کیا بی جے پی اور آر ایس ایس اپنی ہزیمت کو ٹھنڈے پیٹ برداشت کرلیں گے؟

7:18 PM nehal sagheer 0 Comments


نہال صغیر
بہار میں فرقہ پرستوں کی ہار ہو گئی ۔سیکولر اتحاد جیت گیا ۔یہی عام خیال ہے ۔کچھ لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ مذہبی شدت پسندی پر روادار ہندوستان کی جیت ہے ۔یا یہ کہ بہار الیکشن نے یہ ثابت کردیا کہ یہاں عدم برداشت کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔یہ ساری باتیں کچھ حد تک صحیح ہیں ۔بی جے پی کی مودی حکومت میں ملک میں عدم برداشت اور تشدد کی ایک عجیب فضا کو پیدا کیا ۔جس میں گائے ایک اہم موضوع بنا ۔گرچہ بہار میں دہائیوں سے گائے کا ذبیحہ قانوناً بند ہے ۔نتیش کمار نے اس کے تعلق سے شروع میں کہا بھی کہ بہار میں گائے انتخابی موضوع نہیں بن سکتا ۔لیکن بی جے پی بھی کوئی عام پارٹی نہیں ہے وہ بہت ہی ڈھیٹ ہے ۔اس نے آخر آخر تک میں گائے کو انتخابی مدعا بنا ہی ڈالا۔اتحاد میں بڑی قوت ہے ۔اس لئے اتحادی روادار طبقہ عددی اعتبار سے جیت گیا ۔اور غیر روادار اور تشدد پر آمادہ نیز ہندوستان کے لئے خطرہ بننے والی قوت کو ہزیمت کا منھ دیکھنا پڑا ۔کل ملا کر یہ کہنا چاہئے کہ کچھ دنوں کے لئے ملک کی سلامتی پر منڈلاتے خطرات کم ہو گئے ہیں ۔کیوں کہ جو طبقہ حاوہ ہو رہا تھا اسے صرف اپنے برہمنی ایجنڈے کو نافذ کرنے میں ہی دلچسپی ہے ،اس سے ملک کا کیا نقصان ہو گا۔ملک متحدہ رہ پائے گا یا نہیں اس سے انہیں کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔اسی لئے انہوں نے ہمیشہ توڑنے والی باتیں کیں اور تشدد کو ہوا دیتے رہے ۔ 
بہار الیکشن جس پر بلا مبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پوری دنیا کی نظر تھی کیونکہ یہ الیکشن ملک کے رخ کو طے کرنے والا تھا کہ یہ ملک روادار ملک کی حیثیت سے بنا رہے گا یا پھر غیر روادار ہندوتوا کے رنگ میں رنگ جائے گا ۔بہار کے بیدار عوام نے دنیا کے لوگوں کو یہ پیغام دے دیا کہ یہ ملک قاتلوں کی ہمنوائی نہیں کرسکتانیز تشدد پھیلا کر اپنا مفاد حاصل کرنے والوں کے لئے یہاں کوئی جگہ نہیں ہے ۔لیکن یہ صرف تصویر کا ایک رخ ہے ۔تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اب بھی اس ملک میں ایک بڑی تعداد ایسی ہے جس نے نہ صرف قاتلوں کی ہمنوائی کی بلکہ اس پر اپنا اعتمادکا اظہار بھی کیا ہے ۔ساڑھے چوبیس فیصد ووٹروں نے بی جے پی میں اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے ۔یہ کوئی چھوٹی تعداد نہیں ہے۔ اپر کاسٹ یا سورن ہندوؤں کی آبادی تقریباً 15فیصد ہے ۔یعنی بی جے پی نے سورن ہندوؤں کے علاوہ دوسرے پسماندہ طبقات کا بھی ساڑھے نو فیصد ووٹ حاصل کیا ہے ،جو صدیوں سے انہی قوتوں کے زیر سایہ تذلیل جھیل رہا ہے اور انسانوں کی بستی میں بحیثیت انسان جگہ پانے کے لئے کوشاں ہے۔نتیش اور لالو سمیت کانگریس کی جیت میں مسلم اور پسماندہ ذتوں کاووٹ یکجا ہوا ہے ۔مسلم ووٹ تو تقریباً اٹھانوے فیصد یکطرفہ طور پر عظیم اتحاد کو گیا ہے۔اور وہی ان کی فیصلہ کن جیت کا سبب بھی بنا ہے ۔کانگریس کوجسے آزادی کے بعد سے سورن ہندوؤں کا بھی ووٹ ملتا رہا ہے ۔اب اس کا یہ ووٹ بینک بی جے پی کو ٹرانسفر ہو چکا ہے ۔اس کا ثبوت اسد الدین اویسی کی پارٹی مجلس اتحا دالمسلمین نے اپنے جن چھ امیدواروں کو میدان میں اتارا تھا اس میں سے تین کوچہ دھامن،کشن گنج اور آرمور کے امیدواروں کو ہرا کر کا نگریس نے ہی جیت حاصل کی ہے ۔دو پر جنتا دل یونائیٹیڈ اور ایک پر سی پی آئی ایم ایل کا مسلم امیدوار کامیاب ہوا۔یعنی جن لوگوں نے میڈیا کے گمراہ کن پروپگنڈہ سے متاثر ہو کر مجلس کے لئے محض ووٹ کاٹنے والی پارٹی اور بی جے پی کا دلال جیسے سطحی الفاظ کا استعمال کرنا شروع کیا تھا ان کی باتیں پوری طرح غلط ثابت ہوئیں ۔نہ انہوں نے ووٹ کاٹے اور نہ ہی بی جے پی کی دلالی کا کوئی ثبوت دیا بلکہ چھ کے چھ سیٹ پر نام نہاد سیکولر پارٹی کے امیدوار ہی جیتے اور بی جے پی کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ بعض افراد نے جو کہ مسلمان ہیں اور میڈیا سے جڑے بھی ہیں انہوں نے بھی عام طور پر مروجہ مزاح میں مجلس کے سربراہوں کو گھسیٹ لیا کہ مجلس حلقہ انتخاب سے بی جے پی کی ہار کی وجہ سے بی جے پی نے رقم کا مطالبہ شروع کردیا ہے جو کہ اس کے لئے مجلس کو دی تھی ۔ اس طرح کے سطحی الفاظ کا استعمال بلا دلیل کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا لیکن اس ووقت ہم اخلاقی زوال کے شدیدی بحران کا شکار ہیں ۔پھر بھی مجلس نے اسی ہزار سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ۔یعنی کم از کم یہ تین امیدوار تو اسد الدین اویسی کو مل ہی سکتے تھے ۔لیکن مسلمانوں کو اتنا خوفزدہ کیا گیا تھا کہ انہوں نے کوئی رسک لینا گوارہ نہیں کیا ۔ بہر حال بی جے پی مخالف پارٹیوں کی شاندار جیت پرمبارکباد تو دیا ہی جاسکتا ہے ۔ مبارکباد اس لئے بھی کہ مجلس فیکٹر کی وجہ سے بھی مسلم امیدواروں اور جیتنے والوں کی تعداد بڑھی ہے ۔اس بار مسلم ایم ایل اے کی تعداد 24 ہے جبکہ 2010 میں یہ تعداد 19 تھی۔
عظیم اتحاد کی اس جیت پر سب سے پہلے اروند کیجریوال نے ٹوئٹ کرکے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک تاریخی جیت ہے ۔لیکن اس طرح کی جیت کو تاریخی قرار نہیں دیا جاسکتا کیوں کہ بی جے پی نے ایک چوتھائی ووٹ حاصل کیا ہے ۔اس جیت کو تاریخی جیت کا درجہ تب حاصل ہوتا جب دہلی کی طرح بی جے پی کا صفایا ہو جاتااوروہ نشان عبرت بن جاتی ۔ حالانکہ دہلی میں بھی 2013 کے الیکشن کے بعد 2015 کے الیکشن میں بی جے پی کے ووٹ فیصد میں صرف ایک فیصد کی کمی آئی تھی ۔ہاں کانگریس کا ووٹ 15 فیصد کم ہو کر عام آدمی پارٹی کو گیا ۔بی جے پی کو اس بار گرچہ سیٹوں کا نقصان ہوا ہے لیکن اسے ووٹوں کے تناسب میں فائدہ پہنچا ہے ۔ 2010 میں بی جے پی کا نتیش کے ساتھ اشتراک تھا تب اسے صرف 16.49 فیصد ووٹ ہی مل پایا تھا ۔اس بار نتیش کمار سے علیحدگی کے باوجود اسے ساڑھے چوبیس فیصد ووٹ کا مل جانا فائدہ نہیں تو اور کیا ہے ۔جو کہ اس کے لئے امید افزا ہے ۔دوسری طرف نتیش کو موجودہ الیکشن میں 16.7 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ 2010 میں انہیں بی جے پی کے اشتراک میں 22.58 فیصد ووٹ ملا تھا۔لالو پرشاد کو اس بار 18.4 فیصد ووٹ ملا ہے جبکہ 2010 میں انہیں18.84 فیصد ووٹ ملا تھا ۔کانگریس کو اس الیکشن میں 6.7 فیصد ووٹ مل پایا ہے جبکہ 2010 میں کانگریس کو 8.37 فیصدووٹ ملا تھا۔عظیم اتحاد کو اس مرتبہ ووٹوں کے تناسب میں کمی کے باوجود سیٹوں میں اضافہ صرف اس لئے ممکن ہو پایا کیوں کہ وہ متحد تھے ۔دوسری اہم بات یہ کہ اس مرتبہ کہیں سے کوئی فتویٰ جاری نہیں ہواجس سے مسلم ووٹ زیادہ منتشر نہیں ہوا ۔حالانکہ یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ مسلم ووٹ بالکل بھی منتشر نہیں ہوا ہے ہاں اتنا ضرورہوا ہے کہ مسلم ووٹروں کی اکثریت نے نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے لئے اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے ۔
بی جے پی کے اتحادی ہم (مانجھی )کا وجود تو تازہ تازہ تھا لیکن لوک جن شکتی پارٹی کو اس بار 4.8 فیصد ووٹ ملا اور اس نے تین سیٹ حاصل کی جبکہ 2010 میں 6.74 فیصد ووٹ کے ساتھ تین سیٹ ملی تھی ووٹوں کے تناسب کا نقصان تو اسے بھی ہوا لیکن سیٹ کی پوزیشن برقرار رہی ۔مانجھی جو نتیش کمار سے بغاوت کرکے بی جے پی خیمہ میں چلے گئے تھے انہیں 2.2 فیصد ووٹ اور صرف ایک سیٹ پر سمٹ جانا پڑا ۔یہ نقصان نہیں کہا جاسکتا کیوں کہ نقصانا اسے ہی ہوتا ہے جس کے پاس کھونے کے لئے کچھ ہو مانجھی کے لئے جو کچھ تھا وہ بس پانا تھا کھونے کے لئے کچھ نہیں تھا۔کل ملا کر اتحاد میں رہنے والوں کو ووٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا لیکن بی جے پی نے اپنے ووٹ بینک کے تناسب میں اضافہ کیا ہے ۔اس لئے یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ گائے اور ریزرویشن پر مودی کے بیان کہ وہ پسماندہ طبقات کے ریزرویشن کے تحفظ کے لئے اپنی جان کو بھی قربان کردیں گے فائدہ پہنچایا ہے ۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو ساڑھے نو فیصد پسماندہ طبقات کا ووٹ انہیں نہیں ملتا ۔یہ ایک خطرناک رجحان ہے ۔عام طور پر جیت ملنے کے بعد لوگ اس طرف توجہ نہیں دیتے وہ بس جیت کے نشہ میں رہتے ہیں ۔اتحاد آج ہے کل نہیں بھی ہو سکتا ہے لیکن پسماندہ طبقات کو بی جے پی میں جانے سے روکنا وقت کی ضرورت ہے ۔ہندوستان میں ہونے والے ہزاروں فسادات بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ برہمن لابی نے مسلمانوں کی بربادی کے لئے ہمیشہ پسماندہ طبقات کا استعمال کیا ہے ۔ بی جے پی یا مودی کی اس ہزیمت سے ایسا نہیں ہے کہ وہ نچلا بیٹھ جائیں گے ۔وہ نئی کہانی نئے ستم اور اس کے نئے طریقے ایجاد کریں گے ۔بی جے پی کو چونکہ اس بار دانشور طبقہ کے سخت احتجاج نے اندرون ملک ہزیمت اور بیرون ملک رسوا کیاہے ۔اس لئے اس کی کوشش ہو گی کہ دابھولکر ،پنسارے اور کلبرگی کے قتل کے بعد گائے کے بہانے مسلمانوں پر ہونے والے حملوں کے بعد ان کے سخت احتجاج نے پوری دنیا کو متوجہ کیا ۔اور موجودہ ہار میں اس کا بھی کچھ نہ کچھ ہاتھ ضرور ہے ۔اس کے اثرات کو وہ زائل کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں گے ۔اس کے لئے آر ایس ایس اور اس کی سیاسی ونگ بی جے پی اور ان کے ہمنوا کچھ نہ کچھ کھچڑی ضرور پکائیں گے اور وہ کھچڑی کیا ہو گی اس کے بارے میں غور کرنے اور ایسے ہر آنے والے طوفان کا مقابلہ کرنے کے لئے پہلے سے تیار رہنے کی ضرورت ہے ۔
نہال صغیر 
بلاد آدم ۔ضلع ویشالی ۔بہار 
موبائل :9987309013

0 comments: