منتشر ذہن مسلماں بھی سزا ہے یارب

7:48 PM nehal sagheer 0 Comments

عمر فراہی
umarfarrahi@gmail.com

ایک عام روایت کے مطابق امبیڈکر جینتی کے دن جہاں  پوری دلت برادری میں جشن کا ماحول پایا جا رہاتھا سوشل میڈیا پر کچھ  مسلمانوں میں بھی یہ جوش دکھائی دے رہا تھا کہ امبیڈکر صاحب دلتوں کے ایک ایسے کرشماتی لیڈر تھے جنھوں نے ان کے حقوق کیلئے اپنی پوری زندگی وقف کردی اور آج ان کی کامیاب رہنمائی کی وجہ سے دلت برادری مسلمانوں سے بہتر حالات میں  ہےاس لئے مسلمانوں میں بھی کوئی امبیڈکر جیسا رہنما پیدا ہونا چاہئے- اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر امبیڈکر دلتوں کے مخلص رہنما تھے اور انہوں نے دلتوں کے حقوق کیلئے آواز اٹھائی لیکن یہ کہنا کہ وہ کرشماتی لیڈر تھے صحیح نہیں ہے - دراصل ہندوستان میں دلت ہی نہیں ہندوؤں کی دیگر برادریوں کی بھی عام روایت رہی ہے کہ اگر انہیں پتھروں اور پیڑوں سے بھی فائدہ پہنچا ہے تو انہوں نے اسے اتنی اہمیت دے دی کہ وہ ان کے لیئے دیوتا بھگوان ہو گئے یا کرشماتی نظر آنے لگے- اس لیئے  دلت اگر کہتے ہیں کہ بابا صاحب امبیڈکر ایک کرشماتی اور  کامیاب لیڈر تھے تو ان کیلئے یہ بات جائز بھی ہے اور یہ دلت برادری کی اپنی سوچ ہے - ویسے بھی دلت پچھلی صدیوں تک اس حد تک پچھڑے رہے ہیں کہ ہر وہ شخص جس نے ان کے حقوق کیلئے ان کے مخالف سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی وہ ان کیلئے دیوتا ہوگیا -امبیڈکر تو بہرحال دلتوں کی برادری سے تعلق رکھتے تھے شیرڈی کے سائیں بابا تو مسلمان تھے پھر بھی ہندوؤں کے ایک بہت بڑے طبقے نے انہیں اپنا بھگوان بنا لیا - لیکن اگر مسلمان بھی ایسا ہی سوچتے ہیں تو اس کا مطلب ہم اپنی تاریخ  سے بغاوت کر کے دلتوں یا دنیا کی دیگر مادہ پرست قوموں کی طرح سوچنے لگے ہیں - بلکہ یوں کہا جائے کہ اب اگر ہندوستان میں کوئی کیجریوال اور کنہیا کمارہماری دشمن سیاسی پارٹی بی جے پی کے خلاف بولنا شروع کردے تو ہم اسے بھی اپنا لیڈر یا اس کے پیچھے چلنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں - جبکہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے خلاف یہی آواز اگر خالص ہمارے اندر سے اویسی جیسے لوگ اٹھائیں تو ہماری اکثریت خوفزدہ ہو کر چیخنے لگتی ہے کہ اویسی کو ایسا بولنے کی کیا ضرورت ہے ؟ مگر کیا دلت برادری نے بھی کبھی اپنے لیڈروں کی بےباکی پر نکیر کی ہے - اس کا مطلب یا تو ہم بہت خوفزدہ ہیں یا پھر ہم اپنے مسلمان ہونے کے مقصد اور نصب العین سے بہت دور جاچکے ہیں  - شاید یہی وجہ ہے کہ ہم اپنی اور دوسروں کی ترجیہات اور پسند کی تمیز کرنا بھی بھول چکے ہیں -
اقبال نے اسی تناظر میں کہا تھا کہ

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میںشاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اورالفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکنملاّ کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر بابا صاحب امبیڈکر دلتوں کے اتنے ہی بڑے  کامیاب اور طاقتور لیڈر تھے اور انہیں اپنے لکھے آئین پر بھی پختہ یقین تھا کہ سب کے ساتھ برابر کا انصاف ہوگا تو پھر انہوں نے اپنے مذہب کو کیوں تبدیل کیا ؟ اس کے علاوہ جس مقصد کیلئے بابا صاحب امبیڈکر نے آذادی کی جنگ میں اپنا تعاون پیش کیا اپنے مذہب کو تبدیل کر کے اس آزادی اور بعد کے آزاد ہندوستان پر بھی ایک سوالیہ نشان کھڑا کردیاکہ آزادی اقتدار کی تبدیلی کا عمل تو ہو سکتی ہے انقلاب نہیں-  ہم دیکھ بھی سکتے ہیں کہ اس آزاد ہندوستان میں عدل و انصاف کی ناقدری اور دلتوں پر اونچی ذات کے لوگوں کے ظلم کی وجہ سے ہر سال سیکڑوں دلت خاندان احتجاجاً بودھ مذہب اختیار کر رہے ہیں - امبیڈکر جینتی کے دوسرے دن ہندوستان کے سارے اردو اور انگلش اخبارات نے ممبئ کے امبیڈکر بھون میں امبیڈکر جینتی کے دن روہت وومیلا کی ماں اور بھائی کی ہندو مذہب ترک کرکے بودھ مذہب قبول کرنے کی خبر شائع کی - کیا یہ دلتوں کے لیڈران کے منھ پر روہت کی بے سہارا ماں کا طمانچہ نہیں ہے- آخر ہمارے ایک سو پچیس کروڑ کے وزیر اعظم یا کسی ہندوستان کے سیاسی اور مذہبی لیڈر نے روہت ویمولا کی ماں کو یقین کیوں نہیں دلایا کہ وہ اپنے مذہب پر ہی رہے اس کے ساتھ انصاف کیا جائے گا -اس کے برعکس جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسلمان دلتوں سے بدتر زندگی گذار رہے ہیں کیا انہوں نے آزادی کے بعد  مسلمانوں کے کسی عالم یا سیاسی لیڈر کو اپنا مذہب تبدیل کرتے ہوئے دیکھا اور عام مسلمانوں میں سے بھی ایسے کتنے مسلمان ہیں جو ظلم  اور نا انصافی سے تنگ آکر اپنا مذہب ترک کر رہے ہیں یا خودکشی کیلئے مجبور ہیں؟
یہ کہنا کہ مسلمان دلتوں سے بدتر زندگی گذار رہے ہیں اور ان میں امبیڈکر کے جیسا لیڈر پیدا ہونا چاہئے مسلمانوں کی توہین ہے - اور کہیں نہ کہیں ہم نے زندگی کے معیار کو غیروں کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا ہے - یہ سچ ہے کہ آزادی کے بعد مسلمانوں کی کوئی قیادت نہیں رہی اور ہو بھی نہیں سکتی -بلکہ جب ہم نے ملک کے دلتوں, مسلمانوں اور ہندوؤں کو ایک قوم تسلیم کرتے ہوئے دو قومی نظریے کو رد کر ہی دیا ہے تو اب  مسلمانوں کی الگ سے قیادت کے  انتخاب کا کوئی جواز ہی کہاں بنتا ہے- دوسرے لفظوں میں ایک قوم کا دو قائد اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب کسی قوم کے اپنے اندر بھی تفرقہ اور اختلاف ہو - خوش قسمتی سے پاکستان کے بٹوارے اور محمد علی جناح کی صورت میں یہ اختلاف بھی ختم ہو چکا ہے اب ہندوستانی جمہوریت ہی ہماری محافظ اور پاسبان ہے اور یہاں پر ہر شہری کو یہ حق ہے کہ وہ ناانصافی کے خلاف عدالت سے رجوع کرے ! اب یہ الگ بات ہے کہ ملک کا سارا نظام ہی درہم برہم ہے تو کسی برادری میں کوئی روہت ویمولا ہاردک پٹیل اور کنہیا ہی کیوں نہ پیدا ہو جائیں یہ لوگ بھی بالآخر جئے پرکاش نارائن ڈاکٹر فریدی اور انا ہزارے کی طرح ہی ناکام بنا دیئے جائیں گے - ویسے اسلامی نقطہ نظر سے کسی بھی ملک میں مسلمانوں کا خلیفہ اور حکمراں ہی ان کا قائد قرار پاتا ہے-اتفاق سے اس خلافت کی قبا کو چاک کرنے کا ذمہ دار صرف ترکی کا مصطفیٰ کمال پاشا ہی نہیں ہے اس فہرست میں اور بھی کئی عبقری اور محترم شخصیات  ابلیسی نظام کے فریب میں غرق ہوگئیں - اس میں کوئی شک نہیں کہ قوموں کے فیصلے اکثر ان کے لئے صدیوں تک عذاب بن جاتے ہیں اور تاریخ میں مسلمانوں کے ساتھ  بدترین سے بدترین دن آئے ہیں لیکن یہ مسلمانوں کی استقامت اور خودداری دیکھیں کہ اس کے باوجود انہوں  نے اپنے ایمان اور یقین کا سودا کبھی نہیں کیا-
ہندوستان میں مسلمان آزادی کے بعد سے مسلسل فسادات میں قتل کیا جاتا رہا ہے اور اس کا مقصد ہی یہ رہا ہے کہ یا تو وہ دلتوں کی طرح دبا لیئے جائیں یا جو دلت ہندوؤں کے ظلم سے اسلام کی طرف راغب ہوں مسلمانوں کی خستہ حالت کو دیکھ کر مجبوراً ہندو مذہب میں ہی سکونت اختیار کریں- مولانا مودودیؒ نے تو خیر اپنی کتاب تحریک آزادی ہند میں پہلے ہی مسلمانوں کے انتشار کی پیشن گوئی کر دی تھی- امبیڈکر نے بھی محسوس کر لیا تھا کہ کمزور اور پسماندہ طبقات کیلئے انگریزوں سے آزادی بھی مکمل حل نہیں ہے اور سرکاری طورپر مسلمانوں کی اپنی طاقت بھی صفر ہو چکی ہے وہ دلتوں کو کبھی تحفظ نہیں فراہم کرسکتے جو ہم دیکھ بھی رہے ہیں - شاید اسی لیئے امبیڈکر نے کہا تھا کہ اگر بٹوارہ ہونا ہی ہے تو مسلمان پوری طرح ہندوستان چھوڑ دیں - بعد کے حالات میں فسادات کی تاریخ سے اندازہ ہوتا ہے کہ امبیڈکر نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسلام ہی ایک سچا مذہب ہے بودھ مذہب قبول کر لیا تو اس لیئے کہ ہندوستان میں بودھشٹوں کے تئیں ہمدردی کے جذبات پائے جاتے ہیں جبکہ مسلمان جو خود ایک مشکل دور سے گذر رہا ہے دلتوں کی حفاظت کیا کر سکے گا - شاید امبیڈکر کی نظر میں مذہب کی تبدیلی اور حق کا مطلب عزت اور روٹی کی تلاش تھی اور اسی لیئے دلتوں کو مسلسل مذہب کی تبدیلی کا سہارا لینا پڑ رہا ہے جبکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت ہار کر بھی مسکرانے کی کوشس کرتی ہے - ہم یہ دیکھ بھی سکتے ہیں کہ جس طرح آزادی کے بعد سے ہی مسلمان مسلسل فسادات اور تشدد کے دور سے گذر رہے ہیں اور جس طرح 9/11 کے بعد عالمی دہشت گردی کا بہانہ بنا کر مسلم نوجوانوں کو جیلوں کے اندر اذیت ناک سزا دی گئی اگر ایسا دلتوں کے ساتھ ہوتا تو جیلوں کے اندر قید اب تک ہزاروں روہت وومیلا نے اپنے گلے میں پھانسی کا پھندا لگا لیا ہوتا - مگر کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ اب تک کسی ایک مسلم نوجوان نے کسی جیل میں خودکشی کی - مسئلہ یہ ہے کہ تاریخ میں مسلمانوں کی جو مخلص قیادت سامنے آئی ہے ہمارے اندر چھپی کالی بھیڑوں نے ان کی شبیہ کو بھی تو مشتبہ کرنے کی کوشس کی ہے اور ہم اپنے اندر چھپے ان منافقین کی شناخت کرنے سے بھی قاصر ہیں بلکہ اکثر وہی ہمارا رہنما ہے - اب آپ یہ نہ پوچھنا کہ مسلمانوں میں ایسے کتنے لیڈر پیدا ہوئے اور کتنوں کو ہم نے ذلیل کر کے واپس بھیج دیا اور ہمارے ذہنوں کو کہاں سے موڑا جا رہا ہے - میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آج اگر ہمارے درمیان امام مہدی کا ظہور بھی ہو جائے تو ہماری اکثریت ان کی قیادت کو رد کردیگی - ہم مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری اکثریت آزادی کے بعد سے ہی ہندو شدت پسندی سے خوفزدہ رہی  ہے اور انہیں سیاسی غلبہ نہ حاصل ہونے پائے اس لیئے اس نے ہمیشہ ان سیکولرسٹوں اور دہریوں کا ساتھ دیا ہے جو خود بھی اسلام دوست کبھی نہیں رہے - ایسے میں ہندوستان کے اندر خالص مسلم قیادت کا ظہور کیسے ہو سکتا ہے یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب نہ تو ہمیں آزادی کی جنگ میں شامل ہمارے پرکھوں سے حاصل ہوسکا ہے اور نہ ہی نئی نسل کے قائد اسدالدین اویسی اور مبلغ ڈاکٹر ذاکر نایک ہی دے سکتے ہیں- ہاں ہم بس اتنا کر سکتے ہیں کہ ان کی آواز کو بھی نہ دبا دیا جائے ان کے ساتھ کھڑے رہیں - کسی نے ہندوستانی مسلمانوں کے انہی حالات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا ہے کہ

منتشر ذہن مسلماں بھی سزا ہے یارب
متحد کفر کے ہونے سے بھی ڈر لگتا ہے   

0 comments: