Muslim Issues

غلام قوموں کا مزاج ہندوستان میں مسلمانوں کی موجودہ حالت

2:50 PM nehal sagheer 0 Comments


نہال صغیر


زوال یافتہ قوموں کے مزاج کے بارے میں ایک بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہ صرف عوام کو ہی نہیں بدل دیتا بلکہ اس کے اثرات سب سے زیادہ خواص پر ہوتے ہیں اور دراصل یہی زوال کی تکمیل ہے ۔اس بات کو مان لیجئے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا زوال تکمیل کے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے ۔ یہ باتیں مایوسی پھیلانے کیلئے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ حقیقت میں ایسا ہو چکا ہے ۔ ہمارا خواص کا طبقہ جس میں علما اور صحافی کا مقام سب سے بلند ہے وہ دونوں میں ذہنی طور پر غلام قوموں کی صفات سرایت کر چکی ہیں ۔ سوچا جاسکتا ہے کہ اگر یہ دونوں ہی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہوں تو پھر قوم کے زوال کی تکمیل کو کون روک سکتا ہے ۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ اس مردہ قوم میں بھی زندگی کی حرارت ڈال سکتا ہے لیکن ہر چند کہ اللہ قادر مطلق ہے وہ ایسا کرسکتا ہے لیکن اللہ نے اس کائنات کی تخلیق میں اسباب کو شامل کیا ہے ۔ دنیا کے سارے کام اسباب کے ساتھ ہوتے ہیں ۔اس لئے ایسا نہیں ہوگا کہ اچانک مردہ قوم میں زندگی کی لہر دوڑ جائیگی ۔ بلکہ وہ قادر مطلق یہ کرے گا کہ دوسری قوموں میں وہ شعور عطا کرے گا کہ وہ اسلام میں داخل ہوں اور یوں اللہ قیامت تک اپنے دین کو قائم رکھے گا ۔ وہ قادر مطلق اس بات کا پابند نہیں کہ خاندانی مسلمانوں کی ہر خامی کے باوجود انہیں ہی نوازتا رہے ۔ گفتگو قوم کے زوال کی چل رہی ہے کہ ہمارے خاص افراد بھی اس کی زد میں ہیں یا ان کی ذہنی حالت غلامی کے اثر سے کثافت زدہ ہو گئی ہے ۔ حالات خواہ کیسے بھی ہوں اس سے نکلنے اور شاہراہ حیات میں بہترین راستے کے انتخاب کیلئے کبھی کوئی دیوا ر مقابل نہیں آتی اگر ہم ان مشکل وقت سے نکلنے کا طریقہ کار جانتے ہوں ۔
اس وقت ہندوستان میں جہاں ایک جانب بی جے پی اور اس کی سرپرست تنظیم آر ایس ایس اپنے پوری حشر سامانیوں کے ساتھ ہر چہار جانب دہشت کی فضا قائم رکھنے میں منہمک ہے وہیں دوسری جانب اس سے ٹکراؤ کی پوزیشن میں ایک قوت بھی ابھر رہی ہے اور وہ طاقت ہے دلت سمیت دیگر پسماندہ طبقات کی ۔ ہندوستان کی پوری تاریخ میں پسماندہ طبقات کی جد و جہد اتنی تیز نہیں تھی جتنی اندنوں ہے۔گجرات جو بعضوں کے مطابق 141 2002 میں ہندوتوا کی لیباریٹری سے گذر چکی ہے ۔ وہاں اس وقت حالت یہ ہے کہ جگنیش میوانی اور ہاردک پٹیل دو ایسے نوجوان لیڈر ابھرے ہیں جس نے حکومت کی آنکھوں کی نیند اڑا دی ہے ۔ بی جے پی کیلئے آئندہ الیکشن جیتنا ایک چیلنج بن گیا ہے ۔ اسی طرح جے این یو سے کنہیا کا عروج اور مغربی اتر پردیش سے چندر شیکھر آزاد کے خروج نے حالات کو بالکل مایوسی کی جانب جانے سے روک رکھا ہے ۔ ہاں کچھ لوگ ہمیں مایوس کرنے کا ہی کام کررہے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ مایوسی صرف مسلمانوں میں ہی ہے ۔ دیگر پسماندہ طبقات نے ان حالت میں ٹکرانے کا عزم کیا ہے جو موجودہ حکومت کیلئے پریشان کن مرحلہ بن رہا ہے ۔ عام طور پر کہا جائے گا کہ گجرات کا الیکشن بی جے پی کیلئے چیلنج کس طرح ہے جبکہ وہاں کانگریس کے ایم ایل اے بھی بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں ۔ اصل مسئلہ یہی ہے کہ ہم جب ہندوستان میں مسلمانوں یا سیاست کی بات کرتے ہیں تو کانگریس کو اس کا ناقابل تنسیخ حصہ تصور کرتے ہیں ۔ یہ ایک مفروضہ ہے ۔ممکن ہے کہ آئندہ الیکشن میں کانگریس کچھ اچھا کرجائے لیکن بہر حال اب اس کا چل چلاؤ یقینی ہے اور ہندوستان میں علاقائی اور پسماندہ طبقات کی سیاست کا عروج ہونے والا ہے ۔جگنیش میوانی اور ہاردک پٹیل گجرات میں اس نئی تبدیلی کے رہنما ہو سکتے ہیں ۔ اب یہاں سیاست میں ہندوتوا قوم پرست بنام پسماندہ طبقہ کی سیاست ہی ہوگی اور اس میں آنے والے کچھ سالوں میں ہندوتوا کو یقینی طور پر نیچے بیٹھنا ہوگا ۔ یہ صحیح ہے کہ برہمن بنیا لابی نے دلت قیادت کو ٹکڑوں میں بانٹ کر ابتک اپنی سیاست کی دکان چلائی ہے لیکن بتدریج عوامی بیداری آرہی ہے اور یہ بیداری ان برہمن بنیا لابی کیلئے پیغام اجل ہے ۔یہ جانکنی کی ہی کیفیت ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف مورچہ بند ہو گئے ہیں کہ یہی ان کی سیاسی قوت کی بقا کی ایک ضمانت ہے ۔ہندو کے نام پر ساڑھے تین فیصد لوگ اچانک پچاسی فیصد ہو جاتے ہیں ۔اس گٹھ جوڑ کو سمجھنا ہوگا اور اس کے تدارک کیلئے ہمیں نظم و ضبط اور صبر و استقامت سے کام لینا ہوگا ۔ ہندوستان میں سیاسی حالت بظاہر مسلمانوں کیلئے زیادہ خطرناک نظر آرہے ہیں۔لیکن مجھے اسی سیاہی سے سپیدہ سحر نمودار ہونے کی امید ہے ۔ یہ حالت گھبراہٹ اور پژمردگی کی نہیں ہے بلکہ اس کی روشنی میں بہترین منصوبہ بندی کرنے کی ہے ۔ یہاں ہمارے لئے نبی ﷺ کی مدینہ آمد اور وہاں کے قبائل اور یہودیوں سے معاہدہ کی صورت میں اسوہ موجود ہے کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ ہمیں یہاں صبر ثبات کے پیکر کے ساتھ مخلص قائدین کی ضرورت ہے جو فی الحال عنقا نظر آتا ہے لیکن دنیا میں ایسے لوگوں کی کبھی کمی نہیں ہوتی ۔قوم مسلم میں بھی اس کی کمی نہیں ۔ ہاں ہوتا یہ ہے کہ ایسے لوگ پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور کم ظرف اور پست ذہنیت لوگ سامنے ہوتے ہیں جو قوم کی کشتی ہمیشہ سے ڈبوتے آئے ہیں ۔ یہاں ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ ہم ایسے قائد کی تلاش کریں انہیں سامنے لائیں انہیں اپنی حمایت اور وفاداری کا یقین دلائیں ۔ یہی ذمہ داری ان پر بھی عائد ہوتی ہے جو قوم کا درد محسوس کرتے ہیں اس کی حالت سے رنجیدہ ہیں اور اس سلسلے میں وہ مخلص بھی ہیں اور اس درد کی دوا بھی ان کے پاس ہے تو وہ خود سے ہی سامنے آئیں ۔ یاد رکھئے مخلص قائدین پر بھی پتھر پڑے ہیں قید و بند کی صعوبتوں سے انہیں بھی گزرنا پڑا ہے ۔ کسی قوم کی قیادت کوئی آسان کام نہیں یہ کانٹوں بھرا تاج ہے جسے قبول کرنا ہوگا اوریہ سنگلاخ وادی ہے جس سے گذرنا ہوتا ہے ۔
عام طور پر جب دلت یا پسماندہ طبقات کی تحریکوں کو حمایت دینے کی بات آتی ہے تو ہم ایک طرح کے تحفظ میں مبتلا ہو جاتے ہیں ۔ جس طرح سے عام مسلمانوں کا رویہ ہوتا ہے جو کہ بیچارے کچھ نہیں جانتے اسی طرح ہمارے اکثر اردو صحافی ردعمل کا اظہار کرتے ہیں ۔یہ اس لئے ہے کہ محض ممبئی کے کسی دفتر میں بیٹھ کر یا کسی مسلم این جی او کی جانب سے بلائی گئی میٹنگ میں شرکت کرکے آپ حالات کو اس کے ٹھیک تناظر میں نہیں دیکھ سکتے ۔ ہمیں یہ قبول کہ ہندوستان میں فسادات کی لمبی تاریخ میں مسلمانوں کے سامنے صرف دلت یا پسماندہ طبقات کے لوگ ہی آتے ہیں ۔ وہی ان ساری کارروائیوں میں پیش پیش ہوتے ہیں ۔ لیکن ان کی ڈور بہر حال ہندوؤں کے اعلیٰ طبقات کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ۔یہ میرا ذاتی مشاہدہ بھی ہے اور کانگریس بی جے پی سے الگ جو دلت تنظیمیں اس کوشش میں ہیں کہ ہندوستان کو برہمنیت کے چنگل سے نکالا جائے ان کی بھی یہی رائے ہے ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے اول دور میں جو لوگ آئے وہ پکے مسلمان تھے اس لئے ان کے ساتھ اسلام کا درس مساوات آیا جو ان کی ذات سے ظاہر ہوتا تھا ۔ بعد کے مسلمانوں میں یہاں کی برہمنیت سرایت کرگئی اور وہ بھی انہی کی طرح نام نہاد نیچ لوگوں سے انسانیت سے گرا ہوا برتاؤ کرنے لگے ۔ان مسلمانوں نے یہاں کے نظام میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی اور برہمنوں کو اپنے یہاں اونچے عہدے دیئے اور دلت و دیگر پسماندہ طبقات کی ان مسلمانوں کی نظر میں بھی وہی حیثیت رہی جو برہمنوں کے سامنے تھی ۔ یہ نظارہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور تبدیلی کے باوجود یہ آج بھی ہماری قوم کے خان صاحبو، سید صاحبواور شیخ صاحبو میں ہنوز موجود ہے ۔ اب اگر برہمنوں کا طریقہ اپنا کر ہم نے بھی وہی غیر انسانی رویہ اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ روا رکھا تو انجام تو وہی ہونا ہے نا جو فسادات کے دور میں رونما ہوتا ہے ۔ اگر ہم نے اسلام کے درس مساوات کو اپنا یا ہوتا اور انہیں بھی انسان سمجھ کر اپنے برابر میں بٹھایا ہوتا اس کے یہ ہمارے ساتھ وہ رویہ اپناتے تب ہم شکایت کرسکتے تھے کہ ہماری انسانیت نوازی کا یہ صلہ دیا جارہا ہے ۔
میری رائے پہلے بھی یہی تھی اور اب بھی ہے کہ کانگریس ہر حال میں مسلمانوں کیلئے سب سے زیادہ خطرناک ہے ۔ کانگریس کے دور میں سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ پوری قوم پر جمود کی سی کیفیت کو مسلط کردیتی ہے ۔ اس کے پاس سیکولرزم نام کی ایک نشہ آور ادویہ موجود ہوتی ہے ۔ جس کی مدد سے وہ کسی تحریک کو پنپنے نہیں دیتی اور آپ کی لیڈر شپ کو بھی فنا کے گھاٹ اتارتی رہتی ہے ۔ آج ہم بی جے پی کو ہندوتوا ایجنڈے کے نفاذ کی کوشش کیلئے الزام دیتے ہیں اور اسے برا بھلا کہتے ہیں ۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ تو بے شعور لوگ ہیں ان کو اتنی کہاں سمجھ جبکہ کانگریس نے نرمی اور سیکولرزم کے سایہ میں اول روز سے اس ہندو توا کی آبیاری کی ہے ۔ پچھے ستر برسوں میں بھلا اس نے کون سے طریقے اپنائے جس سے یہ نظریہ کمزور پڑتا یا آج اس کو اس کیلئے افرادی قوت نہیں ملتی ۔حقیقت تو یہ ہے کہ کانگریس نے اپنی کتھنی کے مطابق کام کیا ہوتا تو یہ بے بنیاد نظریہ کب کا ڈھیر ہو چکا ہوتا ۔ جی ہاں ہندوتوا کے نظریے کی کوئی بنیاد نہیں ہے ۔ اس کو معمولی سے گائے کے تناظر میں ہی سمجھ سکتے ہیں کہ اگر وہ انکی ماں ہے تو پھر اسے اپنے گھر لے کر کیوں نہیں آتے نیز جب یہ گؤ ماتا ان کی املاک کو نقصان پہنچارہی ہوتی ہے تب ان کی گؤ بھکتی کہاں چلی جاتی ہے ؟ کہنے کو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن اسی ایک مثال کی مدد سے بے بنیاد ہونے کا ثبوت مل جاتا ہے ۔ پھر بھی اس کو کروڑوں افرادی قوت ملنے کا سہرا یقیناً کانگریس کے طویل تر اقتدار کو جاتا ہے ۔ موجودہ حالات میں ہمارے لئے مواقع ہیں ۔ اگر ہم میں سوجھ بوجھ ہے تو ان حالات کو ہم اپنے حق میں موڑ سکتے ہیں ۔ جو لوگ ہر بات میں کیڑے نکالنے کے عادی ہیں ان میں دو کمیاں ہو سکتی ہیں یا تو وہ حالات کا ٹھیک ٹھیک علم ہی نہیں رکھتے یا وہ ان سے خوفزدہ ہیں ۔ اس لئے ان سے کنارہ کشی اختیار کیجئے اور سر جوڑ کر بیٹھئے اور منصوبہ سازی کیجئے عمل کرنے کیلئے ۔ اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی سرخیوں اور بریکنگ نیوز کا حصہ بننے کے لئے نہیں بلکہ قوم کو اس دلدل سے نکالنے کے لئے ۔ حالات نبی ﷺ کے مدینہ کو ہجرت کرتے وقت سے زیادہ خراب نہیں ہیں بس فرق اتنا ہے کہ اس وقت وہ تھوڑے سے مسلمان تھے ان کا ایمان اللہ پر تھا اور صرف اسی ایک ذات پر ان کو بھرپور اعتماد تھا ۔اس ذات باری تعالیٰ نے ان کو مایوس بھی نہیں کیا وہ فاتح زمانہ بن کر ابھرے ۔لیکن ہم آج ہندوستان میں کروڑوں کی تعداد میں ہیں پر ہمارا ایمان سیکولرزم اور جمہوریت پر ہے ۔ ہمارا اعتماد اس کے ڈھونگ رچنے والوں پر ہے ۔نتیجہ ذلت ، رسوائی ، فقیری ، جہالت اور بے توقیری کی صورت میں ہمارے سامنے ہے ۔

0 comments: