Politics

جے شری ۔۔۔۔ اور اللہ اکبر

10:42 PM nehal sagheer 0 Comments


نہال صغیر
جدید سیکولر جمہوری طرز حکومت کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس میں حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ۔ وہ کسی مذہب کو سپورٹ نہیں کرسکتا ۔ہاں اپنی ذاتی زندگی میں وہ مذہبی رسومات کی ادائیگی کیلئے آزاد ہے ۔ ہندوستانی سیکولر جموہری حکومت میں بھی یہی سب کچھ کہا گیا ہے ۔لیکن یہ صرف دستور کی حد تک ٹھیک ہے ۔ عملا ً آزادی کے بعد سے ہی یہاں ہندوازم کا نفاذ ہوتا رہا ہے ۔ اس کے لئے سب سے پہلے آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو ان کی اوقات بتانے کیلئے بابری مسجد میں مورتیاں رکھ کر اس کے دروازے مسلمانوں پر ہمیشہ  کیلئے بند کردیئے گئے ۔ اس وقت ہمارے ہمالہ جیسے بلند قامت قائد اور سیاست داں موجود تھے لیکن وہ یا تو خاموش رہے یا محض چند الفاظ کی ادائیگی کے فرائض سے سبکدوش ہو کر گوشہ نشیں ہوگئے ۔دو قومی نظریہ کے مقابلے ایک قومی نظریہ کے علمبردار بھی کافی تعداد میں موجود تھے ۔ گویا آزاد ہندوستان میں ان کے’ ایک قومی نظریہ‘ کی دھجیاں ان کی آنکھوں کے سامنے بکھیر دی گئیں اور وہ دیکھتے ہی رہے۔بہر حال بات ہندوراشٹر کی سمت بڑھتے قدم کی چل رہی ہے ۔ کانگریس نے بھی وہی سب کچھ کیا جو آج آر ایس ایس کی حمایت سے بی جے پی کررہی ہے ۔بس فرق ذرا یہ ہے کہ یہ لوگ کچھ زیادہ ہی پرجوش ہیں اور جوش میں انسان احتیاط کا دامن چھوڑ دیتا ہے ۔ کانگریس کے لیڈر اور اس کے کیڈر بڑے منجھے ہوئے گھاگ لوگ تھے انہیں پتہ تھا کہ ملک میں ہندوتوا یا برہمنیت کو کس طرح نافذ کرنا ہے ۔
۱۴ ؍مئی ۲۰۱۴ کو پارلیمنٹ میں جب مودی جی پردھان سیوک کی حیثیت سے داخل ہوئے تو وہاں جے شری ۔۔۔۔کا نعرہ بلند کیا گیا ۔اب صدر جمہوریت منتخب ہونے پر رام ناتھ کووند کی تقریب حلف برداری پر بھاجپائی ممبران پارلیمان نے جئے شری ۔۔۔کا نعرہ بلند کیا ۔اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے گجرات کے آئی پی ایس سنجیو بھٹ نے سوال کیا ہے کہ جب پارلیمنٹ میں اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوگا تب آپ کا ردعمل کیا ہوگا ۔ سنجیو بھٹ نے بالکل صحیح سوال اٹھایا ہے ۔یہ لوگ محض تھوڑی سی قوت پانے کے بعد اپنی سطحی سوچ کا ثبوت دیتے ہوئے وہ حرکتیں کررہے ہیں جس کا ردعمل بھی آج یا کل آنا ہی ہے ۔ ویسے اللہ اکبر کا نعرہ تو بہت بڑی چیز ہے ، انہیں تو صرف اردو میں کسی مسلم ممبر پارلیمنٹ کا حلف لینا تک گوارا نہیں ہے ۔ اگر کبھی ایسا کوئی غیرت مند مسلمان منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچ گیا تو ضرور وہ اس ردعمل کا اظہار کرے گا اور تب ان کا چرغ پا ہونا قابل دید ہوگا ۔ حالیہ برہمنیت کے علمبرداروں کا جوش و خروش کچھ ایسا سطحی انداز کا ہوتا جارہا ہے کہ وہ کہیں بھی کچھ بھی بولنے لگے ہیں ۔ اسی طرح یوپی کے موجودہ  برہمنی وزیر اعلیٰ  یوگی آدتیہ ناتھ نے ایودھیا میں کہا کہ انڈونیشیا سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے  لیکن وہاں کا قومی تہوار رام لیلا ہے ۔ اس پر ڈاکٹرمنموہن سنگھ کے نام سے ٹوئٹر اکائونٹر ہولڈر نے جواب دیا آپ کیا بتانا چاہ رہے ہیں ۔ ہندوستان سب بڑی ہندو آبادی والا ملک ہے تو ہم رمضان کو قومی تہوار قرار دے دیں ۔ یہ بالکل صحیح جواب ہے ۔ اس طرح سے یہ لوگ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ جب مسلم ملکوں میں منادر اور ہندو تہواروں کو یہ اہمیت دی جاتی ہے تو ہندوستان میں مسلمان اتنی سختی سے پابندی کیوں کرتے ہیں کہ ’’ہمیں رام مندر نہیں بنانے دے رہے ہیں ‘‘۔ حالانکہ انہیں منادر بنانے اور ان کے پوجا پاٹھ سے کس نے روکا ہے ۔ بابری مسجد مسلمانوں کی ہے اور خالص مسلمانوں کی ہے وہ کسی کی زمین پر غاصبانہ قبضہ کرکے نہیں بنائی گئی ہے ۔ اس معاملہ اب عدالت عظمیٰ میں ہے ۔لیکن چار سال سے وہاں بھی اس کی سماعت نہیں ہوئی ہے ۔اگر ہمارے ملک میں عدالتیں آزاد اور خود مختار ہوتیں تو الہٰ آباد ہائی کورٹ کا بابری مسجد کی ملکیت والے مقدمہ میں بندر بانٹ والا فیصلہ نہیں ہوتا اور چار سال سے سپریم کورٹ میں بابری مسجد کا مقدمہ زیر التو انہیں ہوتا ۔ عدالت کی لاچاری دیکھئے کہ اس نے فریقوں کو آپس میں معاملہ حل کرنے کا مشورہ دیا ۔اگر آپس میں معاملہ حل ہو سکتا تھا تو پھر اس کے پاس ہی مقدمہ کیوں جاتا ۔دوسری بات یہ کہ یہ دو لوگوں کا جھگڑا نہیں ہے ۔یہ دو قوموں کا معاملہ ہے جسے ہندو شدت پسندوں نے پیچیدہ بنادیا ہے ۔مسلمان تو کہہ رہے ہیں کہ عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی وہ قبول ہوگا ۔لیکن عدالت خوب سمجھ رہی ہے کہ حق کس کے ساتھ ہے انصاف کے معاملہ میں پلڑا کس کا بھاری ہے لیکن فیصلہ کو کون فریق نہیں مانے گا اور ملک کو انارکی میں دھکیل دے گا ۔
بہتر ہوتا کہ ملک کو جے شری ۔۔۔ اور اللہ اکبر کے نعروں میں الجھانے کی بجائے اس کی ترقی کو فوقیت دی جاتی ۔ ملک ترقی کی دوڑ میں آگے کی بجائے پیچھے کو جارہا ہے ۔ ہر طرف افراتفری کا ماحول ہے ۔ زبردستی ملک پر برہمنیت تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اگر بالجبر جے شری ۔۔۔ کے نعروں کو تھوپا گیا ۔ ملک میں ایک خاص نظریہ چلانے کی کوشش کی گئی تودوسرے فرقہ اور عقیدوں کے لوگ بھی ردعمل میں اپنے نعروں اور عقیدوں کے نفاذ کیلئے جد و جہد کی کوشش کریں گے ۔ نتیجہ کے طور پر ملک لا متناہی انتشار کا شکار ہو جائے گا اور اس کی ذمہ داری موجودہ حکومت کر سر ہوگی ۔

0 comments: