Muslim Issues

وہ صبح ضرور آئے گی

6:44 PM nehal sagheer 0 Comments




قاسم سید 
اس میں کوئی شک نہیں کہ نوٹ بندی نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے ،معاشرہ کو ہر لحاظ سے بری طرح متاثرکر دیا ہے روز مرہ کی سرگرمیوں کے ستاھ گفت و شنید کے موضوعات تبدیل ہو گئے ہیں عام آدمی کی زندگی کے شب و روز کا زاویہ ہی بدل گیا ۔ شاید ایمرجنسی کے بعد یہ ایسا فیصلہ ہے جس کی گونج بہت دورتک سنائی دے گی ، اقتصادی ماہرین کی جو رائے سامنے آتی رہی ہیں انہوں نے تو کلیجہ ہلا کر رکھ دیا ہے مگر سرکار اپنی ضدپر قائم ہے کہ اس نے جو کچھ کیا ہے اس میں ملک کا وسیع تر مفاد پوشیدہ ہے ۔وزیر اعظم نے عوام میں موجود اپنی ساکھ کی بنا پر یہ داؤ کھیلا ہے اور کمزور اپوزیشن کی موجودگی نے ان کے حوصلوں کو پر عطاکر دیئے ہیں انہوں نے 50دن کی مہلت مانگی تھی جو پوری ہو گئی ہے مگر حالات بھلے ہی پہلے سے کچھ بہتر نظر آرہے ہوں لیکن دیہی آبادی کی مصیبتیں ختم نہیں ہوئی ہیں ۔سب سے سنگین اور نقصان دہ پہلو یہہے کہ سرکاری اداروں کا اعتبار مجروح ہواسرکار کے روز بدلتے اعلانات اور اقدامات میں غیر یقینی کی کیفیت نے عوام کے دبے ہوئے غصے میں اضطراب کی لہریں پیدا کر دی ہیں اورکہا نہیں جا سکتا کہ حکومت کب تک ان کی جائز اور حلال رقم کے حصول کی راہ میں بزور قوت حائل رہے گی ۔اور انہیں بھکاری بنا دینے کا احساس دلا کر زخموں پر نمک پاشی کرے گی ۔سرکار کی ترجیحات کاقبلہ بھی سمت کھوتا جا رہا ہے کیونکہ مقاصد  کالادھن ،جعلی کرنسی اور دہشت گردی کے خاتمہ کی راہ سے ہو کر کیش لیس اکنامی پر آکر ٹھہر گئے ہیں یہ وہ  ہے جو نیک نیتی پر شکوک و شبہات کے جالے تان دیتا ہے ۔ مگر اطمنان کی بات یہ ہے جس پر سرکار چین کی سانس لے سکتی ہے عوام ابھی تک صبر و تحمل کا ثبو ت دے رہے ہیں اور یہ ہندوستانیت کی معصومیت سادگی اور سادہ لوحی ہے اگریہ مزاج نہ ہوتا تو باہر سے آنے والے صدیوں حکومت نہیں کر پاتے ،بہر حال جمہوریت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ پانچ سال بعد ہی سہی وہ عوام کو احتساب ، انتقام یا فیصلہ کا موقع دیتی ہے اور وہ بڑی خاموشی کے ساتھ جمہوری شاہزادوں کی نکیل کس دیتی ہے اور امیر سے فقیر بنا دیتی ہے ۔اندار گاندھی جیسی طاقت ور حکمراں کو ایمرجنسی کے فیصلہ کی عبرتناک سزا دی ،اندرا گاندھی اپنے اقتدار کو طول دینے کی غرض سے غیر آئینی قدم اٹھایا مگر ان کی نیت یہ ظاہر کی گئی کہ وہ بد امنی ،لاقانونیت کو کنٹرول کرنا چاہتی ہیں اور اس کے بد ترین نتائج سامنے آئے اسی طرح نوٹ بندی کے مقاصد کتنے ہی اعلی وارفع ہوں لیکن بد انتظامیوں نے سوالیہ نشان لگا دیا اور اگر واقعی اس قدم کا کوئی سیاسی پہلو ہے جیسا کہ بعض حلقے لگا تار الزام لگا رہے ہیں تو پھر یہ 125کروڑ عوام کے ساتھ شدید نا انصافی ہے ۔سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اسے منظم لوٹ کھسوٹ سے تعبیر کیا اور ان جیسے عالمی ماہر اقتصادیات کی رائے کو آسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔بڑی عجیب بات یہ ہے کہ اس معاملہ پر جس نے ملک کے سیاسی منظر نامہ کو یک رخ کر دیا مسلم قیادت کی طرف سے کوئی پالیسی سامنے نہیں آئی کہ یہ فیصلے صحیح ہے یا غلط ۔اسیا لگتا ہے کہ ان کی قوت گویائی ختم ہو گئی ہے یا وہ اسے کوئی مسئلہ ہی نہیں مانتے ۔انہیں نہیں لگتا کہ عام ہندوستانی میں عام مسلمان بھی شامل ہے جو اس فیصلہ سے بری طرح متاثر ہوا ہے ۔وہ بھی مزدور اور کشان ہے ۔اس کے گھر میں بھی فاقے ہو رہے ہوں گے ،اس کے بچے بھی اپنے باپ کا ہر شام انتظار کرتے ہوں گے ،اس کے بھی چھوٹے موٹے کارخانے بند ہو گئے ہیں ۔ دوجون کے لئے ہاتھ پیر مارنے والے کی عقل ہی الٹی ہو گئی ہے کہ وہ کس در پر جاکر سر پھوڑے ۔البتہ اردو اخبارات ان کی مختلف مسائل پر پریس ریلیز سے ضرورگلزار رہتے ہیں عملی اقدامات کا جہاں تک تعلق ہے شاید وہ بھی حالات کے بہتر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ۔حد تویہ ہے کہ پانچ ریاستوں کے انتخابات سر پر کھڑے ہیں کسی وقت اعلان ہو سکتا ہے سیاسی پارٹیوں نے کافی پہلے سے پوری طاقت جھونک دی ہے مگر مسلم محاذ پر قبرستان کا سا سناٹا چھایا ہوا ہے ایسا لگتا ہے کہ یا تو ان کے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے یا انہیں کوئی پوچھ نہیں رہا ہے ان کی ضرورت تو محسوس کی جا رہی ہے لیکن کوئی رابطہ کرنا نہیں چاہتا خواہ سیاسی مسلم جماعتیں ہوں یا عاشقان ٹیکٹکل ووٹنگ ہوں یاغلامان ملائم سنگھ ،وفاداران کانگریس ہوں یا حامیان بی ایس پی ان سب کی مشترکہ خواہش ہے کہ یہ بس سب ایک ہو جائیں اور بی جے پی کو دھول چٹا دیں ۔باوجود اس کے کہ وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو پارٹیاں مرکز میں حکمراں جماعت سے نبردآزما ہیں ریاست میں ایک دوسرے کی کٹر حریف ہیں ۔مثلا اترپردیش میں ایس پی ،بی ایس پی ،کیرل میں کانگریس اور لیفٹ ،تامل ناڈو میں ڈی ایم کے ،انا ڈی ایم کے ،مغربی بنگال میں ممتا بنرجی اور لیفٹ کیا ان میںعلاقائی سطح پر اتحاد ممکن ہے اور پھر ہم کیوں اس فکر میں دبلے ہوجاتے ہیں کہ یہ ایک ہوجائیں کیا ہم ایک ہو سکتے ہیں کیا مسلکی اختلافات ہمیں متحد کرنے گی راہ میں روڑا نہیں ہیں کیا ہماری مسجدیں الگ نہیں ۔ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کیلئے تیارنہیں ہوتے ،قبرستان  تک الگ ہیں ۔بعض مقامات پر اس معاملہ میں فسادات تک ہو گئے ہیں ۔حتی کہ مسلکی اختلافات کی بنا پر شادیاں تک نہیں ہوتیں۔ وہیں ذات پات کی دیواریں بھی حائل ہیں ۔جب ایک اللہ ،ایک رسول ؐاور ایک کلمہ کے ماننے والے ایک پلیٹ فارم پر آنے کے لئے تیار نہیں ۔نجی مجلسوں میں ہی نہیں اسٹیجوں پربھی زہر اگلتے رہتے ہیں تو پھر ایسے لوگوں سے توقع کیوں کرتے ہیں جن کے سیاسی مقاصد و ترجیحات الگ ہیں۔،دوسرے جب انہیں ضرورت ہوگی تمام تلخیاں بھلا کر آپ سے مشورہ لئے بغیر ایک دوسرے کے بغل گیر ہو جائیں گے ۔جیسا کہ بہار میں ہوا ۔وہ مودی کو اپنی شادی میں بلانے سے گریز نہیں کریں گے جیسا کہ ملائم سنگھ نے کیا ۔وہ بی جے پی سے بھی ہاتھ ملا سکتے ہیں جیسا کہ ایمرجنسی کے بعد جنتا پارٹی سرکار اور پھر وی پی سنگھ کے دور میں نظر آیا۔ وہ اپنی سیاسی ضرورت کے لئے بابری مسجد کی شہادت کے مجرموں کو بھی دوست بنا لیں گے جیسا کہ رفیق الملک نے کلیان سنگھ کے ساتھ ملک کر الیکشن لڑا یہ تو وہ سیاست داں ہیں کہ رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت بھی نہ گئی ۔اس لئے اپنی فکر کیجئے کچھ ایسا فیصلہ کیجئے جو بے توقیری ،بے وزنی ،بے بضاعتی ،ناقدری کو کم کرسکے ،یہ کاسہ کیسی ،دردر بھٹکنا ۔قدم بوسی کے لئے بے قراری ،ایک جھلک پانے کی بے چینی اور ملاقاتوں کے لئے بے صبری کے ڈھکوسلوں سے مسلمانوں کا کچھ بھلا نہیں ہونے والا ہے ۔ہم اب تک یہ سمجھ نہیں پاتے ہیں کہ جب سیاست میں دوستی دشمنی مستقل نہیں ہوتی اور کوئی حرف آخر نہیں ہوتا تو پھر یہ ضابطہ ہمارے اوپر کیوںلاگو نہیں ہوگا ۔ہم نے اپنے دوست اور دشمن کیوں مستقل طو ر پر طے کر لئے ہیں ۔آخر ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ہے کہ ہم اپنا ایک راستہ طے کریں کچھ ایجنڈہ بنائیں کہ جو ان کو عملا قبول کرے گا اس کو ہماری حمایت ملے گی یہ ساری پارٹیاں اندرونی طور پر ایک دوسرے کی دوست ہیں بلکہ آڑے وقت میں مددگار بھی ہوتی ہیں ۔مودی کو ایک بات کا کریڈٹ دیاجانا چاہئے کہ انہوںنے مسلمانوں میں ٹینڈر باز سیاست کے تانے بانے بکھیر دیئے ہیں ۔الیکشن کے خاص وقت سرگرم ہونے اور مسلمانوں کی بولیاں لگانے والوں کے بھاؤگر گئے ۔کمروں کے اندر مفادات طے کرنے والوں کی بولیاں لگنا ختم نہیں ہواتو کم ضرور ہوگیا۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے اندر انتخابی سیاست کے ماہروںکا فقدان ہے۔اس لئے دور رس حکمت عملی نہیں بن پاتی وقتی اور فوری نتائج کی خواہش کچھ کرنے نہیں دیتی ۔ہمیں لگتا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ طاقتور سیاسی عناصر کے بجائے کمزور طبقات کو ساتھ لیا جائے جب ہم اپنے سے طاقتور سے ہاتھ ملاتے ہیں تو ہمارے حیثیت مساوی ہو ہی نہیں سکتی ،ظالم مظلوم کی ہو بھی نہیں سکتی لیکن دبے کچلے طبقات جو اکثریت میں ہیں ان کے ساتھ شراکت نہ صرف مساوی حیثیت فراہم کرے گی بلکہ قائدانہ رول بھی اداکر سکتے ہیں ۔اتر پردیش میں ہی دلت طبقہ 22فیصد ووٹر ہے اورمسلمان کم و بیش 20فیصد یہ اشتراک ریاست کی سب سے بڑی طاقت بن سکتا ہے پھر کسی سے بھیک مانگنے ،میمورنڈم دینے ،اتحاد کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔میمورنڈم لینے والے بنیں گے مانگنے نہیں دینے والے ہوں گے ہو سکتا ہے اس کے نتائج آج نہ ملیں مگر آنے والی نسلوں کے لئے باعزت زندگی کی بنیاد تو رکھ سکتے ہیں ،لگنے والے درخت کا پھل خود کھانے کی بے قراری خود کش انجام تک لے جاتی ہے ۔ہو سکتا ہے کہ ہم یوپی کے اسمبلی انتخابات میں منزل نہ پاسکیں لیکن 2019کے لئے تو تیاری کر سکتے ہیں ۔یقین جانئے وہ صبح جس کا انتظار کیا جا رہا ہے وہ اسی سے طلوع ہوگی اگر ایسا سوچا جائے تو ہمارے اندر سے ہی کوئی کانشی رام ، اروند کیجریوال اور کنہیا نکل آئے گا بس آغاز کی دیرہے ۔

qasimsyed2008@gmail.com

0 comments: