featured

ملک میں انارکی کے درمیان منڈلاتے جنگ کے بادل

8:54 PM nehal sagheer 0 Comments


نہال صغیر
خبر آئی ہے کہ جنگ کی صورت میں ہمارے پاس صرف دس دن کے لئے ہی گولہ بارود ہے ۔اس خبر پر ہمارے ایک صحافی دوست نے بہت اچھا تبصرہ کیا انہوں نے کہا تو کیا ہوا ’ہمارے یہاں گائیں ہیں نا‘ ۔ ویسے تو یہ طنز میں ڈوبے ہوئے اور حالات سے فکر مند ایک صحافی کا تبصرہ ہے لیکن یہی آج کی سچائی بھی ہے کہ پردھان سیوک کے دور میں ملک عجیب قسم کے خلفشار اور حیوانی جنون میں مبتلا ہو گیا ہے ۔ملک کی ترقی ،اس کی بقا اور سلامتی کے تعلق سے کوئی فکر مند نہیں ہے ۔کسی کو فکر ہے تو صرف اتنی کہ گائے ان کی ماتا ہے اور مسلمان اس کو کھاتا ہے لہٰذا مسلمانوں کو مارو ۔ہر طرف بس ایک ہی موضوع گئو رکشک اور گائے کی قربانی یا ذبیحہ پر پابندی جیسے ملک کو اس کے علاوہ اور کسی مسائل کا سامنا نہیں ہے۔سارے مسائل مسلمانوں کے تعلق سے ہی اٹھائے جاتے رہے ہیں یا کشمیر کے تعلق سے یعنی ہر صورت میں مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے ۔تین طلاق،یکساں سول کوڈ اور دفعہ تین سوستربس اسی پر بحث۔لیکن ملک پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں۔جعلی اور نقلی دیش بھکتی نے ہمارا بھرکس نکال دیا ہے اور ہمارے دشمن کو مشتعل کردیا ہے ۔وہ بھی ایسی اشتعال میں ہے کہ کہتا ہے کہ جنگ ہی واحد متبادل ہے ۔جبکہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں ۔یہ مزید مسائل کو جنم دیتی ہے ۔یہ باتیں اکثر دانشوروں کا طبقہ کرتا ہے اور حکومت اور دیگر ذمہ داروں کو جنگ سے دور رہنے کی صلاح دیتا رہتا ہے ۔لیکن ہمارے یہاں کچھ طبقہ ہے جسے دیش بھکتی کی کھجلی کچھ زیادہ ہی ہے ۔وہ ملک کے عوام کو دیش بھکتی پر نصیحتوں کو پٹارا کھولے رہتا ہے ۔جب سے پردھان سیوک اور ان کی پارٹی اقتدار میں آئے ہیں ان کی نصیحتوں کا دورانیہ کم ہو کر ہر دن کہیں نہ کہیں اس پر لیکچر ہوتا رہتا ہے اور ان سے اختلاف کرنے والوں کو یہ پاکستان کو ویزہ لگواتے رہتے ہیں ۔ملک میں گرچہ دفاعی بجٹ پر ایک خطیر رقم خرچ کی جاتی رہی ہے لیکن اس کے باوجود اکثر سروے رپورٹ سے ایسی معلومات ملتی ہے کہ ہمیں شرمسار ہونا پڑتا ہے ۔جیسے کئی سال قبل انڈیا ٹوڈے کی جانب سے کئے جانے والے سروے کا خلاصہ یہ تھا کہ فوجیوں کے پاس صرف ہتھیاروں کی ہی کمی نہیں بلکہ انہیں ڈھنگ کا لباس بھی میسر نہیں ہے ۔انکے جوتے ٹھنڈے اور برف پوش  علاقوں کے مطابق نہیں ہیں ۔اور ابھی ہم سب نے کئی ایک فوجیوں کی مدد سے یہ دیکھا ہی ہے کہ انہیں ڈھنگ کا کھانا بھی نہیں دیا جاتا ۔انکے لئے جو کھانے کی چیزیں الاٹ ہوتی ہیں وہ باہر بازار میں بیچ دی جاتی ہیں ۔اب ایک بار پھر خبر ہے کہ پاکستان یا چین سے جنگ کی صورت میں ملک کی دفاعی پوزیشن یہ ہے کہ اس کے گولے بارود دس دنوں میں ہی ختم ہو جائیں گے ۔یہ رپورٹ اور کسی کی نہیں ہے یہ ایک معتبر حکومتی ادارہ کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کی جانب سے پارلیمنٹ میں رکھی گئی ہے ۔اسی پارلیمنٹ میں دو روز قبل ملائم سنگھ یادو نے یہ بات کہی کہ پاکستان ہمارا دشمن نہیں ہے بلکہ چین ہمارا اصل دشمن ہے ۔ملائم سنگھ یہ بات متعدد بار دہراچکے ہیں ۔ان کے علاوہ اگر کسی نے چین کو اصل دشمن قرار دیا ہے تو وہ ہیں جارج فرنانڈیز ۔اس کے علاوہ کسی کی زبان نہیں کھلتی کہ وہ کھل کر ملک کے اصل دشمن یا دفاع میں ملک کو درپیش اصل چیلنج کے بارے میں لب کشائی کرے ۔سب کے سامنے صرف پاکستان اور اس کے ساتھ ہی نام نہاد دہشت گرد جو ان کی نظر میں صرف مسلمان ہوتے ہیں یہی اس ملک کے اصل دشمن ہیں ۔پاکستان سے ہندوستان کا مقابلہ ایسا ہی ہے جیسے شیر اور خرگوش کا مقابلہ ۔ لیکن ہمارے یہاں کے دیش بھکت جس میں بی جے پی ہی نہیں کانگریس بھی شامل ہے ،کو صرف دشمن کے طور پر پاکستان ہی نظر آتا ہے ۔عجیب نفسیات میں مبتلا ہے ہمارا ملک اور اس کے سیاست داں ۔
اس حال میں بھی جبکہ ہمارے ادارے خود ہی ہماری خامیوں اور کمزوریوں کی جانب اشارا کررہے ہیں ہم میں معیاری سوچ کی کمی ہے ۔ہم آج بھی بچوں کی طرح سوچتے ہیں ۔جیسے موجودہ ہند چین تنازعہ پر ایک ہندی اخبار کی خبر دیکھی ۔اس خبر میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہند چین تنازعہ کو پاکستان ہوا دینے کی کوشش میں ہے ۔خبر کے مطابق ہندوستان میں پاکستان کے سفیر عبد الباسط نے چینی اور بھوٹانی سفراء سے ملاقات کی جس میں ڈولکام کا معاملہ زیر بحث آیا ۔قابل غور بات یہ ہے کہ چین کوئی دودھ پیتا بچہ ہے جسے پاکستان ورغلائے گا ۔آخر اس نے کیا اسی بچکانہ سوچ سے دنیا کی معیشت پر اول پوزیشن حاصل کیا ہے ۔ہمیں اب بھی اس طرح کی گھٹیا اور بچکانہ سوچ سے دور ہونے کی ضرورت کیوں محسوس نہیں ہوتی ۔ہم سراب کے پیچھے کیوں بھاگے پھرتے ہیں ۔ہم کیوں اپنے عوام کو لاعلم رکھنا چاہتے ہیں ۔انہیں کبھی نہیں پتہ چل پائے گا کہ زمینی حقیقت کی ہے ۔آج کے دور میں جبکہ اطلاعاتی تکنیک نے حیرت انگیز ترقی کرلی ہے کیا ممکن ہے ؟یہ بھی خبر آئی ہے کہ کچھ برسوں کے بعد ہندوستان دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا ۔چین دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے ۔اس نے اپنی آبادی کو اپنی ترقیاتی کاموں کیلئے ،اپنی معیشت کے استحکام کیلئے استعمال کیا اور آج وہ اس پوزیشن میں ہے کہ دنیا کی سوپر پاوروں کو آنکھیں دکھا رہا ہے اور وہ سوپر پاور اس کے سامنے معذور نظر آرہا ہے ۔ہم اس بات کو کب سمجھیں گے ؟ہمیں ایک بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر ہندوستان آزادی کے بعد بغیر کسی تعصب کے ترقی کی راہوں پر قدم بڑھاتا تو آج ملک کی حالت کچھ اور ہوتی ۔لیکن ہوا یہ کہ آزادی کے بعد ملک میں پہلا کام یہ ہوا کہ صدیوں قبل ڈھائے گئے سومناتھ مندر کی تعمیر ہوئی اور مسلمانوں کو ذلیل کرنے کیلئے ان کی مسجد میں مورتیاں رکھ کر اس کو تالا لگا دیا گیا ۔اس کے علاوہ انہیں معاشی طور پر تباہ کرنے کیلئے سرکاری ملازمت کے دروازے ان پر بند کردیئے گئے ۔اس کے برعکس کھلے دل کے ساتھ ملک کی ترقی میں مسلمانوں کو ساتھ لے کر چلا جاتا تو چین کی اتنی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ ہمیں آنکھیں دکھاتا یا ہندوئوں کے مذہبی مقام کی یاترا کو بند کردیتا ۔واضح ہو کہ کیلاش مان سروور کو چین کے قبضہ سے چھین کر ہندوستان میں شامل کرنے والا وہی اورنگزیب ہے جسے یہاں کے عقل کے اندھے اور تعصب میں حد سے گزرنے والے افراد ہندوئوں کا قاتل اور دشمن ثابت کرنے میں دن رات مصروف رہتے ہیں ۔تعصب و تنگ نظری وہ بیماری ہے جس نے قوموں اور ملکوں کو تباہ و برباد کیا ہے ۔آج ملک کے ساتھ جو مسائل ہیں وہ اسی تعصب و تنگ نظری کی دین ہیں ۔لیکن یہ عقل کے اندھے اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لیں گے ۔یہ بزدل صرف نہتے مسلمانوں اور دلتوں کو اکیلے میں کہیں مار سکتے ہیں ۔لیکن ملک کے لئے دشمن کی فوجوں سے لڑنے کا جذبہ ان میں نہیں ۔ان کی ساری بحث اور زہریلے پروپگنڈہ کا مرکز صرف سماجی سائٹس ہیں ۔وہیں ساری دیش بھکتی دکھائیں گے ۔چلئے ہم بھی خوش ہو جاتے ہیں کہ ہمارے پاس گولا بارود نہیں تو کیا ہوا ۔ہمارے پاس گائیں ہیں اور اس کے بھکت ہیں جو بڑی بہادری سے نہتوں کو مارتے ہیں ۔ممکن ہے یہ لوگ بارڈروں پر جاکر کوئی کارنامہ دکھا کر آئیں ۔آخر انہوں نے کئی کیمپوں میں جنگی ٹریننگ جو لی ہے ۔اس کے استعمال کا اس سے زیادہ بہتر موقعہ اور کب ملے گا کہ دشمن کی فوجوں سے دوبدو لڑ سکیں اور یہ دکھا دیں کہ بھارت ماتا کے یہ سپوٹ چین کو دھول چٹانے کا جذبہ رکھتے ہیں ۔

0 comments: