شاہد انصاری کے لئے اکیاون ہزار کے انعام کا اعلان کرنے والے خود روپوش

11:48 AM nehal sagheer 0 Comments


جیسا کہ پچھلی بار ہم نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ شاہد انصاری کی رپورٹ پر تھوڑی تفصیل سے روشنی ڈالیں گے ۔ ہماری کوشش ہو گی کہ اس بار ہم آپ کے سامنے پوری سچائی لانے کی کوشش کریں ۔شاہد انصاری ایک نوجوان صحافی ہے جو الیکٹرانک اور پرنٹ دونوں میں ہی یکساں معروف ہے ۔ یہی سبب ہے کہ جب ہمارے یہاں کے مذہبی مافیا نے اس نوجوان صحافی کی حوصلہ شکنی کے لئے اس پر شکنجہ کسنے کی کوشش کی تو اس کی مدد کے لئے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے صحافی اس کے سامنے ڈھال بن کر کھڑے ہو گئے اور یوں ہماری مذہبی مافیا کو اس بار منھ کی کھانی پڑی۔اردو اخباروں میں یہ اعزاز صرف سیرت کو حاصل ہے کہ اس نے شاہد انصاری کا ساتھ دیا جبکہ دو اردو اخبارات نے چاپلوسی اور تلوے چاٹنے کو اہمیت دے کر اردو صحافت کا نام بدنام کیا ۔ مذہبی مافیا معین الدین اجمیری کے معاملے میں اپنی جزوی کامیابی پر شاید ضرورت سے زیادہ پرجوش تھا اور اسی جوش نے اس بار اس سے پھر پے در پے ایسی حرکتیں کروائیں کہ وہ خود دام میں آگیا اور اب انشاء اللہ تعالیٰ وہ اپنے انجام کو پہنچے گا ۔انجمن اسلام کی جگہ پر قبضہ کئے جانے کا معاملہ کوئی آج کا نہیں ہے یہ کافی پرانا ہے لیکن مذہبی مافیا سیاسی سرپرستی کے سبب اس پر قبضہ جمائے بیٹھا تھا اور انجمن کے ذمہ داران کی بھی اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھا سکیں یا عدالت کا ہی دروازہ کھٹکھٹا سکیں ۔ایک اردو صحافی نے بتایا کہ آف دی ریکارڈ ڈاکٹر ظہیر قاضی نے ان مذہبی مافیا کی شکایت کرتے ہوئے ان سچائیوں پر سے بہت پہلے پردہ ہٹایا تھالیکن اس مخصوص مافیا کے خوف سے وہ کچھ بھی آن ریکارڈ بولنے کے لئے راضی نہیں تھے ۔اصل میں سیاسی سرپرستی کی وجہ سے یہ مذہبی مافیا اتنا آزاد اور سرپھرا ہو گیا تھا کہ اس کی دہشت معاشرے پر کسی انڈر ورلڈ مافیا سے کم نہیں تھی ۔مذہب کے لباس میں ان کی غنڈہ گردی کا عالم کیا ہے اس کا اندازہ آپ اسی سے لگا سکتے ہیں کہ انجمن اسلام جیسا مضبوط اور منظم ادارہ بھی اس کے خلاف آواز اٹھانے یا عدالت جانے سے گھبراتا تھا ۔لیکن اللہ تعالیٰ دنیا کے حالات بدلتے رہتے ہیں اس کا کہنا ہے کہ ’’اگر دنیا میں ایک کو دوسرے سے ٹھکانے نہ لگاتے رہیں تو یہ دنیا فساد سے بھر جائے ‘‘۔جب اس مذہبی مافیا کا فساد بھی حد سے آگے بڑھنے لگا تو اللہ نے مہاراشٹر میں حکومت کو ہی بدل دیا اور یوں ان کے خلاف کارروائی ممکن نظر آتی ہے ۔لیکن پولس کا محکمہ اتنا بگڑ چکا ہے وہ جلدی نئے اثرات قبول نہیں کرتا لہٰذا پرانے سیاسی آقاؤں کے اشاروں پر شاہد انصاری کے خلاف تین مختلف جگہوں پر ایف آئی آر درج کرایا گیا۔یہاں ہمیں پھر ایک بار پولس محکمہ میں سدھار کی ضرورت کا احساس شدت سے ہو رہا ہے ۔قریب تھا کہ پولس شاہد انصاری کے ساتھ بھی وہی کچھ کرتی جو کہ معین الدین اجمیری ایڈیٹر پرنٹر پبلشر اور مالک ہفتہ روزہ سیرت کے ساتھ کرچکی تھی یعنی انہیں انڈر گراؤنڈ ہونا پڑا تھا ۔لیکن صحافتی برادری کے اتحاد نے پولس کو گھٹنوں بیٹھنے پر مجبور کیا اور اسے صحافیوں کے تلخ سوالات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔پھر صحافیوں نے وزیر اعلیٰ دیوندر فڑنویس سے ملاقات کرکے بھی شاہد کے خلاف ایف آئی آر کی حقیقت بتائی ۔معلوم ہوا کہ ایک پریس کانفرنس میں ایک صحافی نے ڈا ئریکٹر جنرل پولس سے سوال کیا کہ شاہد انصاری کے خلاف دوسرے تھانوں میں کب ایف آئی آر درج ہو رہا ہے ۔اس سوال کے پیچھے چھپا ایک سخت طنز تھا کہ آیا شاہد کے خلاف اول تو ایف آئی آر کاجواز کیا تھا اور وہ بھی تین جگہوں سے جسے شاید ڈائریکٹر جنرل سمجھ گئے اور انہوں نے کہا کہ چاہے سو ایف آئی آر درج ہو لیکن بغیر تفتیش کے کارروائی نہیں ہو گی ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ ایسا ہر معاملہ میں ہوتا ۔لیکن ایسا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا جب تک پولس کا محکمہ سیاسی اثرات سے آزاد نہیں ہوتا ۔
اوپر ہم نے جا بجا مذہبی مافیا کا لفظ استعمال کیا ہے اور آئندہ بھی اس طرح کے معاشرے اور قوم کے کلنک کا تذکرہ ہو گا تو ان کے لئے یہی لفظ استعمال ہو گا ۔جن کے بارے میں ہم نے مذہبی مافیا لکھا ہے ۔انہیں سیرت بہت پہلے سے ایک اور لفظ سے مخاطب کرتا رہا ہے اور وہ ہے نابالغ پیر ۔لیکن ایسے لوگوں کے لئے مذہبی مافیا کا لفظ ہی زیادہ مناسب ہے ۔سفید کپڑوں میں ملبوس قوم کی یہ کالی بھیڑیں قوم کے اجتماعی مفاد میں تو کبھی متحد نہیں ہو تیں لیکن سیاسی آقاؤں کے اشاروں پر یہ لوگ ضرور حرکت میں آتے ہیں ۔اپنی انہی خدمات جلیلہ کے سبب انہیں راجیہ سبھا کی کرسی تک بھی پہنچنے کا موقعہ ملنے والا تھا کہ اسی دوران آزاد میدان سانحہ رونما ہو گیا اور یوں ان کی حسرت ناکام ان کی زندگی کا حصہ بن کر رہ گئی۔انہوں نے ہفتہ روزہ سیرت کی حق گوئی کا گلاگھونٹنے کی کوشش کی ۔جیسا کے اوپر ذکر ہوا کہ سیرت کے مدیر مالک ایڈیٹر پرنٹر پبلشر پر بھی ایک رپورٹ کی اشاعت کے خلاف ان کے مریدین نے تین مختلف جگہوں پر ایف آئی آر درج کروا کر پولس پر گرفتاری کے لئے دباؤ بھی ڈالا اور پولس سیاسی اثرات کی وجہ سے حرکت میں بھی آئی لیکن معین الدین اجمیری نے خود کو گرفتاری سے بچنے کے لئے انڈر گراؤنڈ کروا لیا ۔لیکن مدیر سیرت نے ہائی کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری لے لیا یوں وہ گرفتاری سے بچ گئے ۔اس دوران جب معین الدین اجمیری گرفتاری سے بچنے کے لئے زیر زمین تھے ناگپاڑہ سے نہال صغیر اور محمود انصاری کو فون آیا کہ معین اجمیری کا پتہ بتاؤ ۔ایسا وہ اس لئے کررہے تھے کیوں سفید لباس والے قوم کی یہ کالی بھیڑیں انہیں بتا رہی تھیں کہ معین الدین اجمیری سے یہ دو لوگ قریب ہیں ۔لیکن ان دونوں افراد کو خود بھی پتہ نہیں تھا کہ اجمیری کہاں ہیں ۔بہر حال اجمیری صاحب کو ضمانت مل گئی اور توہین شخصیت کے لئے ہر جانہ کا مقدمہ بھی ان کے منھ پر ماردیا گیا یوں ان ساری کاوشوں کے باوجود یہ سیرت یا اس کے مدیر کو زیر نہیں کرسکے ۔اہل بیت سے ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ اہل بیت اطہار اللہ پر کس قدر ایمان رکھتے کہ ان کا ایک پل کے لئے بھی اللہ سے ایمان متزلزل نہیں ہوتا تھا لیکن یہ جھوٹے لوگ اللہ پر کتنا ایمان رکھتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اللہ کے بجائے اپنے سیاسی آقاؤں پر ایمان رکھتے ہیں۔وہ اس طرح کہ ان کے چشم و ابرو کے اشاروں پر خود بھی حرکت کرتے ہیں اور اپنے مریدین کو بھی اس کی پیروی کے لئے کہتے ہیں ۔اپنے مخالفین یا یوں کہہ لیجئے اپنے ناقدین کی دشمنی میں اسقدر آگے جاتے ہیں کہ پولس سے جھوٹے وعدے کرکے اس سے وہ سب کچھ کروانے کی کوشش کرتے ہیں جو پولس کے دائرہ اختیار سے باہر ہے ۔پولس بھی اس لئے یقین کرلیتی تھی کیوں کہ وہ ان کے سیاسی اثرات سے خائف رہتی تھی ۔اسے کیا معلوم یہ ڈھول جو بجتا ہے اس کے اندر کتنا کھوکھلا پن ہے ۔یہ کھوکھلا پن اب اور واضح ہو گیا ہے ۔
اب تو انجمن اسلام بھی نیند یا خوف کے دائرے سے باہر آگیا ہے اور وہ قانونی کارروائی کی شروعات کر چکا ہے ۔ایسے میں ہمارا مشورہ ہے کہ مذہب کو بدنام مت کیجئے ۔مذہبی چولا پہن کر آپ لوگوں نے جس قدر مسلمانوں کو بدنام کیا ہے اور نقصان پہنچایا ہے ۔اس کی تلافی اسی وقت ممکن ہے جب آپ اپنے کئے پر شرمندہ ہوں ۔آپ نے یا آپ کے مریدین نے جو طریقہ اپنایا وہ کسی اسلامی مذہبی گروہ کا کام نہیں ہو سکتا ۔کسی کو ڈرانے دھمکانے کے لئے پولس پر دباؤ ڈالنا کئی جگہوں سے ایف آئی آر کروانا ۔فون پر یا دوسرے ذرائع سے دھمکا نا کہ معافی مانگ لوگ ورنہ انجام ٹھیک نہیں ہوگا ۔یہ تو غنڈے بد معاشوں کا کام ہو تا ہے ۔پولس نے بھی آپ کی سیاسی قوت کا غلط اندازہ کرکے ایف آئی آر درج تو کرلی لیکن اسے بھی آپ کے کھوکھلے پن کا اندازہ ہو گیا ۔مذکورہ صحافہ پر ایف آئی آر کرنے کے بجائے اگر اس نے جھوٹی رپورٹ شائع کی تھی تو عدالت جانا چاہئے تھا ۔آپ کو ہرجانہ کا مقدمہ کرنا چاہئے تھا ماشا ء اللہ آپ کی خدمت میں تو بڑے بڑے وکلا ء حاضری دیا کرتے ہیں ۔یہ الگ بات ہے کہ شیریں دلوی کے میٹر میں نہ تو آپ کے وہ وکل�آگے آئے اورنہ ہی آپ ۔بلکہ آپ تو اس روز موبائل بند کرکے ہی سو گئے اور ایک رپورٹر کے استفسار پر آپ نے بڑی ڈینگیں ماریں کہ ارے میاں میں نے تو موبائل بند کرلیں ورنہ آگ لگ جاتی ۔چلئے ممکن ہے کہ آپ کے پاس وہ قوت ہو جس کا آپ کو زعم ہے لیکن وہ نامی گرامی وکیل جس نے آ پ کی طرف سے توہین کا مقدمہ کیا تھا اور آپ کی زبردست پیروی بھی کی تھی اس کے ذریعہ سے ہی شیریں دلوی کے میٹر میں ایک پٹیشن ڈلوادیتے یا پولس نے مقدمات کئے ہیں اور جو ہائی کورٹ تک پہنچا ہے اس میں مداخلت کرکے شیریں دلوی کی گرفتاری کروادیتے ۔لیکن اپنا تعلق اہل بیت سے جوڑنے والے اہل بیت سے کتنا لگاؤ رکھتے ہیں یا حب رسول ﷺ کا دعویٰ ان کا کتنا سچا ہے اس کا اندازہ لگائیں کہ نہ وہ خود اور نہ ہی ان کا کوئی وکیل اس مقدمہ میں کبھی دکھا جو خالص توہین رسالت ﷺ کا مقدمہ ہے ۔ مطلب صاف ہے اس کی آڑ میں اپنی دنیا داری چل رہی ہے اور اگر کوئی آواز اٹھائے تو اس کو ٹھکانے لگانے کے لئے غنڈے مریدین کی ایک لمبی چوری جماعت موجود ہے ۔لیکن آخر کب تک ؟اب شاید ایسے فرضی اور نابالغ پیروں کا احتساب کا وقت آگیا ہے !ان کے مریدین نے تو انتہا کردی خود سے ہی ایک اشتہار بنا کر شاہد انصاری کو اشتہاری مجرم بنا ڈالا اور اکیاون ہزار کے انعام کا اعلان بھی کیا ۔اس پر بلیک میلر اور اکسٹارشنسٹ کا الزام بھی عائد کیا ۔لیکن جیسے ہی اس مرید کے خلاف سائبر سیل میں شکایت ہو ئی وہ اشتہار فیس بک پیج سے غائب ہو گیا ۔معین الدین اجمیری کے معاملہ میں بھی اسی مرید نے ان پر ایک لاکھ روپئے کا اعلان کیا تھا اور ان پر بھی وہی الزام لگایا تھا کہ وہ بلیک میلر اور اکسٹارشنسٹ ہیں ۔نہال صغیر سے بھی لوگوں نے کئی بار جب یہ کہا کہ معین الدین اجمیری ایسا ہے اور ویسا ہے تو نہال صغیر کے مطابق انہوں نے ایک دن کم از کم بیس لوگوں کو فون کیا یہ جاننے کے لئے کہ کیا معین الدین اجمیری نے کبھی انہیں بلیک میل کیا یا ان سے کسی قسم کی رقم کا مطالبہ کیا ۔ لیکن ایک شخص بھی ہاں کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھا ۔نہال صغیر کا کہنا ہے کہ ممبئی میں اردو کا صحافی ایک دوسرے کو جھولر کہتا ہے مطلب ناجائز کمائی کرنے والا ۔حد تو یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات میں جس کا دامن خود ہی داغدار ہے وہ دوسروں کے دامن کے داغوں کو خوردبین لگا لگا کر لوگوں کو دکھانے کی کوشش کرتا ہے ۔ایک صحافی کو شکایت ہے کہ شاہد انصاری اسے صحافی تسلیم ہی نہیں کرتا بے چارے اس بات سے بہت ناراض تھے ۔اب انہیں کون بتائے کہ اگر شاہد انصاری انہیں صحافی ماننے سے انکاری ہے تو اس میں برائی کیا ہے ؟آخر اردو کے صحافیوں کی اوقات جب اس حد تک گر گئی ہو کہ ایک پانچ سو روپئے کی شراب کی بوتل پر کسی عام انسان کے خلاف خبرکو توہین اہل بیت میں بدل دیا جائے تو اس کے بعد بھی کوئی خود کو اردو کا صحافی کہلوانا چاہے تو اس کی سوچ پر افسوس کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے۔
شاہد انصاری کے معاملہ میں اردو اخبارات کا رول کافی مایوس کن رہا ۔ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ان دو اردو اخبارات نے شاہد انصاری کی سپاری لے لی ہو ۔وہ اسے جھوٹا ہی لکھتے رہے لیکن کبھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ ذرا شاہد انصاری کے موقف کو بھی اخبارات میں جگہ دیتے ۔یہ بد ترین قسم کی صحافتی بد دیانتی تھی جسے اردو اخبارات نے انجام دیا ۔شکر ہے کہ دو کارپوریٹ اخبارات نے اس طرح کی بے سر پیر کی خبر جس میں خبر کم اور چاپلوسی اور تلوے چاٹنے والی بات زیادہ تھی کو قابل التفات نہیں گردانا۔اللہ تعالیٰ اردو کے ایسے بد دیانت صحافیوں کو توبہ کی توفیق عطا کرے ۔آمین۔



شاہد انصاری کا مختصر تعارف 


شاہد انصاری پچھلے نو سال سے الیکٹرانک میڈیا میں ہیں ۔وہ آئی ٹی این نیوز،لیمن نیوز،آر کے بی شو اور نیوز ایکسپریس کے لئے اپنی خدمات دے چکے ہیں ۔آجکل وہ اپنی نیوز ویب سائٹ بامبے لیک کے لئے کام کررہے ہیں ۔انہوں نے کئی بدعنوانی کے معاملات کو بے نقاب کیا ہے ۔چھگن بھجبل کے کولکاتا کنکشن کو بھی طشت ازبام کیا ۔شاہد جیسے نوجوان صحافی کے لئے ضرورت تھی کہ قوم کا ہر فرد اور مسلمانوں کی ترجمانی کا دم بھرنے والے اردو اخبارات اس کا ساتھ دیتے لیکن اس کے الٹ دو اردو اخبارات نے اس کے برعکس فریق مخالف کی حمایت میں خبریں شائع کیں ۔لیکن اللہ نے دشمن کا منھ کالا کیا ۔ادارہ ہفتہ روزہ سیرت شاہد انصاری کے ساتھ ہے اور اس کی ہر طرح سے مدد کرے گا ۔

0 comments: