featured

بزدلی کا وظیفہ

2:32 AM nehal sagheer 0 Comments


ممتاز میر ، برہانپور
جون ۲۰۱۷ کے افکار ملی میں پاکستانی صحافی خورشید ندیم کا ایک مضمون ’’حکمت یار سے خالد مشعل تک ‘‘شائع ہوا تھا ۔ہمیں اس کی کچھ باتوں سے اختلاف تھا مگر چاہتے تھے کہ کوئی ہم سے بہترلکھاری اس پر خامہ فرسائی کرے۔اسلئے جولائی کے افکار ملی کا انتظار رہا ۔افسوس کہ کسی نے بھی اس مضمون کی طرف توجہ نہ کی ،بلکہ اس بار پھر افکار ملی نے ان کا ایک مضمون شائع کر دیا ہے ۔مجبوراً ہمیں اپنا کمزور قلم اٹھانا پڑرہا ہے ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم ان کے کئی مضامین پڑ ھ چکے ہیں اور دیگر تمام ہی مضامین ہمیں پسند آئے ہیں۔ جناب خورشید ندیم اپنے مذکورہ مضمون میں ایک جگہ لکھتے ہیں ’’اگرافغانستان میں مجاہدین کی قیادت بصیرت کا مظاہرہ کرتی اور مستحکم حکومت کی بنیاد رکھتی تو ۹؍۱۱ ہوتا نہ عالم اسلام برباد ہوتا۔اگر گلبدین اور دوسرے رہنما دوربین ہوتے تو آج کی دنیا کہیں زیادہ پر امن ہوتی‘‘ پچھلے چند مہینوں سے ہمارے صحافیوں کو عجیب قسم کا درہ پڑا ہوا ہے ۔ ابھی ایک ماہ پہلے بمبئی کے ایک اردو اخبار میں جناب افتخار گیلانی کا ایک مضمون نظر سے گزرا تھا ۔مضمون دراصل ایک برطانوی صحافی ایڈریان لیوی کا انٹرویو تھا جسمیں اس نے آج اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آخری سالوں میں بھی ۹؍۱۱ کے واقعے کا سہرا ڈھٹائی کی انتہا کرتے ہوئے مسلمانوں کے ہی سر باندھا ہے ۔بلا شبہ قوم کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ان کے دشمن بے شرمی ،بے غیرتی اور زوال کی کس انتہا پر ہیں۔مگر ایسے جھوٹے اور بدمعاش صحافیوں کی تعریفیں کرکے انھیں اونچا اور قابل اعتماد صحافی ثابت کرنا ہم جیسوں کے خون جلانے کا سبب ہوتا ہے ۔بلا شبہ مجاہدین نے دوران جہاد جس اتحاد اور فراست کا ثبوت دیا اس کا مظاہرہ اگر حالت امن میں بھی کرتے تو آج افغانستان ہی نہیں دنیا کے حالات کچھ اور ہوتے ۔یہ بھی درست کہ گلبدین حکمت یارجس لچک کا مظاہرہ آج کر رہے ہیں روس کے افغانستان سے فرار کے بعد کے حالات میں اپنے مجاہد ساتھیوں کے ساتھ مطلوبہ لچک کا مظاہرہ انھوں نے نہیں کیا تھا ۔مگر یہ کہنا کہ ان سب اچھی اچھی میٹھی میٹھی باتوں کی وجہ سے ۹؍۱۱ نہ ہوا ہوتا ،ہمارے نزدیک غلط ہے اگر کوئی کسی کی جیب سے پیسے نکالنے کی کوشش کرے تو ایسے وقت چپ رہنا شرافت یا مروت یا امن پسندی کا نہیں بزدلی کا مظاہرہ ہے۔ہمارے مطالعے کے مطابق تو ۹؍۱۱ کا فیصلہ اس وقت ہو چکا تھا جب طالبان نے افغانستان کی سرزمین میں چھپی ہوئی دولت کو نکالنے کے لئے امریکی آفر کو ٹھکرادیا تھا ۔طالبان کے جواب میں امریکیوں نے کہا تھا کہ آپ کو ڈالروں کی قالین یا بموں کی قالین میں سے کسی ایک کو چننا پڑے گا ۔طالبان کا تعلق بر صغیر سے نہیں ۔بڑے غیور لوگ ہیں انھوں نے بموں کی قالین کو چنا ۔ہمارے تعلیم و تہذیب یافتہ صحافی کہہ سکتے ہیں کہ دولت کی بات کیا ایسی حالت میں تو اپنی ماں بہن کو بھی ’’ڈان ‘‘ کے حوالے کردینا چاہئے۔بش کے زمانے کے ایک ڈپٹی اٹارنی جنرل کے مطابق ’’پاکستانی اپنی ماں کو بھی بیچ سکتے ہیں شرط یہ ہے کہ قیمت اچھی لگائی جائے‘‘ہمارے اور طالبان کے نزدیک اہمیت اس حدیث کی ہے جو کہتی ہے کہ جان مال عزت آبرو کی حفاظت میں مارا جانے والا شہید ہے۔اسی طرح عراق کے صدام حسین کا معاملہ ہے ۔صدام تو ان کا اپنا آدمی تھا ۔میڈیا کہتا ہے کہ اسے کویت پر حملہ کرنے کے لئے اسکایا گیا ۔عراق کویت اور سعودی عرب کے اس معاملے کے بہت سارے پہلو ہیں۔محترم خورشید ندیم بتائیں کہ اس سے کس طرح بچا جا سکتا تھا ۔جس نے بچانے کی کوشش کی تھی اسے جلا وطن ہونا پڑا وہ در در بھٹکتا رہا اور غریب الوطنی میں ہی اللہ کو پیارا ہوا ۔اس کی موت پر بھی اسراروں کا پردہ پڑا ہوا ہے ۔جس کے جب دل میں آتا ہے اسے مار دیتا ہے۔
محترم خورشید ندیم مزیدایک جگہ لکھتے ہیں ’’حماس کے کسی رہنما کا یہ پہلا دورہء مصر ہے ،یہ پیش رفت بتا رہی ہے کہ حماس بھی اب سیاسی جد و جہد کا رخ کر رہی ہے ‘‘اگر حماس اب سیاسی جد وجہد کا رخ کر رہی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ۲۰۰۶ کی ابتدامیں اس نے کیا کیا تھا اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کے جدو جہد کے نتائج کو برداشت کیوں نہیں کیا جاتا؟جب سیاسی اور پرامن جدو جہد کے پھل بھی عوام کو کھانے کو نہ ملیں تو پھر انھیں کیا کرنا چاہئے۔مسجد میں بیٹھ کر وظیفے یا فرشتوں کے نزول کا انتظار کرنا چاہئے۔ آخری حصے میں محترم صحافی کہتے ہیں کہ اب دنیا میں عسکری جد و جہد کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ بات وہ اس وقت کہہ رہے ہیں جب ابھی چند سالوں پہلے امریکہ کے صدر نے مسلمانوں کو صلیبی جنگوں کی بھولی ہوئی تاریخ یاد دلائی تھی ۔ سوری !عسکریت کا دروازہ جناب خورشید نے شاید مسلمانوں کے لئے بند کیا ہے صلیبیوں کے لئے نہیں ۔انھیں تو سات خون معاف ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی عسکریت کے نتیجے میں صرف فساد برپا ہو تا ہے ۔اسی لئے قائد اعظم محمد علی جناح نے سیاسی جد وجہد کا راستہ اپنایا تھا اور ایک جان قربان کئے بغیر آزادی دلوائی ۔محترم صحافی کے ان خیالات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ یا تو نا تجربہ کار ہیں یا مسلمانوں کو گاندھی جی کے فلسفہ عدم تشدد کا پیروکار بنانا چاہتے ہیں جسے آج خود ان کی قوم ٹھوکروں میں اڑا رہی ہے۔جناب خورشید کو نہیں معلوم کے انسانی نفسیات کیا ہوتی ہے۔انھیں یہ سمجھ ہی نہیں کہ واقعات کے پیچھے کارفرما عوامل نظر نہیں آتے مگر واقعات کے وقوع پذیر ہونے میں ان کا بڑا حصہ ہوتاہے ۔آزادی کبھی تھالیوں میں سجا کر پیش نہیں کی جاتی ۔ آزادی کے معاہدات قوم کے جوان اپنے خون سے لکھتے ہیں مگر نام سیاسی لیڈروں کا ہوتا ہے ۔ اگر آزادی کے متوالے اپنی جانوں کی قربانی نہ دیں تو سامراج سیاسی لیڈروں کو کوڑیوں کے مول نہ پوچھے ۔ ہندوپاک کی آزادی کے تعلق سے ہماری برسوں سے یہ رائے ہے کہ یہ ہمیں گاندھی نہرویا جناح کی سیاسی جدو جہد کے طفیل نہیں ملی ہے بلکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے حالات ،برطانیہ کی معیشت کی خرابی نے برطانیہ کو اپنی نوآبادیات کا کمبل چھوڑنے پر مجبور کر دیا ۔ اگر اس وقت ہمارے ملک میں امن کی فاختہ اڑا کرتی تو کون بے وقوف اپنے غلاموں کو چھوڑ کر جاتا ۔ جہاد آزادی کو دبانے کے لئے پیسے چاہئے جو برطانیہ کے پاس نہیں تھے ۔ جناب خورشید ندیم کے لئے ہمارا مشورہ ہے کہ ہمالیہ کی کسی چوٹی پر بیٹھ کر وظیفہ کریں کہ دنیا میں ہر طرف امن چین کی بانسری بجے ۔ اورجب ایسا ہو جائے تو واپس آجائیں اور یہ دعویٰ بھی کر دیں کہ ان کے وظیفے کی وجہ سے دنیا میں امن قائم ہوا ہے ۔ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ہمارا مطالعہ بہت کم ہے ۔ اسلام میں تو نبی ﷺ بھی تلوار کے بغیر امن قائم نہ کر سکا ۔
؂ میں اپنے علم کی محدودیت پہ نازاں ہوں ؍نہیں کچھ اور ،تری راہ کے سوا معلوم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔7697376137

0 comments: