featured

یہ کہاں آگئے ہم

7:51 PM nehal sagheer 0 Comments



قاسم سید 
عروس البلاد ممبئی سے ایک خوفناک خبر آئی جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شہنشاہوں کے گریبانوں سے کھیلنے والوں کو اب اپنے گریبان تار تار کرنے اور پگڑیاں اچھالنے میں زیادہ مزا آنے لگا ہے ۔ اسٹیج سے اتحاد و اتفاق کی دہائی دینے والے فرزندان توحید کے درمیان سر پھٹول اور ایک دوسرے کا خون بہانے پر خاموش رہتے ہیں اپنے ہر برے عمل کی ذمہ داری یہود و نصاری پر ڈالنے کی ادا خود احتسابی کا موقع ہی نہیں دیتی ۔ مسلکی تنازعات کے نتیجہ میں بڑھتا خلفشار اور سعادت قلبی میں روز بروز شدت کی بارودی سرنگیں پورے سماج میں بچھا دی گئی ہیں جو کبھی کہیں تباہی لاتی ہیں تو کبھی کہیں پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کاٹنے والوں پر کلام نرم ونازک بے اثر ہو گیا ہے ۔
دنیا میں دعوت دین کی بے لوث خدمات انجام دینے اور بندگان خدا تک اس کا پیغام پہنچانے میں سرگرم تبلیغی جماعت میں گروہی اختلاف کا اثر ممبئی میں نظر آیا ۔ ملاڈ علاقہ کی کوکنی پاڑہ کی نورانی مسجد میں 5؍مارچ کو تبلیغی جماعت کے دو گروپوں میں آپسی تکرار اور گرما گرمی لاٹھی ڈنڈوں کے آزادانہ استعمال تک پہنچ گئی ، اللہ کے دین کی دعوت دینے والوں کے کپڑے اور داڑھیاں خون سے بھیگ گئیں ۔ اسپتال میں داخل کئے گئے پولیس نے حراست میں لیا اب پولیس وین کے ساتھ پولیس اہلکاروں کو مسجد کے باہر تعینات کیا گیا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ افریقہ سے آئی ایک جماعت کے قیام پر دونوں گروپوں میں جھگڑا ہوگیا تھا ۔ عدالت سے ضمانت ہوئی ، حالات کشیدہ ہیں ۔ انتظامیہ نظر رکھے ہوئے ہے ۔ یہ کونسی ایمانی غیرت ہے ؟ ایک دوسرے کا سر پھاڑنے کی ترغیب کون دیتا ہے ۔ کیا وہ اسلام اور مسلمانوں کے سچے دوست اور ہمدرد ہیں ۔ ایک دوسرے کا خون بہانے پر اکسانے والے قابل معافی ہیں؟ کیا ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی نہیں ہونی چاہئے ۔ کیا ہم ایسے واقعات کے پس پشت بھی یہود و نصاری کی سازش کا ہاتھ تلاش کرنا چاہیں گے ۔ کیا اس جہالت نما حقانیت کی تبلیغ کوئی معنی رکھتی ہے کیا یہ ناسور ہمارے معاشرے کو صحتمند رکھ سکے گا ۔ اس کا جواز آخر کیا ہے کیا اس سے جگ ہنسائی کا سامان فراہم نہیں ہوتا ۔ کیا امن پسند اور مصالحت پسند دین کی شناخت کا ایک ایسا چہرہ پیش نہیں کیا جا رہا ہے جہا ں اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ برداشت و تحمل کا کوئی خانہ نہیں ۔ اختلاف کو طاقت کی نوک پر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ کیا ایسے لوگ واقعی دین پسند اور عاشق رسول ہیں تو یہ کس طرح کے عاشق رسول اور جانثار ان دین محمدی ہیں ۔ کیا ایسے سوالات اٹھانے والے قوم کے سوداگر ہیں ۔ وہ بی جے پی کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں ۔ کیا آئینہ دکھانا جرم ہے ۔ وہاٹس ایپ اور سوشل میڈیا کے دیگر ذارائع پر سرگرم دانشوران ، مصلحین قوم اور اہل فتوی ایسے واقعات کو دشمنان اسلام کی سازش قرار دیں گے ۔ ان امراض کی نشاندہی کرکے ان کا علاج کرنے میں کیا موانع ہیں ۔ کیا یہ طاقتیں اتنی حاوی ہو گئی ہیں کہ سنجیدہ طبقات ان سے خوف کھانے لگے ہیں ۔ الجھنا نہیں چاہتے ۔ ایسے پریشان کن حالات جب برسر اقتدار لوگوں کی طرف سے شمشان اور قبرستان کے مسائل اٹھائے جا رہے ہوں بجلی کے دھرم کی تفتیش کی جانے لگی ہو زیادہ آبادی کا ہنگامہ پیدا کیا گیا ہو ۔ سب کا ساتھ کچھ کا وکاس کے ذریعہ ملک میں الگ طرح کا پیغام دینے کی کوشش ہو ۔ دیش دروہی اور دیش بھکتوں کی لکیر مٹائی جانے لگی ہو اختلافات کی حدت کو دیش دروہ کا نام دیا جانے لگا ہو ۔ دہشت گردی کا مطلب داڑھی اور ٹوپی بتایا جانے لگا ہو اور اس مہم میں کم و بیش ہر پارٹی اپنا یوگ دان دینے میں مسابقت کا مظاہرہ کر رہی ہو ۔ مسجدوں میں سرپھوڑ نے ایک دوسرے پر فراخدلانہ لاٹھی ڈنڈوں کا استعمال کرکے تھانوں میں مقدمات اور گرفتاریوں جیسے واقعات کی اجازت دی جانی چاہئے ۔ کیا ملت اس طرح کے خرافاتی طرز عمل کی متحمل ہو سکتی ہے جو آئے دن نت نئے چیلنجوں سے نبرد آزما ہے ۔ دل پر ہاتھ رکھ کر یہ سوچا نہیں جا سکتا کہ ہم کہاں آگئے کہاں جا رہے ہیں کس کے مقاصد کو پورا کر رہے ہیں ۔ یہ کس دین پر عمل کر رہے ہیں ۔ جہاں خون مسلم کی حرمت واجب ہے ۔ قاتل اور مقتول دونوں کو جہنمی قرار دیا گیا ہے ۔ مسلمانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بتایا گیا ہے کہ ایک عضو میں تکلیف ہو تو پورا بدن اس کو محسوس کرتا ہے کیا مواخاۃ و مساوات کی تعلیم صرف سنانے اور ان پر اللہ اکبر کہنے کے لئے کیا ان پر عمل درآمد کی ذمہ داری صرف سننے والوں پر ہے منبروں سے کس طرح کا درس نشر ہو رہا ہے کہ دل پھٹنے لگے ہیں ، محبتیں عداوت میں بدل رہی ہیں کیا ظاہری شکل و صورت مسلمانوں جیسی ہونے سے دین کے تمام تقاضے پورے ہو جاتے ہیں ۔ ایسے واقعات سن کر دل کیوں لرزتا ہے ۔ دین کو اپنی نفسیاتی خواہش کے تابع بنانے سے دین کی کو ن سی خدمت انجام دی جا رہی ہے ۔ کیا ہم بدلتے حالات کی کروٹ کو محسوس کرنے میں ناکام ہیں ۔ لکھنؤ میں گھنٹوں انکاؤنٹر میں ایک نوجوان کی ہلاکت ، اجین ٹرین بم بلاسٹ کے چند گھنٹوں کے درمیان قصورواروں کی گرفتاریاں اور تفتیش سے قبل ہی سیف اللہ کا تعلق آئی ایس سے جوڑنے کا مطلب سمجھنے میں ناکام کیوں ہیں ؟ ایک مجبور غریب باپ کے اس جملہ میں پوشیدہ کرب ، درد اور تڑپ کون محسوس کرے گا کہ میں دیش دروہی بچہ کی لاش کو دفنانے کے لئے نہیں لوں گا اس کی دیش بھکتی کی تعریف ہر طرف ہو رہی ہے مگر اس کی خاموش چیخیں سننے والا کوئی نہیں ہے ۔ کیا ہم تکثیری سماج کی دہشت گردانہ سوچ کے دباؤ کا تجزیہ نہیں کر پا رہے ہیں جبکہ سرتاج کا یہ بھی کہناہے کہ محلہ میں اتنا شریف نیک اور کوئی لڑکا نہیں تھا جتنا سیف اللہ تھا ۔ وہ پڑھائی میں ہمیشہ اول آتا اس کا با پ غریب اور بڑے بھائی کی چائے کی دکان جس کو مارنے سے پہلے ہی دہشت گرد اور آئی ایس کا دہشت گرد ساتھی کہا جانے لگا جس پر مرکزی وزارت داخلہ کو بھی اعتراض ہوا تو پولیس نے بیان دیا کہ آئی ایس سے فنڈنگ اور تعلق کا کوئی ثبوت نہیں ملا مگر اس پر میڈیا میں دن بھر ہنگامہ آرائی ہوتی رہی آئی ایس کی دستک اور نوجوانوں میں دلچسپی کا ڈھنڈورا پیٹا جانے لگا ۔ حالانکہ اسی دن اجمیر بلاسٹ کیس میں کئی ہندو ملزموں کو دہشت گردی کا مرتکب قرار دیا گیا اسے شیر مادر کی طرح پی لیا گیا کیونکہ ہم صرف گھر بیٹھ کر کوسنے والے ہیں ، سینہ کوبی اور عالمی سیاست کے شوقین ہیں ۔ وسائل ہونے کے باوجود ذارئع ابلاغ کی دسترس سے محروم جلسوں اور کانفرنسوں میں کروڑوں خرچ کرنے کے عادی مگر میڈیا کے نام پر کانوں پر ہاتھ لگا نے والے اس دوہرے رویہ کی جھلک زندگی کے ہر پہلو میں نظر آسکتی ہے ۔ اپنی ہر کوتاہی اور غلطی کا الزام دوسروں پر ڈال کر خود کو پاک صاف ثابت کرنے کی عادت اچھی نہیں ۔ آنے والے خطرات کی گھنٹیاں بجتی جا رہی ہیں کانوں میں انگلیاں دے کر انہیں سننا نہیں چاہتے ۔ موسمی انتخابی سیاست کے کرتا دھرتا بھی دور بیٹھے صرف تماشہ دیکھتے ہیں اور بوقت ضرورت ہاتھ سینک لیتے ہیں انہیں کبھی کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اس درد کا درماں کیا ہے ۔ کیا ناسو ر کو یونہی چھوڑ دیا جائے کسی کو بھی دہشت گرد قرار دے کر اس کی مشکیں کس دی جائیں اور ہم اس کی حمایت کریں تو دیش بھکتی اور اعتراض و احتجاج کریں تو دیش دروہ ایسا وقت آگیاہے ۔ ان کے دامن میں بجلیاں پوشیدہ ہیں ۔ یہ جھگڑے چلتے پھرتے خود کش بمبار ہیں اس صورت حال کا نوٹس لیجئے ۔ مسجدوں کو اکھاڑہ مت بننے دیجئے ۔ اپوزیشن کو مداخلت کا موقع مت دیجئے ۔ ورنہ حکومت کو مداخلت کا موقع مل جائے گا یہ چھوٹے چھوٹے واقعات ٹائم بم ہیں ان کی ٹک ٹک سنئے اور انہیں ڈیفیوز کیجئے ۔

qasimsyed2008@gmail.com

0 comments: