featured

"امروز فردا" کیااب عشرت جہاں کی سیاسی ضرورت ختم ہوگئی ہے؟

6:19 PM nehal sagheer 0 Comments


سیدحسین شمسی





کل شب دیر تک جمعیت علماءکے دلّی سے آئے معزز مہمان ’قومی یکجہتی‘ کے عنوان کے تحت سرزمین ممبرا میں آباد مسلمانوں کو غیرت دلاتے رہے۔ ساتھ کچھ آچاریہ اور رِشی بھی تھے۔ان حضرات نے بھی مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی خود مسلمانوں کے سامنے کچھ یوں کی گویا وہ سامعین کی جانب سے داد ودہش کے نعرے بلند ہوتے دیکھنا چاہتے ہوں۔ ہوا بھی یہی کہ صدرجلسہ کی تقریر سے زیادہ سامعین ان کی تقریر پر ہمہ تن گوش نظر آئے۔ بہرحال تصویر کی حدتک سب کچھ پرفیکٹ تھا، بس محسوس یوں ہو رہا تھا کہ انہوں نے قومی یکجہتی کیلئے مسلم اکثریتی علاقے کا انتخاب کر کے غلطی کی۔ آج ملک کی آزادی کی سات سے زائد دہائیاں گزر جانے کے بعد اقوامِ ہندکو اس بات میں ذرہ برابر بھی شبہہ باقی نہیں رہ گیا ہے کہ مسلمان حب الوطنی، پُر امن باہم وجودیت اور قومی یکجہتی کے جذبے سے سرشار بلکہ لبریز ہے۔ صرف اسی لئے، رائے یہ بنتی ہے کہ اب اچاریہ اور رِشی صاحبان کو چاہئے کہ وہ قومی یکجہتی کے رتھ کا پہیہ گجرات، مدھیہ پردیش، اتر پردیش اور ایسے دیگر ہندو اکثریتی علاقوں کی جانب موڑدیں جہاں مسلمانوں کے حوالے سے بد گمانیاں ہی نہیں بلکہ انتہائی درجہ کی زہر افشانیاں کی جا رہی ہیں۔ سو رائے درست ہو توفوری طور پر ممبرا سے احمدآباد جانے میں کیا قباحت ہے؟ یہ بات اس لئے کہی جارہی ہے کہ ان سیکولر ذہن آچاریہ و رشیوں کو مسلمانوں کے حق وانصاف کی بات کرتے ہوئے ہم مسلم علاقوں اور مسلم اسٹیج پر ہی دیکھتے آئے ہیں، آخر یہ باتیں ببانگ دہل فرقہ پرستوں کے درمیان کیوں نہیں کی جاتی؟ یامسلمانوں کے تئیں غلط فہمی کے شکار برادرانِ وطن کے ذہنوں کو صاف کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ ایسا نہیں ہے کہ ہم آچاریہ جی کی باتوں کو صرف دلجو, مصنوعی یا لاگ لپیٹ والی گردان رہے ہیں بلکہ بتانا یہ مقصودہے کہ قومی یکجہتی پر مبنی ان خطابات کی ضرورت آج مسلم علاقوں سے زیادہ برادرانِ وطن کے علاقوں میں ہے۔

مذکورہ پروگرام میں صرف یہی چیزmisplaced نہیں تھی۔ ایک مولوی صاحب نے ایک ممبراسمبلی کی منہ بھرائی کی رسم بھی بڑی ’دیدہ دلیرانہ بے شرمی‘ کے ساتھ ادا کی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ممبراسمبلی کی کارکردگی موثر نہیں، لیکن یہ کیاکہ تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملادیئے۔ بات یہیں نہیں تھمی، ممبرا کے ایک مشہورہوٹل پر ایک ایسی ایمبولینس سروس کا چند برس بعد مولانا ارشد مدنی کے ہاتھوں دوبارہ افتتاح کرانے کی ’کوشش‘ کی گئی جو 2011سے ’شہید‘ عشرت جہاں کے نام سے چل رہی تھی اور فردنویس حکومت کی آمد کے بعدوزیر اعلیٰ اور چندلوگوں کے اعتراضات واحتجاج پر ’زیر زمین‘ کر دی گئی ۔
عشرت جہاں کو 2004میں گجرات کے ایک فرضی انکاؤنٹر میں قتل کردیا گیا تھا، معاملہ ابھی زیر سماعت ہے۔ عشرت جہاں کے حوالے سے اہالیان ممبرا کے جذبات سب پر واضح ہیں۔ وہ ممبرا کی بیٹی تھی، لیکن اسی بیٹی کی لاش پر سیاسی و نیم سیاسی روٹیاں خوب سینکی گئیں۔ روزِ اوّل ہی سے مقتولہ کا استعمال سیاسی مائلیج لینے کیلئے کیا گیا۔ ایک خاص سیاسی لیڈر کی ایماءپر’کچھ پیدل لوگوں‘ نے اس جذباتی موضوع کو یوں اُچھالا کہ آج ان کے پاس ’سیاسی شہرت و رتبہ سب کچھ ہے ‘۔ جبکہ مقتولہ کا خاندان نہ جانے کس حال میں ہے؟
چونکہ معاملہ زیر سماعت تھا، اسلئے اوّل روز ہی سے اہالیان ممبرا کا ایک بڑا باشعور طبقہ عشرت کے معاملے کو سیاسی رنگ دینے کے حق میں نہیں تھا۔ عشرت کا جنازہ گواہ ہے کہ یہ مسئلہ سارے ممبرا کی ناک کا مسئلہ تھا، لیکن چند ہی مہینوں میں، دیکھتے ہی دیکھتے، بہ زورِ بازو و فلوس، اس موضوع کو ذاتی ملکیت میں تبدیل کر دیا گیا۔ "پیدل لوگ" گاڑیوں میں سفر کرنے لگے, اُن کی آُڑی اُڑی رنگت, گھر اور گاڑی میں ایئرکنڈیشنر ہونےکی وجہ سے نکھرنے لگی مگر چہرے کا نور اور زبان و بیان کا اثر جاتا رہا. گزشتہ سے پیشتر والے اسمبلی انتخابات میں، عین انتخابات سے پہلے، فلاح گارڈن پر ’لاشئہ عشرت‘ کی نمائش کر کے، گھما پھراکر، طرح طرح سے عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ ’یہی وہ مردِ آہن تھا کہ جس کے سبب آج عشرت کا موضوع ’زندہ‘ ہے۔ عشرت کی وکیلہ موصوفہ نے تو برملا سیاسی امیدوار کا نام ہی گھوشِت کر دیا۔ سب جانتے تو تھے کہ یہ ’لاشئہ عشرت‘ کیوں سجایا گیا ہے، لیکن ہمارا المیہ ہے کہ ہم جانتے تو ہیں، مانتے کہاں ہیں۔ عشرت کیس کے ’مالک‘ نے بڑی عیاری سے ’عشرت کارڈ‘ کھیل دیا تھا۔ وہ کھیل سیاسی جُوا ثابت ہوا۔ جواری جانتے ہیں کہ پتّے کو بہت پھینٹا جائے تو پتّہ اپنی رنگت کھو دیتا ہے۔ سو جُواری نے گھسے ہوئے پتے کومزید پھینٹنا کسر شان سمجھتے ہوئے "ڈسٹ بِن" میں ڈال دیا۔ 
غرضیکہ عشرت نے مَر کر بہتوں کی زندگیاں سنوار دیں۔ ان صاحبان کی زندگیوں میں سیاسی استحکام کے بعد ’عشرت کی ضرورت‘ کم ہوتے ہوتے ختم سی ہو گئی۔ اب کوئی عشرت کا نام لیوا نہیں۔ وزیراعلیٰ فردنویس کی اس گیدڑ بھپکی کے بعد کہ "ہمیں خبریں موصول ہوئی ہیں کہ عشرت لشکر طیبہ کی آپریٹیو ہے", ’شہید عشرت‘ سے منسوب ایمبولینس کو زیر زمین چھپا کر رکھ دیا گیا۔ اور اب وہی پرانی ایمبولینس، نئے رنگ و روغن، نئے بینر اور نئے ٹیلی فون نمبروں کے ساتھ ’جمعیت علماءایمبولینس سروس‘ کے نام سے نمودار ہوئی ہے۔ کچھ لوگ مولانا ارشدمدنی صاحب سے اس کا دوبارہ افتتاح کروانا چاہتے تھے، وہ جہاں دیدہ آدمی ہیں، بھانپ گئے، دور ہی رہے۔
آخر ایسا کیوں کیا گیا؟ ہم سب جانتے ہیں کہ ملک کی سیاست میں عشرت کا معاملہ انتہائی اعلیٰ سیاسی رنگ اختیار کر چکا ہے، جس شخص نے عشرت کے معاملے میں منطقی انجام تک لڑنے کا اعلان کیا تھا، وہ کہاں ہے؟ کیا فردنویس کے بیان سے ڈر گئے؟ یا پھر اب عشرت سانحے کی سیاسی ضرورت ختم ہو گئی؟
عشرت کے معاملے میں دل ہمیشہ اس کے گھر والوں کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ وہ کس حال میں ہیں؟ ان کا گزارا کیسے ہو رہا ہے؟ کیا وہ عزت کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں؟

بشکریہ روزنامہ راشٹریہ سہارا ممبئ 

0 comments: