featured

سید شہاب الدین

1:02 AM nehal sagheer 0 Comments


میری زندگی کے چند اصول ہیں. ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر پارلیمنٹ کے ممبر کی حیثیت سے مجھے کچھ مراعات حاصل ہیں تو میں ان کا جائز استعمال کروں. جب میں نے (کان کے ) دونوں آلات (سماعت) کی قیمت معلوم کی (تو ) خارجی آلہ پانچ ہزار (روپے) کا تھا اور داخلی پچھتر ہزار (روپے) کا.میں نے سوچا اگر میں اپنی جیب سے خرچ کرتا تو میرا فیصلہ اپنے مالی حالات کے پیش نظر پانچ ہزار روپیہ کے آلے کا ہوتا. میں پچھتر ہزار روپیہ خرچ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا. اس لئے میں نے حکومت کے اخراجات کے سلسلہ میں وہ فیصلہ کیا جو میں اپنے لئے کرتا. میں نے ذاتی خرچ اور حکومت کی عطا کردہ سہولتوں کے استعمال میں کبھی فرق نہیں کیا. پھر جو کام پانچ ہزار میں ہوگیا اس کے لئے میں پچھتر ہزار حکومت سے کیوں خرچ کرواؤں.

 سید   شہاب  الدین
ڈاکٹر عابد اللہ غازی، انسانیت
دہلی،   2010 ،  ص  167

محمد طارق غازی
آٹوا، کینڈا
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک پیارے بیٹے کی کہانی خود اس کی اپنی زبانی ہے.یہ بیت المال کے  اثاثہ  کی حرمت کے معاملہ میں  امیر المومنین عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کی  ایک سنت کا بیان ہے: 1400 سال بعد.
            یہ ایک سیکولر، دنیا دار، غیر اسلامی ملک   --    ہندستان   --    کے ایک مسلمان سیاسی رہنما کا کردار ہے جس کی کوئی دوسری مثال ہندستان کی موجودہ پارلیمنٹ میں بھی شائد ہی ملے.
            یہ ایک ایسے سیاسی رہنما کا قول ہے جسے دنیا کے لئے مثال بن جانے کا گر آتاہے، مگر اس گر سے فائدہ اٹھانے کا گر نہیں آتا.
            مجھے یقین ہے دنیا میں ایسی بہت مثالیں اور بھی جگہ جگہ موجود ہوں گی،کہ ایسی مثالیں نہ ہوتیں تو یہ دنیا  کبھی کی اپنے وجود کا جواز کھو چکی ہوتی. دنیا باقی ہے تو ایسے ہی خود آگاہ اور خدا آگاہ مردان  درویش کی وجہ سے جو اپنی داستانیں کبھی کبھی باتوں باتوں میں عابداللہ غازی جیسے دوستوں کو بتادیتے ہیں اور وہ سچے دوست پھر ان عجوبہ کہانیوں کو دنیا تک پہنچا دیتے ہیں.
            ہمارے زمانہ میں یہ قصہ  حیرت ناک ہے:الف لیلہ کی داستانوں کا ایک ٹکڑا،قصہ حاتم طائی کا ایک اقتباس، ایک ایسی انہونی جس پر اس زمانہ میں اخباری خبر بنتی ہے. مگر سید شہاب الدین کی  زندگی کے 76 سال اور ان کی سیاست کے 34 سال  کی تاریخ میں یہ بات خبر نہ بنی اور کبھی  ذکر میں بھی نہ آتی اگر ایک کتاب کے ایک مختصر مضمون میں  یہ تذکرہ نہ ہوتا. یہ ثبوت  ہے اس کاکہ اس گئی گزری حالت میں بھی  ہمارا معاشرہ ایک مسلمان سے اسی  رویئے کی توقع رکھتاہے.یہ سچ ہے، اور اگر یہ سچ ہے تو ہمارا کردار کیا ہونا چاہیئے؟
            ایک بار کسی نے مجھ سے پوچھا تھا کہ  یہ ساری دنیا آخر مسلمانوں کی پیچھے ہاتھ دھو کر کیوں پڑ گئی. وہ بھی  توعام آدمیوں ہی کی طرح رہتے ہیں.اپنے بال بچوں کے ساتھ امن  چین کی زندگی جینا چاہتے ہیں. ان میں اور دوسرے لوگوں میں بھلا کیا فرق ہے جو  سب کے سب ان کے درپے  آزار ہوگئے؟
            میں نے  کہاتھا   کہ قرآن حکیم میں مسلمانوں کو اطلاع دی گئی ہے کہ اللہ نے تمہیں انسانوں میں ایک بھلی امت بنایا ہے کہ تم لوگوں کو اچھے کاموں کا راستہ دکھاؤ اور بری باتوں سے معاشرہ کو بچائے رکھو (آل عمران 3 : 110 )  دوسری جگہ سورہ البقرہ (آیت 143) میں اس قسم کی ذمہ داری کو پورا کرنے والوں کو  میانہ روی اختیار کرنے والا گروہ کہا گیا ہے. اب آپ کے بارے میں جب یہ فیصلہ کیا گیا تو لازم   ہےکہ دنیا  میں قیامت تک آنے والے باقی انسانوں کو بھی اس فیصلہ کی خبر کی گئی ہوگی.اللہ کا سرکاری گزٹ  ہر انسان کے ذہن اور فطرت پر چھاپ دیا جاتا ہے. یعنی خلقی طور پر یہ بات دنیا کے ہر انسان کے ذہن پر انمٹ روشنائی سے  لکھی ہوئی ہے کہ  ان کے اطراف اعتدال کی راہ چلنے والی ایک امت ایسی ہے  اور ہمیشہ رہے گی  جو دنیا میں اچھے برےکاموں کی نگرانی اور دیکھ بھال کرتی رہے گی. تو جب دنیا کے باقی انسان دیکھتے ہیں کہ اللہ کا انسپکٹر خود بے اعتدالی اور غلط روی کا شکار ہوگیا تو وہ درد و تکلیف  اور غم  و صدمہ سے چیخ اٹھتے ہیں اور انسپکٹر کو سزا دینے پر تل جاتے ہیں. بس مسلمانوں کے ساتھ دنیا یہی کر رہی ہے.
            اس  دکھیاری دنیا کو یہ بتانا ضروری ہے کہ دیکھو ابھی دنیا میں سید شہاب الدین جیسے لوگ موجود ہیں جو اللہ کے خزانوں سے خود اپنے حق سے کم لیتے ہیں اور آپ کو آپ کے حق سےزیادہ دلوانے کی سعی کرتے ہیں.
            اللہ ہمارے اس شہاب الدین کو سلامت رکھے، ایسے بہت سے شہاب الدین ہمارے درمیان پیدا کردے، ان سے  اورزیادہ مفید کام لے اور ہمیں اپنے ایسے خدمت گزاروں کی پہچان اور ان کے اکرام کا سلیقہ دے.

0 comments: