featured

کچھ سنا آپ نے مسٹر پرائم منسٹر؟

11:08 PM nehal sagheer 0 Comments

ردعمل۔۔۔۔۔۔۔
ایم ودودساجد
یہ سطور بی جے پی کے وزیر اعظم کے نام ہیں ۔ مجھے مجبوراً موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کو بی جے پی کا وزیر اعظم کہنا پڑرہا ہے۔انہوں نے اپنے عمل اور اپنے کھلے افکار سے یہ بتادیا ہے کہ وہ اس ملک کے 125کروڑعوام کے نہیں بلکہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیڈر ہیں۔پچھلے تقریباً تین سالوں میں ان کے اقدامات اور تقریروں سے ایک باربھی ایسا نہیں لگا کہ وہ 125کروڑ عوام کی فلاح کیلئے کچھ سوچتے ہیں۔ان کے مقابلے میں تو امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی تعریف کرنے کو جی چاہتا ہے۔ میں ابھی امریکی کانگریس (یعنی امریکہ کی پارلیمنٹ)میں ٹرمپ کی اولین تقریر سن کر بیٹھا ہوں۔ٹرمپ کی انتخابی مہم سے لے کر ان کے منتخب ہونے تک اور اس کے بعدانتہائی متنازعہ امیگریشن حکمنامہ کے جاری ہونے اور اس پر عدالتی پابندی لگنے تک ٹرمپ کی شخصیت کے تعلق سے کچھ بھی تصور قائم ہوا ہولیکن گزشتہ یکم مارچ کو ٹرمپ نے امریکی کانگریس میں جو خطاب کیا اس نے ان کی مسموم شخصیت کے تصور کو وقتی طورپرہی سہی‘ بدل کر رکھ دیا۔مجھے یہاں ٹرمپ کی یکطرفہ اور غیر مشروط ستائش مقصود نہیں ہے۔لیکن چونکہ ٹرمپ کی انتخابی مہم بھی مودی کی طرز پر ہی چلائی گئی تھی اور انہی کی طرز پر وہ غیر متوقع طورپر کامیاب بھی ہوئے اس لئے دونوں کے افکار‘عمل اور عزائم کا تقابلی تجزیہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
بی جے پی کی خاتون لیڈرشاذیہ علمی ‘جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مسلمانوں کو گالیاں دینے کیلئے منعقد ایک پروگرام میں تقریر کیلئے مدعو نہ کئے جانے پر بر افروختہ ہیں لیکن اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد( اے بی وی پی) کے غنڈوں کے ذریعہ دہلی یونیورسٹی میں لاء فیکلٹی کی سن رسیدہ خاتون ڈین کی شرمناک بے عزتی پربی جے پی کو کوئی افسوس نہیں ہے۔جس پروگرام میں شاذیہ علمی کو تقریر نہ کرنے دینے کی شکایت ہے وہ پروگرام آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والی ایک تنظیم نے منعقد کیا تھا۔اس پروگرام میں بظاہر تو مسلم عورتوں کے حقوق کو عنوان بنایا گیا تھا لیکن فی الواقع طلاق ثلاثہ اور دوسرے امور کے بہانے اسلام اور مسلمانوں کو لعن طعن کرنی تھی۔جامعہ ملیہ اسلامیہ ‘مسلمانوں کی گھنی آبادی سے گھری ہوئی ایک یونیورسٹی ہے۔اس کی بنیاد میں اگر ایک طرف مہاتما گاندھی کا پسینہ شامل ہے تو وہیں مولانا محمود حسن اور مولانا محمد علی جوہرکا خون جگر بھی شامل ہے۔لیکن مرکز میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعدجامعہ کے ذمہ داروں کا رخ ہی بدل گیا ہے۔یہاں مختلف مواقع پر شاتم رسول سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین تک کی کتابیں اسٹالوں اور پروگراموں میں نظر آجاتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ جب تم آستھا کے نام پر ہم سے رعایت لے لیتے ہوتو ہمارے عقیدہ کا احترام کیوں نہیں کرتے؟مسلم پرسنل لاء کا مسئلہ خالص مسلمانوں کا اپنااندرونی مذہبی مسئلہ ہے۔اس کا عام سماج اور ملکی سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔مگر اس کے باوجوداس کے بہانے سے اسلام اور مسلمانوں کو مطعون کرنے کا کھیل برابر جاری ہے۔
دہلی یونیورسٹی کا واقعہ تو بہت ہی تکلیف دہ ہے۔کم سے کم مجھ جیسے حساس لوگوں کیلئے‘جن کو علم اور استاذکے احترام کی اہمیت گھول گھول کر پلائی گئی تھی ‘خاتون استاذ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ انتہائی پریشان کن ہے۔جے این یو اور دہلی یونیورسٹی میں آج کل اظہار رائے کی آزادی کو کچلنے کیلئے طلبہ کے ساتھ جو کچھ ہورہا ہے اس سے سب واقف ہوں گے۔آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والی اسٹوڈنٹ تنظیم اے بی وی پی کے لٹھ بردار وں نے نجیب کے حق میں آواز اٹھانے والوں کو دہشت گرد اور ملک دشمن قرار دے کرپورا ماحول پراگندہ کردیا ہے۔ایک ویڈیو نمودار ہوئی ہے جس میں اے بی وی پی کا ایک غنڈہ لا فیکلٹی کی ڈین ایک سن رسیدہ خاتون کو تین پولس افسروں کی موجودگی میں ناقابل بیان انداز اور الفاظ میں ڈرا دھمکا رہا ہے۔اس ویڈیو میں خاتون پروفیسرکی بے بسی دیکھ کروہی لوگ مسکرا سکتے ہیں جن کے سینوں میں انسانوں کا نہیں بلکہ آدم خور وحشی جانوروں کا دل ہو۔افسوس اس بات کا ہے کہ اس ویڈیو کودن رات چیخنے والے الیکٹرانک میڈیا نے کوئی اہمیت نہیں دی۔مسلم عورتوں کے حقوق کے بہانے اسلام کو گالیاں دینے والوں کا اصلی چہرہ یہ ہے کہ قانون پڑھانے والی ایک بردباراور معمرخاتون کو سرعام پولس افسروں کے سامنے ذلیل کیا جارہا ہے۔اس کا مستقبل برباد کرنے کی کھلی دھمکی دی جارہی ہے لیکن پولس افسران بھیگی بلی بنے کھڑے ہیں۔مسلم ’’بہنوں‘‘کی طلاق کے معاملہ پر ہمدردی دکھانے والے وزیر اعظم تک ایک ہندوخاتون کی بے حرمتی پر خاموش ہیں۔
یوپی کی انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی اور امت شاہ کیسے کیسے شرمناک بیانات دے چکے ہیں اسے دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے.....۔قبرستان‘شمشان‘رمضان‘قصاب اوراب پولنگ کے دوران برقعہ پوش خواتین کی چیکنگ جیسے انتہائی اشتعال انگیزاور مسلم دشمن بیانات کی ایک طویل فہرست ہے۔الیکشن کمیشن نے اس تعلق سے جومجرمانہ تساہلی برتی ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔لیکن آر ایس ایس کے ایک سینئر لیڈر نے اجین میں کیرالہ کے وزیر اعلی کے خلاف تقریر کرتے ہوئے جس طرح مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا ہے وہ انتہائی اشتعال انگیز ہے۔۔ ایک جلسہ میں اس لیڈر نے کیرالہ کے وزیر اعلی کا سر کاٹ کر لانے والے کو ایک کروڑ روپیہ دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔اس نے جوش میں آکر یہ بھی کہہ دیا کہ 56مارے تھے‘ہم نے 2000کو قبرستان میں پہنچا دیا۔ظاہر ہے کہ یہ اشارہ2002میں سابر متی ٹرین کے سانحہ میں56کارسیوکوں کی موت اور پھر گجرات فسادات میں دوہزار مسلمانوں کے قتل عام کی طرف ہی ہے۔آر ایس ایس کا یہ لیڈرکھلے عام کیرالہ کے وزیر اعلی کا سر کاٹ کر لانے کی ترغیب دے رہا ہے اور یہ بھی بتارہا ہے کہ گجرات میں مسلمانوں کا جو قتل عام ہوا تھا وہ ایک منظم پلاننگ کاحصہ تھا جسے حکومت اور آر ایس ایس نے مل کرانجام دیا تھا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو آر ایس ایس نے اس کی وضاحت کر دی ہوتی۔آر ایس ایس کا جو تازہ بیان آیا ہے اس میں صرف کیرالہ کے وزیر اعلی کا سر کاٹ کر لانے کے اعلان کی مذمت کی گئی ہے۔گجرات کے دوہزار مسلمانوں کے قتل عام کے تعلق سے اس لیڈر نے جو کچھ کہا ہے اس سے بیزاری کا اظہار نہیں کیا گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ گجرات قتل عام کو آر ایس ایس کی رضامندی حاصل تھی۔پھر بھی مسلمانوں کے چند میر جعفراندریش کمار کی سربراہی میں آر ایس ایس کا مسلم ونگ بناکران کے تلوے چاٹ رہے ہیں اور جامعہ جیسی حساس یونیورسٹی میں اسلام کو مطعون کرنے کیلئے پروگرام منعقد کر رہے ہیں؟
امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا کچھ اور ذکر ضروری ہے۔جو لوگ امریکہ کے صدارتی انتخاب کی مہم اور اس کے بعد کے حالات پر نظر رکھے ہوئے تھے انہیں اندازہ ہوگا کہ ٹرمپ سے کسی خیر کی توقع تو دورکسی کلام خیر کی بھی امید نہیں کی جاسکتی۔لیکن انہوں نے امریکی کانگریس میں جو تقریر کی ہے وہ ہمارے ہندوستانی سیاستدانوں کو شرمندہ کرنے کیلئے کافی ہے۔ٹرمپ کیلئے امریکہ کی اپوزیشن جماعت کی حیثیت اسی طرح ہے جس طرح مودی کیلئے سونیا اور راہل کا وجود ہے۔وزیر اعظم نے ہر موقعہ پر یہ بات ببانگ دہل کہی ہے کہ ہندوستان کو کانگریس سے پاک ملک بناناہے۔انہوں نے تو اپنے غیر ملکی دوروں تک کو اپنی اس خواہش کے اظہار کیلئے استعمال کیا۔لیکن دوسری طرف ٹرمپ نے اپنی ایک گھنٹے کی تقریر میں اپوزیشن جماعت کاجتنی بار بھی نام لیا مل کرکام کرنے اور امریکہ کی تعمیر نو میں مددطلب کرنے کیلئے لیا۔ٹرمپ نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ امریکہ نظریات کی بنیاد پر دوحصوں میں منقسم ہوگیا ہے لیکن میرا عزم ہے کہ اب ہم سب مل کر کام کریں گے۔ٹرمپ نے بتایا کہ جب سے انہوں نے عہدہ صدارت سنبھالا ہے درجنوں بڑی غیر ملکی کمپنیوں نے کئی سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کئے ہیں اور دسیوں ہزار نوکریوں کی گنجائش نکلنے والی ہے۔انہوں نے کہا کہ میں نے ہر شہری کے مکمل تحفظ کا حکم جاری کردیا ہے اور نشہ پر مکمل پابندی کا فیصلہ ہوگیا ہے۔انہوں نے داعش جیسی دہشت گرد جماعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس نے خود مسلمانوں کا بھی قتل عام کیا ہے۔انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ ہم مسلم دنیا میں اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا خاتمہ کریں گے۔ٹرمپ نے کنساس میں ایک ہندوستانی انجینئرکے قتل پر بھی افسوس ظاہر کیا۔اپنی ایک گھنٹے کی تقریر میں ٹرمپ نے حفظان صحت‘عام سیکیورٹی‘ بے روزگاری‘روزگار کی فراہمی‘غربت اورجرائم کے خاتمہ اور ٹیکس نظام میں اصلاح کااعدادوشمارکی روشنی میں تفصیلی ذکر کیا۔یہاں تک کہ مزدوروں کی اجرت اور فوج کی فلاح وبہبود کے بجٹ میں اضافہ تک پر بات کی۔مگر آپ بتائیے کہ کب آپ نے ایوان میں اس طرح کی کوئی بات کی؟یوپی کے الیکشن میں تو آپ کھل کر سامنے آگئے اور جو بھی کہا وہ مسلمانوں کا دل دکھانے کیلئے کہا۔پھر کیوں تو آپ کو اس ملک کا وزیر اعظم کہیں اور کیوں آپ کا موازنہ ٹرمپ سے کریں؟
ٹرمپ نے کہا کہ مجھے پوری دنیا کی قیادت نہیں کرنی بلکہ مجھے امریکہ کیلئے کام کرنا ہے۔آپ نے پوری دنیا کے دورے کرلئے لیکن کیا کسی ایک کمپنی نے بھی ہندوستان میں سرمایہ کاری کی؟آپ نے کب دادری کے محمد اخلاق کے بہیمانہ قتل پر افسوس ظاہر کیا؟آپنے کب یوگی آدتیہ ناتھ‘ساکشی مہاراج‘سنگیت سوم اور کیلاش وجے ورگیہ جیسے کھلے مسلم دشمنوں کوبدزبانی کرنے سے روکا؟آپ نے کب بیس کروڑ سے زائد مسلمانوں کے مسائل حل کرانے کی یقین دہانی کرائی؟آپ نے کب سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا؟آپ نے امریکہ کی ہندوکوالیشن کی معرفت ٹرمپ کی انتخابی مہم میں ان کا ساتھ محض ان کی کھلی مسلم دشمنی کی وجہ سے دیا لیکن ٹرمپ نے اب جو کچھ کہا وہ تو آپ نے کبھی نہیں کہا۔ٹرمپ کی تقریر کا آخری جملہ سنا آپ نے؟انہوں نے کہا کہ آخر کار ہم سب ایک ہی خدا کے بنائے ہوئے ہیں لہذا ہم سب کو مل کر کام کرنا چاہئے۔کیا آپ ایسا کہنے کو تیار ہیں مودی صاحب؟

0 comments: