featured

بلیٹ ٹرین کی پٹری پر ہندوتوا کی ریس

7:03 PM nehal sagheer 0 Comments

نہال صغیر

ہندوستان بدترین معاشی بحران سے گزررہا ہے ۔ اس بحران کی سب سے اہم وجہ مودی حکومت کا کرنسی منسوخی کا غیر دانشمندانہ قدم ہے ۔ اس کے علاوہ بھی حکومتی پالیسی اس کے لئے ذمہ دار ہے ۔ دراصل کسی بھی ملک کو معاشی اور دفاعی طور پر مستحکم ہونے کیلئے ضروری ہے کہ امن و امان اور قانون و انتظام کی صورتحال بہتر ہو۔لوگ بلا خوف خطر اپنی روز مرہ کی ضرورتوں کو پورا کریں ۔انہیں کوئی کاروبار کرنا ہو تو اس کے لئے انہیں آسانیان فراہم ہوں ۔حکومت کے متعلقہ شعبے انہیں تعاون کریں ۔ یہ مسائل ملک میں پہلے سے ہی تھے اس پر موجودہ حکومت کے تین سال قبل ورود کرنے کے ساتھ ہی اس میں اضافہ ہوگیا ۔حزب اقتدار کے غنڈے اور بدمعاش ارکان کھلے سانڈ کی طرح کہیں بھی حملہ آور ہو جاتے ہیں ۔ ملک کی فضا اتنی مکدر ہوگئی ہے کہ اب ٹرینوں ،بسوں اور شاہراہوں پر ایک مخصوص شناخت کے ساتھ چلتے ہوئے جسم میں ٹھنڈی لہر دوڑ جاتی ہے ۔حالات کی یہ سنگینی ہی ملک کی معاشی تباہی کے لئے ہی کیا ناکافی تھی جو بڑے نوٹوں کو منسوخ کرنے کا اچانک فرمان جاری ہو گیا ۔اس سے پیدا شدہ مسائل چھ ماہ بیتنے کے بعد بھی ختم ہوتے نظر نہیں آتے ۔لیکن حکومتی کارندوں کی بے حسی اور جوابدہی کے احساس سے عاری اور بے ضمیری کا حال یہ ہے کہ وہ اب بھی اچھے دنوں کی آمد کے راگ الاپتے نہیں تھکتے۔یہ حکومت جس تنظیم سے تعلق رکھتی ہے اس نے ہر شعبہ کیلئے جھوٹ پھیلانے اور تنقید کرنے والے بیدار افراد کی زبان بند کرانے کیلئے اپنے کارندے ہر چہار جانب چھوڑ رکھے ہیں۔سڑکوں پر ان کے پالے ہوئے غنڈے انارکی پھیلارہے ہیں تو ٹی وی شو اور سوشل میڈیا پر اس سے توجہ ہٹانے کیلئے پہلے تو اس کا رخ موڑا جاتا ہے جب اس میں کامیابی نہیں ملتی تو ترقی کا سنہرا خواب دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
حکومت نے آتے ہیں اپنی مختلف ناکامیوں اور اپنے بے لگام غنڈوں کی حرکتوں سے توجہ ہٹانے کیلئے بلیٹ ٹرین کا شوشہ چھوڑ دیا تھا ۔اسے خوب خوب مشتہر کیا گیا ۔صرف بلیٹ ٹرین ہی کیا ترقی کے تعلق سے کئی اوینٹ اور اعلانات و پروگرام عوام کے سامنے پیش کئے گئے ۔ جو سب کے سب ہنوز عمل کی قطار میں ہیں کہ جانے کب ان کا نمبر آئے گا۔اب تو شاید عوام بھی بھول چکے ہوں کہ مودی جی نے کیا کیا اعلان کیا ، صرف اعلان جی ہاں صرف اعلان !ان کا کام صرف اتنا ہے کہ پچھلی حکومتوں کے شروع کئے گئے کاموں پر اپنا نام کندہ کروارہے ہیں ۔بلیٹ ٹرین کو ہی لے لیں ۔یہ کافی پہلے سے گفتگو کا موضوع ہے ۔ریلوے کی ویب سائٹ اور ویکی پیڈیا پر مودی جی کے عروج سے کافی قبل سے ہی ان کی تفصیلات درج ہیں ۔کئی وجوہات سے اسے شروع نہیں کیا جاسکا ۔ اس میں اول تو فنڈ کی کمی اور دوسرے بیورو کریسی کی تساہلی ۔یہ دونوں ہی مسائل آج بھی حل طلب ہیں ۔بلیٹ ٹرین کے بارے میں اب خبر آرہی ہے کہ 2021 میں شروع ہوگا اور 2031 میں اختتام پذیر ہوگا ۔کرایہ دوری کی بحث کو میں اس لئے نہیں لکھ رہا ہوں کہ یہ بحث فضول ہے کہ اس کا کیا کرایہ ہوگا اور کتنی دوری کتنے گھنٹوں میں طے کرے گی ۔جب چلے تب ہی یہ بحث ٹھیک ہوگا ۔چلنے سے پہلے اس کاکام شروع ہونا ضروری ہے ۔جس کے بارے میں خبر ہے کہ 2021 اس کی شروعات ہوگی ۔یعنی 2019 کا انتخاب اسی ایک اہم پرجیکٹ کے سہارے جیتنے کا منصوبہ ہے کہ کانگریس نے کچھ نہیں کیالیکن دیکھو مودی جی نے آتے ہی ملک کوبلیٹ ٹرین کا تحفہ دینے میں اپنی سرگرمی دکھارہے ہیں۔منصوبے اور بھی بہت سے ہوں گے بلکہ ہیں لیکن اس میں کئی منصوبے جسپال بھٹی کے فلاپ شو کی حیثیت رکھتے ہیں ۔صرف ایک ہی فارمولا ترقی ہے جو کو فی الحال دوام حاصل کرچکا ہے ۔ دیش بھکتی بھی ہے لیکن اس میں زیادہ قوت اس لئے نہیں ہے کہ اس کا راگ الاپنے کے نقصانات یہ ہیں کہ عوام کو بہر حال یہ جانکاری ہو رہی ہے کہ یہ محض ایک جذباتی نعرہ ہے ۔اس کیلئے کافی مشقت کرنے کی ضرورت ہے ۔پاکستان سے جنگ کرنی ہوگی ۔کچھ فوجیوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کرنا ہوگا ۔پھر بھی کہیں سے کسی نے کوئی سوال اٹھادیا تو اس کے کئے کرائے پر پانی پھرنے کا خدشہ برقرار رہتا ہے ۔لیکن ترقی کا فارمولہ اچھا ہے ۔اس پر کسی نے کوئی سوال اٹھایا تو کہہ دیا جائے گا کہ دیکھو یہ ترقی کے دشمن ہیں ۔یہ ملک کو ترقی یافتہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے ۔ایسا مودی جی اور ان ہمنوا کرتے بھی رہے ہیں اور اب بھی جب کبھی مذہبی جنونیت سے تھوڑی سی فرصت ملتی تو اس کا راگ ضرور الاپتے ہیں۔اس انتخاب میں ترقی کی بات ۔آئندہ اس پر عمل آوری کی شروعات کی نمائش ۔یعنی آئندہ کا الیکشن نمائش پر ہوگا ۔
ہندوتوا یعنی برہمنیت کے علمبرردار فی الحال اس کوشش میں ہیں کہ وہ ایک بار پھر بلیٹ ٹرین اور ترقی کے دیگر پروجیکٹ کے لئے چہل پہل کو تیز کریں اور عوام کو یہ باور کرائیں کہ مودی کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے جو ملک کو حقیقی ترقی سے ہمکنار کرسکے ۔ اس سے انہیں یہ بھی فائدہ ہوگا کہ اپنی برہمنیت جس کو یہ ہندوتوا کہتے ہیں ، کے لئے بھی زمین ہموار کرنے کا بھرپور موقعہ ملے گا ۔یعنی بلیٹ ٹرین کی پٹری پر اب ہندوتوا کی ریس ہونے والی ہے ۔اس میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔لیکن کچھ وقتوں کیلئے وہ اپنے اوپر لگنے والے داغ کو دھونے کی کوشش ضرور کریں گے کہ یہ لوگ ملک کو ترقی کی پٹری پر نہیں لے جاسکتے ۔کیوں کہ یہ لوگ افسانوی اور دیو مالائی کہانیوں کو سائنسی ترقی قرار دے رہے ہیں۔لیکن جیسا کہ کہا گیایہ انتخاب جیتنے کا محض ایک فارمولہ ہے اس کا حقیقت سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ ملک کی معاشی ترقی کو بغیر کسی فکر ی چشمہ لگائے اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھیں اور خود ہی فیصلہ کریں کہ موجودہ صورتحال میں یہ کس طرح ممکن ہوسکے ۔ معاشی حالت مستحکم ہے ۔نہ ہی سرمایہ کاری کے دور دور تک کوئی آثار ہیں ۔ دنیا تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر کھڑی ہے اور عین ممکن ہے کہ جو لوگ مشرق وسطیٰ کو اس کا میدان بنانا چاہتے تھے ان کے لئے یہ بات حیرت و استعجاب کا سبب بنے کے مشرق وسطیٰ کے بجائے مشرق بعید اور ہندوستان کے آس پاس ہی جنگ کے خطرے منڈلا رہے ہیں ۔ایسے میں کون آئے گا سرمایہ کاری کرنے ۔ہاں اگر ملک کی حالت ٹھیک ہوتی تو ضرور یہ کام ممکن ہو سکتا تھا ۔اب بھی اسی صورت میں یہ ممکن ہے کہ ملک میں امن و امان کی صوتحال کو بہتر بنایا جائے اور ایسے سارے عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے جو امن کی راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں ۔اس کے بغیر تو بلیٹ ٹرین کی پٹری پر صرف ہندوتوا کی ریس ہی ہو سکتی ہے ۔اور جھوٹے ترقی کے اعداد و شمار مشتہر کئے جاتے رہیں گے ۔آخر تین سال میں گیارہ ارب روپئے اشتہاروں پر یوں ہی تھوڑے نا خرچ کئے گئے ہیں۔

0 comments: