Muslim Issues
ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاسی بصیرت
نہال صغیر
تحریکیں ایک دو سال میں پھل نہیں لاتیں۔اس کے لئے برسوں جد و جہد کے ایک
طویل اور صبر آزما دور سے گزر نا ہو تا ہے ۔ عام طور پر تحریک کی راہوں میں
پھول بہت بعد کی نسلوں کے لئے ہوتی ہیں ۔جو لوگ کسی تحریک کی ابتدا کرتے
ہیں انہیں کانٹوں پر چلنا ہوتا ہے اور آگ کے شعلوں کے درمیان سفر کرنا ہوتا
ہے تب کہیں جاکر اگلی کسی نسل کو کامیابی ملتی ہے ۔یہ چند الفاظ اس لئے
ادا کئے گئے ہیں کہ دو دن سے کسی نہ کسی ایسی میٹنگوں میں شامل رہا جس میں
قوم کی موجودہ صورتحال اور سیاسی بے وزنی کا رونا رویا گیا ۔ پہلی ایک میٹنگ
میں جہاں مسلمانوں کی اجمالی حالت کا جائزہ لیا گیا وہیں دوسری مختصر
میٹنگ میں مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی پر گفتگو ہوئی ۔ پہلی میٹنگ میں سب کے
بارے میں تو میں نہیں جانتا لیکن چند افراد ضرور ایسے تھے کہ ان کا اخلاص
شبہ سے بالاتر ہے ۔دوسری میٹنگ چونکہ انتہائی مختصر تھی اور زیادہ سے زیادہ
بارہ افراد پر مشتمل تھی اس لئے اندازہ ہے کہ اس میں سبھی کے دلوں میں قوم
کی موجودہ حالت کے تئیں درد موجود تھا جس کا وہ درماں چاہتے ہیں ۔ معاشی
اور تعلیمی میدان میں کئی برسوں سے لوگ کام کررہے ہیں اور وہاں ان کے اثرات
نظر بھی آرہے ہیں ۔گرچہ اتنے نہیں ہیں جتنے اس قوم کو اس کی ضرورت ہے
، لیکن کچھ نہیں ہونے سے کچھ ہونا زیادہ بہتر ہے ۔ بہر حال چونکہ معیشت اور
تعلیم پر کچھ پیش رفت ہوئی ہے اس لئے اس پرگفتگو کرنے کیلئے اور بہت سے
ماہرین موجود ہیں اور وہ اس جانب قوم کی رہنمائی کے فرائض ادا بھی کررہے
ہیں ۔سیاست میں مسلمان مسلسل زوال پذیر ہیں اور ان کی بے وزنی میں دن دونی
رات چوگنی اضافہ ہی ہو رہا ہے ۔ اس جانب لوگ توجہ تو دے رہے ہیں لیکن حالت
یہ ہے کہ گاڑی کے چاروں طرف گھوڑے بندھے ہیں سب اپنی اپنی جانب زور لگا
رہے ہیں ۔ اس لئے اس صورت میں منزل پر پہنچنا بہت مشکل ہی نہیں ناممکن بھی
ہے ۔
ہندوستان کے عدم مساوات والے سماج میں مسلمانوں کو اپنی پوزیشن بنانا مشکل نہ تھا لیکن مسلم سلطنتوں کے زوال کے بعد انگریزوں کے ابتدائی دور میں تو لیڈر شپ کچھ بہتر رہی جس نے مسلمانوں کو سنبھالااور حالات اتنے برے نہیں ہوئے جتنے آج نظر آرہے ہیں ۔ لیکن جیسے ہی گورے انگریزوں سے آزادی کی تحریک چلی اور اس تحریک میں مسلمان صف اول میں نظر آئے ملک کے عدم مساوات کے مبلغین کی نظر میں وہ آگئے انہوں نے بڑی چالاکی سے دھیرے دھیرے اس تحریک کو اپنے حق میں موڑ لیا ۔اس دور کے سادہ لوح مسلم لیڈر جب تک سمجھ پاتے تب تک وہ خلافت تحریک کے بہانے مسلمانوں کی تحریک پر قابض ہو چکے تھے ۔اس سلسلے میں ان کی اس چال کو کوئی سمجھ سکا تو وہ تھے محمد علی جناح لیکن پاکستان کی تخلیق اور ملک کی تقسیم کا سارا ٹھیکرا انہی کے سر پھوڑ دینے کے سبب وہ ایک ایسی شخصیت بنادیئے گئے ہیں کہ جناح کے تعلق سے آپ نے کوئی بات زبان سے نکالی تو صرف ملک دشمن ہی قررنہیں دیا جائے گا بلکہ فتوے بھی صادر کئے جائیں گے ۔ مطلب آپ کبھی تاریخ میں جھانکیں نہیں بس جو کچھ آپ کو اسکرپٹ دے دیا گیا ہے اسی پر یقین کرتے چلے جائیں اور سر دھنتے رہیں ۔ کبھی بھی یہ دیکھنے کی کو شش نہ کریں کہ اکابرین نے کیا سیاسی غلطیاں کیں جس کے سبب آج مسلمانوں کا یہ حال ہے ۔ بہر حال اس پر پھر کبھی گفتگو ہو جائے گی فی الوقت اوپر جس دوسری میٹنگ کا حوالہ دیا گیا اس میں بامسیف نام کی ایک غیر سیاسی تنظیم میں مسلمانوں کی شمولیت پر گفتگو موضوع بحث ہے ۔ اس تنظیم کی سیاسی جماعت بھی عنقریب لانچ ہونے والی ہے ۔ اس لئے کئی افراد یہ کہہ رہے تھے کہ ہم اس سیاسی جماعت میں ہی شامل ہوں ۔ بامسیف نام کی غیر سیاسی تنظیم میں شامل ہو کر کیا ملے گا ۔ ایک صاحب یہ کہنے لگے کہ ہمیں اس میں شمولیت سے پہلے ہی شرائط طے کرلینے چاہئیں ۔ ان کی باتوں سے یہ اندازہ ہوا کہ وہ لوگ یا مسلمان اس پوزیشن میں ہیں کہ کوئی بھی انہیں ہاتھوں ہاتھ لے گا ، لیکن ایسا نہیں ہے ۔ مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ان کا ایمان اللہ سے تو ڈانوا ڈول ہو جاتا ہے کہ وہ توحید پرست ہیں پھر بھی اللہ ان کی مدد نہیں کررہا ہے ۔ لیکن کانگریس سے ان کا ایمان متزلزل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ۔ مسلمانوں کی ایک جماعت تو جیسے اس کی غیر مشروط حمایت کے ایجنڈے پر اس حالت میں بھی قائم ہے جبکہ سب کہہ رہے ہیں جو کیا دھرا ہے کانگریس کا ہی ہے ۔ بامسیف جیسی تنظیمیں کھلے عام کہتی ہیں کہ بی جے پی سے زیادہ کانگریس برہمن بنیا پارٹی ہے جس سے مسلمانوں سمیت کسی بھی پسماندہ طبقہ کو تباہی کے سوا نہ کچھ ملا ہے اور نہ ہی آئندہ کچھ ملنے والا ہے ۔ کانگریس کا وہ منافقانہ کردار اسکے ابتدائی دور سے ہی ہے اور وہ آج بھی اس پر قائم ہے ۔
جس طرح مسلمان منتشر ہیں اسی طرح پسماندہ طبقات بھی مختلف خیموں میں منقسم ہیں ۔ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا تعلیم یافتہ بنو ، متحد ہو اور احتجاج کرو۔پسماندہ طبقہ تعلیم حاصل کررہا ہے احتجاج بھی شدید کرتا ہے لیکن متحد نہیں ہوتا ۔مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ تعلیم ،اتحاد اور احتجاج تینوں سے دور ہیں ۔اس صورت میں ان کے پاس صرف ایک راستہ ہے کہ وہ پسماندہ طبقات کے ساتھ اتحاد پر زور دیں۔پہلے ان کے ساتھ شامل ان کی لڑائی میں شامل ہوں ۔اپنا رونا رونے سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ دیگر پسماندہ طبقات اور مظلوموں کی قوت اور ان کے مددگار بنیں ۔ایسا کچھ جگہوں پر مسلمان کر بھی رہے ہیں ۔اس سے سنگھ اور اس کی تنظیمیں حواس باختہ بھی ہیں ۔میں یہاں اس کی مثال نہیں دوں گا کہ کہاں کہاں مسلمانوں نے ایسا کیا ہے۔لیکن جہاں نہیں ہے وہاں وہاں مسلمانوں کو اس جانب آنا ہی پڑے گا ۔شکر ہے کہ بیداری آئی ہے اور اس نہج پر گفتگو شروع ہوئی ہے ۔کئی جگہ پر اس کے اچھے نتائج نظر بھی آئے ہیں ۔بامسیف کے ایک رکن نے بتایا کہ اتر پردیش میں بامسیف نے زمینی سطح پر کام کیا اور نتائج سامنے آئے کہ بی جے پی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن بکاؤ میڈیا کے سبب اس حوصلہ بخش خبر کو بی جے پی کی فتح کے طور پر پیش کیا گیا ۔جبکہ زمینی حقیقت یہ تھی کہ شہری اکائیوں میں بی جے پی نہیں سماج وادی ،بہوجن سماج وادی اور دیگر قوتیں فتح یاب ہوئیں ۔عام طور پر جب پسماندہ طبقات کے ساتھ اتحاد کی بات ہوتی ہے تو ایک سوال ضرور کیا جاتا ہے کہ فسادات میں سنگھ یا برہمن وادی طاقتیں انہی پسماندہ طبقات کا استعمال کرتی ہیں ۔ اس جواب ان کے لیڈروں کی جانب سے بھی دیا گیا اور یہاں بھی اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے ۔اول یہ کہ ہم نے اسلام کے مساوات کے سبق کو بھلا کر برہمنوں کی طرح ان سے وہی سلوک کیا جو برہمنوں نے ان کے ساتھ روا رکھا ۔دوسرا یہ کہ ہماری جانب سے بھی یہ کوشش کبھی نہیں ہوئی کہ برہمن انہیں استعمال نہ کرسکیں ۔آخر ہاردک پٹیل یہ بول سکتے ہیں کہ گجرات فسادات میں ہماری برادری کو استعمال کیا گیا لیکن اب ایسا نہیں ہوگا ۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ ہاردک پٹیل کی کس نے برین واش کی ؟اسی طرح ہمیں ہر گاؤں ہر شہر ہر محلہ میں کرنے کی ضرورت ہے ۔ کیا ہم نے اس پر توجہ دینے کی کوشش کی ؟ جماعت اسلامی نے آزادی ہند یا تقسیم ہند کے بعد سے اس پر بہت کام کیا ۔انہوں نے مختلف بہانوں سے اس کام کو انجام دیا ۔افطار پارٹی ہمارے یہاں ایک سیاسی تماشہ بن گئی ہے لیکن جماعت اسلامی نے اسے اسلام کے مساوات کے سبق کو عام کرنے اور مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کے درمیان نزدیکیاں پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا ۔ اسی طرح عید ملن کو بھی جماعت اسلامی نے اتحاد اور یگانگت اور مسلمانوں کی دیگر اقوام کے ساتھ افہام و تفہیم کے ماحول کوبہتر بنانے کیلئے استعمال کیا ۔ اس کے بعد اسعد مدنی ؒ نے ادت راج کے ساتھ مل کر دلتوں اور مسلمانوں کے اتحاد کیلئے ایک پلیٹ میں کھانا کھانے کی تحریک شروع کی تھی لیکن پتہ نہیں وہ تحریک کن اسباب اور کس کے دباؤ کے سبب بند ہو گئی ۔ ابھی پھر سے جمعیتہ العلما نے گجرات میں قومی یکجہتی کانفرنس کا انعقاد کیا تو اس میں بھی وامن میشرام کو مدعو کرکے برہمنزم سے ملک کو درپیش خطرات کو عوام کے سامنے لانے کی کوشش کی ۔یہ ساری کوششیں مثبت ہیں ۔ عجلت اور افراتفری میں کچھ نہیں ہوتا ۔ تحریکیں برسوں چلتی ہیں تب کہیں جاکر اگلی نسلوں کو اس کا فائدہ ملتا ہے ۔ اس لئے بہتر ہے کہ ان پسماندہ طبقات کی سیاسی غیر سیاسی تحریکوں سے مسلمان جڑیں اور اپنی سیاسی لیڈر شپ کی جانب بھی توجہ دیں۔کانگریس کے کاندھے کو استعمال کرنا چھوڑ دیں جس نے انہیں ہمیشہ گہری کھائی میں پھینکا ہے ۔یہ وطیرہ چھوڑیں کہ کانگریس کے ساٹھ برس کی منافقانہ روش سے بھی اکتاہٹ نہیں اور اپنا کوئی اپنی پارٹی سے ہی آجائے تو اس کے پل پل اور ہر حرکت پر خورد بین اور دوربین سے نظر رکھنے کی کوشش کریں اور دوسروں کی پھیلائی گئی بدگمانی کا شکار ہو کر اپنی کلہاڑی سے اسی شاخ کو کاٹنے کی کوشش کریں جس پر بیٹھیں ہیں ۔ اگر یہی صورتحال رہی تو قیامت تک ہندوستان مسلمان یہاں کے اس کریہہ برہمنی نظام کا غلام ہی رہے گا آزاد نہیں ہو پائے گا ۔
ہندوستان کے عدم مساوات والے سماج میں مسلمانوں کو اپنی پوزیشن بنانا مشکل نہ تھا لیکن مسلم سلطنتوں کے زوال کے بعد انگریزوں کے ابتدائی دور میں تو لیڈر شپ کچھ بہتر رہی جس نے مسلمانوں کو سنبھالااور حالات اتنے برے نہیں ہوئے جتنے آج نظر آرہے ہیں ۔ لیکن جیسے ہی گورے انگریزوں سے آزادی کی تحریک چلی اور اس تحریک میں مسلمان صف اول میں نظر آئے ملک کے عدم مساوات کے مبلغین کی نظر میں وہ آگئے انہوں نے بڑی چالاکی سے دھیرے دھیرے اس تحریک کو اپنے حق میں موڑ لیا ۔اس دور کے سادہ لوح مسلم لیڈر جب تک سمجھ پاتے تب تک وہ خلافت تحریک کے بہانے مسلمانوں کی تحریک پر قابض ہو چکے تھے ۔اس سلسلے میں ان کی اس چال کو کوئی سمجھ سکا تو وہ تھے محمد علی جناح لیکن پاکستان کی تخلیق اور ملک کی تقسیم کا سارا ٹھیکرا انہی کے سر پھوڑ دینے کے سبب وہ ایک ایسی شخصیت بنادیئے گئے ہیں کہ جناح کے تعلق سے آپ نے کوئی بات زبان سے نکالی تو صرف ملک دشمن ہی قررنہیں دیا جائے گا بلکہ فتوے بھی صادر کئے جائیں گے ۔ مطلب آپ کبھی تاریخ میں جھانکیں نہیں بس جو کچھ آپ کو اسکرپٹ دے دیا گیا ہے اسی پر یقین کرتے چلے جائیں اور سر دھنتے رہیں ۔ کبھی بھی یہ دیکھنے کی کو شش نہ کریں کہ اکابرین نے کیا سیاسی غلطیاں کیں جس کے سبب آج مسلمانوں کا یہ حال ہے ۔ بہر حال اس پر پھر کبھی گفتگو ہو جائے گی فی الوقت اوپر جس دوسری میٹنگ کا حوالہ دیا گیا اس میں بامسیف نام کی ایک غیر سیاسی تنظیم میں مسلمانوں کی شمولیت پر گفتگو موضوع بحث ہے ۔ اس تنظیم کی سیاسی جماعت بھی عنقریب لانچ ہونے والی ہے ۔ اس لئے کئی افراد یہ کہہ رہے تھے کہ ہم اس سیاسی جماعت میں ہی شامل ہوں ۔ بامسیف نام کی غیر سیاسی تنظیم میں شامل ہو کر کیا ملے گا ۔ ایک صاحب یہ کہنے لگے کہ ہمیں اس میں شمولیت سے پہلے ہی شرائط طے کرلینے چاہئیں ۔ ان کی باتوں سے یہ اندازہ ہوا کہ وہ لوگ یا مسلمان اس پوزیشن میں ہیں کہ کوئی بھی انہیں ہاتھوں ہاتھ لے گا ، لیکن ایسا نہیں ہے ۔ مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ ان کا ایمان اللہ سے تو ڈانوا ڈول ہو جاتا ہے کہ وہ توحید پرست ہیں پھر بھی اللہ ان کی مدد نہیں کررہا ہے ۔ لیکن کانگریس سے ان کا ایمان متزلزل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ۔ مسلمانوں کی ایک جماعت تو جیسے اس کی غیر مشروط حمایت کے ایجنڈے پر اس حالت میں بھی قائم ہے جبکہ سب کہہ رہے ہیں جو کیا دھرا ہے کانگریس کا ہی ہے ۔ بامسیف جیسی تنظیمیں کھلے عام کہتی ہیں کہ بی جے پی سے زیادہ کانگریس برہمن بنیا پارٹی ہے جس سے مسلمانوں سمیت کسی بھی پسماندہ طبقہ کو تباہی کے سوا نہ کچھ ملا ہے اور نہ ہی آئندہ کچھ ملنے والا ہے ۔ کانگریس کا وہ منافقانہ کردار اسکے ابتدائی دور سے ہی ہے اور وہ آج بھی اس پر قائم ہے ۔
جس طرح مسلمان منتشر ہیں اسی طرح پسماندہ طبقات بھی مختلف خیموں میں منقسم ہیں ۔ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا تعلیم یافتہ بنو ، متحد ہو اور احتجاج کرو۔پسماندہ طبقہ تعلیم حاصل کررہا ہے احتجاج بھی شدید کرتا ہے لیکن متحد نہیں ہوتا ۔مسلمانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ تعلیم ،اتحاد اور احتجاج تینوں سے دور ہیں ۔اس صورت میں ان کے پاس صرف ایک راستہ ہے کہ وہ پسماندہ طبقات کے ساتھ اتحاد پر زور دیں۔پہلے ان کے ساتھ شامل ان کی لڑائی میں شامل ہوں ۔اپنا رونا رونے سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ دیگر پسماندہ طبقات اور مظلوموں کی قوت اور ان کے مددگار بنیں ۔ایسا کچھ جگہوں پر مسلمان کر بھی رہے ہیں ۔اس سے سنگھ اور اس کی تنظیمیں حواس باختہ بھی ہیں ۔میں یہاں اس کی مثال نہیں دوں گا کہ کہاں کہاں مسلمانوں نے ایسا کیا ہے۔لیکن جہاں نہیں ہے وہاں وہاں مسلمانوں کو اس جانب آنا ہی پڑے گا ۔شکر ہے کہ بیداری آئی ہے اور اس نہج پر گفتگو شروع ہوئی ہے ۔کئی جگہ پر اس کے اچھے نتائج نظر بھی آئے ہیں ۔بامسیف کے ایک رکن نے بتایا کہ اتر پردیش میں بامسیف نے زمینی سطح پر کام کیا اور نتائج سامنے آئے کہ بی جے پی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن بکاؤ میڈیا کے سبب اس حوصلہ بخش خبر کو بی جے پی کی فتح کے طور پر پیش کیا گیا ۔جبکہ زمینی حقیقت یہ تھی کہ شہری اکائیوں میں بی جے پی نہیں سماج وادی ،بہوجن سماج وادی اور دیگر قوتیں فتح یاب ہوئیں ۔عام طور پر جب پسماندہ طبقات کے ساتھ اتحاد کی بات ہوتی ہے تو ایک سوال ضرور کیا جاتا ہے کہ فسادات میں سنگھ یا برہمن وادی طاقتیں انہی پسماندہ طبقات کا استعمال کرتی ہیں ۔ اس جواب ان کے لیڈروں کی جانب سے بھی دیا گیا اور یہاں بھی اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے ۔اول یہ کہ ہم نے اسلام کے مساوات کے سبق کو بھلا کر برہمنوں کی طرح ان سے وہی سلوک کیا جو برہمنوں نے ان کے ساتھ روا رکھا ۔دوسرا یہ کہ ہماری جانب سے بھی یہ کوشش کبھی نہیں ہوئی کہ برہمن انہیں استعمال نہ کرسکیں ۔آخر ہاردک پٹیل یہ بول سکتے ہیں کہ گجرات فسادات میں ہماری برادری کو استعمال کیا گیا لیکن اب ایسا نہیں ہوگا ۔ قابل غور پہلو یہ ہے کہ ہاردک پٹیل کی کس نے برین واش کی ؟اسی طرح ہمیں ہر گاؤں ہر شہر ہر محلہ میں کرنے کی ضرورت ہے ۔ کیا ہم نے اس پر توجہ دینے کی کوشش کی ؟ جماعت اسلامی نے آزادی ہند یا تقسیم ہند کے بعد سے اس پر بہت کام کیا ۔انہوں نے مختلف بہانوں سے اس کام کو انجام دیا ۔افطار پارٹی ہمارے یہاں ایک سیاسی تماشہ بن گئی ہے لیکن جماعت اسلامی نے اسے اسلام کے مساوات کے سبق کو عام کرنے اور مسلمانوں اور پسماندہ طبقات کے درمیان نزدیکیاں پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا ۔ اسی طرح عید ملن کو بھی جماعت اسلامی نے اتحاد اور یگانگت اور مسلمانوں کی دیگر اقوام کے ساتھ افہام و تفہیم کے ماحول کوبہتر بنانے کیلئے استعمال کیا ۔ اس کے بعد اسعد مدنی ؒ نے ادت راج کے ساتھ مل کر دلتوں اور مسلمانوں کے اتحاد کیلئے ایک پلیٹ میں کھانا کھانے کی تحریک شروع کی تھی لیکن پتہ نہیں وہ تحریک کن اسباب اور کس کے دباؤ کے سبب بند ہو گئی ۔ ابھی پھر سے جمعیتہ العلما نے گجرات میں قومی یکجہتی کانفرنس کا انعقاد کیا تو اس میں بھی وامن میشرام کو مدعو کرکے برہمنزم سے ملک کو درپیش خطرات کو عوام کے سامنے لانے کی کوشش کی ۔یہ ساری کوششیں مثبت ہیں ۔ عجلت اور افراتفری میں کچھ نہیں ہوتا ۔ تحریکیں برسوں چلتی ہیں تب کہیں جاکر اگلی نسلوں کو اس کا فائدہ ملتا ہے ۔ اس لئے بہتر ہے کہ ان پسماندہ طبقات کی سیاسی غیر سیاسی تحریکوں سے مسلمان جڑیں اور اپنی سیاسی لیڈر شپ کی جانب بھی توجہ دیں۔کانگریس کے کاندھے کو استعمال کرنا چھوڑ دیں جس نے انہیں ہمیشہ گہری کھائی میں پھینکا ہے ۔یہ وطیرہ چھوڑیں کہ کانگریس کے ساٹھ برس کی منافقانہ روش سے بھی اکتاہٹ نہیں اور اپنا کوئی اپنی پارٹی سے ہی آجائے تو اس کے پل پل اور ہر حرکت پر خورد بین اور دوربین سے نظر رکھنے کی کوشش کریں اور دوسروں کی پھیلائی گئی بدگمانی کا شکار ہو کر اپنی کلہاڑی سے اسی شاخ کو کاٹنے کی کوشش کریں جس پر بیٹھیں ہیں ۔ اگر یہی صورتحال رہی تو قیامت تک ہندوستان مسلمان یہاں کے اس کریہہ برہمنی نظام کا غلام ہی رہے گا آزاد نہیں ہو پائے گا ۔
0 comments: