یہ پاسباں ہمارے

11:53 AM nehal sagheer 0 Comments

قاسم سید 
جمہوریت کی جڑ میں برطانوی کالونی نظام ہے اس میں صرف دکھاوے کے لیے جمہوریت کا لبادہ اوڑھا دیاگیا ہے بعض لوگ جمہوریت کامطلب اکثریت کی فسطائیت سمجھتے ہیں۔ برصغیر میں موجودجمہوریت میں کالونیل اور مورثیت کاخمیرپایاجاتا ہے۔ ہمارا منتخب نظام گینگسٹر ڈیموکریسی ہے جس کامزاج خاندانی اور موروثی ہے ۔کیا اس حقیقت سے انکار کیاجاسکتا ہے کہ ملک کی زیادہ تر سیاسی پارٹیاں خاندانی موروثی اوراندرونی آمریت کے تحت چل رہی ہیں۔ ان کے ذریعہ خاندان کی حکومتیں قائم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ اب چونکہ بادشاہت کا نظام لپیٹ دیاگیا ہے ۔ عوام کی حکومت ، عوام کے لیے عوام کے ذریعہ کا پرفریب نعرہ افیم کی طرح کام کرتا ہے۔ سچائی یہ ہے کہ ووٹوں کے ذریعہ خاندانی بادشاہت کا نظام نے جگہ لے لی ہے۔ سیاسی دھڑوں میں منقسم ووٹروں کو ہر الیکشن میں مخصوص خاندان کے حق میں ووٹ ڈالنے کا موقع ملتا ہے یہی حکومتوں پر حتمی فیصلوں اورکلی اختیارات کے مالک ہوتے ہیں۔ پارٹی میں عہدوں کی نامزدگی سے انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم،حکومت کی تشکیل سے حکومت میں وزارتوں اور ذمہ داریوں کی تقسیم تک اختیار ایک یاچند افراد کے پاس ہوتا ہے اور یہ افراد اس خاندان کے لوگ یا ان کے رفقا ہی ہوتے ہیں ۔ انہیں ہائی کمان کہاجاتا ہے جبکہ دیگر لیڈروں کی موجودگی ان کی رائے کو تقویت دینے،انہیں سورج چاندسمجھنے اور سمجھانے ،ان کو خدا کا انعام کہلوانے ،ان کی قیادت وسیاست کو عوام پر مسلط کرانے اور ان کی قیادت ملک ملت پراحسان عظیم ثابت کرانے بھرہوتی ہے ۔ انہیں بھی بخشش کے طورپر عہدے مل جاتے ہیں مگر ان کی زبانیں اورخیالات ہائی کمان کے پاس گروی رکھ لیے جاتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ مختلف ذاتوں اور فرقوں کے نام پر جو لیڈر شپ ابھاری جاتی ہے وہ کمیونٹی سے زیادہ ہائی کمان کی وفادارہوتی ہے۔ اسی کے گن گاتی ہے اور ایسے القاب وآداب ڈھونڈ کر لاتی ہے جو تملق خوشامدکی تمام حدیں پار کرلیتے ہیں اور اس کا سرا غلامی سے جاملتا ہے۔ ان کا سوناجاگنا،اٹھنا بیٹھنا، بچھونا صرف خاندانی بادشاہت کے لیے ہوتا ہے ۔ اگر وہ یہ کام کرنابند کردیں کبھی ضمیر جاگ جائے غیرت اندر سے لعنت ملامت کرنے لگے ،چاپلوسی کوبھی شرم آنے لگے اور غلطی سے کچھ سچی باتیں کرنے لگیں تو خاندانی بادشاہت کے کان کھڑے ہوجاتے ہیںاور بغیر تاخیر کے باہر کاراستہ دکھادیاجاتا ہے۔ یہ اپنے لیے سجدہ تعظیم واجب قرار دیتے ہیں ۔ منکرین کو گمنانی کےعقوبت خانوں میں ڈال دیتےہیں ۔
جملہ معترضہ کے طور پر اس بات کا تذکرہ کرناضروری لگتا ہے کہ ہماری بیشتر مذہبی جماعتوں کا احوال بھی کچھ ایسا ہی ہے جہاں خاندانی وموروثی نظام جاری ہے ۔ کلیدی عہدوں تک کسی اورکے پہنچنے کا تصور بھی گناہ ہے اور کوئی بھی شخص واحد پارٹی ہائی کمان کے منصب سے سرفراز ہوکر احکام وفرامین جاری کرتا ہے اور عقیدت مند اس کی تکمیل کو باعث سعادت ،اجروثواب سمجھتے ہیں ۔ انتخابات کاتماشہ وہاں بھی ہوتا ہے مگر مدمقابل کوئی اور ہو اس کا تصور بھی گناہ کا درجہ رکھتا ہے اور وہ اتفاق رائے سے منتخب ہوکر ملک وقوم کی خدمت کےفریضہ کا بار گراں اٹھالیتا ہے ۔ جمہوریت میں ملوکیت کے اتنے اچھے مظاہرے اور نمونے اور کہیں نہیں مل سکتے ، عوام کا لانعام ہوتے ہیں ۔ بکریوں کی طرح جدھر چاہتے ہنکالے جائے انہیں جان بوجھ کر جاہل رکھا جاتاہے بصورت دیگر آئین کے عطا کردہ حقوق کی ادائیگی کامطالبہ کرنے لگیں جہاں لوگ سراٹھاتے ہیں سرکار ی طاقت کے استعمال سے کچل دیاجاتاہے ۔ برصغیر میں خواندگی کی شرح تشویشناک حد تک کم ہے۔ بادشاہوں نےبھی یہی کیا اور جمہوری بادشاہ بھی اسی راستے پر صدق دلی سے چل رہے ہیں۔ ہرطرح کی سرکاری مراعات کے اولین مستحق ہیں ۔ وی آئی پی کلچر کے موجد ہیں یہ بیمارذہنیت کا نام ہے جسے اشرافیہ طبقہ نے اپنارکھا ہے جب یہ دورے پرنکلتے ہیں توسڑکیں تمام لوگوں کے لیے بند کردی جاتی ہیں۔ خواہ مریض ایمبولنس میں دم توڑ دے۔ حاملہ خاتون اسپتال کے راستہ میں بچہ کو جنم دے ، عوام کو متاثر کرنے لیے شاہانہ طریقے اختیار کرتے ہیں انہیں خوفزدہ مرعوب کرنے لیے سیکورٹی کے حصار میں رہنا پسند کرتے ہیں جبکہ اس ملک کی 80فیصد آبادی زندگی میں کبھی جہاز پرنہیںبیٹھی ۔ حمل سے لے کر انتقال تک بھیک ، امداد اور قرض پر جیتی ہے انہیں مفت صاف پانی مفت انصاف ،مفت صحت خدمات اور بے خطر آبرو باعزت زندگی نصیب نہیں ہوتی۔ پیداہوتے ہی جہدکی چکی میں ڈال دیے جاتے ہیں یہ تاعمر شاور ،کموڈ ،پزا اور کافی سے محروم رہتے ہیں ۔ذاتی سواری کی لذت سے نااشنا یہی مخلوق جمہوری شہزادوں کوپارلیمنٹ پہنچاتی ہے تاکہ ٹھنڈے ماحول میں بیٹھ کر ان کے گرم مسائل حل کرسکیں جنہیں کبھی بجلی کا پنکھانصیب نہیں ہوتا جو گنگا جل سے پیاس بجھاتے ہیں اور وضو کے پانی سے افطار کرتے ہیں۔ ان 68 برسوں میں کبھی ان کی طرف مڑکر نہیں دیکھتے کہ کس حال میں ہیںان کا مقصدصرف اپنے خاندانی مفادات کا تحفظ ہے اس کے لیے سب کچھ گزرتے ہیں۔
اس تناظر میں ملک کے سب سے بڑے سیاسی کنبہ یادو پریوار کا اندرونی جھگڑاسرخیوں میں ہے ،کاجائزہ لیں یہ تماشہ کیوں ہورہا ہے جھگڑے کی بنیاد کیا ہے۔ اس میں عوام کے مفادات کی بات ہے یا اقتدار کی رسہ کشی جس کے نتیجہ میں پورا صوبہ پرغمال محسوس کررہا ہے۔ کس کی چلے کس کا قد اونچا ہے یہ ذاتی وقار ودبدبہ کی لڑائی عوام کے ساتھ سنگین بھداا مذاق ہے ۔ ایک ہی خاندان کے 16افرا کے قبضہ میں اقتدار کی کنجیاں ہیں کوئی ایم پی ہے تو کوئی ایم ایل اے یا ایم ایل سی ملائی دار کارپوریشنوں کے چیئرمین ہیں یا صوبہ میں وزیر بیٹاوزیراعلیٰ ہے باپ پارٹی کاسپریمو چچا یویوپی کی پارٹی اکائی کا صدر اور ایک چچا راجیہ سبھا میں پارٹی لیڈر ایک ہی خاندان کے پانچ افراد لوک سبھا میں ہیں۔ انہیں سلگتے مسائل سے غرض ہے نہ کندھوں پرڈھوکر اقتدار کی ڈولی میں بٹھانے والے کہاروں کی یہ اپنی ضرورت کے لیے نریندرمودی کو گھر میں خاص مہمان کی جگہ دے سکتے ہیں۔ پوری ریاست میںاشتعال انگیزی پھیلانے اور فرقہ پرستوں کو دندنانے کالائسنس، خاندانی وموروثی نظام کو تقویت دینے ،نئی نسل کو اقتدار کی منتقلی کوقبولیت عام دلانے اور جمہوری بادشاہت کے شہزادے کو وارث بنانے کے عمل کے سوا اورکیا نام دیاجائے ۔ اس میں عوام کہاں ہیں اکھلیش یادو نے اس ذہنیت کامظاہرہ کرتے ہوئے یہ رائے دی کہ باہری عناصر جھگڑے پیدا کرتے ہیں یعنی پریوار ہی پارٹی ہے مگر پارٹی پریوار نہیں۔ جب فیصلے خاندان کےچندافراد کے ہاتھوں میں ہوںتوفسطائیت وآمریت  ابھرآتی ہے۔ یہ فیملی ڈرامہ چلتا رہے گا اوراپنے منطقی انجام کوبھی پہنچ جائے گا۔ اقتدار بچانے کے لیے اختلافات کوحسین پیرایہ میں ڈھالا جائے گا اور اس کا ڈراپ سین ہوجائے گا۔
 اس جمہوری کھیل میں مسلمان خود کو بادشاہ گرسمجھ کر خوش ہوتے رہے انہیں باوربھی کرایا گیا۔ مسلم تنظیمیں خم ٹھونک کر یہ اعلان کرتی ہیں اور سیاسی جماعتوں میں اپنا قد بڑھاتی ہیں ۔ مگر اور موجودہ وقت میں ایسی تمام تنظیمیں حاشیہ پر چلی گئیں جوانتخابات میں من وسلویٰ سمیٹنے میں ماہر تھیں مسلمان بادشاہ گر تھا پیادہ بنادیاگیا۔ ان کے مسائل پس پشت  چلے گئے ۔ نئے مسائل پیدا کئے گئے ان میں الجھا دیاگیا۔ کسی کے منھ میں زبان نہیں کہ وہ ان سے معلوم کرے کہ ووٹ تو ہم بھی دیتے ہیں پوری جان کھپادیتے ہیں تمہاری محبت میں کتنے رقیب پیدا کرلیتے ہیں مگراپنی چادر پر بھی بیٹھنے نہیں دیتے۔
مولاناآزاد نے مسلمانوں کو مشورہ دیاتھا کہ وہ اپنی پارٹی نہ بنائیں اورکانگریس جیسی پارٹی سے اپنی تقدیر وابستہ کرلیں مسلمانوں نے ایمانداری کے ساتھ اس ہدایت پر عمل کیا یہ بڑی عجیب وغریب بات ہے کہ ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی کی ایک بھی نمائندہ تنظیم نہیں جو پارٹیاںہیںوہ عوام کااعتماد حاصل نہیں کرسکی ہیں جمہوریت میںانتخابی سیاست ہی تقدیر بناتی بگاڑتی ہے ایسے دور میںجبکہ علاقائی ونسلی بنیاد پرتنظیمیں سرگرم ہیں ، مسلمان آج بھی فتھ کالم بناہوا ہے شاید ایسا وقت آگیا ہے کہ وہ زیادہ کھلے دماغ کےساتھ سوچے اورانتخابی سیاست کے تقاضوں کومدنظررکھ کر جمہوریت کے فیوض وبرکات سے استفادہ کرنے کااہل بنائے ۔ ذوق یقیں پیدا ہوتو غلامی کی زنجیر یں کٹ جاتی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کی حاشیہ برداری نے اچھے قسم کے کچھ آزاد غلام ضرور پیدا کردیے ہیں مگر بحیثیت امت مسائل میں اضافہ ہوتا رہا ہے ۔ اس کا جواب صرف معاہداتی سیاست ہے ۔ جذبات سے نہیں لگاتا رجدوجہد اور پسینہ بہانے سے ہی یہ ہنر پیدا ہوگا ،کیا ہم اس کے لیے تیارہیں۔


qasimsyed2008@gmail.com

0 comments: