Muslim Worlds

خادم حرمین شریفین کی شرافت کا مرثیہ

8:26 AM nehal sagheer 0 Comments


عمر فراہی ۔  ای میل  :  umarfarrahi@gmail.com 

سعودی شہنشاہ  شاہ سلمان نے جب موجودہ ولی عہد محمد بن نائف کو معزول کرکے اپنے بیٹے محمد کو ولی عہدمقرر کیا تو یہ موضوع بھی زیر بحث رہا کہ کہیں شاہ سلمان کے اس فیصلے سے مملکت سعودیہ میں انتشار کی کیفیت نہ پیدا ہوجائے ۔ جیسا کہ افواہیں بھی ہیں کہ کسی ممکنہ بغاوت کو روکنے کیلئے محمد بن نائف کو ان کے جدہ کے محل میں نظر بند کردیا گیا ہے ۔ حالانکہ سعودی عرب کے سرکاری ذرائع ابلاغ کی طرف سے اس افواہ کی تردید کی گئی ہے ۔ لیکن محمد بن نائف کی طرف سے عوام کے سامنے کوئی آزادانہ بیان نہیں آیا ہے ۔ خیر یہ آل سعود کا اپنا خاندانی معاملہ ہے اس وقت وہ خطہء حجاز کے ڈکٹیٹر ہیں جسے چاہیں سعودی عوام پر حکمراں بنا کر تھوپ دیں ۔ لیکن ان کے کسی بھی فیصلے سے اگر حجاز میں کوئی بحرانی کیفیت پیدا ہوتی ہے توحرم پاک کے تقدس کو خطرہ لاحق ہونے کا اندیشہ ضرور پیدا ہوجاتا ہے ۔ اس لئے مسلمانوں کا تشویش میں مبتلا ہونابھی لازمی ہے ۔ اب کوئی یہ کہے کہ سعودی حکمراں خادم حرمین شریفین بھی ہیں اس لئے وہ خطا سے پاک ہیں تو اس اندھی عقیدت اور آستھا کی مثال وہی ہوئی جو اکثر پیدائشی مسلمانوں کا گمان ہوتا ہے کہ وہ لاکھ گناہ کرے جنتی ہے اور پیدائشی مشرک جنم سے جہنمی ہے ۔ خود کیلئے خادم حرمین شریفین کا لقب اختیار کر لینے کا مطلب یہ بالکل نہیں ہوتا کہ خادم شریفین کوئی بھی فیصلہ کریں وہ درست ہو اور اس فیصلے کے خلاف کوئی آواز بھی نہ اٹھے ۔ یہ سچ ہے کہ اب خلفائے راشدین کا دور نہیں رہا جب ایک عام شخص بھی اپنے حکمراں کے سامنے کلمہء حق بلند کرنےکیلئے آزاد تھا ۔ لیکن کیا اہل ایمان اپنے اس مزاج کو بھی دفن کردیں جس کی تعلیم انہیں صدیوں سے اپنی کتابوں سے ملتی ہے اور وہ یہ تعلیم اپنی نسلوں میں بھی منتقل کرنے کے پابند ہیں ۔ جیسا کہ سعودی اور قطر کے تنازعے کو لیکربحث کا عنوان بھی صرف اتنا تھا کہ سعودی نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرکے عالم اسلام کے اتحاد میں انتشار پیدا کیا ہے اور یہ فیصلہ ممکن ہے کہ مملکت سعود یہ کیلئے ہی نقصان دہ ہو ۔ آواز اٹھانے والے بھی اپنی جگہ مخلص تھے لیکن ایک طبقے کو عرب حکمرانوں پر انگلی اٹھانا بھی اچھا نہیں لگا اور اس نے نہ صرف چند مخصوص اتحادی عرب ممالک کے اس ناقص فیصلے کو جائز ٹھہرانا شروع کردیا اعتراض اٹھانے والوں کے مسلک عقیدے اور ان کے آباواجداد کی تاریخ بھی کھنگال ڈالی ۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر اخوان سے لیکر جماعت اسلامی حماس اور ان کے گڑے مردوں تک پر لعنت ملامت کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔کسی نے لکھا کہ کیا اخوان ہی اسلام ہے اور اسلام ہی اخوان ہے ۔ تو کسی نے یہ بھی کہا کہ مسئلہ فلسطین، مذہبی مسئلہ ہرگز نہیں جیسا کہ کچھ دہشت نواز عناصر دنیا کو باور کرا کے ماڈرن جہاد کی بھٹی کو گرم رکھنا چاہتے ہیں ۔ یہ محض زمین کا ایک سیاسی مسئلہ ہے، جس کا تعلق صرف فلسطینیوں سے ہے اور کچھ نہیں ۔
یہ تو اچھا ہے سوشل میڈیا پریہ بحث اردو میں ہورہی تھی ورنہ غیر مسلموں کا وہ طبقہ جو مظلوم فلسطینیوں کی جدوجہد میں آواز اٹھاتا رہتا ہے وہ بھی توبہ کرتا کہ یہ کس قبیل کے مسلمان ہیں جو ایک خطرناک سوچ ان کے ذہنوں میں پل رہا ہے اور یہ لوگ اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی تحریک کو ہی دہشت گردی سے تعبیر کر رہے ہیں ۔ باالفرض اگر یہ بات مان بھی لیا جائے کہ فلسطین کا مسئلہ مذہبی نہیں ہے یا اخوانی مسلمان نہیں ہیں تو بھی انسانیت کے درد کو محسوس کرتے ہوئے کیا مسلمانوں کا یہ فرض نہیں بنتا کہ ظلم چاہے کسی غیر مسلم قوم پر ہی کیوں نہ ہو وہ اس کے خلاف آواز بلند کریں ۔اتفاق سے اس وقت ہندوستان سے لیکر افغانستان ، ایران ، عراق ، شام اور مصر و فلسطین تک ظلم کی بھٹی میں جھونکے جانے والے انسانوں کا مذہب اسلام ہی ہےاور ان پر ظلم کرنے والے ظالم حکمراں بھی مسلمان ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کی تابعداری میں اپنی اسلامی غیرت اور حمیت سے بھی محروم ہوچکے ہیں ۔ وہ مذہب جس کی تعلیمات میں ہی مظلوموںکی حمایت و اعانت کو ترجیح دی گئی ہو ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہء حق بلند کرنے کو افضل جہاد کہا گیا ہو اگر اس مذہب کا ہی کوئی طبقہ ظالم حکمرانوں کی حمایت میں کھڑا نظر آئے تو تعجب ہے کہ وہ کس اسلام کے پیروکار ہیں ۔ تعجب کی بات تو یہ بھی ہے کہ اب کسی بھی ظلم کو ہم قرآن کی نظر سے نہ دیکھ کرحکمرانوں کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں ۔ بدقسمتی سے روس کے خلاف افغانستان کی سرد جنگ میں مغرب نے افغانستان کے جن ملاؤں اور عرب کے سلفیوں کی حمایت کرکے انہیں مجاہد کا لقب دیا تھا جب یہی لوگ فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف مغرب کی ناانصافی اور عرب حکمرانوں کی نااہلی اور بزدلی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تو یہ کل کے مجاہد دہشت گرد ہوگئے ۔ ظلم اور تشدد کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے معنی اور مفہوم دینا ابلیس کے نمائندوں کا پرانا کھیل رہا ہے ، جسے صہیونی مقتدرہ نے بہت ہی چالاکی سے کھیلا ۔ میڈیا نے پروپگنڈہ کیا اور اب کسی بھی سیاسی عوامی بغاوت کو بھی دہشت گردی کا نام دیکر کچل دینا حکومتوں کیلئے عام بات ہوچکی ہے ۔ عرب بہار کے بعد تیونس مصر لیبیا اور شام وعراق میں یہی ہورہا ہے ۔ عوامی بغاوت کی یہ آگ جب سعودی عرب اور ایرانی حکومتوں کی دہلیز تک پہنچی تو ان کے بھی کان کھڑے ہوگئے ۔ وہی لوگ جو اسرائیل اور امریکہ کو شیطان اور دہشت گرد کہہ رہے تھے وہی لوگ امریکہ اور اسرائیل کی زبان بول رہے ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ عوامی بے چینی کبھی کبھی خون خرابے میں بھی تبدیل ہوجاتی ہے لیکن کسی بھی عوامی تحریک کو دہشت گردی کی اصطلاح یا لفظوں کی عیاری اور مکاری سے کبھی بھی دبایا اور کچلا نہیں جاسکتا ۔ 2012 میں ڈاکٹر مرسی کی منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت کی حمایت کرکے سعود ی حکومت نے ایک ایسی نظیر قائم کی ہے جسے وہ جبراً کتنا بھی درست قرار دے یہ حکومت عالم اسلام کی اخلاقی حمایت کا جواز کھو چکی ہے۔جو لوگ یہ کہتے ہوئے سعودی حکومت کے اس فیصلے کی حمایت کرتے ہیں کہ قطر اوراخوان کے لوگ ایران سے مل کر سعودی حکومت کے خلاف سازش کررہے تھے تو انہیں سمجھنا چاہئے کہ دنیا کا وہ کون سا ملک ہے جو اپنی انٹلیجنس کے ذریعے دوسرے ملک پر نظر نہیں رکھے ہوئے ہے اور وہ اپنی انہی خفیہ ایجنسیوں کی اطلاع پر اپنی حفاظتی تدبیر کیلئے پابند ہے - سعودی حکمراں خود پچھلے پچاس سالوں سے یہی کررہے ہیں ۔ فرق اتنا ہے کہ سعودی حکمرانوں نے اب تک اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے اپنی بے پناہ دولت کے ذریعے غیر ملکی حکمراں اور فوج کا استعمال کیا ہے جیسا کہ ایران کے خلاف صدام اور عراقی فوجوں کا استعمال کیاگیا ۔ مگر جب صدام نے کویت پر حملہ کیا تو سعودی حکومت کو امریکہ سے مدد لینی پڑی ۔ امریکہ سے مدد لینا معیوب بات نہیں ہے جبکہ خود ایران بھی شام کے اندر روس کی مدد سے عوامی انقلاب کو ناکام کرنے میں کامیاب ہوا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ سعودی حکمراں اپنی خود کی اتنی فوج کیوں نہیں تشکیل دیتے جو مملکت سعود اور حرمین کی حفاظت کرسکے ؟ اس سوال پر کیا غور کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ خادم حرمین شریفین کسی بھی ممکنہ حملے کی صورت میں اپنی پچیس پچاس ہزار فوج سے حرم پاک کا دفاع کرسکیں گے ؟ سچائی یہ ہے کہ سعودی حکمراں خاندان کو سب سےبڑا خطرہ اپنے عوام کی بغاوت سے ہی ہے ۔ اگر سعودی حکمراں عوام پر مشتمل دس لاکھ کی فوج تشکیل دیتے ہیں جو کہ وہ اتنے اہل ہیں کہ دے سکتے ہیں لیکن انہوں نے اپنی بادشاہت کے خلاف فوجی بغاوت نہ ہو سعودی باشندوں کی کوئی فوج کبھی تشکیل نہیں دی

0 comments: