featured

ہماری سوچ کا دائرہ

2:03 AM nehal sagheer 0 Comments



عمر فراہی ۔ ای میل  :  umarfarrahi@gmail.com
 
ہمارے ایک مضمون غیرت خودداری اور احساس کے ایک اقتباس ’’جب کسی قوم میں احسان کرنے کی اہلیت باقی نہ رہے تو اسے تباہ کرنے کیلئے کسی فوج کی ضرورت بھی کیوں پیش آئے۔بلکہ ایسی قومیں اپنی سماجی اور معاشرتی برائیوں اور خرافات سے کمزور ہوتی رہتی ہے اور اسے یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ رفتہ رفتہ زمانے کی رفتار سے بہت پیچھے جاچکی ہے ‘‘پر ایک قاری نے سوال اٹھایا کہ کیا مسلمانوں کو تباہ کرنے کیلئے کسی فوج کی ضرورت نہیں اور کیا مسلمان واقعی اپنے آپ تباہ ہو رہا ہے ۔دراصل یہ ایک عام بات ہے جو کسی بھی قوم کے زوال کی علامت ہے اور بیشک مسلمان بھی اس اصول کے دائرے سے باہر نہیں ہے، لیکن یہ بات دنیا کے ہرخطے کے مسلمانوں پر صادق نہیں آتی ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جب ہمارے سامنے مسلمانوں کی تباہی وبربادی اور زوال کا تذکرہ آتا ہے تو ہم اسے فوراً آفاقی نظریے سے دیکھنا شروع کردیتے ہیں جبکہ یہی ہماری سب سے بڑی غلطی ہے ۔دنیا کے بیشتر ممالک میں انتشار کی کیفیت ضرور ہے لیکن ہر علاقے کے مسلمانوں کے مسائل اور حالات یکساں نہیں ہیں۔مثال کے طور پر فلسطین میں اگر مسلمانوں کی زمین پر قابض اسرائیلی فوج ظلم اور زیادتی کر رہی ہے تو فلسطینی مسلمان اپنی غیرت اور خودداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کا مقابلہ بھی کر رہے ہیں اور ان کی سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ پچھلے ساٹھ سالوں سے وہ اسرائیلی ٹینکوں اور میزائلوں کے سامنے شیشہ پلائی ہوئی دیوار کیطرح مسجد اقصیٰ کے محافظ بنے ہوئے ہیں ۔ حماس کے ر ہنما اور بانی مرحوم شیخ یٰسین کا ایک مشہور قول ہے کہ جب میں بچہ تھا تو سوچتا تھا کہ یہودی فلسطین پر قابض ہیں لیکن جب میں بڑا ہوا تو میرے خیالات بدل گئے ۔میں نے غور کیا تو پایا کہ یہودی سوائے فلسطین کے ساری دنیا پر قابض ہیں۔شیخ یاسین کے اس ایک جملے میں جو وسعت ہے اسے سمجھنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔دنیا کے ہر دور میں ہمیشہ دو طرح کے لوگ رہے ہیں اور اب بھی ہیں ۔ایک وہ جو دنیا کے نظام کو بدلنے یا امامت کے منصب کی جدوجہد میں اپنی ساری عمر گذار دیتے ہیں اور بالآخر حکومت اور اقتدار کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔اسلامی تاریخ کے ماضی میں بنی امیہ ،بنی عباس ،فاطمی، مغلیہ سلطنت اور سلطنت عثمانیہ کا عروج اسی جدوجہد کا نتیجہ تھی اور انہوں نے ایک شاندار حکومت کی روایت قائم کی ۔سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد عرب میں سنوسی اور وہابی تحریک نے آل سعود کو اقتدار بخشا اور اسکے بعد افغانستان میں طالبان ٹرکی میں نجم الدین اور طیب اردگان کی جدوجہد کے علاوہ جزیرةالعرب میں اخوانی طرز کی تحریکی جدوجہد اپنی کامیابی اور ناکامی کے شدید مرحلے سے گذر رہی ہے ۔ ان کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ تباہی اور بربادی کا شکار ہیں ۔اس کے برعکس ایک گروہ وہ بھی ہے جس نے صرف اپنی روایتی عبادات کے ساتھ باطل سے مصالحت اختیار کر لی ہے اور بیشتر کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ان کا یہ نظریہ اور اطمینان کی حالت ان کی نسلوں کو ارتداد کی طرف موڑ دیگا اور موڑ رہا ہے ۔ہندستان وغیرہ میں یہ سلسلہ تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔فرق اتنا ہے کہ کلمہ لاالہ الا اللہ کی کشتی پر سوار مسافروں کو اپنی کشتی کا چھید نظر نہیںآتا۔ جبکہ اخبارات چیخ رہے ہیں اوریہ بے چینی کشتی والوں میں بھی پائی جارہی ہے کہ وہ عنقریب غرق ہونے والے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بقول شیخ یٰسین یہود و مغرب کی طرز معاشرت اختیار کر رکھی ہے اور وہ اسلام پر ادیان باطل کے خیالات کے ساتھ عمل کرتے ہوئے سیکولرزم کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ سوچ کا یہ فرق دنیا کے ہر خطے کے مسلمانوں کے ذہن میں پایا جاتا ہے ۔مثال کے طور پر ہندوستان کی مسجدوں میں افغانستان اور عراق کے مسلمانوں پر استعماری طاقتوں کے حملے سے نجات کیلئے دعا کی جاتی ہے ،جبکہ وہاں کا مسلمان یہاں کے مسلمانوں کیلئے دعا گو ہے کہ اے اللہ ہندوستانی مسلمانوں کو غلامی کی زندگی سے نجات دلادے ۔ بات یہ بھی ہے کہ بہت سی قوموں کو اپنی بے غیرتی اور ذلت کا احساس بھی نہیں ہوتا ۔اقبال نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے کہ  ؎  قوت فکر و عمل پہلے فنا ہوتی ہے/پھر کسی قوم کی شوکت پہ زوال آتا ہے
مثال کے طور پر روئے زمین پر ایک غیرت مند قوم افغانیوں کی بھی ہے جس نے اپنے بڑے سے بڑے دشمن کے سامنے بھی سر نہیں جھکایا -اقبال نے انہیں کے بارے کہا ہے کہ
افغانیوں کی غیرت ایماں کا ہے جواب
ملا کو کوہ و دمن سے نکال دو
اس کے برعکس ہندوستان میں پسماندہ ذاتیں وہ چاہے مسلمانوں کی ہوں یا ہندوؤں میں سے ہمیشہ ہی بڑی ذاتوں کی نگاہ میں حقارت سے دیکھی گئی ہیں اور ان کے اندر ایک زمانے تک یہ احساس نہیں پیدا ہوسکا کہ وہ بھی انسان ہیں اور انہیں بھی حکومت اور اقتدار میں شامل ہونے کا حق ہے۔ایک بار کا واقعہ ہے ہمارے گھر میں ایک پسماندہ ذات کا شخص آیا اور زمین پر بیٹھ گیا ہم نے کہا کہ بھائی کرسی پر بیٹھ جاؤ ۔ کہنے لگا نہیں بابو ہم یہیں پر ٹھیک ہیں ۔اس کی بات پر مجھے یاد آیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں سے بھی جب یہ کہا جاتا ہے کہ بھائی تمہارے مسئلے کا حل کرسی ہے تو کہتا ہے نہیں ہمیں سیاست اور عدلیہ کی کرسی پر بیٹھے بابوؤں پر اعتماد ہے ۔اگر اعتماد ہے تو پھر پچھلے ستر سالوں سے ان کرسی والوں نےتمہارے ساتھ انصاف کیوں نہیں کیا؟ آخر کیوں بار بار تمہاری فکر اور مذہبی عقائد پر حملہ کرکے تمہارى غیرت اور خودداری کو ٹھیس پہنچایا جارہا ہے؟کیوں وندے ۔۔۔ پڑھنے کی ضد کی جارہی ہے ؟ہم نے تو نہیں دیکھا کہ کسی دور میں کرسی والوں نے اپنے غلاموں کی ازدواجی زندگی میں بھی مداخلت کرنے کی غیر اخلاقی جراءت کی ہو لیکن ہندوستان کے پچیس کروڑ مسلمانوں کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے ۔ تین طلاق کے معاملے میں سپریم کورٹ میں حکومت کی طرف سے داخل کی گئی شکایت پر عدلیہ کی مداخلت پربھٹکل کے مشہور و معروف مبلغ مولانا الیاس ندوی نے اپنے مضمون اگر اب بھی نہ جاگے میں ملک کے مسلمانوں کی تشویشناک صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ملک کے بیشتر علاقوں سے بہت ہی تیزی کے ساتھ عورتوں میں ارتدادکی خبریں تو باعث تشویش ہیں ہی لیکن اس خبر نے مجھےجھنجھوڑ کر رکھ دیا جب دعوتی میدان میں نمایاں خدمات انجام دینے والے ایک صاحب کی تعلیم یافتہ خاتون جو کہ خود دعوتی کام میں ان کی دست راست ہیں پرسنل لاء بورڈ کی دستختی کاغذات پر یہ کہہ کر دستخط کرنے سے انکار کردیا کہ میرا دل اسلام میں مردوں کی طرف سے طلاق دئيے جانے کے حق سے مطمئن نہیں ہے ۔اس فتنے کی وجہ انہوں نے یہ بتائی ہے کہ ہماری مسلم آبادی کا ایک کثیر طبقہ جدید سیکولر نظام تعلیم سے آراستہ ہو کر دین سے متنفر ہو رہا ہے۔ اس لئے ہمیں سارے کام چھوڑ کر سمپوزیم کانفرنس اور اجتماعات منعقد کرکے اس کا فوری حل ڈھونڈھنا چاہیے۔مغلیہ سلطنت اور سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد ہمارے علماء نے مسلمانوں کے عروج زوال اور قافلہ کیوں لٹا کے عنوان سے سینکڑوں کتابیں لکھیں اور 1947 میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ہم یہی تو کرتے آئے ہیں !لیکن اپنے اجتماعات میں لاکھوں کی بھیڑ اکٹھا کرکے بھی جو بات ہم سمجھ نہیں سکے دلتوں کے لیڈر امبیڈ کر ،کانشی رام اور مایا وتی جن کے آباواجدادنے کوئی کتاب نہیں لکھی کوئی اجتماع نہیں کیا پھر بھی انہیں کرسی کی اہمیت سمجھ میں آئی اور مایا وتی تین بار یوپی کی وزیر اعلیٰ بنیں ۔ سنا ہے جب وہ اپنی پارٹی کے ورکروں کاکوئی اجلاس منعقد کرتیں تو پورے اجلاس میں صرف ایک کرسی مایا وتی کیلئے ہوتی باقی ورکر وہ چاہے منسٹر ہی کیوں نہ ہوں فرش پر بیٹھتے تھے ۔امبیڈکر ہمیشہ اپنے خطاب میں دلتوں کو مخاطب کرکے کہا کرتے کہ تمہاری ضد مندروں میں نہیں پارلیمنٹ میں داخل  ہونے کیلئے ہونی چاہیے ۔مغربیت کے غلبے کے تناظر میں اقبال نے کہا تھا کہ  ؎   بت خانے کے دروازے پہ سوتا ھے برہمن/ تقدیر کو روتا ہے مسلماں تہ محراب
اقبال زندہ  ہوتے تو دیکھ لیتے کہ برہمن اور دلت دونوں اپنی سوچ کے دائرے سے باہر آچکے ہیں لیکن جن کے اوپر کتاب نازل ہوئی اور اس کتاب میں کہا گیا کہ ہم نے اس کتاب کے ساتھ رسول کو اس لیے بھیجا تاکہ اس دین کو تمام جنس دین پر غالب کردے وہی لوگ غلبے کے مفہوم سے محروم ہیں اور ان کی سوچ کا دائرہ بھی محدود ہے ۔یاد رہے غالب قومیں ہی دوسروں پر احسان کرتی ہیں جبکہ مغلوب دوسروں کے احسان مند ہوتے ہیں اور پھر وہ اپنی غیرت اور خودداری سے محروم ہوکر اپنی شناخت بھی کھو دیتی ہیں ۔قابل غور  بات یہ ہے کہ آخری مغل تاجدار تک تین طلاق کے فتنے نے کبھی سر نہیں اٹھایا تو کیوں اور اب اٹھ رہے ہیں تو اس لیے کہ فتنے کا دروازہ ٹوٹ چکا ہے۔فتنے کا دروازہ ٹوٹ جائے گا یہ بات اللہ کے رسول ﷺ نے اسلامی مملکت کے طاقتور حکمراں حضرت عمر کیلئے کہی تھی ۔اس پر بھی غور کریں !

0 comments: