Muslim Issues

دیکھتی ہیں خواب آنکھیں مانگتا تعبیردل

7:53 PM nehal sagheer 0 Comments


قاسم سید

کانگریس کی سیاسی خشک سالی میں کامیابی کی تھوڑی سی اوس گری ہے تو جشن کاسا سماںہے ۔ ہرطرف پٹاخے پھوڑے جارہے ہیں ایک سیٹ کی جیت نے سرشاری وشادمانی کے نشہ میں ڈبودیاہے۔ ایسالگتا ہے کہ پانی پت یاپلاسی کی جنگ جیت لی ہے ۔ یقینا اس جیت کے بہت سے سیاسی معانی ہیں اوراگر کانگریس کے ارباب حل وعقد چاہیں گے تو اس غیریقینی جیت کو نئی جدوجہد کے آغاز میں بدل سکتے ہیں ۔ بی جے پی کو اس بات کا کریڈٹ دیا جاناچاہئے کہ اس بہانے کانگریس قیادت کو محلوں سے اٹھاکرگلی کوچوں میں جانے ،رات رات بھر جاگنے،دن بھر پسینہ بہانے اور ایک ایک ایم ایل اے کے ہاتھ پیرجوڑنے وخوشامد پر مجبور کردیا ،جو لوگ شہنشاہ بنے پھرتے تھے ، کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ گھنٹوں ڈرائنگ روم میں انتظارکرانے میں لذت محسوس کرتے تھے ان کی دھڑکنیں بے ترتیب کردیں سانسیں تھما دیں اور یہ سبق یاد دلایاکہ اقتدار یونہی نہیں مل جاتا اس کے لیے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ عام لوگوں کے دکھ سکھ میں شریک ہونا پڑتاہے۔ ان کو اپنا بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بھلے ہی اس سیٹ کے بہانے پرانے حساب بے باق کرنے اورکانگریس کے قلعہ میں شب خوں مارنے کامنصوبہ بناہوجو حکمت عملی میں کسی کمی کی وجہ سے ناکام ہوگیا مگراس واقعہ نے کانگریس کی جڑیں ہلادی ہیں ،اس کے پائوں تلے سے زمین نکال دی۔ ظاہرہے جنہوں نے ملک کو کانگریس مکت بنانے کاعزم کیاہے وہ چین سے نہیں بیٹھیںگے ۔ کوئی اور راستہ تلاش کریں گے جب شیر کی ماند میں ہاتھ ڈال دیاجائے تواندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ معاملہ کس حد تک نازک ہے اس قلعہ کا پھاٹک اندر کے سنتریوں سے کھلوایا گیا وہ صرف کھڑکیاں ہی کھول سکے تو کبھی زنجیر بھی توڑ ی جاسکتی ہے ۔ اسے جولوگ سیکولر زم کی فرقہ پرستی پر جیت سمجھ رہے ہیں اور ہزار شکرانہ ادا کررہے ہیں ،اطمینان وخوشی کی چمک ان کے چہروں سے پھوٹتی روشنی سے چھلکتی ہے۔ وہ اس جیت کو سیکولرزم مضبوط کرنے کی راہ سمجھتے ہیں اور سیکولر طاقتوں سے امن وامان اور سیکولرزم کی بقا کے لیے متحد ہونے کی اپیل کربیٹھتے ہیں۔ اس میں ان کی سادہ لوحی اورسیکولرزم کے تئیں اعتماد وپختہ یقین ثابت ہوتا ہے کیونکہ وہ چھوٹی کامیابی پر بھی خوش ہوجاتے ہیں اورخالص سیاسی لڑائی کو بھی سیکولرزم بنام فرقہ پرستی کی جنگ میں تبدیل کردیتے ہیں ۔یہ احمدپٹیل اور امت شاہ کے مابین سیاسی انتقام ،دبدبہ اور بالادستی کی لڑائی تھی جس میں قسمت نے سونیا گاندھی کے مشیر کاساتھ دیا ورنہ ان کی ہارتو ہوگئی تھی اگر آخر وقت میںکانگریس کے دوباغی ممبران کی تکنیکی غلطی سامنے نہ آتی تو ان کا کام تمام ہوگیا تھا۔
یہ نتیجہ ایک اورپہلو کی طرف اشارہ کرتا ہے جب کسی فوج کو لگاتار کامیابی ملتی ہے تو اس کو جیت کا چسکا لگ جاتا ہے ۔ پھر وہ صحیح وغلط کا امتیازبھول جاتی ہے وہ اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے ہر جائزوناجائزقدم اٹھانے سے نہیں جھجکتی ۔اپنی قلمرو کی توسیع کا جنون انسانی بستیوںکو بھی ویران کردیتا ہے یہ ویرانی  اس کی دیوانگی کو اوربڑھا تی ہے۔ اپنے حق میںہزارخون معاف سمجھتی ہے۔ آج ملک کی 18ریاستیں اس کے بظاہر مفتوح ہونے کااشارہ کررہی ہیں۔ اس کی خوداعتمادی کایہ حال ہے کہ کانگریس کے قلعہ یعنی دس جن پتھ تک مارچ کرتے پہنچ گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ پہلے حملہ میں اسے ناکامی ملی اسے خراشیں آگئی ہیں ان کی ٹیس زیادہ ہے اس کےرقص بسمل پر نقارے بجانے اورڈھول پیٹنے کی ضرورت نہیں ۔ یہ مہلت کادقفہ ہے اس سے فائدہ اٹھانے ،شکست خوردہ فوج کے بھاگے ہوئے سپاہیوں کو جمع کرنے اورانہیں منظم کرنے کا مختصر ساموقع ہے کیونکہ چوٹ کھایا سانپ زیادہ خطرناک اورجارح ہوتا ہے سارازہر ایک ساتھ تھوک دیتا ہے ۔ بی جے پی اپنی غلطی اور حد سے زیادہ خود اعتمادی کے سبب ہاری ہےاوراحمدپٹیل اپنی قسمت کی وجہ سے جیتے ہیں یہ بڑا عبرت انگیزہے کہ جو دوسروںکاکھیل بنانے اوربگاڑنے کی طاقت رکھتاتھا اسے اپناآپابچانے کے لئے دردر کی ٹھوکریں کھانی پڑیں۔
کانگریس اس وقت ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے گزررہی ہے۔ ڈوبتے جہاز سے بڑے بڑے چوہے کودکر بھاگ رہے ہیں۔ سایہ بھی ساتھ چھوڑ نے لگا ہے کانگریس قیادت یہ اندازہ لگانے میں ناکام ہے کہ بھارت بدل چکاہے جیسا کہ اس کے تھنک ٹینک جے رام رمیش کاخیال ہے کہ ہم سلطنت کھوچکے ہیں اور خود کو سلطان سمجھ رہے ہیں۔ پارٹی سنگین ترین بحران سے گزر رہی ہےلیکن پرانے طورطریقہ بدلنانہیں چاہتی اسے امت شاہ- مودی کی جوڑی کا سامناہے۔  جس نے سیاست کی پرانی روایتیں بدل دی ہیں۔ ملک نئی قسم کی سیاست سے دوچار ہے۔ مودی نیابھارت بنانے کی مہم میں لگے ہیں اور 2022تک ٹارگیٹ مکمل کرناچاہتے ہیں ان کا نیابھارت کس طرز کا ہوگا ۔گزشتہ تین سال کے دوراقتدار میں اس کا ٹریلر آچکا ہے اس بھارت میں مہاراناپرتاپ سنگھ اکبر دی گریٹ کو شکست دیتے ہوئے نظرآرہے ہیں ۔ شیوا جی نے مغلوں کا ’سروناش‘ کر دیا جوویرساورکر،گولوالکراور دین دیال اپادھیائے کا بھارت ہوگا جہاںگاندھی چالاک بنیااورنہرو ملک کو سنگین غلطیوں کے حوالے کرتے دکھائی دیں گے۔جہاں بچے گائے ، گیتا اورگنگا کے بارے میں زیادہ واقف ہوں گے۔ وہ یوگ کے ساتھ سوریہ نمسکارکرنے کے پابندہوںگے ۔ جمہوریت کی جگہ صدارتی نظام نافذہوگا اورراشٹرواد پہلاوآخری دھرم ہوگا۔ ’دیش ہت‘ میں بولنے اورخاموش رہنے کے نئے پیمانے ایجاد ہورہے ہیں کونسی چیز کب دیش ہت کے دائرے میں لادی جائے یہ حکمرانوں کی صوابدید پرہوگا۔ڈراورخوف کا ماحول بڑی محنت اور لیاقت سے بنا یا جارہا ہے۔ مذہبی تشخص کی علامتوں کو دھیرے دھیرے کھرچ کر ختم کر دیا جائےگا۔ کانگریس کو مبارکباد دینی چاہئے کہ اس نے گزشتہ60 سالوں میں ملک کو جہاں پہنچادیا بی جے پی ایماندار ی کے ساتھ اس کے باقی چھوڑےگئے کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچارہی ہے۔ کانگریس نے سیکولرزم کی کھال پہن کر شکار کئے وہیں بی جے پی کو اس تکلف کی کوئی ضرورت نہیں۔ کانگریس کی منافقانہ اور عیارانہ سیاست نے صرف اقلیتوں کو ہی بے وقوف نہیں بنایا انہیں سچرکمیٹی کی رپورٹ کے مطابق دلتوں سے بھی بدتر مقام پر لاکرچھوڑ دیا بلکہ اس نے پورے ملک سے بدعہدی کی یہ سوال خود سے پوچھئے کہ جب ملک کی باگ ڈور چندسالوں کو چھوڑ کر سیکولرپارٹیوں خاص طور سے کانگریس کے ہاتھ میں رہی توفرقہ پرست اورفسطائی قوتیں اتنی مضبوط وتوانا کیسے ہوگئیں کہ وہ بھرپور اکثریت کےساتھ ملک پر قابض ہوگئیں اور آدھی سے زائد ریاستیں ان کی مٹھی میںآگئیں کیایہ عوام یا رائے دہندگان کی غلطی ہے یاسیاسی سیکولر عناصر کی سازش وحکمت عملی کی غلطی ۔مسلمانوں نے اپنی رگوں میں موجود خون کاایک ایک قطرہ اپنے جان نثارمخلص رہنمائوںکی ہدایت پرکانگریس کو چڑھادیا۔ اب وہ خود جانکنی کے عالم میں ہیں۔ ڈراورخوف کایہ عالم ہے کہ تھوڑی سی مصیبت یاآزمائش میں دعائے قنوت پڑھی جاتی تھی اب اس کی بھی ہمت نہیں کہ مساجد میں دعائے قنوت پڑھ لی جائے کہ حکومت کو رپورٹ کے نتیجہ میںبازپرس کی جاسکتی ہے۔ مسلم قیادت کے سواداعظم کے پاس اس بحران سے نکلنے کا کوئی نسخہ نہیں ۔کانگریس اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے زوال سے دوچار ہے ہماری مجبوری یہ ہے کہ جیساکہ بتایاجاتا ہے کہ اورکوئی راہ نجات نہیںہے اگر ٹائٹنک ڈوب رہا ہے تو بہتر یہ ہے کہ وفاداری کے عہد کے ساتھ ہم بھی ڈوب جائیں تاکہ ناشکروں میں ذکر تو نہ آئے مشکل یہی ہے کہ سیاست ذہن سے کی جاتی ہے اور ہم دل سے کرتے ہیں وہ قدم قدم پر بدعہدی کرتے ہیں اپنے مفادات کے مطابق پالیساںبدلتے ہیں جیسے ٹرین کو منزل تک جانے کے لئے ٹریک بدلنا پڑتاہے مثلاًنتیش کمارنے مہاگٹھ بندھن توڑکرپھربی جے پی سے پرانا رشتہ جوڑلیا اب وہ فرقہ پرست ہیں یاسیکولر یہ توہمارے معززقائدین عظام ہی بتائیں گے لیکن ہندوستانی سیاست کا مزاج  یہی ہے کہ ضرورتوں کے مطابق گٹھ بندھن بنتے اور ٹوٹتے ہیں۔ کسی ایک کھونٹے سے بندھے رہنا ذہانت نہیں سیاسی حماقت ہے ۔ کانگریس کو ایک جیون دان ملا ہے وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائے گی یاراہل کی پارٹ ٹائم پالیٹکس جاری رہے گی،دیکھنا دلچسپ ہوگا۔ وہ کونسی پارٹیاں ہیں جو سیکولر کہی جاسکتی ہیں کیونکہ وہ کندھا بدلتی رہتی ہیں ان کی نشاندہی کی جائےبراہ کرم احمد پٹیل کی جیت کو مسلمانوں کے مفاد سے جوڑ کرنہ دکھایا جائے اور زیادہ خوشی کا مظاہرہ نہ کیاجائے ۔ کانگریس کی خانہ جنگی اور گھر کے بھیدی نے اس لڑائی کومشکل بنادیا تھا بی جے پی نے اس کا فائدہ اٹھایا۔یہ نئے اورپرانے بھارت کی لڑائی ہے جس میں سب کچھ نیاہے پرانے اوزاربے اثر ہوگئے ہیں ۔شہنشاہی مزاج کام نہیں آئے گا۔ صرف بیان بازی اورکانفرنسیں مداوا نہیں کریں گی۔ پرانے امراض کا علاج جدید طریقوں کو اپنا کر ہی ہوگا۔ ہمارا کوئی مسئلہ نیانہیں ہے،کانگریس کے پیداکردہ ہیں ۔بی جے پی ان کی دھارتیز کررہی ہے اور جنہیں ہم اپنا ازلی دشمن سمجھتے ہیں ان سے خیرکی امید نہیں رکھنی چاہئے جنہیں اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے برابھلاکہتے ہیںان کو ہماری گردن مروڑنے کا بھرپور موقع ملاہے تو وہ رحم کیوں کریں گے۔ہماری سیاسی قیادت ذہنی دیوالیہ پن کی شکار ہے ،انجام تو بھگتناہوگا۔

0 comments: