تعلیم کی اہمیت،کتنی حقیقت کتنا فسانہ!

9:10 PM nehal sagheer 0 Comments


ممتاز میر، برہانپور

یہ بالکل صحیح ہے کہ اکثر شر میں خیر کا پہلو بھی ہوتا ہے ۔پھر آج کل تو فلمیں با مقصد بھی بن رہی ہیں۔ایسی ہی ایک فلم تھری ایڈیٹس تھی۔اس فلم میں ایک ڈائلاگ تھا’’کامیاب ہونے کے لئے مت پڑھو قابل بننے کے لئے پڑھو ‘‘حیرت ہے کہ ایک غیر مسلم فلم اسٹوری رائٹرنے تعلیم کا وہ فلسفہ پیش کیا جس سے ہمارے آج کے رہنمایان و دانشوران نا بلد ہیں ۔تعلیم کو کامیابی کا ٹارگٹ بنانے کے نتائج ہی ہیں جو وطن عزیز میں بہار کے ٹاپرس گھوٹالے جیسے گھوٹالے پیش آتے رہتے ہیں ۔اور قابل حضرات جیسے اے پی جے عبدالکلام یہاں عنقاء ہیں ۔
قریب سو سال پہلے علامہ اقبال نے کہا تھا۔اپنی ملت کو قیاس اقوام مغرب پر نہ کر ؍خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی۔مگر غلامی میں نا خوب اتنا خوب ہو جاتا ہے کہ فلسفہ و فطرت کیا شریعت تک بدل ڈالتا ہے ۔بلا شک و شبہ اسلام میں تعلیم کی بہت زیادہ اہمیت ہے اتنی کہ ہر مسلمان مرد وعورت پر تعلیم کا حصول فرض قرار دیا گیا ہے۔اور اس تلقین اور اہمیت کا ہی نتیجہ تھا مسلمان موجودہ سائنس کی بنیاد رکھنے والے بنے ۔یہ جو قرآن میں غور وفکر کی تلقین ہے وہ آخر کس لئے ہے ۔یہی تو ذریعہ تھا جس سے قرن اول میں مسلمان سائنسداں پیدا ہوئے ورنہ اس وقت کالج و یونیورسٹیاں تو تھی نہیں ۔ایک بات اور غور کے قابل ہے کہ وہ جو سائنسی تحقیقات میں چلے گئے ان کا قوم کے عروج میں تو ہاتھ تھاترقی میں تو ہاتھ تھا مگر دین کے غلبے میں قوم کے غلبے میں اتحاد و اتفاق میں ملکی انتظام و انصرام میں کوئی ہاتھ نہ تھا ۔ان کو میدان تحقیق میں آگے بْڑھنے کی ٖفراغت بھی اس وقت نصیب ہوئی جب قوم غلبہ حاصل کر چکی تھی اور ایسے لوگوں کو بٹھا کر کھلا سکتی تھی ۔اسلئے آج جو ہمارے علماء و دانشور ،رہنما یہاں تک کہ ٹٹ پونجئے سوشل ورکر تک تعلیم کو مسلمانوں کے ہر مسئلے کا حل بنا کر پیش کرتے ہیں ،ہم اس سے اتفاق نہیں کرتے ۔اس دماغ میں شدت پیدا ہوئی ہے بابری مسجد کی شہادت کے بعد ،بابری مسجد کی شہادت کو مسلمانوں کے زوال کی انتہا سمجھا گیا تھا۔مگر اب پتہ چلتا ہے کہ غلط ترجیحات نے مسلمانوں کے زوال کے عمل کواور آگے بڑھایا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ تعلیم تعلیم کاقصداً ایسا شور برپا کیا گیا کہ اب ہمیں اس کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں ۔
غار حرا میں حضور ﷺ پر جو پہلی وحی نازل ہوئی تھی اس کا پہلا لفظ اقراء تھا۔ ہمارے دانشور صرف اس لفظ کی بنیاد پر تعلیم کی اہمیت کے سارے افسانے تراشتے ہیں کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ خود حضور ﷺ کاعمل کیا تھا ۔لفظ اقراء پر مختلف مفسرین کے مختلف مواقف ہیں۔ایک مفسر نے لکھا تھا کہ اگر اقراء کے معنی پڑھ لئے جائیں تو کیا جبرئیل علیہ السلام وحی تحریری شکل میں لائے تھے ۔پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ حضور ﷺ پڑھے لکھے تھے مگر اللہ قرآن میں حضور ﷺ کو بنی الامی کہتا ہے ۔پھر سیرت کی کتابوں میں کئی جگہ نزول وحی کی کیفیات بیان کی گئی ہے ۔ حضور ﷺ پر کئی بار صحابہ کرامؓکے سامنے بھی وحی کانزول ہوا ہے ۔صحابہ حضور ﷺ کی کیفیت سے اندازہ لگاتے تھے کہ وحی کا نزول ہو رہا ہے پھر حضور یاد کرنے کے لئے وحی کے الفاظ دہراتے جاتے تھے ۔اس پر اللہ نے حضور ﷺ کو ٹوکا کہ آپ یاد کرنے کی فکر نہ کریں اسے یاد کرا دینا ہمارا کام ہے ۔سارے قرائن اس بات کے ہیں کہ اقراء سے مراد یہاں دہرانا ہے ۔تعلیم کی اہمیت کے لئے ایک اور جملے کو بہت زیادہ استعمال کیا جاتاہے اور وہ ہے علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے ۔زندگی میں جب پہلی بار یہ جملہ سنا تھا تو بہت تعجب ہوا تھا کہ یہ جملہ وہ شخصؐ کیسے کہہ سکتا ہے جس سے بڑا عالم اس دنیا میں نہ ہوا ہے اور نہ ہوگا اب ۲۵؍۳۰ سال سے موضوع اور ضعیف احادیث پرایسی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جو بتاتی ہیں کہ یہ اس وقت کے کسی ’’دانشور ‘‘ کا قول ہے حدیث نہیں۔مگر تعلیم کی غلط ترجیح کے رسیا آج بھی اسے قول رسولﷺ کی شکل میں استعمال کر رہے ہیں۔اور افسوس یہ ہے کہ وارثین انبیاء منہ کھولنے کے لئے تیار نہیں۔
آئیے تعلیم کے تعلق سے رسول اکرم ﷺ کا عمل کیا تھا تعلیم کے چاہنے والوں کو بتائیں۔(۱)اگر اقراء کو اسی معنی میں لیا جائے جس میں آج ہمارے لیڈر علماء و دانشور لیتے ہیں تو حضور ﷺ کو غار حرا سے نکل کر تعلیم کو عام کرنے کی مہم چلانی چاہئے تھی کیونکہ تعلیم کے بغیر توخدا کی وحدانیت کا شعور پیدا کرنا بھی ہمارے رہنمایان کے لئے مشکل ہے ۔حضور ﷺ نے کہا تھا کہ تمام انبیا میں سب سے زیادہ ستایا گیا ہوں۔پورے ۱۳ سال تک حضور اور صحابہ کو مشرکین مکہ ستاتے رہے ٹارچر کرتے رہے ۔یعنی حضورﷺ اور صحابہؓ ہم سے زیادہ ستائے گئے ہم سے زیادہ مارے کوٹے گئے ۔اس زمانے میں نہ سیکولرزم کا وجود تھا نہ جمہوریت تھی نہ انسانی حقوق تھے ۔ان حالات کا شاید تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔بس دانشور نہیں تھے ۔اس لئے اس زمانے میں کسی کے منہ سے تعلیم کا لفظ بھی نہیں سنا گیا ۔حضور ﷺانتہائی یکسوئی سے بس تین باتوں کی تعلیم دیتے رہے (ا) اللہ کی وحدانیت(ب)محمدؐ کی رسالت(ج)آخرت۔چلئے مکہ میں فنڈس نہیں تھے اسلئے تعلیمی ادارے قائم نہیں کئے جا سکتے تھے ۔مگر مدینہ میں ہجرت کرکے حضور ﷺ اسلامی ریاست قائم کردیتے ہیں مگر تعلیمی ادارے قائم کرنے کا خیال نہیں آتا تقریباً دو سال گزر جاتے ہیں تعلیم کا نام لینے سے پہلے حضور مشرکین مکہ سے چھیڑ چھاڑ شروع کر دیتے ہیں۔پھر معلوم ہوتا ہے کہ ابو سفیان کاقافلہ مال تجارت کے ساتھ مکہ کی طرف جا رہا ہے۔اس پر حملے کی غرض سے ۳۱۳ صحابہؓ کے ساتھ مدینہ سے نکل پڑتے ہیں۔میدان بدر تک پہونچتے پہونچتے اطلاع ملتی ہے کہ قافلے کو بچانے کی غرض سے ابو جہل لشکر لے کر میدان بدر میں پہونچ رہا ہے ۔یہ سن کر بجائے سافٹ ٹارگیٹ پر حملہ کرنے کے ’’عشق آتش نمرود ‘‘ میں کود پڑتا ہے اور مشرکین مکہ کے۱۰۰۰ سے بڑے لشکر کو شکست دیتا ہے ۔ہمارے نزدیک معجزہ یہ ہے کہ ان پڑھ لوگوں نے پڑھے لکھے مشرکین کو تاریخی شکست سے دو چار کیا ۔اسلام کی ابتدائی تاریخ میں اب ۱۵ سال بعد تعلیم کا نمبر آتا ہے ۔وہ قیدی جو فدیہ دینے کی حیثیت نہیں رکھتے انھیں کہا جاتا ہے کہ مدینہ کے دس۔ دس افراد کو پڑھنا لکھنا سکھادیں اور آزاد ہو جائیں۔دیکھئے حضور کی ۲۳ سالہ نبوی زندگی میں تعلیم کا نمبر کب آیا؟
(۲)اکثر وبیشتر لوگ اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ بیوروکریسی میں مسلمانوں کی تعداد بڑھانا چاہئے یونین پبلک سروس کمیشن کی کوچنگ کلاسس جگہ جگہ کھولی جانی چاہئے۔ایسا نہیں ہے کہ ہم اس سے اتفاق نہیں رکھتے ۔ہمارا کہنا صرف اتنا ہے کہ مجرد تعلیم مسلمانوں کے لئے مفید نہیں مضر ہے۔اسی لئے ایک بار ایک صاحب سے بحث ہو گئی تھی۔ان کی خواہش تھی کہ وطن عزیز میں بیوروکریسی میں غالب تعداد مسلمانوں کی ہو جائے تو بس قوم کا بیڑہ پار ہے ۔اور یہ خواہش ہر اس لیڈر ،دانشور اور عالم دین کی ہے جوناکارہ ہے عقل سے پیدل ہے ۔ہم نے ان سے کہاکہ صاحب پڑوسی ملک میں تو صد فی صد بیوروکریسی کیا صدر اور وزیر اعظم بھی آپ کے ہیں ۔فوج بھی آپ کی ہے ۔اورتو اور ہیرو سے زیرو اور زیرو سے ہیرو بنادینے والا میڈیا بھی آپ کا ہے ۔آپ پر سب سے زیادہ ظلم میڈیا ہی تو کرتا ہے پھر وہاں حالات یہاں سے زیادہ خراب کیوں ہیں؟آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہاں غیر تھوڑی مار رہے ہیں ہم آپس میں ایک دوسرے کے ہاتھوں مر رہے ہیں اور اپنوں کے ہاتھوں مرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے !تو اس طرح ان کے پاس ہمارے سوال کا کوئی جواب نہیں تھا ۔
(۳)مسلمانوں نے اسپین پر کم وبیش ۸۰۰سال حکومت کی ہے ۔مسلمانوں کے دور حکومت میں اسپین اس دنیا کا سپر پاور تھا ۔اسپینی مسلمان دنیا کی سب سے زیادہ تعلیم یافتہ و ترقی یافتہ قوم تھے ۔دنیا بھر کے طالب علم اسپینی یونیورسٹیوں میں حصول تعلیم کی غرض سے آتے تھے ۔اس کے باوجود انھیں ۱۴۹۲ میں عیسائیوں نے اسپین سے نکال دیا جبکہ عیسائی اس وقت تعلیم کے معاملے میں مسلمانوں سے صدیوں پیچھے تھے ایسا کیوں ہوا تھا؟ ہماری قوم کے لال بجھکڑوں نے کبھی اس کا تجزیہ کیا؟اور جن نتائج تک پہونچے اس کے حصول کی کبھی سنجیدہ کوشش کی؟
(۴)منگولوں نے جب بغداد پر حملہ کیا تھا تو وہ جاہل تھے اور بغداد اور بغدادی عالم میں انتخاب تھے۔بڑی مشہور بات ہے کہ جب ہلاکو خان کی فوجیں بغداد کی طرف بڑھ رہی تھیں تو وہ فلسفیانہ موشگافیوں میں الجھے ہوئے تھے۔وقتاً فوقتاً خلیفہ کو اس کی خبریں دی جا رہی تھیں اور محترم خلیفہ ہلاکو خاں کے مقابلے پر جانے سے پہلے بحث کو انجام تک پہونچادینا چاہتے تھے۔تعلیم کے چاہنے والے شاید اس وقت بھی خوش ہوئے ہوں ۔نہ بحث انجام کو پہونچی نہ خلیفہ ہلاکو کے مقابلے پر گئے ۔ہلاکو خود ہی ان تک پہونچا ۔
(۵) تازہ ترین واقعات ہماری اسی زندگی کے ہیں ۔سپر پاور روس جو خلا کو تسخیر کر چکا ہے چاند تک ہو آیا ہے ،کسی زمانے میں امریکہ جس سے کانپتا تھا ،نے طاقت کے غرور میں افغانستان میں اپنی فوجیں اتار دیں۔۱۰ سال کے اندر اندر انگریزی سے نا بلد ،جدید ہتھیاروں سے نا بلدافغانوں نے نہ صرف یہ کہ اس کو اپنی سرزمین چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا بلکہ اسے ٹکڑے ٹکڑے ہونے پر مجبور کر دیا ۔اب یہی حال دوسری سپر پاور کا بھی ہے۔۲۰۰۸ سے امریکی اکانومی کا جو بھٹہ بیٹھا ہے تو ابھی تک کھڑا نہیں ہونے پایا ہے ۔مگر یہ چونکہ روس سے کئی گنا زیادہ مغرور تھے ۔اخلاقی اعتبار سے روس سے کئی زیادہ گرے ہوئے ہیں ان کے حکمرانوں کے جھوٹ اکثر میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہیں اسلئے ایک طرف میں نہ مانوں کی رٹ لگاتے ہیں دوسری طرف چوری چھپے مذاکرات کے چکر بھی چلاتے ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ وہ جو صدیوں تک دنیا کے حکمراں تھے اب چند صدیوں سے غلام بن کر جی رہے ہیں۔یہ جب حکمراں تھے تو اعلیٰ ظرف تھے اپنے دشمنوں پر کبھی ظلم نہ کیا ۔غلبہ حاصل ہونے کے بعد ان سے انسانوں کاساسلوک کیا۔مساوات سے کام لیا ۔یہاں تک کہ یہ پابندی بھی نہ لگائی کہ تم ہماری طرح جدید ہتھیار نہیں بنا سکتے ،بلکہ مقابلہ کرنے کے برابر کے مواقع دئے۔دنیا کے موجودہ حکمراں کم ظرف ہیں ۔بہادر نہیں بزدل ہیں ۔ڈرتے ہیں کہ یہ کل کے حکمراں کہیں پھر سے نہ اٹھ کھڑے ہوں ۔مسلمانوں نے کبھی اپنے دشمنوں کو من حیث القوم تقسیم کرنے کی کوشش نہیں کی انھوں نے سازشیں کر کر کے مسلمانوں کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا ۔ہمار ی بد قسمتی کہ قوم کی اکثریت غلامی کی نفسیات میں مبتلا ہوگئی ۔وہ اپنی ترقی کے غلبے کا ماڈل بھول گئی اور موجودہ کم ظرف اور بزدل حکمرانوں کی طر ف دیکھتی ہے ۔ان سے ہدایات لیتی ہے۔دنیا پر غلبہ اتحاد و اتفاق بلکہ ’’بنیان مرصوص ‘‘ بننے سے اور جوش جذبہ اور جنون سے حاصل ہوتا ہے ۔پھر قوموں کو ترقی اور عروج علم سے حاصل ہوتے ہیں۔انگریزوں کی غلامی اور ان سے آزادی کو ہی دیکھ لو ۔ہم جب غلام ہوئے اس وقت منتشر تھے اور جب آزاد ہوئے تب متحد تھے اور انگریز ہم کو تقسیم کرکے حکومت کر رہے تھے ۔انگریزوں کا علم ان کی حکومت کی برقراری میں کچھ کام نہ آیا ۔اور اب ان کایہ حال ہے کہ جو سورج کبھی غروب نہ ہوتا تھا اب طلوع ہی نہیں ہوتا۔
                                                                 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔07697376137 

0 comments: