گرفتاریوں کا مطلب :اسلام کی تبلیغ بند کردو!

9:52 PM nehal sagheer 0 Comments


ابو ارسلان ۔ ممبئی۔abuarsalan03011970@gmail.com
خفیہ محکمہ ،اے ٹی ایس کے بعد حکومت نے بھی پارلیمنٹ میں یہ بات تسلیم کی کہ ذاکر نایک کا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ایک خبر کے مطابق پولس یا خفیہ ایجنسی کی جانب سے یہ کہا گیا کہ ذاکر نایک کی تقریر میں قابل اعتراض مواد تو ہے لیکن اشتعال انگیز یا ملک مخالف کچھ نہیں ہے۔قابل اعتراض تو ہر وہ بات ہوگی جس سے آپ متفق نہیں ہوں اور یہ کوئی بری بات نہیں ہے ۔ہم ایک ایسے شخص کو اسلام کی دعوت دیں جو بت پرست ہو تو یہ بات اس کے نزدیک قابل اعتراض ہے۔حالانکہ اس سے قبل ہی جب بنگلہ دیش کے اخبار ڈیلی اسٹار نے اپنی غلطی تسلیم کرلی تھی تب ہی سارے ہنگامے سرد پڑ چکے تھے ۔میڈیا میں سدھیر چودھری اور ارناب گوسوامی جیسے لوگ کھسیاہٹ مٹانے کے لئے دوسرے ایشوز میں لگ گئے تھے ۔لیکن کچھ ایسے بھی مسلک باز گروپ تھے جو کسی بھی حال میں ذاکر نایک کو پھانسی پر لٹکا دینا ہی چاہتے تھے ۔وہ جانے کہاں سے یہ نکال کر لائے کہ پیس ٹی وی کی ویب سائٹس پرہندوستانی نقشہ سے کشمیر غائب ہے ۔لیکن اس میں کوئی جان نہیں ہونے کی وجہ سے یہ بھی نہیں چل پایا ۔ ابھی ملک میں موجودہ حکومت کی آمد کے بعد سوشل میڈیا پر بھکت کی اصطلاح رائج ہوئی ہے ۔ہمارے یہاں بھی اس کی اچھی خاصی تعداد ہے ۔یہی وہ لوگ ہیں جو حقائق سے چشم پوشی کرکے بھکتوں کے انداز میں ایک ہی سُر میں کچھ بھی کہے جاتے ہیں ۔یہ بھی نہیں سوچتے کہ جو کچھ کہہ رہے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے ۔اس کے نقصانات کیا ہیں ۔ اس سے فائدہ کس کا ہے اور نقصان کس کو ہونا ہے۔
اصل میں ذاکر نایک کا میٹر حکومت کا کھڑا کیا ہوا تھا ہی نہیں یہ میڈیا ٹرائل تھا کسی کے اشارے پر تھا ۔کس کے اشارے پر تھا کون لوگ اس کے پس پشت تھے یہ سب کچھ بے نقاب ہو چکا ہے ۔اس مسئلہ میں گرچہ امت کی یک جہتی قابل قدر تھی لیکن کئی رد عمل کافی تاخیر سے آئے شاید ردعمل کااظہار کرنے والے ہوا کا رخ دیکھ رہے تھے ۔لیکن سب سے پہلے جس شخص نے آتش نمرود میں کودنے کی ٹھانی وہ تھا شمشیر خان پٹھان ۔میری عادت ہے کہ اگر کسی کا رابطہ نمبر یا پتہ ہو تو اختلاف اور اتفاق دونوں صورتوں میں اس سے ملاقات یا بات ضرور کرتا ہوں ۔لیکن مصروفیت اور غم روزگار نے اس بار موقعہ نہیں دیا کہ پتہ ہونے کے باوجود شمشیر خان سے ملاقات کروں لیکن بہر حال دس روز کے بعد ان سے فون پر بات ہوئی ۔ان کو مبارکبار دی کہ جناب آپ نے اس وقت آواز اٹھائی جب کہیں سے کوئی آواز نہیں آئی تھی ۔پھر ان سے پوچھا کہ آپ کی اس جرات پر کسی مسلم تنظیم نے آپ سے رابطہ کرکے آپ کے اس قدم کو سراہا ۔ان کا جواب نفی میں تھا ۔کیا امت کے کسی معاملہ میں اگر کوئی بیباکی سے بولے تو امت کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ اس کاحوصلہ بڑھائے ؟انہوں نے حالانکہ کہا کہ میں نے صرف اس لئے آواز اٹھائی کیوں کہ ذاکر نایک کو صرف مسلمان ہونے اور اسلام کی تبلیغ کی وجہ سے نشانہ بنایا جارہا تھا ۔مجھے کسی کی حمایت کی ضرورت نہیں اور نہ ہی کسی کی مخالفت کی پرواہ ہے ۔میری ان سے اس وقت ملاقات ہوئی تھی جب ذاکر نایک کا معاملہ تھوڑا ٹھنڈا ہو گیا تھا اور اس کو گرم رکھنے کے لئے نئی ممبئی سے ایک شخص کو اس جرم میں گرفتار کیا گیا کہ وہ لوگوں کو مسلمان بنارہا ہے ۔اس کے بعد ایک اور شخص رضوان خان کو بھی اسی جرم میں گرفتار کرلیا گیا ۔اس پر انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ملک میں ایک طبقہ یہ چاہتا ہے کہ ’’ ذاکر نایک کے میڈیا ٹرایل اور یہ دونوں گرفتاری سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ آپ اسلام کی تبلیغ نہ کریں ‘‘۔
دو سال سے جب سے مشرق وسطیٰ میں داعش کا عروج ہوا ہے اس کے کچھ مہینوں کے بعد سے ہی وطن عزیز میں بھی ایک شور بلند ہوا کہ یہاں بھی داعش نے اپنی برانچ کھول لی ہے ۔اس سلسلے میں خوب گرفتاریاں بھی ہو رہی ہیں ۔ لیکن تعجب ہوتا ہے کہ آج تک مجھے داعش کا کوئی رابطہ کار کہیں نظر نہیں آیا یا سوشل میڈیا یا انٹر نیٹ پر اس کی کوئی سائٹ نظر نہیں آئی ۔میں نے اپنے کئی دوستوں سے بھی پوچھا کہ بھائی ذرا بتلاؤ کہ تمہیں کہیں کوئی داعش کی سائٹ یا اس کا رابطہ کار نظر آیا ۔لیکن ان میں سے کسی نے بھی نہیں کہا کہ ہاں اس نے دیکھا یا اس کو داعش کا کوئی رابطہ کار نظر آیا ،یا کسی نے اس سے داعش جوائن کرنے کی بات کی ۔یہی باتیں میں شمشیر خان پٹھان سے بھی پوچھی کہ آپ کو لگتا ہے کہ ہندوستان میں کہیں کوئی داعش کا وجود ہے یا اس کی کوئی برانچ ہے ۔ان کا جواب تھا کہ یہ سب فرضی باتیں ہیں ،ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔میری رائے بھی یہی ہے کہ داعش کا نہ تو ہندوستان میں کوئی وجود ہے اور نہ ہی ان کو اس کی ضرورت ہے ۔یہ مشرق وسطیٰ کے سیاسی حالات کے پس منظر میں سامنے آنے والا گروہ ہے ۔جس کے بارے میں معلومات کا ذریعہ یہودی اور ایرانی میڈیا ہے۔پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اس کا ہندوستان میں وجود نہیں ہے اور یہ خالص مشرق وسطیٰ کا معاملہ ہے تو یہاں اس کے واویلا کیوں مچایا جارہا ہے اور اس کا سہارا لے کر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں کیوں کی جارہی ہیں ؟اس کے پیچھے کی کہانی بس یہ نظر آتی ہے کہ جو لوگ اسلام کو پسند نہیں کرتے ۔جو یہ نہیں چاہتے کہ ہندوستان میں بھی اسلام کو فروغ حاصل ہو انہوں نے یہ سب ناٹک کھڑا کیا ہے تاکہ اس بہانے جو افراد یا تنظیمیں اسلام کی دعوت و تبلیغ میں سرگرم عمل ہیں ان کو پابند کیا جاسکے۔داعش کو پہلے سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم کا گردان کرکے اس کی خطرناکی کو دنیا کے سامنے اور خاص طور پر ہندوستان میں عوام کے بیچ دہشت پیدا کی گئی اور پھر عالم دین سمیت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دین دار مسلم نوجوانوں کی گرفتار یوں کی مہم سے اس کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور پھر وہ وہیں پر آگئے کہ یہ لوگ اسلام پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں ۔اب یہ الگ بات ہے کہ اسلام دشمنوں کا ہر وار الٹا انہی پر پلٹ جاتا ہے ۔یہ نبی ﷺ کے دور سے جاری ہے ۔اس وقت ابو جہل اور ابو لہب اس راہ میں حائل ہونے کی کوشش میں اسلام کو دوسری اقوام تک پہنچانے کا سبب بن گئے تھے ۔آج بھی اس طرح کے لوگ اسلام کی راہ روکنے اور اسلام کے خلاف لوگوں کو برگشتہ کرکے وہی کام انجام دے رہے ہیں۔ایسے حالات آرہے ہیں آگے بھی آتے رہیں گے لیکن اس سے مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔بلکہ ایسے حالات میں تو اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام اور آسان ہو جاتا ہے ۔جہاں ہم نہیں پہنچ سکتے وہاں ہمارا دشمن اسلام پہچادیتا ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ آخر خفیہ محکمہ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ ملک میں افراتفری کا ماحول پیدا کرے اور اس الزام کے تحت کس طرح گرفتار ی عمل میں لاتے ہیں ۔پہلی بات کہ انہیں کیا ضرورت ہے ۔اس کا جواب یہ ہے کہ خفیہ محکمہ تو قومی سلامتی کے نام پر وجود میں آتا ہے یہ ضروری بھی ہے ۔اس سے کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا لیکن جب وہ حکومتوں اور نظریات کی تبلیغ کا مضبوط ادارہ بن جائے تو قابل اعتراض ہی نہیں بلکہ قابل مواخذہ بھی ہے کہ اس نے قومی سلامتی کے فریضے کو پس پشت ڈال کر ملک کے ہی شہری کو اپنا نشانہ بنا نا شروع کرے ۔اب حال یہ ہے کہ کسی ملک کے کسی اور ملک سے دوستانہ تعلقات ہیں تو ان دونوں میں کس طرح دشمنی پیدا کی جائے ۔کوئی نظریہ عوام کو متاثر کررہا ہے تو اس کے خلاف کس طرح گمراہ کن پروپگنڈہ کیا جائے۔یہ سب کچھ آج کی دنیا میں خفیہ ہاتھ والوں کا کام رہ گیاہے ۔جس طرح ان کو خفیہ محکمہ کہتے ہیں اسی طرح یہ پراسرار ہوتے بھی ہیں ۔یہ غائب رہ کر کام کرتے ہیں ۔کسی کا الزام کسی پر تھوپنے کے لئے یہ کسی بھی حد تک جاتے ہیں ۔اس میں کسی کا قتل اور کسی طرح کی دہشت گردی بھی انجام دے سکتے ہیں اور دیتے رہتے ہیں۔ایسے کئی واقعات منظر عام پر آ بھی چکے ہیں نیز روز مرہ کی خبروں پر ذرا دھیان دیں تو ان کے کارنامے واضح ہو جائیں گے ۔داعش کے نام پر انہوں نے جتنے لوگوں کو ٹریپ کیا ہے ان کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ یہ فرضی داعش کے مبلغ بن کر فیس بک یا ٹوئٹر پر اپنا اکاؤنٹ کھولتے ہیں اور جذباتی نوجوانوں کو فرضی ناموں اور فرضی مسائل اور اس کے فرضی حل کے ذریعہ شکار کرتے ہیں ۔اس دوران ان کے پاس یہی سب کچھ ثبوت کے طور پر محفوظ رہتا ہے جس کو یہ میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔یہی سب کچھ یہ کورٹ میں پیش کرتے ہیں لیکن یہ چونکہ فرضی ہوتے ہیں اس لئے عدالت میں دوران جرح ٹک نہیں پاتے لیکن ان کا مقصد پورا ہوجاتا ہے یعنی ملک کے دوسرے باشندوں کے درمیان مسلم نوجوانوں کی خطرناک شبیہ بنانا اور اس طرح کے دیندار مسلم نوجوانوں کا کیریئر تباہ کرنا تاکہ یہ اپنی قوم کی کوئی خدمت نہیں کرسکیں بلکہ یہ خود اس قابل بن جائیں کہ انہیں مدد کی ضرورت پڑ جائے ۔یہی سب کچھ ہو رہا ہے اور ہم اس کا مشاہدہ کربھی رہے ہیں ۔محمد احمد کاظمی کی گرفتاری کے وقت میں نے فیس بک پر محسوس کیا تھا کہ کچھ مسلم نوجوان مشتعل تھے تو کچھ ایسے ہی خفیہ والے انہیں ٹریپ کرنے کی کوشش میں تھے ۔ایسے کسی بھی معاملے میں سوشل میڈیا پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔اس وقت کچھ تو جذباتی اور حالات سے مایوس نوجوان مشتعل ہوتے ہیں لیکن وہیں کچھ فرضی آئی ڈی والے لوگ انہیں مزید اشتعال دلا کر ٹریپ کرتے ہیں ۔داعش کے جس بھوت کا خوف ہمیں دلایا جاتا ہے اس کی بھی حقیقت یہی ہے کہ اس کے پردہ میں مسلمانوں کو خوفزدہ کیا جا سکے ! 

0 comments: