مذہب انسان اور فساد کی جڑ

6:07 PM nehal sagheer 0 Comments

عمرفرا ہی    umarfarrahi@gmail.com
لوگوں کی اکثریت وہ چاہے جس مذہب اور عقیدے سے تعلق رکھتی ہو اپنے آبائی مذہب   کو ہی حق سمجھتی ہے اور پوری زندگی دیگر مذاہب کا مطالعہ تو دور کی بات  اپنے دین اور مذہب کو بھی سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے- شاید اسی لیے اس کے ذہن و  دماغ میں دین اور مذہب کی اصل روح اور تصویر کبھی داخل نہیں ہو پاتی اور وہ اس دنیا کو بھی محض بازیچہ اطفال سمجھ کر مذہب کو بھی ایک کھلونے کی طرح استعمال کر رہے ہیں  - دنیا کی دیگر قومیں تو بہرحال مادہ پرستی کی لعنت میں مبتلا ہیں ان کے لیے دولت زمین جائداد اور سلطنت ہی سب کچھ ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ مسلم ملک مسلم معاشرے اور خاندان میں پیدا ہوئے ہیں وہ لوگ بھی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ اللہ نے انہیں ایمان میں داخل کر کے ان کے ساتھ خصوصی رعایت کی ہے اور اگر انہیں ان کے گناہوں کے بدلے کچھ سزادی بھی گئ تو  بالآخر جنت تو ان کے لیے لازمی ہے-ان کا یہ عقیدہ اگر درست ہے تو اس کا مطلب اللہ نے دنیا کے دیگر انسانوں کو غیر مسلم معاشرے  میں پیدا کرکے گمراہی کی طرف موڑ دیا ہے اور وہ انہیں  اسی گمراہی کی نسبت سے جہنم میں داخل کرکے ان کے ساتھ ظلم کریگا - شاید ان بھولے بھالے مسلمانوں کو نہیں پتہ کہ اللہ نے انسانوں کو ایک قانون کا پابند بنایا ہے اور اس کی سنت یہ ہے کہ وہ ہر دور میں انسانوں کو حق و باطل کی معرکہ آرائی سے گذار کر اپنی آزمائش کے مرحلے سے گذارتا  اور اس کی اس آزمائش سے ایمان لانے والوں کا بھی گذرنا لازمی ہے جیسا کہ قرآن میں آتا ہے کہ اے ایمان والو ایمان لاؤ - اس نے آدم کی تخلیق کرکے اگر اپنے ایک خاص مقرب اور عبادت گذار بندے ابلیس کی فرماںبرداری کا امتحان لیا تو اسی طرح انبیاءِ کرام پر بھی جو اس نے ذمہ داری کا بوجھ ڈالا اس کی وجہ سے ان کی ایک بہت بڑی زندگی یا یوں کہ لیجئے کہ بہت سے انبیاءِ کرام کی پوری زندگی رنج و آلام کے دور سے گذری -سوال یہ ہے کہ کیا وہ دو وقت کی نماز ہی تھی جو حضرت نوح کی قوم کے لیے گراں گذر رہی تھی اور وہ  نو سو سال تک نوح کی دعوت کو ٹھکراتے رہی ہے یا پھر کوئی اور وجہ تھی جو نمرود نے حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالنے کی سزا تجویز کی  ,موسیٰ کا تعاقب کیا گیا-اصحاب کہف کو غار میں پناہ لینا پڑی  اور حضرت عیسیٰ کو سولی پر چڑھانے کا منصوبہ بنایا گیا- اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کو قتل کرنے کی سازش کی گئ اور صحابہ کرام کو جلتی ہوئی ریت پر لٹایا گیا - مگر یہ کیسے لوگ تھے اور کیسے نوجوان تھے کیسی تحریک تھی اور کیسا انقلاب تھا جس کیلئے انہوں نے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالا -غرض کہ اکثر انبیاءِ کرام کے ساتھیوں کو اپنے عزم و ارادے سے دستبردار ہونے کی صورت میں انعام و اکرام کی لالچ  اور عہدے کی پیشکش بھی کی گئ- خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مشرکین مکہ نے کہا کہ اگر وہ چاہیں تو ہم انہیں عرب کا بادشاہ تسلیم کر لیتے ہیں اور انہیں عرب کی کوئی خوبصورت دوشیزہ پسند ہو تو اسے آپ  کےنکاح میں دے دیا جائے گا- ان کا مطالبہ صرف اتنا تھا کہ آپ اپنے دین کو صرف اپنے تک محدود رکھیں لوگوں تک نہ پہنچائیں - شاید مشرکین کو یہ بات پتہ تھی کہ یہ تبدیلی جو وقت کے رسول کے ذریعے ہو رہی ہے یہ تحریک  صرف نماز اور زکوٰۃ  تک ہی محدود نہیں رہنے والی ہے بلکہ ان کےعلاقوں کی پوری سیاست اور تہذیب و تمدن کو بھی بدل کر رکھ دے گی اور پھر وقت کے امراء اور سرداران جو اقتدار پر قابض ہیں یا  لوگوں پر حاکم ہیں ان کی من مانی نہیں چلے گی- اگر ہم آج کے مسلمانوں کی اکثریت  کا عمل انبیاء کرام کے اس عمل کے پیمانے پر تولیں اور دیکھیں تو   کیا ہم محسوس کر سکتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ آج بھی ایسا ہی ہورہا ہے-اگر نہیں تو اس کا مطلب نہ تو مسلمانوں کی دعوت میں اثر ہے اور نہ ہی ان کی اذان اور نماز بھی کسی کو سمجھ میں آرہی ہے اور اگر کہیں پر وہ ستایا بھی جارہا ہے یا مشکلات کے دور سے گذر رہا ہے تو اس کے اس ستائے جانے کی نوعیت کیا ہے -
سوال یہ ہے کہ اگر یہ مسلمان اپنے مذہب اور عقیدے کو ترک کرکے اپنے مخالفین کے مذہب اور عقیدے کو اختیار کر لیں یا ساری دنیا کے انسان خدا اور اس کے رسول کو باطل قرار دے کر بے عقیدہ ہو جائیں جیسا کہ لبرلسٹوں اور کمیونسٹوں کا خیال اور  عقیدہ ہے تو کیا دنیا میں امن اور سکون قائم ہو جائیگا - شاید یہ مذہب کو نہ ماننے والوں کی بھول ہےیاجو لوگ مذہب کو سارے فساد کی جڑ مانتے ہیں انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ اصل فساد کی جڑ انسان کا تکبر اور گھمنڈ ہے جو ہر وقت اس کے ذہن و دماغ میں ایک طرح کی برائی اور لعنت کی شکل میں پنپتا رہتا ہے اور یہی برائی اسے اونچ نیچ یا عام و خاص کی لعنت میں مبتلا کرتی رہتی ہے جو باالآخر اس کے لیے فتنے اور فساد کا سبب بنتی ہے یعنی کوئی بھی انسان چاہے وہ ایک ملک ایک قوم ایک خاندان اور مذہب سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتا ہو اگر وہ اپنے مقصد حیات اور انسانی رشتے سے نابلد ہے اوروہ تھوڑا سا بھی اثر و رسوخ اور رتبے کا مالک بن جائے تو اس کا ہم اور تکبر اسے  دوسرے انسان اور قوم پر اپنے افضل اور برتر ہونے کا دعویٰ کرنا  شروع کر دیتا ہیے اور پھر نسلی عصبیت کا یہی خمار انسان کو ایک طرح کی نفسیاتی مرض میں مبتلا کر دیتا ہے ابلیس کے ساتھ ایسا ہی ہوا اللہ نے اسے جو طاقت بخشی تھی اسی طاقت نے اسے متکبر بنا دیا اور اس نے آدم کو یہ کہہ کر سجدہ کرنے سے انکار کر دیا کہ وہ آگ سے بنا ہے اور انسان مٹی سے-  جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے اور مذہب ہی فساد کی جڑ ہے وہ مذہب کے ذریعے نافذ کیے گئے حدود اور قیود کے منکر اور باغی ہیں -ان کے نزدیک مساوات یہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں برابر ہیں اور انہیں ایک نظر سے دیکھا جائے - خاص طور سے مسلمانوں میں رائج پردے کی روایت کو اسی نظریے سے دیکھا جاتا ہے کہ مسلم عورتوں کو اپنے لیے آزادانہ فیصلہ کرنے کی آزادی نہیں ہے  -دنیا کے بیشتر لبرل قسم کے مصنفنین جنھنیں مذہب کے خلاف لکھنے اور بولنے کی وجہ سے انعام و اکرام اور اعزاز سے بھی نوازا جاتا رہا ہے ان مصنفین کے گروہ میں شامل سلمان رشدی تسلیمہ نسرین وی ایس نائیپال ارشاد مانجھی اور خشونت سنگھ وغیرہ فرائیڈ اور رجنیش کے اس خیال سے متفق رہے ہیں کہ عورت صرف عورت ہے ,ماں بیٹی اور بہن کا درجہ تو عہد رفتہ کی قدیم جاہلانہ رسم ہے -اس لیے عورت جس مرد سے چاہے اپنی خواہش پوری کرے اور مرد جس عورت سے چاہے پیار کرے یہی اصل آزادی ہے - ان کا خیال ہےکہ اگر دنیا کے سارے انسانوں کو یہ آزادی دے دی جائے اور ان کی خواہشات کی تکمیل ہوتی رہے تو دنیا میں کوئی لڑائی جھگڑا اور فساد نہیں رہ جاےُ گا-رجنیش بھی کچھ ایسے ہی امیروکبیر عیاش قسم کے نوجوانوں کی نفسیات کا فائدہ اٹھاتے ہوےُ دنیا کے مختلف حصوں میں جنت نما آشرم بنا کر اپنے نظریات کی تبلیغ کر کے ایک خاص طبقے کا خود ساختہ بھگوان بن بیٹھا مگر وہ خود اپنی اس خوشنما جنت میں قید ہو کر یہ بھول گیا کہ اس دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی بستے ہیں جنھیں پورے دن میں ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں ہے اور جب کوئی بغیر مفاد کے اسے ایک روٹی بھی نہیں دے سکتا تو کیا کوئی اسے اپنی خوبصورت بہن بیوی اور بیٹی کو حوالے کریگا - ٹھیک ہے آپ مذہب کو سماج اور معاشرے سے نکال دیں اور عورت کو مرد کے مدمقابل کھڑا کردیں مگر آپ امیری اور غریبی کو  ,بدصورتی اور خوبصورتی کو  اچھائی اور برائ کو اونچ نیچ اور عجزو انکساری کے ساتھ ساتھ جبر اور رحم کے جذبے کو ایک کیسے کر سکتے ہیں - جبکہ یہ ساری خصوصیات اور خصلتیں انسان کی اپنی فطرت میں شامل ہیں اور انسان اپنی انہیں خصلتوں اور عادتوں کی بنیاد پر تکبر اور رعونت کا شکار ہوتا ہے اور یہی وہ چیزیں ہیں جو طاقتوروں کو کمزوروں پر ظلم کرنے پر آمادہ کرتی ہیں -
مذہب دراصل انسانوں کو اسی حسد اور تکبر  سے باہر نکالتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اس کا کوئی خالق ہے اور انسانوں کے درمیان یہ امیری غریبی اور خوبصورتی اسی خالق کی عطا کردہ نعمت ہے تاکہ وہ اسے آزمائے اور اسے مرنے کے بعد اس کا حساب بھی دینا ہے - اور پھر اسی خالق نے  انبیاء کرام کے ذریعے انسانوں کو ایک آسمانی قانون اور ضابطے کا پابند بنایا -انسانوں کے درمیان فساد کی اصل وجہ یہی ہے کہ اس نے قدرت کے اس فطری قانون کے خلاف بغاوت شروع کر دی ہے-
عمرفرا ہی    umarfarrahi@gmail.com

0 comments: