featured

سپنوں کے سوداگر کی جیت سے مسلمان کیوں ہراساں ہیں؟

6:59 PM nehal sagheer 0 Comments

نہال صغیر
جمہوریت میں عوا م کی اکثریت جس جانب جھک جائے حکومت اسی کی بنتی ہے ۔اتر پردیش میں بھی بی جے پی کے شہنشاہ سپنوں کے سوداگر نے عوام کو اپنے وعدوں اور کرنسی منسوخی کے احمقانہ فیصلوں کو اپنی منظوری دیدی ۔جسٹس کاٹجو نے کہا تھا کہ ملک میں نوے فیصد لوگ مورکھ(احمق ) ہیں ۔حالیہ اتر پردیش میں بی جے پی کی جیت نے یہ ثابت کردیا ہے ۔ بہر حال یوپی میں انتخابی نتائج نے بی جے پی کو شاندار جیت دلادی ہے ۔اس جیت سے بی جے پی بہت زیادہ خوش ہے کیوں کہ یہ ایک تاریخی جیت ہے ۔ممکن ہے اس جیت سے ان کے بد زبان لیڈران جوش میں مزید بیہودہ گفتگو کا سلسلہ دراز کردیں ۔ ان باتوں سے ملک کا ماحول خراب ہوتا ہے فضا میں سر اسیمگی پھیلتی ہے لیکن کیا مسلمانوں کو بھی کوئی ایسا ردعمل ظاہر کرنا چاہئے جس سے یہ پیغام جائے کہ بی جے پی کی اس جیت سے اور سماج وادی ،کانگریس اور بہوجن سماج کی ہارسے مسلمان بہت اداس ہیں ۔یہ پیغام ہر گز نہیں جانا چاہئے ۔انتخابی نتائج پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اسد الدین اویسی نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ ہم مسلم ووٹوں کی تقسیم کے ذمہ دار نہیں ہیں اور نہ ہی مسلم ووٹ تقسیم ہوا ہے ۔یہ بات سیکولر پارٹیوں کے لئے قابل غور ہے کہ ان کا ووٹ کہاں گیا ؟اکھلیش یادو بھی اچنبہ میں ہیں کہ یہ کیا ہوگیا ۔انہوں نے کہا کہ شاید عوام کو بلیٹ ٹرین چاہئے ۔لیکن ہمارے لئے بحیثیت مسلمان اس پر ہائے توبہ کرنے یا واویلا مچانے کا کوئی مقام نہیں ہے ۔ہم تو آزادی کے بعد سے ہی ہندوراشٹر میں جی رہے ہیں ۔بس فرق اتنا ہے کہ آج سے قبل تک جو لوگ ہندوراشٹر کے ایجنڈے کو نافذ کرنے میں مصروف تھے وہ بڑے گھاگ اور مشاق افراد کا گروہ تھا اور اب جن لوگوں کے ہاتھوں اقتدار آیا ہے وہ ذرا غیر مہذب اور جلد باز ہیں بس اس سے زیادہ فرق نہیں ہے ۔لیکن ہمارا موضوع فی الحال ہندو راشٹر یا اس کے نمائندے کی حکومت نہیں ہے ۔جتنی منھ اتنی باتیں ۔کوئی کہتا ہے کہ یوپی کے سارے لوگ مسلمانوں کو چھوڑ کر ہندو ہو گئے اور انہیں ہندو اسد الدین اویسی کی تقریروں نے بنایا ہے ۔کوئی کہتا ہے کہ اب ذات پات کی سیاست ختم ہو گئی ہے ۔
موجودہ سیاسی حالات جیسے بھی ہوں اس میں مسلمانوں کو ماتم کرنے اور واویلا مچانے جیسی کوئی بات نہیں ہے ۔ان حالات میں پورے ملک کے وجود کا ہے ۔یہ تنہا مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے کہ وہ سب سے زیادہ دیش بھکت بن کر دکھانے کی کوشش میں خود کو اس دلدل میں پھنسا لیں جس میں نام نہاد سیکولر اور جمہوریت کی ڈفلی بجانے والے انہیں پھنسانا چاہتے ہیں ۔یہ ان کے سیاسی وجود کا مسئلہ ہے مسلمانوں کا نہیں۔وہ اپنی لڑائی مسلمانوں سے لڑوانا چاہتے ہیں ۔ مسلمان اس سے زیادہ برے حالات میں جیا ہے اور انشاء اللہ جئے گا ۔مسلمانوں کا ایمان اللہ پر ہے ان کا ایمان اللہ پر ہی رہنے دیں ۔جن کا ایمان سیکولرزم اور جمہوریت پر ہے وہ اپنی خیر منائیں ۔اسلام اور اس کے ماننے کا دعویٰ کرنے والے مسلمانوں کو کسی جمہوریت اور سیکولرزم کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے ۔یوپی اور آئندہ شاید پورے ملک میں جب بی جے پی کی حکومت ہو جائے گی تو یہ سماج واد کا نعرہ لگانے والے اور مسلمانوں کو فسادیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والوں کیلئے لمحہ فکریہ ہوگا!وہ خیال کریں کہ ان کاوجود کیسے برقرار رہے گا ؟ستر برسوں تک مسلمانوں نے ان کا بوجھ اٹھایا اب وہ اٹھانے کے قابل نہیں ہے ۔ان کی فکر میں مسلمان اپنی دینی ذمہ داری اور اپنے داعی امت ہونے کے فرائض کو بھلا بیٹھے ۔اگر وہ اپنی ذمہ داریوں اور اپنے فرائض کو ادا کررہے ہوتے تو آج ان کے لئے جو لوگ پریشانی کی بات کرتے ہیں کہ ایسا اور ویسا ہو جائے گا یہ بات ہی نہیں ہوتی ۔اب بھی مسلمانوں کیلئے کرنے کے وہی کام ہیں جو انہیں چودہ سو سال قبل سونپا گیا تھا ۔اس لئے جتنی جلدی ہو سکے وہ اپنی صفوں میں ابتری کی صورتحال پر قابو پائیں ۔اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامیں اور دیکھیں کہ انہوں نے جن ذمہ داریوں کی اندیکھی کی تھی اس کو پورا کرنے میں تن من دھن سے لگ جائیں ۔ان کے لئے مسائل کھڑے کرنے والے خود ان کے دوست اور غمخوار بنتے ہوئے نظر آئیں گے ۔ہم نہیں کہتے کہ آپ سیاست سے کنارہ کش ہوجائیں لیکن ہم آپ کو اس طرح ماتم کرتے اور واویلا مچاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو یہ احساس شدید تر ہو جاتا ہے کہ یہ وہی امت ہے جس میں چودہ سو سال پہلے جب یہاں کے سواحل پر قدم رکھا تھا تو یہاں ان کا کوئی استقبال کرنے والا نہیں تھا ۔ہر طرف بت پرستی اور عدم مساوات پر مبنی نظام کا بول بالا تھا ۔لیکن ان کے قد کیا پڑے یہاں کی سماجی ہیت ہی بدل گئی ۔لیکن افسوس اس کے بعد ان کے وارثین نے ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش نہیں کی اور انہوں نے اسی برہمنی نظام پر چلنے ہوئے عدم مساوات کو اپنا کر اللہ کے قانون اور پسندیدہ دین سے رو گردانی کی اسی کی سزا آج ہم کو ملنا شروع ہو گئی ہے ۔

0 comments: