی جدوجہد کے باوجود ناکام ہے  نوجوانوں کی ایک قلیل جماعت کے ساتھ  مسلح جدوجہد کی طرف راغب ہو گئے - یہ بات بھی اب کسی سے مخفی نہیں رہی کہ اوسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری نے تنظیم القاعدہ کے پرچم کے نیچے ہزاروں عرب نوجوانوں کو تربیت فراہم کی اور افغانستان میں روس کے خلاف لڑتے ہوئے جو سب سے بڑا تجربہ حاصل کیا وہ جنگی حکمت عملی تھی اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ افغان مجاہدین کے ساتھ لڑتے ہوئے جو علم اور تجربہ انہوں نے حاصل کیایہ چیز انہیں دنیا کے کسی کالج  یونیورسٹی یا سر سید کی سرپرستی میں کبھی حاصل نہیں ہو سکتی تھی- افغانستان کی سردجنگ کے بعد امریکہ اگر تنہا سپر پاور کے طورپر سامنے آیا  تو یہ عرب اور افغان مجاہدین کی بدولت ہی  ہو سکا-اور انہوں نے اس کے بعد تقریباً پانچ سالوں تک اسلامی نظام کا کامیاب تجربہ بھی کیا -سب سے اہم بات یہ ہے کہ سردجنگ سے پہلے  تک جو لوگ کمیونزم کو ایک مذہب اور خدا کے طورپر قبول کرتے ہوےُ یہ تصور کر بیٹھے تھے کہ اب اشتراکیت ناقابل تسخیر ہے اور اسلام کا خاتمہ ہو چکا ہے سوویت یونین کے بکھر جانے کے بعد ان کی اس فکر اور عقیدے کا بت پارہ پارہ ہو گیا اور اکثر ترقی پسند مسلمان بھی جو اشتراکیت کے طوفان میں بہہ چکے تھے دوبارہ اسلام کی طرف رجوع ہو گئے- مگر جو ابھی تک امریکی نیو ورلڈ آرڈر  کے معتقد تھے جیسا کہ فرانسس فوکوہامہ نے اپنی کتاب تاریخ کا خاتمہ میں اس نظریے پر بحث کی ہے کہ آنے والی صدی پر مغربیت پوری طرح غالب آجائے گی مگرخود ایک مغربی مصنف پروفیسرسموئیل ہٹنگٹن نے اپنی کتاب تہذیبوں کا تصادم  میں اس کی نفی اور تردید بھی کر دی اور  9/11 کے بعد ان کا بھی بھرم ٹوٹ  گیا - عربوں کی یہ وہ دوسری اور تیسری نسل ہے  جس نے اپنے سامنے کمیونزم, شوشلزم, امپیریلزم اورسرمایہ دارانہ نظام کے عروج وزوال کے ساتھ ایران کے نقلی اسلامی انقلاب کو بھی فاشسٹ ریاست میں تبدیل ہوتے ہوئے  دیکھ لیا ہے- اب اسے پختہ یقین ہو چکا ہے کہ اسلامی نظام ہی واحد نجات کا راستہ ہے-  عراق, شام اور مصر میں اس وقت جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ کوئی اچانک پیدا ہونے والی تبدیلی نہیں ہے جیسا کہ اکثر ملت کے کچھ جہاندیدہ تبصرہ نگار باطل میڈیا کے پروپگنڈے کا شکارہوکرعرب حریت پسندوں کو اسلام دشمن اور  یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ قرار دے رہے  ہیں - ہاں داعش کا منظر عام پر آنا ایک معمہ ضرور ہو سکتا ہے - مگر جو مسلم تبصرہ نگار اسے اچانک ردعمل اورسازش کا حصہ قرار دے رہے ہیں انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ عراق سے صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد عراق کی نوری المالکی حکومت  نے القاعدہ کے نام پر عراق کے سنی مسلمانوں کی نسل کشی کرنا شروع کردی اور خاص طور سے صدام حسین کے وہ فوجی جو انڈر گرائونڈ ہو چکے تھے وہ عراقی خفیہ ایجنسیوں کے عتاب کا شکار ہونے لگے - ایسے میں عراق کے اندر سرگرم القاعدہ کا وہ گروہ جس کی قیادت مصعب الزرقاوی کے ہاتھ میں تھی ان کے ساتھ صدام حسین کے فوجی بھی شامل ہو گئے اور انہوں نے پوری طرح منظم ہوکر  عراق اور شام  کو مالکیوں اورنصیریوں سے آذادی کیمسلح جدوجہد شروع کر دی - اب جو لوگ یہ شک کر رہے ہیں کہ امریکہ داعش کو خفیہ طریقے سے مدد کر رہا ہے تو اس کا سبب بھی عراقی حکومت ہے جسے صدام کے شکنجے سے آذاد تو امریکہ نے کروایا مگر نوری المالکی حکومت نے  امریکی بالادستی سے آذاد ہو کر ایران اور روس کے ساتھ خفیہ معاہدے کرنا شروع کردیا اور وہ خود  ابو جان کی بکری کی طرح بھیڑیے کے منھ میں چلے گئے -امریکہ نے اسی لیے داعش کے ذریعے اس پورے خطے کا  نقشہ بدل دیا جس کی وجہ سے ایک طرف اگر ایران شام اور خود روس کی اپنی معیشت پر زبردست گراوٹ آئی ہے توامریکی معیشت جو 2008 میں زوال پزیر ہو چکی تھی اس میں استحکام آیا ہے -اب یہ الگ بات ہے کہ 2016 میں اوبامہ کے جانے کے بعد امریکی قیادت کہاں تک عقل و شعور کا استعمال کرتی ہےاور جس طرح روس نے کھل کر شام میں مداخلت کی ہے اونٹ تو کروٹ ضرور بدلے گا - مگر روس کو شام میں یہ تو ضرور احساس ہو جا ئےگا کہ شام یوکرین اور کریمیا نہیں ہے .......!

0 comments: