پیرس ہے لہو لہوشام ہے دھواں دھواں....!

4:14 PM nehal sagheer 0 Comments

                                                                                                                     عمر فراہی 
UmarFarahi <umarfarrahi@gmail.com>

پیرس میں ہوئی تخریبی کاروائی کے بعد فرانسیسی حکومت نے شام میں اسلامک اسٹیٹ کے علاقوں پر بے تکی بمباری کرنا شروع کر دیا ہے اور اس حملے میں اب تک ہزاروں معصوموں کی جان بھی جاچکی ہے -حالانکہ فرانس کی طرف سے یہ حملہ پیرس میں ہوئی تخریبی کاروائی کے ردعمل میں کیا جارہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے  فرانس نے مغربی ممالک کے ساتھ مل کر شام کے علاقوں کو کھنڈر بنانے کا یہ سلسلہ پیرس پر ہونے والی تخریبی کاروائی سے پہلے ہی شروع کررکھا ہے-اور ایک ایسے وقت میں جبکہ داعش کا وجود بھی نہیں تھا ان مغربی ممالک نے لیبیا کو اس وقت بمباری کرکے تباہ کر دیا جب کرنل قذافی نے اپنے سخت گیر نظریات سے توبہ کر کے مغرب سے مصالحت کرلی تھی- جیسا کہ اپنی حکومت کے شروع کے دور میں وہ مغرب کی دوغلی پالیسی کے خلاف اپنی زبان کا تیشہ برساتے رہے ہیں اور ان پر یہ بھی الزام تھا کہ انہوں نےامریکہ کے ایک جہاز کو دھماکوں سے اڑانے میں دہشت گردوں کی مدد کی تھی -بعد میں کرنل قذافی نے اپنے اس جرم کا اعتراف کرتے ہوئے جہاز میں مرنے والوں کے وارثین کو ہرجانہ ادا کرکے ان کے عتاب اور معاشی پابندیوں سے چھٹکارا حاصل کرلیااورلیبیا پرحملے سے کچھ عرصہ قبل ہی وہ فرانس کے دورے پر گئے جہاں نہ صرف ان کا پرجوش شاہانہ استقبال ہوابلکہ قذافی کو فرانس کے صدر نیکولس سرکوزی کے خصوصی مہمان کا شرف حاصل ہوا- اس طرح لیبیا اور فرانس کی حکومت کے بیچ کئی تجارتی معاہدے بھی ہوئے - مگرصرف ایک یا ڈیڑھ سال کےاندرعرب بہارکی شورش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پورایورپ لیبیا پرٹوٹ پڑااورفرانس جس کے ساتھ قذافی کے دوستانہ تعلقات قائم ہو چکے تھے اس حملے میں پیش پیش رہا ہے - سوال یہ ہے کہ کیا قذافی نے مغرب کے کسی ملک پر کوئی حملہ کیا تھا -جی نہیں مگر جو بات ہمارے  مفاد پرست اوربے غیرت مسلم دانشور بھی سمجھنا نہیں چاہتے اور بغیر کسی تحقیق کے کوئی طالبان اور القاعدہ پر لعنت بھیجتا ہے تو کوئی آل سعود کی نمک خواری کے عوض اخوان کو بھی یہودیوں آورایرانیوں کا ایجنٹ قرار دیتا ہے - داعش کے شدت پسندانہ نظریات کے تعلق سے تو مسلمانوں کے یہ تمام گروہ چاہے ایرانی ہوں سلفی ہوں دیوبندی ہوں بریلوی یا جماعت اسلامی ہند  کے لوگ مدافعانہ رخ اختیار کرتے ہوئے اس بات پر متفق ہیں کہ یہ لوگ  دہشت گرد اور یہودو نصاریٰ کے ایجنٹ ہیں! اوربیشک ہم یہ پہلی باردیکھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کے بیشتردانشوراوران کی تنظیمیں دہشت گردی کے خلاف مغرب کے ساتھ ایک صف میں کھڑی نظرآرہی ہیں -جبکہ اسلام اور مسلمانوں کی نڈر اور بے باک قیادت کے تعلق سے مغرب کا اپنا نظریہ  شروع سے ہی جارحانہ رہا  ہے اور وہ کبھی یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ مسلمان یا مسلمانوں کا کوئی حکمراں انہیں آنکھ دکھائے -قذافی چونکہ آخری وقت میں مغرب کیلئے خطرناک تو نہیں رہے لیکن شیر بہرحال شیرہوتا ہےاورمسلمانوں کے دشمن کیا یہ پسند کریں گے کہ شیر کی نسل بھی باقی رہے ؟ عراق میں صدام حسین کے ساتھ ایسا ہی ہوا یعنی عمومی تباہی کے ہتھیار وں کا پروپگنڈہ کر کے صدام حسین کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا -ماضی میں شاہ فیصل , بھٹو اور ضیاء الحق کو ان کے جراتمندانہ فیصلے اور قومی وفاداری کی سزا دی گئی - جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مغرب عرب ممالک کو ٹکڑوں میں بانٹنے کیلئے داعش کا استعمال کر رہا ہے وہ یہ بھول رہے ہیں کہ عرب متحد ہی کب ہیں اور مصر کے صدر اخوانی رہنما ڈاکٹر محمد مرسی کو معزول کرنے میں خود ایران اور سعودی عرب نے جو کردار ادا کیا ان کے اس عمل سے کس کو فائدہ پہنچا کیا اسرائیل اور بھی محفوظ نہیں ہو گیا؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کے پاس اب اور کھونے کیلئے کیا ہے؟ اس کے باوجود فلسطینیوں کی جانباز قیادت کو اسرائیل مسلسل شہید کرتا رہا ہے جن میں حماس کے بانی شیخ احمد  یاسین اپنی آنکھوں اور پیروں سے بھی معزور تھے اور ان کے اوپر ایسے  وقت میں ہوائی حملہ کرکے درندگی کا مظاہرہ کیا گیا جب وہ فجر کی نمازادا کرکے اپنی وہیل چیر سے گھرواپس لوٹ رہے تھے -کیا ہمیں نام نہاد مسلم دانشوروں اور دعوت و تبلیغ میں مصروف نام نہاد مسلم تنظیموں اورشعلہ بیان مقرروں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ انبیاء کرام کے پاس کون سی سلطنت اور پٹرول کی دولت تھی اور کھونے کیلئے بھی کیا تھا- اس کے باوجود انہیں شہید کرنے کی کوشس کیوں کی گئی ؟
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ  ہمیں اسلام دشمن طاقتوں کی سازش اور ابلیسی نظریے کو سمجھنے کی ضرورت ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جو کچھ پیرس میں ہوا وہ غلط تھا -خون چاہے دنیا کے کسی بھی علاقے اور خطے میں کسی بھی قوم کا بہے یہ سب آدم کی اولاد ہیں اوراسلام بالکل اس کی اجازت نہیں دیتا اور بے شک اس کی مذمت ہونی چاہیے مگر ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچئے کہ کیا فرانس اپنے اتحادیوں اورعرب ممالک کے ساتھ مل کرپچھلے ایک سال سے اسلامک اسٹیٹ کے علاقوں پر بمباری نہیں کر رہا ہے ؟ اور یہ تمام ممالک ہر روز پینتیس سے چالیس طیاروں سے ہزاروں ٹن بارود گرارہے ہیں اوراب تواس بمباری میں روس بھی شامل ہو چکا ہے آخر ان کی اس بمباری سے شہید ہونے والے کیا انسان نہیں ہیں - مگر جب کسی بستی پر چالیس چالیس طیارے آگ برسا رہے ہوں تواس قیامت خیزمنظراورخونریز تباہی کا درد وہی محسوس کر سکتے ہیں جن پر یہ جنگ مسلط کی گئی ہے -اب عراق اورشام کے مسلمان جواپنے ڈکٹیٹروں کے ظلم کو پچھلی پانچ دہائیوں سے برداشت کررہے ہیں اپنا دفاع کیسے کریں ؟ کیا فلسطینی مسلمانوں کی طرح شہید ہوتے رہیں اوردنیا تماشہ دیکھے..! یا دہشت گردی کے الزام سے بچنے کیلئے ہتھیار نہ اٹھا کربرما کے مسلمانوں کی طرح دریا برد ہو جائیں ۔۔!اوردنیا چیخ و پکار کا ڈرامہ کرکے خاموش ہو جائے۔۔! یا پھراخوانیوں کی طرح جمہوریت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے ہتھکڑیاں اور بیڑیاں پہن کر سلاخوں کی زینت بنے رہیں۔۔۔! اب اگر اس کے علاوہ بھی کوئی معقول پرامن حل ہے تو اس کا حل بھی ضرورآنا چاہیے  اور اگر معصوموں کے قتل عام پر ہم واقعی غمگین ہیں اور روکر ثواب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہرروز اور ہروقت ماتم کریں کیوں کہ شام میں تو ہر لمحہ قیامت ہے....!
                                                                                     

0 comments: