featured

آپ کا پولس اسٹیٹ میں استقبال ہے !

10:13 PM nehal sagheer 0 Comments



نہال صغیر

 جمہوری ملک کے بجائے آپ کا ایک پولس اسٹیٹ میں استقبال ہے ۔چونکئے مت ہم نے صحیح کہا ہے اور آپ نے ٹھیک سنا ہے ۔اس جمہوری ملک میں اب ایک سے ایک قوانین متعارف ہو رہے ہیں جس کے بعد اسے جمہوری ملک کہنا جمہوریت کا مذاق اڑانے جیسا ہے ۔یو اے پی اے جیسے حقوق انسانی کے خلاف قانون کی موجودگی میں ہم مجبور ہیں کہ اپنے مہمانوں کے استقبال کیلئے یہ کہیں کہ آپ کا ایک پولس اسٹیٹ میں استقبال ہے۔اب بھی یقین نہیں آتا تو ہم آپ کو اس سیاہ اور خلاف انسانی قانون سے کچھ تعارف کروادیں ۔غیر قانونی سرگرمیاں امتناعی قانون کی دہشتناکی کو ہم اس کے کچھ نکات کے ذریعے پیش کرتے ہیں ۔اگر آپ اس ملک کے شہری ہیں یا نہیں بھی ہیں اور نا قابل تسخیر ہندوستان کی سیر کرنا چاہتے ہیں تو اس قانون کے مطابق آپ نے جرم کیا ہو یا نہیں بہر حال آپ پر بھی مقدمہ چلایا جاسکتا ہے خواہ کسی جرم میں شامل نہیں ہوں۔جی ہاں ہم آپ کے ایسے ملک میں استقبال کو مجبور ہیں ، جہاںایسی کسی بھی تنظیم پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے جو حکومت کی پالیسیوں پر سوالات کھڑے کرے یا اس کے خلاف آواز اٹھائے۔آپ سماجی سرگرمیوں سے جڑے ہیں اور حکومت پر تنقید کرتے ہیں تو آپ کی سماجی سرگرمیاں دہشت گردی سے جوڑی جاسکتی ہیں۔آپ اکیسویں صدی میں آزاد ہندوستان کا تو خواب ہی نہیں دیکھیں حکومت کی منشاء کے خلاف آ پ کے عمل پر آ پ کوگرفتار کیا جاسکتا ہے خواہ وہ کتنا ہی معمولی نوعیت کا کیوں نہ ہو ۔ کیا آپ نے اکیسویں صدی میں ایسے کسی قانون کے بارے میں سوچا ہے کہ آپ کے کسی دوست یا رشتہ داروں کی غلطی کی سزا کے طور پر آپ کو سلاخوں کے پیچھے جانا پڑسکتا ہےاگر نہیں تو ہندوستان جن نشاں میں یہ ممکن ہے۔اگر آپ انسانوں سے ہمدردی رکھتے ہیں ان کی مدد کرتے ہیں تو آپ کی یہ انسانی ہمدردی کے نام پر کسی کی مالی معاونت بھی دہشت گردی قرار دی جاسکتی ہے ۔جی ہاں آپ ایک ایسے پولس اسٹیٹ میں ہیں جہاںآپ کا یو اے پی اے قانون کے مطابق لوگوں کو گرفتار کرنے ،انہیں زدو کوب کرنے اور انہیں بغیر کسی معقول وجہ کے گرفتار کرنے کے پولس کوزائد اختیارات حاصل ہیں۔اس کے بعد بھی اگر اس ملک کو جمہوری مانتے ہیں تو مانیں میرا کیا ۔ہم تو ایسے سیاہ قانون کے سائے میں اسے جمہوری کے بجائے پولس اسٹیٹ ہی کہیں گے ۔آپ یہاں انسانی حقوق بھول جائیں کہ یہ کس چڑیا کا نام ہے یقین نہ ہو تو دیکھئے اس قانون کے تحت زیر سماعت قیدیوں کو بلا ضمانت اور کسی عدالتی کارروائی کے بغیرلمبے عرصہ تک قید میں رکھنے کی اجازت ہے۔ابھی تو آگے اور بھی معاملات ہیں ایک اور شق ہے ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری استغاثہ پر نہیں بلکہ ملزم پر ہے ۔یعنی کہ آپ گرفتار ہیں قید تنہائی میں ہیں اور اپنی بے گناہی کا ثبوت بھی آپ کو ہی پیش کرنا ہے پولس اور تفتیشی ایجنسیاں اس معاملے میں آزاد کردی گئی ہیں۔بھول جائیں کہ آپ کو ئی تنظیم بنا کر عوام کو بیدار کریں گے اور ان کے حقوق کی پاسبانی کریں گے ۔مذکورہ قانون تنظیمیں بنانے اور اجتماع کرنے کی آپ کی آزادی کو ختم کرتا ہے ۔لیجئے صاحب آپ کی سوچ پر بھی پہرے ہیں ۔اس قانون کے تحت سوچنا بھی جرم ہے ۔آپ کہیں گے کہ یہ کوئی بات ہوئی یہ صریح واہیات بات ہے ۔ہاں آپ کی نظر میں یہ واہیات ہوگی لیکن ذرا کچھ سال قبل گجرات کا سفر کریں یعنی ماضی میں لوٹیں اپنی یاد داشت کو ذرا پیچھے لے جائیں ۔ ہماری پولس اور تفتیشی ایجنسیاں آپ کے دلوں کی بات بھی سمجھ لیتی ہیں جب ہی تو گجرات میں نریندر مودی کو مارنے کی نیت سے آنے والے افراد کو وہاں کے بہادر سپاہیوں نے دلوں کی بات معلوم کرکے کہ یہ لوگ شری نریندر مودی کو مارنے کے لئے آئے ہیں،انہیں پہلے ہی گولیوں سے بھون ڈالا ۔ یہ اور بات ہے کہ دلوں کی بات جان لینے والی پولس کو پاکستانی فوج اور ان کے تربیت یافتہ کامڈوز کی حرکتوں کا پتہ ان کے مقاصد کی تکمیل کے بعد ہی ہوا کرتا ہے ۔ممبئی حملہ کی خبر بھی انہیں اس وقت ہوئی جب وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو چکے تھے جبکہ سنا ہے کہ تیس فرضی ناموں کے سم کارڈ کی خبر بھی انہیں دی گئی تھی پھر بھی یہ اونگھتے رہے ۔اصل میں انہیں مارنے یا اریسٹ کرنے میں بہت رسک ہے ۔جبکہ بھولے بھالے مسلم نوجوانوں کو پھنسانے اور انہیں مجبور کرکے ٹارچر کرنے میں کوئی رسک نہیں ہے ۔ان کی با عزت رہائی کے بعد اور سپریم کورٹ کی سخت سرزنش کے بعد بھی انہیں کوئی خوف نہیں کہ ان کا احتساب ہوگا ۔کیا اب بھی آپ نہیں مانیں گے کہ ہم جمہوری ملک نہیں ایک پولس اسٹیٹ میں رہ رہے ہیں۔
یو اے پی اے یعنی غیر قانونی سرگرمیاں امتناعی قانون ۔ایک ایسا قانون جسے آج کی مہذب دنیا میں بھی حکومتیں اپنے مفاد اور اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کیلئے استعمال کرتی ہیں ۔ایسے قوانین جس کا شہنشاہی میں بھی تصور نہیں کیا جاسکتا تھا وہ جمہوری دور میں رائج ہے ۔اس قانون کی سنگینی کو اس کے دفعات میں درج نکات سے محسوس کیا جاسکتا ہے ۔اس کے بارے میں پڑھنے اور جاننے پر آپ محسوس کریں گے کہ ہم کسی جمہوری اور انسانی آزادی کے دور میں نہیں بلکہ کسی آمرانہ دور میں جی رہے ہیں ۔ایسے قانون کو منظوری کب ملی اور اس کا شکار کون ہوا ؟یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔جب اس ملک میں ٹاڈانافذ ہوا تھا تو اس پر کسی شاعر نے خوب کہا تھا کہ ’یہ اور بات ہے کہ پھنس جائے کوئی رام لکھن ۔۔ٹاڈا تو بنا ہے تجمل حسین خان کیلئے ‘۔بہرحال کسی سیاہ قانون کی چپیٹ میں کسی مذہب ،ذات،علاقہ یا زبان کے افراد آئیں ،ظلم تو ظلم ہے ۔ ہم چونکہ مسلمان ہیں اسلئے بغیر کسی تخصیص کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ،اس کے خلاف جد وجہد کرنا ہمارے مذہبی فرائض میں سے ہے۔یہ اور بات ہے کہ فی الحال ہم ہی زیادہ ظلم و ستم کا نشانہ ہیں اور اس کے خلاف جد و جہد کو جہادی کہہ کر دہشت گردی قرار دیدیا جاتا ہے اور دہشت گردی تو آج کی ایسی حقیقت بن چکی ہے کہ اس سے عدلیہ بھی دہشت زدہ ہے ۔ 15 ؍دسمبر 2008کو منموہن حکومت نے پارلیمنٹ میں دو قوانین کے مسودے پیش کئے ۔یہ دونوں ہی نام نہاد دہشت گردی مخالف بل کے زمرے میں آتے ہیں ۔ اس میں سے ایک ’غیر قانونی سرگرمیاں امتناعی1967 ‘میں ترمیم اور دوسرا ’این آئی اے ایکٹ ‘۔دونوں ہی قوانین ایک دن کی ہنگامی بحث کے بعد فوری طور پر منظور کرلئے گئے ۔اس کے بعد 2012 میں اسی حکومت کے زیر سایہ جسے مسلمان سیکولر اور روادار مانتے آئے ہیں اور جن کے بارے میں ہمارے اکابرین نے کہا تھا کہ یہ انصاف پسند لوگ ہیں نے ’غیر قانونی سرگرمیاں امتناعی قانون‘میں ترمیم کرکے مزید سختیاں پیدا کردیں ۔ ان کے دور حکومت اور اس کے بعد کی بی جے پی حکومت نے اس پر خوب عمل کیا ۔لیکن ہمارا معاملہ یہ ہے کہ کانگریس کے سارے گناہ معاف لیکن بی جے پی کے کسی لیڈر کا احمقانہ بیان ہی اسے سخت دشمن بنانے کیلئے کافی ہے ۔جبکہ بی جے پی والے مسلم دشمنی کے بیانات دیتے ہیں اور کانگریس کی حکومت میں اس پر رواداری اور سیکولرزم کی آڑ میں عمل در آمد ہوتا ہے۔
مذکورہ ’غیر قانونی سرگرمیاں امتناعی قانون‘ کی حکومت کو کیوں ضرورت محسوس ہوئی یا اس قانون کیلئے تفتیشی ایجنسیوں نے حکومت کو کیوں مجبور کیا ؟ یہ ایک اہم سوال ہے ۔عشرت جہاں سمیت کئی مشہور ڈاکیومنٹری بنانے والے آنجہانی سبھردیپ چکرورتی نے ایک بار میرے یہ کہنے پر کہ سب کچھ کیلئے صرف سیاست داں ذمہ دار ہیں پر کہا کہ نہیں یہ غلط ہے ۔دراصل یہ تفتیشی ایجنسیاں جن میں آئی بی اور ریاستی دہشت گردی مخالف دستہ شامل ہے کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کی ضرورت ہمیشہ بنی رہے ۔اس کوشش میں وہ یہ فرضی بم دھماکے یا گرفتاریاں کرتے ہیں ۔ایس ایم مشرف بھی اکثر یہ کہا کرتے ہیں کہ ہندوستان کی سب سے بدنام اور متعصب اور خطرناک تنظیم آئی بی یا انٹیلی جنس بیورو ہے ۔ان کے مطابق آر ایس ایس بھی اس کے سامنے بچہ ہے ۔مشرف کہتے ہیں کہ یہ ایک برہمنوادی تنظیم ہے جسے بد قسمتی سے قومی سلامتی سے جوڑ دیا گیا ہے ۔یہ تنظیم اپنے برہمنوادی قوانین نافذ کرنے کیلئے ملک میں افراتفری کا ماحول بنائے رکھنا چاہتی ہے جس کیلئے فرضی گرفتاریاں اور دھماکے شامل ہیں ۔اس کی بنیاد پر مسلمانوں کو دہشت زدہ کرکے بے بس کردیا جائے گا پھر دوسری قومیں خود ہی خود سپردگی کردیں گی ۔اب اس قانون کے تعلق سے جیسا کہ ٹاڈا اور پوٹا کے خلاف انسانی حقوق کیلئے متحرک لوگوں نے تحریک چلائی تھی ’غیر قانونی سرگرمیاں امتناعی قانون‘کیخلاف بھی متحدہ تحریک شروع کررہے ہیں ۔اس کی ہر پہلو سے حمایت کرنے کی ضرورت ہے ۔ممبئی کے برلا ماتو شری میں 11 ؍مارچ کو ایک سمینار منعقد ہو رہا ہے۔یہ سمینار پیوپلس موومنٹ اگینسٹ یو اے پی اے کے بینر تلے ہو رہا ہے ۔جس میں ملک کے مشہور و معروف سماجی کارکن اور انسانی حقوق کے لئے دردمند دل رکھنے والے افراد شامل ہو رہے ہیں ۔وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم اس تحریک کا حصہ بنیں ۔اس تحریک کا حصہ اس لئے بھی بننا ضروری ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور ہر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہماری دینی ذمہ داری ہے ۔یہ تحریک ملک کی سلامتی سے بھی تعلق رکھتا ہے ۔اس طرح کے سیاہ اور ظالمانہ قانون سے عوام میں اضطراب اور بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے ۔یہ بے چینی کسی بڑی کشمکش کا سبب بنتا ہے جس سے عوام میں مختلف طبقات میں غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور یہ بدگمانیوں کو جنم دیتی ہیں ۔جس سے خانہ جنگی کا خطرہ بھی لاحق رہتا ہے ۔اس طرح کے حالات یقینی طور پر ملک کی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں ۔حکومتیں ملک کی سلامتی سے زیادہ اپنی حکومت کے استحکام پر دھیان دیتی ہیں ۔اس حکومت اپنے استحکام پر دھیان لیکن ہم ملک کی سلامتی اور اس کے استحکام کیلئے ہی کام کریں گے ۔

0 comments: