کشمیر میں خواتین سبھی شعبہ حیات میں اپنا اثر رکھتی ہیں

10:05 PM nehal sagheer 0 Comments


کشمیر میں اب بلبل کشمیر کہی جانے والی حبہ خاتون کے نغموں کے بجائے سلامتی دستوں کی گولیوں اور گرینیڈ کی آواز سے عوام زیادہ مانوس ہو چکی ہے ۔اب وہاں کے لوگ اس کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ اس کا کوئی اثر ان کی زندگی میں کوئی زیادہ اتھل پتھل نہیں مچا پاتا ۔اب کشمیریوں کو ٹھکانے لگانے کے لئے پیلیٹ گن سے اندھا کرنے کی نئی اسکیم پر عمل کیا جارہا ہے ۔جی حالیہ شورش میں کم وبیش چھ سو افراد اپنی بینائی دائمی یا عارضی طور پر کھو چکے ہیں اور کئی ہزار زخمی ہیں ۔کشمیر پچھلی تین دہائیوں سے سخت شورش میں مبتلا ہے ۔بھارتی افواج کی اتنی کثرت ہے کہ ہر چار پانچ کشمیری پر ایک فوجی ہے ۔کشمیریوں کی جائیداد پر فوج کا قبضہ ہے ۔اسکول کالجز تفریحی مقامات سیب کے باغات ہر جگہ فوج نظر آئے گی ۔اتنا ہی نہیں کسی قسم کے شکو شبہ کا سہارا لے کر رات میں یا دن میں کسی بھی وقت وہ کسی گھر میں داخل ہو سکتے ہیں اورہو تے رہتے ہیں ۔قومی سلامتی کے نام پر اس غیر اخلاقی اور غیر انسانی حرکت سے انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے۔ان کو جواز فراہم کرنے اور ان کی ظالمانہ حرکت کی پردہ پوشی کے لئے افسپا جیسا سیاہ قانون موجود ہے ۔ایسے نا مساعد حالات میں کشمیر کی خواتین کی جرات ،ہمت اور ان کے استقلال کی داد دینی ہو گی ۔
تین دہائیوں سے زائد پر مشتمل جنگ زدہ کشمیر میں سلامتی دستوں کے ہاتھوں ہلاک یا اغوا کرکے ہمیشہ کے لئے غائب کردیے جانے والے افراد کی خاندان کی خواتین کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں تھا کہ وہ زندگی کی مشکل گھڑیوں میں جینے کا سلیقہ سیکھیں اور حالات کی ستم ظریفیوں کا حوصلہ مندی کے ساتھ سامنا کریں ۔کشمیر میں ہر شعبہ ہائے زندگی میں انہوں نے مغرب سے الگ طرز پر اپنی پہچان بنائی ۔کشمیر کی تہذیب جس میں اسلامی تہذیب کا عنصر غالب ہے کو قائم رکھتے ہوئے میدان حیات کے سارے مرحلے طے کرنے کی ٹھانی ۔ہمارے دور میں شعبہ حیات کے ترقی یافتہ ورژن میں وکالت ،ہسپتال،کارکن حقوق انسانی اور تعلیم میں ان کی خدمات قابل قدر ہیں ۔اس کی کئی مثالیں ہمارے آس پاس بکھری پڑی ہیں ۔جب سے کشمیر کے حالات دیگر گوں ہوئے ہیں تب سے کشمیری تہذیب و ثقافت کو محفوظ کرنے بچوں کی ہمہ جہت تربیت میں خواتین نے اہم رول نبھایا ہے ۔
شورش کے اس دور میں جبکہ فائرنگ اور کراس فائرنگ میں زخمی اور شدید زخمی ہونے والے افراد کا علاج ان کی نگہداشت کا بیشتر کام کشمیری خواتین نے ہی انجام دیئے ہیں ۔حالیہ تشدد میں بھی جب سارے ہسپتال زخمیوں سے بھر گئے تھے ایسے موقعہ پر کشمیری خواتین ڈاکٹروں اور نرسوں نے ہی علاج میں مشاقی دکھائی ۔اگر ہم صحت کے شعبہ سے خواتین کی خدمات کا تذکرہ کررہے ہیں تو ہمیں نامحالہ افضل گرو کی بیوہ افشاں گرو کا تذکرہ کرنا ہی پڑے گا جنہوں نے اپنے شوہر کی پھانسی کے بعد کس حوصلہ مندی کے ساتھ نہ صرف اپنے آپ کو سنبھالا بلکہ افضل گرو کی واحد نشانی غالب کی پرورش صحیح نہج پر کی اور اس یتیم بچے نے ایس ایس سی میں 95 فیصد نمبر حاصل کرکے سب کو ششدر کر کے رکھ دیا ۔واضح ہو کہ تبسم گرو بھی پیشہ صحت عامہ سے ہی وابستہ ہیں اور نرسنگ ہوم میں نرس کی خدمات انجام دے رہی ہیں ۔ایک بات اور جو قابل تعریف ہے اور جو کسی بھی مسلم خاتون کے لئے قابل افتخار ہے کہ ان کے اخلاق اور عادات کی وجہ سے وہ اپنے ہم پیشوں میں سب سے زیادہ قابل احترام شخصیت ہیں ۔اسی طرح حقوق انسانی کی تحریک سے وابستہ عائشہ جیلانی کا ذکر کیا جانا چاہئے جنہیں ان کی خدمات سے کشمیری عوام میں ایک پہچان تو ملی لیکن امن کے دشمنوں نے انہیں اپنے راستہ کا کانٹا سمجھ کر ایک بم دھماکہ میں انہیں موت سے آغوش کرادیا ۔بہر کسی کی موت سے اس کی خدمات کا شہرہ ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اس کی موت اس کی شہرت میں دو چند اضافہ کردیتی ہے نیز وہ دوسروں کے لئے بھی قابل تقلید بن جاتا ہے۔ایک نام سول سوسائٹی میں اور جانا پہچانا ہے اور وہ ہے پروفیسر حمیدہ نعیم کا ۔کشمیر کے حالات جیسے ہیں ان میں ان خواتین کا کارنامہ کسی بھی طرح نظر انداز کئے جانے کے قابل نہیں ہے ۔جو معاشرہ اپنے محسنوں کو بھلا دے وہ معاشرہ جلد زوال پذیر ہو جاتا ہے ۔لیکن کشمیر ی خاک خو ن میں گزرجانے کے باوجود جس طرح اپنی تہذیب و ثقافت سے پیوستہ ہیں وہ ان جیسی بہادر خواتین کی ہی اخلاص کی برکت ہے۔ 
آسیہ اندرابی جن کے شوہر بھی جیل میں ہیں اور پچھلے پچیس تیس سالوں سے وہ سماجی طور پر جد و جہد کا استعارہ بن چکی ہیں ۔ان کی مقبولیت کی وجہ بھی کشمیری معاشرہ کو تفریح کے نام پر فحش فلموں اور ام الخبائث یعنی شراب کے خلاف کامیاب تحریک چلانے سے ملی ۔مجھے یاد ہے کہ آج سے تقریبا تیس سال قبل انہوں نے اپنی ہم عمر ساتھیوں کے ساتھ شراب کے خلاف تحریک چلائی تھی پہلے تو انہوں نے رائج جمہوری طریقے سے شراب کے خلاف عوام کو بیدا رکیا اور انتظامیہ پر دباؤ بنایا کہ وہ شراب پر مکمل پابندی عائد کرے لیکن نہ سنے جانے پر انہوں نے اپنی ساتھیوں کی مدد سے شراب کی دوکان سے شارب نکال کر اسے سڑکوں پر بہایا اور اس ام الخبائث کو آگ کے حوالے کیا ۔اسی طرح عدلیہ میں بھی خواتین اپنی موجودگی درج کرنے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں ۔آج کے دو کا سب سے اہم شعبہ صحافت ہے ۔اس میں بھی کشمیری خواتین نے اپنی موجودگی درج ہی نہیں کروائی ہے بلکہ اپنا لوہا منوایا ہے ۔اس شعبہ میں ایک معروف نام ہے شگفتہ خالدی کا ہے ۔موصوفہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ نہ صرف کشمیر بلکہ ہندوستان کی پہلی با پردہ خاتون صحافیہ ہیں ۔وہ بنیادی طور پر ایک کارٹونسٹ ہیں لیکن حالات حاضرہ پر ان کے مضامین بھی قابل توجہ ہوتے ہیں ۔انہیں کیرالا اور دہلی پریس کلب کی جانب سے صحافت کا ایوارڈ بھی مل چکا ہے ۔ان کے بارے میں یہ کہنا بیجا نہیں ہوگا کہ انہوں نے صحافت کو ایک معیار عطا کیا ہے ۔آج صحافت سے وابستہ افراد کی پہچان اور ان کے نظریات سے ہم سبھی واقف ہیں ایسے حالات میں شگفتہ خالدی کا اسلامی پہچان یعنی پردہ میں رہ کر خدمات انجام دینا ایک نئے دور کی تخلیق نہیں تو اور کیا کہلائے گا۔بلاشبہ اس طرح اپنے نظریات ،عقائد اور شناخت کے ساتھ صحافت سمیت کسی بھی شعبہ میں اپنی الگ پہچان بنانا ہی حقیقی مومنہ کا کارنامہ ہونا چاہئے جسے شگفتہ خالدی نے انجام دیا ہے ۔ کل ملا کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کشمیر میں خواتین سبھی شعبہ حیات میں اپنا اثر رکھتی ہیں ۔ان اثرات کے لئے انہیں حالات نے صنف نازک سے مضبوط قوت ارادی والی فولادی شخصیت میں تبدیل کیا ہے حالات کی نامساعد ی نے نیز ان حالات سے نبرد آزما ہونے کی قوت عطا کی اللہ کے پسندیدہ دین اسلام نے ۔

0 comments: