featured

سید شہاب الدین بھی خالق حقیقی سے جاملے

6:26 PM nehal sagheer 0 Comments


نہال صغیر

جو بادہ کش تھے پرانے سب اٹھتے جاتے ہیں ۔۔کہیں سے آب بقائے دوام لا ساقی
ابھی دو روز قبل کی ہی بات ہے میں اویسی برادران اور کل ہند مجلس اتحاد المسلمین پر الزام تراشیوں سے بہت ملول تھا ۔اس حالت میں کوشش کی کہ دیکھوں کہ ماضی میں کن کن شخصیات کو جنہوں نے کانگریس سے الگ ہٹ کر مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے کی کوشش کی اورعملاً سیاسی بے وزنی دور کرنے کی کوشش کی جن کو قوم نے کانگریس کے زر خرید غلاموں کے اشاروں پر بدنام کیا ۔ان میں ایک نام مسلم مجلس کے تاسیسی کارکن اور بیباک قائد ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی کا نام سامنے آگیا ۔جب انہوں نے 1974 میں مسلم مجلس کی بنا ڈالی اور یوپی عام انتخابات میں حصہ لیا اور پندرہ یا سترہ سیٹیں اسمبلی میں حاصل کیں ۔لیکن وہ مخلص اور بیباک قائد اسی سال ہم سے بچھڑ کر خالق حقیقی سے جاملا ۔اس نے اپنے پیشہ معالج کے بہترین کریئر ،اپنی دولت ،اپنی صحت اور آخر کار اپنی زندگی بھی قوم کے لئے قربان کردی ۔ان پر بھی انہی لوگوں کی جانب سے وہی الزمات لگائے گئے جو آجکل کانگریس کے دلال مسلم نما افراد اویسی برادران پر لگا رہے ہیں ۔بہر حال یہ تو بر سبیل تذکرہ یہاں بیان ہو گیا ۔آج 4 ؍مارچ 2017 کی صبح میں نے اپنا میل باکس کھولا تو وہاں گوگل گروپ این آر آئی انڈین پر کل ہند مسلم مجلس مشاورت کے نو منتخب صدر نوید حامد کی طرف سے ایک پیغام تھا کہ آج صبح چھ بجکر بائیس منٹ پر خالق حقیقی سے جا ملے ۔موت ایک زندہ حقیقت ہے۔یہ دنیا فانی ہے اور یہاں جو آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن جان ہے ۔اس دنیا میں روز ہزاروں لاکھوں افراد موت کی آغوش میں پہنچ جاتے ہیں ۔ان میں سے بہت سے اپنے ہوتے ہیں جنہیں دل جان سے عزیز رکھتے ہیں ۔کچھ اپنے نہیں ہوتے ہیں لیکن انہی میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں جن سے کوئی رشتہ نہ ہوتے ہوئے بھی اپنا پن کا احسا س ہوتا ہے ۔اس سے خواہ ہم کبھی نہیں ملے ہوں لیکن وہ ہمارے بہت قریب ہوتا ہے ۔یہ قربت یہ لگاؤ اس کے عظمت کی وجہ سے ہوتی ہے اور اس عظمت کا سبب اس کا اخلاق ہوتا ہے ۔ایسے ہی عظیم اور مخلص شخص کا نام سید شہاب الدین تھا جن کو آج مرحوم لکھتے ہوئے کی بورڈ پر انگلیاں کانپ رہی ہیں ۔انہوں نے ساری زندگی قوم کے درد کو محسوس کرتے اور اس کے علاج و تدارک کیلئے بے چین رہتے ہوئے گزاری ۔صبح جب یہ خبر سوشل میڈیا پر گردش کررہی تھی تو کسی نے لکھا ’’مخلص ملی رہنما سید شہاب الدین خالق حقیقی ،انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ہم نے ایک مخلص زمانہ شناس رہنما کھودیا اب ہم ان کی یاد میں تعزیتی جلسہ اور میٹنگ کریں گے ۔ ان کے اوصاف و کمالات پر باتیں ہوں گی ۔لیکن کوئی ان کے اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرے گا ۔ہماری وہی چال بے ڈھنگی قائم رہے گی ۔نہ ہم مخلصین کو پہچانیں گے اور نہ ہی ان کی آواز پر لبیک کہیں گے ۔ذرا ذرا سی بات سے ہم اپنے مخلص رہنما سے بدگمان ہوتے رہیں گے ۔بہر حال ہم سینہ کوبی کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں ۔اللہ مرحوم کو جنت الفردوس میں داخل کرے اور ہمیں ان کا نعم البدل عطا کرے ۔گرچہ ہم اس قابل تو رہے نہیں کہ اللہ ہمیں کوئی مخلص رہنما عطا کرے کیوں کہ ہم بہت زیادہ بدگمان ہونے والی قوم بن چکے ہیں ‘‘۔
آئی ایف ایس ٹاپر سید شہاب الدین مرحوم کا تعلق رانچی شہر سے تھا انہوں نے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے کر قوم کی حالت اور اس کی سیاسی بے وزنی سے کڑھنے والا یہ شخص سیاست میں آکر مسلمانوں کے مسائل کو بیباکی اور اخلاص کے ساتھ اٹھاتا رہا ۔وہ 1979 سے 1996 تک رکن پارلیمان رہے ۔انہوں نے انصاف پارٹی کی تخلیق بھی ۔مسلم مجلس مشاورت کا قیام بھی کیا ۔بابری مسجد کی تحریک ۔پرسنل لاء کی تحریک سب میں صف اول میں نظر آنے والے سید شہاب الدین مسلمانوں کو قانونی طور پر بیدار کرنے کی بھی کوشش ۔اس کے لئے انہوں نے وکلا کے پینل بنانے کی کوشش بھی کی لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوپائے ۔انہوں نے قوم کو کبھی تنہائی اور کم مائیگی کا احساس نہیں ہونے دیا لیکن قوم نے انہیں ضرور نام نہاد سیکولر پارٹیوں خصوصی طور پر کانگریس کے پروپگنڈہ سے متاثر ہو کر تنہا کردیا ۔لیکن اس مرد مومن کی جہاں تک قوت نے ساتھ دیا اس نے اپنی بساط بھر کوشش جاری رکھی ۔اسی کی دہائی میں بابری مسجد میں راجیو گاندھی حکومت کے ذریعہ شلا نیاس اور اس کے بعد پھوٹ پڑنے والے مسلم کش فسادات سے متاثر ہو کر انہوں نے ایک تو انصاف پارٹی بنائی اور دوسرا اہم قدم یہ اٹھایا کہ انہوں نے یوم جمہوریہ کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ۔لیکن یوم جمہوریہ کے بائیکاٹ کے اعلان سے کانگریسی حکومت کے ایوان میں زلزلہ بپا ہو گیا۔کانگریس سے بھی زیادہ ان کے نمک خواروں نے واویلا مچایا کہ اس سے مسلمانوں کا نقصان ہوگا ۔لیکن یہ ایک موثر ہتھیار تھا جس نے مسلمانوں کے غم و غصہ کو عالمی پیمانے پر لوگوں کے گوش گزار کیا ۔یہی سید شہاب الدین ہے جو تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں کی اجمالی صورتحال کی رپورٹ اپنے انگریزی اور اردو میں شائع ہونے والا معلوماتی رسالہ ’’مسلم انڈیا ‘‘ میں شائع کرتا تھا ۔آج سچر کمیٹی نے مسلمانوں کی جو صورتحال بتائی ہے وہ دہائیوں قبل وہ صورتحال ہر ماہ مسلمانوں اور انصاف پسندوں کو اعداد و شمار کی روشنی میں بتایا کرتا تھا ۔ آج بھی یہ شمارہ کئی سماجی کام کرنے والوں کے پاس محفوظ ہوگا ۔ممکن ہے کہ سچر نے بھی انہی دستاویزات کا سہارا لیا ہو یا کچھ حد تک مسلم انڈیا کی مدد لی ہو ۔
سید شہاب الدین دین کی سمجھ رکھنے والے جدید تعلیم یافتہ شخص تھے ۔ قوم کی بدحالی اور سیاسی بے وزنی کا انہیں احساس تھا اسی لئے انہوں نے سیاسی پارٹی بنائی تھی ۔وہ بہت بیدار اور با خبر تھے ،مجھے یاد آتا ہے کہ سیمی پر پابندی کے بعد ایک ٹی وی ٹاک شو میں جب اینکر نے کہا کہ سیمی کے خلاف ملک دشمنی کے ثبوت ہیں ۔تو انہوں نے ہنستے ہوئے اینکر سے کہا تھا کہ ہاں مجھے معلوم ہے کہ یہ ثبوت کیسے بنائے جاتے یا اکٹھا کئے جاتے ہیں ۔ممبئی کے مضافات ممبرا کی ایک سماجی شخصیت عطار عظیمی کو فون کیا غالبا دوس سال کے بعد میں نے انہیں فون کیا میری خیریت پوچھنے لگے ۔میں نے کہا کہ بھائی خیریت سے ہوں لیکن ہم سب کی خیریت چاہنے والا اور اس کیلئے پوری زندگی وقف کردینے والا اللہ کو پیارا ہوگیا ۔انہوں نے کہا کہ حقیقت ہے لیکن قوم کو احساس ہی نہیں ہے کہ کون ہمارے درمیان سے چلا گیا ۔عطار عظیمی نے ایک بار تذکرہ کیاتھا کہ وہ دہلی حج ہاؤس کے تعلق سے مقدمہ کیلئے ان سے ملنے گئے تھے ۔انہیں وکلا کی ضرورت تھی تاکہ اس کے سپرد یہ ذمہ داری کرسکیں ۔سید صاحب نے کہا کہ ہم نے وکیلوں کے پینل بنانے کی کوشش کی تھی لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوسکا ۔پھر انہوں نے اپنی بیٹی جو کہ سپریم کورٹ کی وکیل ہیں کے پاس بھیج دیا ۔آج ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ذریعہ جیسے فیصلے سامنے آرہے ہیں اس تعلق سے انہوں نے غالبا پندرہ سال قبل ایک اردو روزنامہ میں اپنے مضمون میں تذکرہ کیا تھا کہ عدالتیں بھی ہندوتو سے متاثر ہیں انہوں نے کئی مقدمات کے حوالے بھی دیئے تھے جو کہ ابھی میرے ذہنوں میں نہیں ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے مخلص ،قابل ،زمانہ شناس اور بیدار رہنما کی ہم نے قدر نہیں کی اور نہ ہی اس کی آواز پر لبیک کہا ۔ مسلم مجلس کے ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی پر الزام لگا کہ وہ فرقہ پرستوں کو فائدہ پہنچائیں گے ۔سید شہاب الدین پر بھی یہی الزام لگا یہ دونوں مخلص قائد اپنے حصہ کا کام کرکے رخصت ہوئے ۔اب دور تک اندھیرا ہے ۔ایک ہلکی سی کرن اویسی برادران سے ہے ان کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے ۔انہیں بھی نہ صرف فرقہ پرستوں کو فائدہ پہنچانے والا بلکہ بی جے پی کا ایجنٹ تک کہا جارہا ہے ۔ایسے حالات میں اللہ سے دعا کرنے اور اپنے حصہ کا کام کرنے کے علاوہ کیا کیا جاسکتا ہے ۔ علامہ اقبال کے ساقی نامہ سے ایک شعر           ؂شراب کہن پھر پلا ساقیا ۔ وہی جام گردش میں لا ساقیا

0 comments: