’’عالمی منظر :دنیا کے مسلمانوں کی آواز ‘‘ ایک دستاویزی کتاب

7:00 PM nehal sagheer 0 Comments


عالمی منظر :دنیا کے مسلمانوں کی آواز 
نام کتاب :عالمی منظر ،دنیا کے مسلمانوں کی آواز 
مصنف:منظر احمد محمد ملا 
صفحات:574 
قیمت :313:00 روپئے
مصنف سے رابطہ : maaviya23@yahoo.in 
مبصر : نہال صغیر 
’’جو لوگ میری کتاب پہلی بار خرید رہے ہیں میں انہیں میں صاف صاف کہہ دیتا ہوں یہ کتاب فرقہ پرست لوگوں اور سیاست میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یا ٹرسٹ کے نام پر جماعت یا فرقوں کی دوکان چلانے والوں کے لئے نہیں ہے ۔یہ کتاب صرف ان کے لئے ہے جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں ،جو اپنی قوم سے ہمدردی رکھتے ہیں ۔اذان ہونے پر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ مسجد ہری ہے یا سفید ،اذان کی آواز سن کر مسجد جاتے ہیں اور ایک مسجد میں جمع ہو تے ہیں ‘‘۔89 مضامین پر مشتمل زخیم دستاویزی کتاب ’عالمی منظر:دنیا کے مسلمانوں کی آواز ‘ میں مصنف منظر احمد محمد ملا نے اپنی بات کے عنوان سے مذکورہ باتیں کہی ہیں ۔جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ عالمی طور پر ظہور پذیر ہونے والے واقعات کا حاصل اور نوجوان مصنف کے اپنے تاثرات ہیں جنہیں دنیا کے مختلف ممالک میں بغرض ملازمت سفر کرنے کے دوران دیکھا یا محسوس کیا جس میں نوے فیصد سے زیادہ معاملات واقعات کا تعلق خالص مسلمانوں سے متعلق ہیں ۔مصنف مرچنٹ نیوی میں ملازم ہیں اس نوعیت سے انہیں دنیا کے بیشتر ممالک میں جانے اور وہاں کے باشندوں سے ملنے کا موقعہ بھی ملا جس سے ان کے تجربات میں اضافہ ہوا ۔مسلمانوں کے خلاف عالمی پیمانے پر جو تعصب اور تنگ نظری پائی جاتی ہے اس کاا نہیں بہت تلخ تجربہ ہے ۔آج کا نوجوان کیا سوچتا ہے ؟ عالمی پیمانے پر مسلمانوں کے خلاف ظہور پذیر ہونے والے واقعات کے سلسلے میں اس کا رد عمل کیا ہے وہ آپ کو مذکورہ کتاب’عالمی منظر :دنیا کے مسلمانوں کی آواز میں پڑھنے کو مل جائے گا ۔جیسے وہ ایک جگہ لکھتے ہیں ’’جب سے دیکھا اپنی اور قوم کی حالت کو تو مصنف بن گیا ،مجھے میری قوم کی حالت دیکھ کر غصہ آتا ہے ۔اسی غصہ میں ہماری قوم کے لوگ اپنے ہاتھوں میں ہتھیار اٹھاتے ہیں ۔میں نے اپنے ہاتھوں میں قلم اٹھانے کا فیصلہ کیا ‘‘۔یہاں مصنف نے واضح کردیا ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی سے مسلم نوجوانوں میں کیا ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے ۔اس کتاب میں موجودہ دنیا میں مسلمانوں کے تعلق سے اور ان کے خلاف ہونے والی ساری سازشوں سے مصنف نے اپنی دانست میں پردہ اٹھایا ہے اس پر گفتگو کی ہے ۔مصنف کا مقصد مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانا اور ایک متحدہ پلیٹ فارم پر لانا ہے ۔اس کے لئے مختلف مثالوں سے انہوں نے اپنی بات سمجھانے کی کوشش بھی کی ہے۔ کتاب کے آخر میں انہوں نے یونائٹیڈ مسلم لیگ نام کی تنظیم بنانے کی بات کی ہے اس کے لئے انہوں نے ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ’’مسلم کے پاس صرف ایک بوتل پانی ہے جو درخت کے پتوں پر ڈال کر ضائع کررہا ہے ،مسلمانوں کو پانی درخت کی جڑ میں ڈالنا چاہئے ‘‘۔ مصنف نے خود کو ایک کردار کے روپ میں پیش کیا ہے اور دنیا کے مسلمانوں سے مخاطب ہیں حالانکہ کتاب میں ناول جیسی کوئی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک دستاویزی کتاب ہے جیسا کہ ہم نے اوپر لکھا ہے ۔کتاب میں کہیں بھی کوئی افسانوی باتیں نہیں کی گئی ہیں بلکہ سچے واقعات کو پیش کیا گیا ہے اس کے باوجود انہوں نے لکھا ہے ’’ کسی کہانی کا ایک کردار ہوتا ہے ۔اسی طرح مجھے بھی اپنی کہانی لکھنے میں ایک کردار کی ضرورت تھی ۔چونکہ میری کتاب کی کہانی میری قوم سے تعلق رکھتی ہے ،اس لئے ایک مسلم کردار ہونا ضروری ہے اس لئے میں نے اپنے آپ کو میری کتاب کا کردار رکھا‘‘۔
بلاشبہ مصنف نے بڑی محنت سے ایک ایک سچائی کو یکجا کرنے کی کوشش کی ہے ۔یہ سب اس لئے ممکن ہو سکا ہے کیوں کہ ایک جنون ہے جو حالات کی وجہ سے اکثر مسلم نوجوانوں میں پایا جاتا ہے لیکن قیادت کے عدم موجودگی کی وجہ سے یہ جنون اور یہ صلاحیتیں برباد ہو رہی ہیں ۔اللہ کے رحم و کرم سے مصنف نے اپنی قوم کے تئیں اپنی فکر مندیوں کو ایک کتاب کی شکل دے کر اسے قوم کو سونپ دیا ہے ۔میں نے جنون اس لئے لکھا ہے کیوں کہ مصنف کو حالات نے کتاب لکھنے کو مجبور کیا ہے ۔اس جنون کی وجہ سے انہوں نے کتاب کی تصنیف میں شاید کسی سے کوئی مدد نہیں لی اس کی کمی قاری کو جا بجا محسوس ہو گی ۔فنی غلطیاں تو اپنی جگہ پر لیکن املا کی غلطیاں بھی بے شمار ہیں ۔جن تصاویر کو ثبوت یا یاد دہانی کے طور پر پیش کیا گیا ہے اسے ڈھنگ سے پیش نہیں کیا گیا وہ تصاویر انتہائی غیر واضح ہیں ۔لکھنے کے انداز کے بارے میں تو انہوں نے اپنی بات میں ہی وضاحت فرمادی ہے کہ یہ بالکل اس زبان میں لکھی گئی ہے جس میں ہم آپس میں گفتگو کرتے ہیں ۔لیکن اس کے باوجود اس کتاب کی تصنیف میں کسی ماہر سے مدد لی جاتی یا کسی پیشہ ور کی مدد ہو تی تو کتاب کی طباعت میں ہونے والی جابجا غلطیاں بار نہ محسوس ہو تیں ۔لیکن ان خرابیوں اور کمیوں کے باوجود بلا شبہ یہ ایک دستاویزی کتاب ہے جو قاری کو خواہ وہ کسی عمر کا ہو اسے نواجوانوں کے درمیان لے جائے گا ان کے خیالات ان کے احساسات سے آشنا کرائے گا ۔آج کا نوجوان قوم کے تئیں کس قدر فکر مند ہے ۔اس عمر جب خیالات میں رومانیت ہوتی ہے وہ کسی فرضی یا حقیقی محبوب کے خیالوں میں کھو یا رہتا ہے اسے کچھ فکر ہوتی ہے تو بس اتنی سی کہ ایک اچھا گھر بینک بیلنس اور ایک خوبصورت بیوی اور بس لیکن وہ قوم کے حالات سے رنجیدہ ہے وہ ان حالات سے قوم کو نکالنا چاہتا وہ قوم کو اس دورمیں لے جانا چاہتا ہے جب اس کا قبال بلندیوں پر تھا ۔آخر میں صفحہ دس سے ایک اور اقتباس حاضر ہے ’’میں نے میری پوری کتاب سچائی اور ایمانداری سے لکھنے کی کوشش کی ہے ۔یہاں وہاں سے لے من گھڑت باتیں بنا کر لوگوں کو بے وقوف بنانے یا ہوا میں بات کرنے کی میں نے بالکل بھی کوشش نہیں کی ہے‘‘۔اس اقتباس کو آپ خواہ کچھ بھی سمجھیں لیکن اسے میں ایک نوجوان کا عزم سمجھتا ہوں جسے وہ بلا کم و کاست آپ کے سامنے پیش کرنے کی جرات کررہا ہے ۔میں نے اس کتاب کے 128 صفحات پڑھ کر اور کچھ مختلف عنوانات کے کچھ مضامین پڑھ کر اپنا تبصرہ پیش کیا ہے ۔اب آپ کتاب خریدیں اور نوجوان مصنف جسے مسلمانوں کے موجودہ حالات نے کتاب لکھنے پر مجبور کیا اس کے خیالات پڑھیں اور جانیں کہ ہماری نوجوان نسل کیا سوچتی ہے ۔اس کے افکار و خیالات کیا ہیں ۔وہ اپنے بزرگوں سے کیا چاہتی ہے ۔اسے مستقبل کے تعلق سے کیا خدشات لاحق ہیں اور وہ خدشات کسقدر حق بجانب ہیں یہ جاننے کے لئے کتاب کا مطالعہ ازحد ضروری ہے ۔جیسا کہ میں اوپر دو مرتبہ اس کتاب کو ایک دستاویزی کتاب قرار دیا ہے ایک بار اور لکھتا ہوں کہ یہ ایک دستاویزی کتاب ہے جس کا مطالعہ بے حد ضروری ہے ۔کتاب کے مطالعہ کے بعد آپ مصنف سے مختلف طریقے سے رابطے میں آسکتے ہیں ۔موبائل فون سے لے کر موجودہ دور کے واٹس ایپ اور فیس بک تک پر مصنف سے رسائی ہو سکتی ہے ۔آپ ان سے اتفاق بھی کرسکتے ہیں اور اختلاف بھی ۔آپ ان سے کسی معاملہ پر اپنی رائے دے بھی سکتے اور ان کی کسی اسکیم میں کمی کی نشاندہی بھی کرسکتے ہیں۔اس سے ان کی دن رات کی وہ محنت کے اثرات نظر آئیں گے جو انہوں نے یہ کتاب لکھنے میں صرف کی ہے جس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ قوم کے حالات بدلنے کے لئے خاموشی کے ساتھ گھٹنے یا صرف چوک چوراہوں اور ایئر کنڈیشن ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر باتیں بنانے سے بہتر ہے کہ جو کچھ ہم سے ہو سکتا ہے وہ کریں ۔انہوں نے ایک کتاب لکھی اور اتحاد امت کے لئے کوشاں ہیں کیا پتہ ان کی یہ کوشش ہی کسی ایسی تحریک کی بنیاد کی اینٹ ثابت ہو جو امت کی نشاۃ ثانیہ کا سبب بنے ۔ایک بات تو کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے ایک پرسکوت جھیل میں اپنی کتاب کے ذریعہ ایک پتھر اچھالنے کی کوشش کی ہے جس سے یقنیاً ارتعاش کی امید ہے اب یہ اور بات ہے کہ وہ ارتعاش کتنی دیر پا ہوگی اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہے ۔لیکن ہم پر صرف کوشش کرنے کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے ہم نتائج کے مکلف نہیں ہیں وہ تو احکم الحاکمین کے قبضہ قدرت میں ہے۔ 

0 comments: