وطن عزیز میں داعش کے بھوت سے اسلام کی راہیں روکنے کا منصوبہ!

9:46 PM nehal sagheer 0 Comments


ابو ارسلان۔ ممبئی

وطن عزیز میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ہنگامہ بپا رہتا ہے ۔شاید یہی ہماری پہچان بھی بن کر رہ گئی ۔ہم اپنی اس پہچان سے یا تو باہر نہیں آنا چاہتے یا ہماری سمجھ ہی اتنی ہے کہ اس کی وجہ سے اس تنگ دائرہ سے باہر نہیں آپارہے ہیں۔ابھی ہمارے یہاں ہر جانب داعش کے بھوت پر گفتگو اور اس کی خطرناکی اور ہیبتناکی کے قصے چھائے ہوئے ہیں ۔خفیہ ایجنسیاں اور حکومت کے دوسرے ادارے اس سے سب سے زیادہ متاثرہیں ۔جبکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلم نوجوانوں میں اس کے اثرات بہت زیادہ ہیں ۔بنگال میں ایک کہاوت ہے کہ مرنے سے پہلے بھوت مت بنو ۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ خطرات کے آنے سے قبل اس سے خوفزدہ مت ہو ۔یہ ہندوؤں کے عقیدے کا ایک حصہ ہے ۔ہمیں اس سے مطلب نہیں کہ یہ بھوت وغیرہ کیا شئے ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے ؟یا یہ کہ اس کا کوئی وجود بھی ہے ؟اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے برادران وطن کی ایک بڑی تعداد کروڑوں دیوی دیوتاؤں کی پرستار ہے ۔ایسی صورت میں کسی قوت سے خوفزدہ ہونا یا اس کی قوت کے سامنے سر بسجود ہونا یا کسی سے فائدہ پہنچنے پر اسے دیوتا کا درجہ دے کر اس کی پوجا کرنا یہاں کے لئے کوئی انوکھی چیز نہیں ہے۔وطنی تاریخ میں بھی ایسے کئی واقعات ملتے ہیں جب لوگوں نے مسلم مجاہدوں کو اپنا نجات دہندہ دیکھ کر اس کی پوجا شروع کردی ۔اب حالت یہ ہے کہ داعش کا خوف لوگوں کے ذہن پر مسلط کرکے شاید ہمارے ارباب اقتدار ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتے ہیں ۔مسلم تاجروں، بادشاہوں یا اولیاء اللہ کے حسن اخلاق اور اسلام کے درس مساوات سے متاثر ہو کر پسماندہ اور محروم طبقات نے بڑی تعداد میں اسلام کے سایہ میں پناہ لی ۔آزادی کے بعد مسلمانوں نے باضابطہ اسلام کی تبلیغ کا کام سنبھالا ۔حالانکہ کئی تنظیمیں آزادی کے کافی پہلے سے اس کام میں سرگرم تھیں ۔اس میں پہلا نام تبلیغی جماعت کا ہے لیکن اس کا دائرہ کار مسلمانوں کی اصلاح تک ہی محدود تھا اور ہے۔اب تبلیغی جماعت ایک عالمی تحریک بن چکی ہے۔اس کے اجتماعات میں لاکھوں افراد کی شمولیت ہوتی ہے ۔یہ بے ضرر جماعت بھی اسلام دشمنوں کو کھٹکنے لگی ہے حالانکہ یہ وہ جماعت ہے جس نے اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھ کر خالص مسلمانوں کی اصلاح کی جانب متوجہ ہے۔اگر اس پر بھی انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں یا اسے بھی پابند کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں تو اس کا مطلب صاف ہے کہ دنیا کے نام نہاد امن کے ٹھیکیداروں کا مسئلہ دہشت گردی نہیں ،اسلام ہے!تبلیغی جماعت سے کئی افراد ایسے میدان عمل میں آئے جنہوں نے انفرادی طور پر غیر مسلموں میں اسلام کی دعوت شروع کی جیسے آجکل مولانا کلیم صدیقی میدان میں ہیں ایک اور مبلغ عبد اللہ طارق بھی اسی کام سے جڑے ہوئے ہیں اور ان اصحاب کی کوششوں سے کئی سعید روحوں کو اسلام قبول کرنے کی سعادت بھی ملی۔اس کے علاوہ بھی کئی اصحاب ہوں گے جن کا نام ابھی ذہن میں نہیں آرہا ہے ۔وہ اللہ کے لئے کام کررہے ہیں وہ انہیں بخوبی جانتا ہے اور وہی انہیں بہترین اجر بھی دینے والا ہے ۔دوسری تنظیم جماعت اسلامی تھی جو آزادی اور تقسیم ہند کے بعد جماعت اسلامی ہند کے نام سے وجود میں آئی ۔اس کا پہلے دن سے ہی مقصد برادران وطن میں اسلام کا تعارف ہے ۔اس سلسلے میں جماعت اسلامی ہند نے سبھی مقامی زبان میں اخبارات و رسائل کے ذریعہ سے اسلام کا تعارف بہتر ڈھنگ سے برادران وطن میں کرایا ۔ اس کے اثرات بھی نظر آتے رہے ہیں ۔لیکن ہوا یہ کہ جب جب برادران وطن کا مسلمانوں کی جانب سے ذہن صاف ہونا شروع ہوا ۔اسلام مخالف قوتوں نے ملک میں کسی نہ کسی بہانے ایک ہیجانی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی ۔جس میں سرفہرست فسادات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ رہا پھر بم دھماکہ اور پھر اس کے بعد دہشت گردی کا فرضی خوف جس کو پوری کامیابی کے ساتھ مسلمانوں اور اسلام سے جوڑ دیا گیا ۔ جماعت اسلامی ہند نے ایک بڑا کام یہ بھی کیا کہ اس نے ساری مقامی زبان میں نہ صرف یہ کہ اسلامی لٹریچر مہیا کرایا بلکہ قرآن کے تراجم بھی کرائے ۔مہاراشٹرمیں ہی جماعت اسلامی مہاراشٹر کی تھوڑی سی کوشش کو ہی دیکھ لیں جو اس نے مراٹھی میں اسلامی لٹریچر اور قرآن کے تراجم مہیا کرانے کے لئے کئے ہیں تو تعجب ہوتا ہے ۔اس مقصد کے لئے اس نے مراٹھی میں ایک پبلیشنگ ادارہ بھی بنایا ہے جس کا نام ابھی یاد نہیں آرہا ہے۔اس ادارہ کی جانب سے قرآن کا مراٹھی ترجمہ اور مراٹھی میں دیگر اسلامی کتب شائع کیا جاتا ہے ۔یہ ادارہ ہر سال ہونے والے مراٹھی ساہتیہ سمیلن میں حصہ لیتا ہے اور اس کی وجہ سے مراٹھی جاننے والوں تک آسانی کے ساتھ اسلام کا پیغام پہنچ رہا ہے۔لیکن اس کے باجود اتنی بڑی آبادی کے لئے یہ ناکافی ہے ۔
حالیہ کچھ برسوں میں ذاکر نایک مبلغ اسلام کی حیثیت سے ابھرے اور انہوں نے نہ صرف یہ کہ اجلاس عام اور چھوٹی میٹنگوں میں اسلام کے بارے میں پھیلے غلط تصورات اور کج فہمیوں کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا بلکہ ایک ٹی وی چینل بھی شروع کیا جس نے بے مثال کار کردگی کا مظاہرہ کیا ۔میری معلومات کے مطابق کناڈا میں ایک عیسائی مشنری کا چینل جو عشروں سے عیسائیوں میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت انگیزی کا سبب بنا ہوا تھا ذاکر نائک کے چینل نے اس کو اس حد تک مجبور کردیا کہ وہ چینل بند کرنے میں اس نے عافیت سمجھی ۔ہوا یہ کہ جب تک اس چینل کو کوئی چیلنج کرنے والا تھا تب تک وہ اپنی پیٹھ تھپتھپاتا رہا لیکن جیسے ہی پیس ٹی وی نے اس کے جھوٹ کے پلندے کو ایک ایک کرکے کھولنا شروع کیا عیسائی عوام نے اس سے سوالات کرنے شروع کئے جس کا جواب اس کے پاس نہیں تھا ۔یہ تو ان کے چینل کی سات سمندر پار کی کارروائی ہے ۔ مقامی طور پر انہوں نے ون مین آرمی کی حیثیت سے بھی کافی نمایاں کام کیا ۔جو بھی پیس کانفرنس میں آتا تھا وہ اسلام کے تعلق سے غلط فہمیوں کا ازالہ کرکے جاتا تھا ۔اس کا دل اسلام کے تئیں نرم ہو جاتا تھا ۔مسلم نوجوانوں میں بھی تیزی کے ساتھ مقبول ہورہے تھے ۔نوجوانوں کے متاثر ہونے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ان کو قرآن و سنت سے حقائق بتانے کی کوشش کرتے جس سے انہیں اپنے دیگر غیر مسلم ساتھیوں کو اسلام کے بارے میں بتانے میں آسانی ہوتی ۔یہ باتیں بھلا اسلام دشمنوں کو کیوں کر ہضم ہو سکتی تھیں ۔سو انہوں نے ان کے خلاف سازشوں کا جال بننا شروع کیا اور پیس کانفرنس میں مسلمانوں میں متنازعہ مسائل کے تعلق سے سوال کیا جانے لگا ۔شاید ذاکر نایک اس کے پس پشت مقاصد کو سمجھ نہیں سکے یا ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس وقت انہیں اردو یا ہندی اچھی طرح سے نہیں آتی تھی جس کی وجہ سے بھی دشمنوں کی سازشیں کامیاب ہوئیں۔بہر حال جو بھی ہو ذاکر نایک کو متنازعہ سوال کرکے گھیر لیا گیا ۔اس کا ہی نقطہ عروج موجودہ فساد ہے جس میں ہمارے بھی کچھ ہاتھ شامل ہیں ۔اللہ انہیں نیک سمجھ عطا کرے ۔
ذاکر نایک کے بعد ایسے کئی لوگ دعوت و تبلیغ کے میدان میں آگئے ۔اس میں ایک اورنگ آباد کے فیض سید بھی ہیں جو تعلیمی لیاقت کے حساب سے ایڈووکیٹ ہیں ۔پیشہ سے وابستہ ہیں کہ نہیں پتہ نہیں لیکن بہر حال دعوت و تبلیغ میں وہ نمایاں کام انجام دے رہے ہیں ۔اورنگ آباد میں ایشیاء ایکپریس کے دفتر میں کسی نے ان سے تعارف کراتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہمارے اورنگ آباد کے ذاکر نایک ہیں ۔اس کے بعد کارواں یہیں نہیں رکا ہے ۔اس میں افراد اور تنظیمیں جڑ رہی ہیں اور یہ آگے بڑھ رہا ہے ۔تقریبا ڈیڑھ سال قبل آئی پلس ٹی وی کے نام سے ایک اور دعوت و تبلیغ کے میدان ادارہ سرگرم ہوا ہے ۔اس سے قبل اس ادارہ کے روح رواں زید پٹیل عرصہ سے اسلامک سینٹر کے ذریعہ اس میدان میں ہیں ۔اس کے تحت وہ غیر مسلموں کو دعوت دینے کا کام بھی کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس کے لئے افراد کی تربیت بھی کرتے ہیں ۔دعوت و تبلیغ کا کام یوں تو ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے لیکن فی زمانہ اس ذمہ داری کو کماحقہ ادا کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کی باریکی کو سمجھا جائے اور حکمت کے ساتھ برادران وطن میں اسلام کی دعوت پہنچائی جائے۔اب زید پٹیل یہی کام آئی پلس ٹی وی کے ذریعہ کررہے ہیں ۔یہ چینل ذاکر نایک کے چینل سے تھوڑا مختلف اس لئے ہے کہ اس میں انہوں نے سماجی موضوعات کے ذریعہ اسلام کا تعارف کرنے کا منصوبہ بنایا ہے جسے وہ آگے بڑھا بھی رہے ہیں ۔لیکن ایسے چینل میں جو پریشانی ذاکر نایک کو تھی وہی پریشانیاں زید پٹیل کو بھی ہیں ۔اس میں اسلام دشمنوں کی طرف سے آنے والی دشواریاں دوسرے درجے میں آتی ہیں ۔پہلی پریشانی اس طرح کے کام میں فنڈ کی کمی کی ہے ۔ لیکن بہر حال جس نے اللہ سے تعلق جوڑ لیا اور اسلام کی تبلیغ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اس کے لئے کوئی پریشانی یا روکاوٹ مانع نہیں ہوتی ۔کیوں کہ اللہ نے صرف پہنچا دینے کی ذمہ داری رکھی ہے ۔یہ کام مبلغین اپنے اپنے حساب اپنے اپنے انداز سے کررہے ہیں ۔اللہ انہیں کامیابی عطا کرے اور ہند کے دیر نشینوں کو مسلمان کردے ۔آمین (اس مضمون کے اگلے حصہ میں یہ بتانے کی کوشش کریں گے کہ داعش کا ہوا کھڑا کرکے کس طرح دعوت و تبلیغ کے اس کام کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جس میں کھلے دشمن سے زیادہ منافقین یا سادہ لوح مسلمان استعمال ہو رہے ہیں )

0 comments: