featured

کیوں نہیں فرماتے علمائے دین...

10:01 PM nehal sagheer 0 Comments




قاسم سید 
راستہ میں کنکر ہی کنکر اور روڑے ہوں، سڑک اوبڑ کھابڑ ہو، جگہ جگہ گڈھے نظر آرہے ہوں تو اچھا جوتا پہن کر اس پر چلا جاسکتا ہے۔ دشوار سے دشوارتر راستہ طے کیا جاسکتا ہے اور منزل تک پہنچنے کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے، مگر جب اچھے جوتے کے اندر ایک کنکر یا روڑا چلا جائے تو اچھی صاف ستھری سڑک ہونے کے باوجود اس پر چل نہیں سکتے۔ کوشش کریں گے تو پیر الٹا سیدھا پڑے گا بلکہ زخمی بھی کردے گا، پھر نظر منزل پر بھی نہیں بلکہ پوری توجہ جوتے میں موجود کنکر پر رہے گی۔ دوسرے الفاظ میں بیرونی چیلنجوں اور مخالفین کی وجہ سے انسان نہیں ہارتا بلکہ اندرون کی کمزوریاں اس کی شکست کا سبب بنتی ہیں۔ داخلی استحکام سخت سے سخت خارجی چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ جڑیں مضبوط ہونے پر تیز و تند آندھی پیڑ کا کچھ نہیں بگاڑتی، شرط یہ ہے کہ اس میں اکڑ نہ ہو، عاجزی و انکساری ہو۔ کوئی شخص ہو یا ملک و قوم اس وقت تک تندرست و توانا، مضبوط و مستحکم رہتے ہیں جب تک وہ داخلی استحکام پر توجہ اور بغلی گھونسوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ جنگیں ہارنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ قلعہ کا دروازہ اندر سے کھولنے والے تلاش کرکے خارجی طاقتیں اپنے مقصد کے لئے استعمال کرتی ہیں اور ایسے عناصر ہر دور میں بکثرت دستیاب رہتے ہیں جو معمولی داد و دہش کے لئے ضمیر کو کفن بناکر اوڑھ لیتے ہیں۔ جوتے کی کنکریاں چھوٹی ہوں یا بڑی، بہت تکلیف دیتی ہیں۔ اگر چھوٹی بھی ہو تب بھی چین نہیں لینے دیتی تاآنکہ اسے باہر نکال دیا جائے۔ اس لئے بیرونی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے پہلے اپنی چھوٹی چھوٹی کمزوریوں سے نجات پانا ضروری ہے۔ سارا غصہ سڑک پر نکالنا احمقانہ ردّعمل ہوگا۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اپنے ہر مسئلہ کا قصوروار دوسروں کو قرار دے کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ خوداحتسابی کا شعور دفن کردیا گیا ہے۔ اشتعال انگیزی اور جذباتیت کے خمیر سے تیار مزاج نے عدم برداشت کو امتیازی شناخت بنادیا ہے۔ ایسے وقت جب ملک میں راشٹردروہ بنام راشٹر بھکتی کی جنگ کا دوسرا دور شروع ہوا ہے، شخصی آزادی پر بحث پھر تیز ہوگئی ہے۔ تکثیری سماج میں پائی جانے والی اکثریت کے دو گروپ آمنے سامنے ہیں اور ایک دوسرے پر عدم رواداری و عدم برداشت کا الزام لگارہے ہیں۔ طاقت کے زور پر منھ بند کرنے یا پھر اس پر راشٹردروہی کا لیبل چسپاں کرنے کی مہم جنون میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ہمیں بھی ایمانداری اور غیرجانبداری کے ساتھ اپنے جارحانہ رویے کا احتسابی جائزہ لینا چاہئے کہ آخر اختلاف رائے کو برداشت کرنے کے لئے ہم تیار کیوں نہیں ہیں، خاص طور سے مذہبی امور میں قوت برداشت کیوں ختم ہوتی جارہی ہے۔ اختلاف کو مخالفت اور دشمنی کی حدوں میں پہنچادینے کا آخر کیا جواز ہے۔ اپنی رائے بالجبر تھوپنے کی ذہنیت کو بعض حلقوں کی طرف سے غذا فراہم کی جارہی ہے، خاص طور سے مسلکی اختلافات دشمنی کی تمام حدوں کو پار کرنے کے لئے پر تول لئے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ معزز علمائے کرام جن کو وارثان انبیاء کہا جاتا ہے اس دھینگامشتی کا خاموشی سے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ ہر ماہ ایسی دلخراش خبریں آتی ہیں کہ کلیجہ کانپنے لگتا ہے، مگر ممبر رسول کے وارث نہ جانے کن مصلحتوں کے تحت لبوں کو سیئے رہتے ہیں۔ زبان پر حرف شکایت نہیں۔ مسجدوں اور مدرسوں پر قبضے کے لئے ایک دوسرے کے سر پھوڑے جارہے ہیں۔ خون کے پیاسے بن جاتے ہیں، لاٹھیوں اور ڈنڈوں کا آزادانہ استعمال کرنے، فرزندان توحید ’خالص حق‘ کے لئے لہو بہانے سے دریغ نہیں کرتے۔ نہ جانے کتنی مسجدوں میں تالے محض اس بنا پر پڑگئے کہ دو مسلکوں کے پیروکار صرف اپنا حق سمجھتے تھے۔ انھوں نے یہ تو گوارا کیا کہ مسجد میں اذان نہ ہو، اللہ کے حضور سجدے نہ ہوں، صفیں ویران ہوجائیں اور مسجد اپنے نمازیوں کے لئے ترس جائے، لیکن ان کی ’ایمانی غیرت‘ نے جس کو صاحبان جبہ و دستار نے بڑی محنت و جدوجہد سے ’کمال عروج‘ کو پہنچایا ہے یہ برداشت نہیں کیا کہ مخالف مسلک والا ان پر بازی لے جائے۔ یہ کام ہماری حرکتوں کے سبب ہو تو یہ دین کا عین تقاضہ، اگر حکومت آثار قدیمہ کی مساجد میں نماز پر پابندی لگادے تو یہ اقلیت دشمن اور جمہوری آزادی کے برخلاف۔ ہم اس دہرے رویے پر مطمئن بھی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے واقعات پر نہ صرف علمائے کرام بلکہ مذہبی جماعتیں بھی پراسرار خاموشی اختیار کئے رہتی ہیں حتیٰ کہ سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتیں اور کسی سیاسی پارٹی کے لئے ووٹ کی اپیل یا ہمدردی کے اظہار میں بخالت سے کام نہ لینے والے مسلمانوں کی آپسی سرپھٹول پر غیرجانبدار نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ یہ خاموشی ایسے عناصر کے حوصلے بڑھاتی ہے جو معمولی تنازعات پر سر پھاڑنے کے لئے دوڑ پڑتے ہیں۔ مسلم پرسنل لا بورڈ اصلاح معاشرہ کی تحریک چلاتا ہے، مگر مسلکی اختلافات پر پانی ڈالنے یا اپنے مسلک پر برقرار رہتے ہوئے ایک دوسرے کے احترام اور تنازعات کو علما کی طرف لوٹانے کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا۔
حال ہی میں بہار کے سیتامڑھی میں ایک مسجد پر دیوبندی اور اہل حدیث مسلک والے آمنے سامنے آگئے۔ مسجد پر دوسرے فریق نے قبضہ کی کوشش کی۔ پولیس نے حملہ آوروں سے مسجد خالی کرائی۔ مقامی انتظامیہ نے فریقین میں صلح صفائی کی کوشش کی۔ مسجد و اطراف کو اپنے قبضہ میں لے لیا۔ تنازع کے سبب اذان و نماز نہیں ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ مسجد کے سارے امور ایک مسلک کے زیرنگرانی انجام دیے جارہے ہیں کہ ایک دن دوسرے مسلک کے مقامی و بیرونی افراد مسجد میں داخل ہوئے اور مسجد کا نام اور وقف نمبر کھرچنے لگے، جس پر ہنگامہ ہوا۔ پولیس فورس طلب کی گئی، ایک مقامی لیڈر ان کی پشت پناہی کررہا ہے، کاغذات کی جانچ پڑتال کی جارہی ہے۔
اسی طرح مرادآباد کے تھانہ پاکبڑا کے رتن پور کلاں گائوں میں دیوبندی اور بریلوی مسلک کے لوگ مسجد میں بھڑگئے۔ دونوں مسلک کے عاشقان نے ایک دوسرے پر جم کر پتھرائو کیا، جس سے متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ پولیس نے زخمیوں کو اسپتال پہنچایا۔ دونوں مسلک کے اہلیان مسجد پر اپنا دعویٰ کررہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ مسجد میں سوئم ہورہا تھا تو دوسرے مسلک والوں نے پہنچ کر اسے بند کرایا۔ معاملہ تھانہ پہنچا۔ دونوں نے اپنے دستاویز دکھائے۔ دوسرے روز عصر کے وقت دونوں مسلک والے مسجد پہنچے، جہاں کہاسنی ہوگئی اور دونوں نے ایک دوسرے پر جم کر پتھرائو کیا۔ کئی تھانوں کی پولیس موقع واردات پر پہنچی، پتھرائو میں مسجد کے امام بھی زخمی ہوگئے۔ پندرہ لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ پولیس فورس بڑی تعداد میں تعینات کردی گئی۔ معاملہ کی جانچ جاری ہے کہ مسجد پر کس کا قبضہ جائز ہے۔ یہ حملے شرپسندوں یا فرقہ پرست عناصر نے نہیں کیا بلکہ اللہ و رسول پر ایمان رکھنے والوں اور ایک قبلہ کی طرف منھ کرکے نماز پڑھنے والوں نے ہی یہ کارخیر انجام دیا ہے۔ یہ واقعات ایسے ہیں جو اخبارات میں شائع ہوجاتے ہیں۔ نہ جانے دوردراز کے علاقوں میں کہاں کہاں فرزندان توحید کی ایمانی غیرت جوش مارتی ہوگی اور کتنے مقدمات تھانوں میں دائر ہوئے ہوں گے، پھر ان کی گرفتاریوں اور ضمانتوں کے مسائل سامنے آتے ہیں۔ ظاہر ہے اسلام و حقانیت کے لئے یہ قربانیاں یقیناً ضروری مانی جاتی ہوں گی۔ یہ سماج کا غریب و نادار طبقہ ہوتا ہے جو اللہ سے ڈرتا ہے اور رسول سے سچی محبت کرتا ہے۔ اس کے پاس حیلے اور تاویلیں نہیں ہوتیں۔ وہ شریعت و دین کے بارے میں جتنا جانتا ہے اس پر مرمٹنے کا جذبہ رگوں میں دوڑتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر ان رگوں میں جہاں محبت و جاں نثاری کا لہو دوڑ رہا ہے، مسلکی زہر کا انجکشن دے کر کون زہریلا بنارہا ہے۔ انھیں تشدد پر کون اکساتا ہے۔ اپنے دینی بھائیوں پر لاٹھیاں مارنے، سر پھوڑنے اور جان لینے کی ترغیب دیتا ہے۔ آخر وہ کون ہے جو انھیں لڑاکر بل میں گھس جاتا ہے۔ ان کی نشان دہی کیوں نہیں کی جاتی ہے؟ کیا تبلیغ مسلک تبلیغ دین پر حاوی ہوگئی ہے۔ کیا سب ترجیحات میں مسلک ہی اول و آخر ہوگیا ہے اور کیا ہندوستان میں بھی پاکستان کی طرح مسلکی جنگوں کے لئے ماحول تیار کیا جارہا ہے۔ کیا ان کو بے نقاب نہیں کیا جانا چاہئے۔ آخر اس مسئلہ کی سنگینی و سفاکی کو محسوس کیوں نہیں کیا جارہا ہے۔ ہماری خاموشی ایسے خوفناک اور سفاک عناصر کی حوصلہ افزائی نہیں کرتی، جو اپنے اسٹیجوں سے مسلکی زہر بانٹتے ہیں اور اس میں بلاامتیاز سبھی مسالک کے ماننے والے موجود ہیں۔ ہمارے معزز علمائے کرام آخر کب تک خاموش رہیں گے، وہ آگے بڑھ کر اس پر باندھ کیوں نہیں باندھتے۔ انھیں کس بات کا انتظار ہے؟ معزز علمائے کرام ہی تو ہماری پہلی اور آخری امید ہیں۔ اگر یہ طبقہ بھی مصلحتوں، نادیدہ اندیشوں اور مروّتوں کا شکار ہوگیا تو یہ ملت کہاں جاکر اپنے درد کو بیان کرے گی۔ یہی تو ملجا و ماوی ہیں تو ان پر ذمہ داری بھی سب سے زیادہ عائد ہوتی ہے۔ اگر سبرامنیم سوامی جیسے لوگ ببانگ دہل آن ریکارڈ یہ کہنے کی ہمت رکھتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو آپس میں تقسیم کریں گے، ان کو مسلک کی بنیاد پر بانٹیں گے اور ہندوئوں کو متحد کریں گے اور ہم یہ کررہے ہیں، وہ ہماری کمزور نسوں کو دبانے کی حکمت عملی پر کام کرنے اور اسے بتانے میں جھجک محسوس نہیں کرتے تو کیا ہم شعوری یا غیرشعوری طور پر ان کی مدد کررہے ہیں۔ ان کے مذموم مقاصد کی تکمیل میں لگے ہیں۔ یہ جواب کیوں نہیں جاتا کہ اس معاملے میں کوئی کوشش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ہم کیوں آلہ کار بننے کا موقع دے رہے ہیں۔ کیا بغداد اور اسپین کی تاریخ کا مطالعہ نہیں کیا۔ جب آفت آتی ہے تو کسی کا گھر نہیں بچتا۔ مسلکی تشددد کا دائرہ بڑھے گا تو کسی کو نہیں چھوڑے گا۔ ملک کے حالات سنگین خطرات کی طرف اشارہ کررہے ہیں، فضا میں بارود کی بو گھل گئی، جوتے کا کنکر نکالنے کی فکر کیجئے۔

qasimsyed2008@gmail.com

0 comments: