مسجد اقصى: خيالات كا ايك سفر

4:04 PM nehal sagheer 0 Comments

محمد نوشاد نوري قاسمي
استاذ دار العلوم وقف ديوبند
 

وہ کالی رات تھی
 روشنی کانام ونشان تک نہ تھا
 نومبر کی سردرات تھی.
بسترسے لپٹ کرنیند لانےکی کوشش جاری تھی .
ایک انجانا ساڈرلگ رھاتھا.
ایساشایدھی پھلے کبھی ھواتھا.
خوف اپنی ذات سےزیادہ ان لوگوں کاتھا،  جوانتھائی بےسرو سامانی کے عالم میں ایک ایسی ظالم طاقت سے نبردآزما ھیں ، جو هرطرح کےجنگی اسباب سے لیس ھے.
اوردنیا کو مٹھی میں کرچکی ھے.
دنیاہرواقعہ کوانھیں کی نگاہ سےدیکھتی اورانھیں کے کان سےسنتی ھے.
وہ جب چاھے دنیا كوکھڑاکر دےاورجب چاھے بیٹھا دے -
آہ ! ان پرکیابیت رھی ھوگی؟
, آہ ! وہ یتیم بچے.
آہ ! وہ بیوہ عورتیں .
آہ ! وہ پابندسلاسل مردمیدان. کیاکھاتے ھونگے؟
کیاپھنتےھونگے؟
اپنےٹوٹےگھروں کو دیکھ کران کےدل میں حسرت ویاس کی کون سی کیفیت پیداھوتی ھوگی؟
سردی کی ٹھنڈی رات میں اپنے سر چھپانےکا کون ساسامان وہ کرتےھونگے؟
ابھی کیا وقت ھورھاھے؟
وھاں کیا وقت ھورھا ھوگا؟
کھیں کوئی نیا بم اورنیا میزائل ان کاتعاقب تونھیں کررھاھے؟
موت ایک نئی بارات لیکر ان کی دھلیزپردستک دینےکی تیاری تونھیں کررھی ھے؟
میں انھی خیالات میں گم سم تھا. محسوس ھورھاتھاکہ جیسےمیں فلسطین کی سرزمین سے قریب ھورھا ھوں، دیکھتے ھی دیکھتے( قبۃ الصخرہ) کی سنھری عمارت نظرآئی.
وهي مسجد اقصى كا سنهرا گنبد جو آج بهي اهل دل كے دلوں كانور اور آنكهوں كا سرور هے.
میرادل دھڑکنے لگا،
اس نےمجھےپھچان لیا.
بدحواسی میں ,میں وادئی مقدس کا ادب ھی بھول گیا.
نہ وضوکرسکا اورنہ جوتے اتارسکا.
میں نےھوش وحواس ٹھکانے کیے. اورآداب بجالانےکی تیاری کرنےلگا. کہ (قبۃ الصخرة) سےآوازآئی : آہ تم کس ادب کی بات سوچ رھےھو؟  کتنےغافل ھو؟
کیاتمھیں نھیں معلوم کہ اس سرزمین کےاقدار بدل گئےھیں؟
پانی کاوضو، یھاں جائز ھی نھیں ھے؛
یھاں تو خون جگرکا وضو ھوتا هے.
یہ زمینیں جوتمھیں رنگین نظرآرھی ھیں،  آخرکیوں رنگین ھیں؟
یھاں توخون کی محفلیں جماکرتی ھیں.
خوف و ھراس کےسایےمیں نماز عشق اداکی جاتی ھے.
یھاں جانوں کےنذرانے دیيے  جاتےھیں.
یہ اب وادئی مقدس کھاں؟
اجڑےھوئے کچھ مسلمانوں کا قیدخانہ یایھودیوں کی تفریح گاہ ھے.
اس کے محراب اب نمازسےنھیں؛ بلکہ یھودیوں کےرقص وسرورسےآبادھیں, ...........
میں حیرت کی تصویربن چکاتھا, (قبة الصخرة )کی زبان کا ایک ایک لفظ،  مجھےنشترسا محسوس ھورھاتھا.
وہ اپنےھرلفظ میں ایک نئی داستان بتارھاتھا.
سالوں سےاس کی زبان بندتھی.
مگرآج کھل گئی تھی.
لگ رھا تھا آج وہ سب کچھ کہہ دیناچاھتاھے.
یہ قبہ دوراموی کی یادگارھے . ابوالملوک خلیفہ عبدالملک بن مروان نے اسے تعمیرکیاتھا.
خلفاء بنی امیہ اپنی غیرت وحمیت میں مشھوررھےھیں.
وہ فصاحت وبلاغت میں بهى ، اپنی خاص پھچان رکھتےتھے.
اگرتاریخ کی کتابوں سے اس قبہ کی نسبت بنوامیہ کی طرف ثابت نہ ھوتی،  توبھی اس قبہ کی فصاحت سے, ميرے نزديك یہ نسبت ثابت ھوجاتی-
میری سمجھ میں نھیں آرھاتھا کہ کیاکهوں؟
اتنے میں میری نظرقبہ کےنچلےحصہ پرپڑی.
وھاں کچھ سیاھی کےنشانات تھے. میں نے حیرت سےپوچھا: یہ آپ کےدامن میں سیاھی کانشان کیسا ھے؟
جھلاکر جواب دیا: کیا پوچھتےھو؟ آخرکتنے نشانات دکھاؤں ، اورکس کس کی وجہ بتاؤں؟
یھاں اب رکھا کیاھےکہ دیکھنے آئےھو؟
میں ایک زندہ لاش ھوں،
میری بنیاد کھوکھلی ھوچکی ھے. میرےجسم کا ایک زخم مندمل نھیں ھونے پاتاکہ دوسرا زخم لگادیا جاتا هے.
میری مثال اس جانورکی سی ھے،  قصائی جسے ذبح کرکے، لکڑی پرلٹکا دیتاھے،  اور نیچےسےکاٹنا شروع کردیتاھے، بالآخر پورےکو هی کاٹ کربیچ ڈالتا ھے-
اب تووہ کھیل بھی یھاں شروع ھوگیا جو پھلےکبھی نھیں ھواتھا.
میرےاندر آگ لگائی گئی.
اورمسجد اقصی کےکئی دروازوں کو جلانےکی کوشش کی گئی
اوراب یھاں اسی طرح آگ وخون کا کھیل چل رھاھے؛
لیکن یہ سب بھی میں گوارہ کرلیتا، اگر دوسرےاسلامی مقامات میں امن وسلامتی کابول بالا ھوتا.
یھاں تومیری چاروں طرف آگ لگ رھی ھے:
عراق جل رھاھے.
شام سلگ رھاھے.
یمن میں طوفان بپاھے.
لیبیا میں لوٹ وغارت گری کی حکومت ھے.
مصرمیں فرعون وقت کشت وخون کادردناک نظارہ پیش کررھاھے.
ایران اپنی مجرمانہ پالیسیوں سےعالم عربی کےنقشے بگاڑنےمیں لگاھواھے.
حزب اللہ ھوں کہ حوثی، داعش ھوں کہ نصیری، سب ایک ھی مقصد کے لیےکام کررھےھیں، کہ وسیع اسرائیل کاخواب جلد ازجلد پورا کردیاجائے.
اب بتاؤکہ اتنےزخم میں کیسےبرداشت کروں,؟
اوریہ قصئہ دردسناؤں توکسےاورکیسےسناؤں؟
اورھاں, یہ پوچھنا تورہ ھی گیاکہ آخرتمھیں میری فکرکیسےھوئی؟
تم ھوکون؟
کیاپیرس کاڈرامہ ختم ھوگیا؟
کیادنیا میں کوئی بم نھیں پھٹا؟
اگرھاں توپھریھاں سےجتنی جلدی ھوسکے, چلےجاؤ.
سواداعظم کےساتھ رھو.
اسی میں خیرھے.
یھی شریعت ھے.
تم توجاؤ، سواداعظم کےساتھ پیرس بم دھماکے کا،رونا روؤ،
ان کاچراغاں کرو،
انھیں خراج عقیدت پیش کرو،
اس کےقاتل کو تلاش کرو.
اس کےخلاف احتجاج کرو.
دھشت گردی کےخلاف عالمی تحریک چلاؤ.
سنو! ایک بھی دھشت گرد دنیامیں رھنےنہ پائے-
اور ہان یہ بھی یاد رکھنا کہ مین نے تمہیں اپنے راز کا محرم بنایا ہے،
اسے راز ہی رکھنا،
کسی سے بیان کرنے کی اجازت ہرگز نہین ہے،
کہیں کسی کی نیند خراب نہ ہوجاے.
کہیں کوئی پریشان نہ ہوجائے.
کسی کا مفاد متأثر نہ ہوجائے.
ایسی پیاری اور مست نیند ہر قوم کو نصیب کہاں؟
یہ تو صرف خیر الامت کا حصہ ہے.
اسے سونے دو.
  سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے .
(محمد نوشاد نوري قاسمي
استاذ دار العلوم وقف ديوبند)
E-mail: naushadnoori1985@gmail.com
mob: 09557908412

0 comments: