ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی

9:12 PM nehal sagheer 0 Comments


ابو اسامہ

۲۰ جولائی کے اردو نیوز میں محترم عالم نقوی کا مضمون ’’مسلکی منافرت کے پیچھے کون؟ مشن ٹو پاکستان!‘‘نظر سے گذرا ۔مضمون بہت اچھا ہے ،بروقت ہے ۔میں اس سے صد فی صد متفق ہوں ۔ قریباً دس سال پہلے ابن صفی کے شاگرد جناب مشتاق احمد قریشی نے اپنے ڈائجسٹ کے اداریے میں ایک خبر دی تھی کہ پچھلے دنوں پاکستانی طالبان کی حفاظتی دستوں کے ساتھ مڈ بھیڑ میں دس طالبان مارے گئے۔دسوں کی لاشیں جب پوسٹ مارٹم کے لئے اسپتال پہونچی تو معلوم ہوا کہ دسوں کے دسوں غیر مختون ہیں ۔طالبان اور غیر مختون؟جناب مشتاق احمد قریشی نے اس بات پر بڑا دکھ ظاہر کیا تھا کہ میڈیا نے اس خبر کو دبا دیا تھا ۔یہ مسلکی نہیں فکری اختلاف کی انتہا تھی ۔مسلمان اپنے اختلاف میں کتنے گر گئے ہیں یہ اس کی ایک مثال تھی پچھلے دس سالوں میں یقین ہے کہ ہم نے اپنے اختلافات کی مزید انتہاؤں کو چھوا ہوگا ۔صورتحال میں بہتری نہیں ہوئی ہوگی ۔مگر محترم عالم نقوی کے مضمون میں کچھ باتیں مجھے عجیب محسوس ہوئیں۔ایک جگہ وہ لکھتے ہیں’’حق یہ ہے ہم بھی کسی سے کم نہیں ۔مسلکی افتراق کے بھس میں چنگاری ڈال کر ہوا دینے والوں میں ہم بھی پیش پیش ہیں اور دعویٰ ہے کہ جی ہم تو اصلاح چاہتے ہیں جب کہ ان کی ساری بھاگ دوڑ زمین میں فتنہ و فساد پھیلانے تک محدود رہتی ہے‘‘ مثال کے طور پر انقلاب کے شکیل حسن شمسی یا حزب اللہ کا حسن نصراللہ یا ہمارے کچھ بریلوی بھائی ۔عقائد کے حساب سے یہ سب کے سب ایک ہی گروپ میں آتے ہیں۔
ایک مثال مولانا توقیر رضا خان صاحب کی بھی ہے جنھوں نے اپنا سب کچھ داؤں پر لگا کر مسلمانوں میں اتحاد کی کوشش کی اور آج بھی کئے جارہے ہیں۔ ایک دوسری جگہ عالم صاحب لکھتے ہیں ’’آج جو شخص بھی اتحاد کے بجائے افتراق وانتشار کی باتیں کرے اور سارا زور آپ کو یہ بتانے میں صرف کرے کہ فلاں مسلک کے عقائد میں یہ اور یہ خرابیاں ،غلاظتیں اور خلاف دین شریعت باتیں ہیں(اگر واقعی ہوئی تو؟)اسلئے ان سے تو اتحاد ہو ہی نہیں سکتا تو سمجھ لیجئے کہ یا تو وہ مسلمان ہی نہیں ہے خواہ اس کا ظاہر کتنا ہی مشرع کیوں نہ ہویا پھر وہ انہی اسلام دشمن گروہوں کا ایجنٹ ہے ‘‘۔میرے ایک دوست نے برسوں پہلے اردو ٹائمز میں لکھا تھا کہ ہر وہ شخص منافق ہو سکتا ہے جو مسلمانوں کے درمیان افتراق و انتشار کی باتیں کرے یا انتشار کے راستے تلاش کرے ۔ایسے شخص کو نگاہ میں رکھ کر تحقیق کی جانی چاہئے کہ یہ مسلمان ہے بھی یا نہیں ۔ایسا لکھتے وقت میرے دماغ میں وہ تمام واقعے تھے جو عالم صاحب نے اپنے مضمون میں لکھے ہیں بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ۔مگر عالم صاحب نے جس بیباکی کا مظاہرہ کیا ہے وہ میرے بس کی بات نہیں۔فرق بھی تو ہے وہ ایک بڑے صحافی ہیں ۔میں ایک معمولی آدمی۔اس کے باوجود وہ ایسا نہ لکھ پاتے اگر انھوں نے مولانا منظور نعمانیؒ کی ۳۲ سالہ پرانی کتاب ’’ایرانی انقلاب،امام خمینی اور شیعیت‘‘ پڑھی ہوتی ۔میری شدید خواہش ہے کہ وہ یہ کتاب پڑھ لیں اور اس کی تردید میں ایک کتاب لکھ دیں۔ دل تو بچہ ہے جی ۔وہ چاہتا ہے کہ مولانا نعمانی نے جو کچھ۳۲ سال پہلے لکھا تھا جھٹلا دیا جائے ۔(ان کی اولاد تو سب بھولی ہی ہوئی ہے۔)مگر نہیں۔آج عالم اسلام میں ایران جو کچھ بھی کر رہا ہے وہ مولانا منظور نعمانیؒ کے اخذ کردہ نتائج کا ٹھوس ثبوت ہے(۱) ایران کا اخوان کی بجائے بشارالاسد جیسے خاندانی ظالم کے تخت کی حفاظت کرنا (۲)مصر میں مرسی کے بجائے عبدالفتاح السیسی کو اقتدار میں لانا (دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے کاموں میں ایران اور سعودی کی مفاہمت ہو جاتی ہے)(۳) ملا اختر منصور کا ایران سے واپسی پر ڈرون حملے میں قتل کر دیا جانا(۴)’’اسلامی انقلاب ‘‘کے لئے امریکہ جیسے شیطان بزرگ کی حمایت !کیا کیا لکھوں۔ایک دو زخم نہیں جسم ہے سارا چھلنی ۔
ایک بار میرے اسی دووست جس کا اوپر ذکر کر چکا ہوں نے لکھا تھا کہ ایسا لگتاہے کہ آج مسلمانوں کے درمیان ہر چوتھا پانچواں شخص منافق ہے۔عالم صاحب نے مضمون کی گنجائش کے مطابق مثالیں بھی دی ہیں کہ کس کس طرح منافق بنائے اور مسلمانوں کے درمیان گھسائے بھی جاتے ہیں ۔دنیا جانتی ہے کہ قریب سو سال پہلے عرب اور ترکی کے دو منافقوں نے عالم اسلام کو وہ نقصان پہونچایا ہے جو پورے مغرب کی فوجیں مل کر دو دہائیوں میں نہیں پہونچا سکی۔اسلئے میرا خیال ہے کہ جب تک ہم اپنے جسم میں چبھے ہوئے ان کانٹوں کو پہچان کر نکال کر نہیں پھینک دیتے تب تک مریض کا صحت یاب ہونا ممکن نہیں ۔ اور اس کے لئے تمام مسالک کا پتھر دل کیساتھ پوسٹمارٹم کرنا ہوگا ۔۶۰؍۶۰ ،۷۰ ؍۷۰ سالوں سے جن کے دلوں میں اپنے اپنے مسلک گھسے بیٹھے ہیں وہ دین کی خاطر قربانی کیسے دیں گے یہ سب سے بڑا سوال ہے ۔کہا جاسکتا ہے کہ منافق تو حضور ﷺاور صحابہ کے دور میں بھی تھے ۔تو صاحب ان کا سا ایمان نصیب ہو جائے تو منافقین کی کتنی ہی اکثریت ہو وہ سلیپر سیل کی طرح رہیں گے۔ مگر ہم جیسے کچھ ہیں وہ جگ ظاہر ہے ۔ہم میں منافرت منافق ہی پھیلا رہے ہیں اور جاہل مسلمان اس پر جھگڑ رہے ہیں مگر جو منافرتیں حکومتیں پھیلا رہی ہیں اس پر تو عالِم بھی فدا ہیں ۔میرا مشاہدہ یہ ہے کہ خود عالم صاحب صرف حضرت علیؓ کے مناقب گنواتے ہیں۔انھیں بھی خلفاء ثلاثہ سے پرہیز ہے ۔اسلئے سب سے پہلے ضروری یہ ہے کہ ہم خود اپنی تطہیر کریں۔

0 comments: