دیش بدل رہا ہے

7:05 PM nehal sagheer 0 Comments


قاسم سید
  
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک مسافر جنگل میں سے گزر رہا تھا ۔ ایک شیر نظر آیا ۔وہ شیر ایک پنجرے میں قید تھا۔شیرکو پنجرے میں قید دیکھ کر مسافر بہت حیران ہوا اور پنجرے کے پاس جا پہنچا ۔بولا حضور ! میں قیدی ہوں مجھ پر رحم کیجئے ۔پنجرے کا دروازہ کھول کر مجھے رہا کر دیجئے ۔میں آپ کاشکر گزار رہوں گا۔شیر کی التجا سن کر مسافر سوچ میں پڑ گیا اسے شیر پر ترس بھی آرہا تھا لیکن وہ یہ سوچ رہا تھا کہ شیر پنجرے سے نکل کر اسے کھانہ جائے ۔شیر اسے سوچ میں دیکھ کر دوبارہ بولا ’بھا ئی تم کس سوچ میں گم ہو گئے ہو میری حالت بہت خراب ہو رہی ہے ۔ براہ مہربانی مجھے پنجرے سےباہر نکالو اورہاں مجھ سے ڈرو مت میں تمہیں نہیں کھاؤں گا ۔ یہ میرا وعدہ ہے ۔‘شیر کی در بھری التجا سن کر مسافر نے پنجرے کا دروازہ کھول دیا ۔ شیر پنجرے سے نکل کر مسافر سے کہنے لگا ۔’اب تم مرنے کے لئے تیار ہو جاؤں میں تمہیں کھاؤں گا ،کیوں کہ بھوک سے میرا براحال ہے ۔‘مسافر یہ سن کر بہت حیران ہوا اور شیر کو اس کا وعدہ یاد دلایالیکن شیر اسے کھانے پر بہ ضد رہا ۔
اچانک ایک لومڑ کا ادھرسے گزر ہوا ۔ شیر نے کہا ’آؤ اسے اپنا منصف مقرر کر لیں ۔ ہم اس کے فیصلے پر عمل کریں گے ۔ یہ سن کر مسافر بہت خوش ہوا اور اس نے پوری داستان لومڑ کے سامنے بیان کر دی ۔ لومڑ نے پوری بات سن کر کہا ۔’مجھے تو یہ ایک من گھڑت قصہ معلوم ہوتا ہے ۔ یہ پنجرہ شیر کے لئے بہت چھوٹا ہے ،میںیہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ شیر جیسا جانور اس میں قید ہو سکتا ہے ۔شیر فوراً بولا میرے دوست سچ کہتا ہے۔’لومڑ نے کہا حضور! جب تک میں اپنی آنکھ سے نہ دیکھ لوں ، میری تسلی نہیں ہو سکتی ، شیر نے کہا بہت اچھا ! میں پنجرے میں داخل ہوتا ہوں ۔ جو ں ہی وہ اندر گیا مسافر نے پہلے کی طرح دروازہ بند کردیا اور لومڑ سے کہا ۔اب تمہیں میری بات پر یقین آگیا ۔لومڑ نے کہا ’ تم واقعی ٹھیک کہتے ہو ۔آؤ اب ہم چلیں اور شیر کو پنجرے میں ہی رہنے دو ۔ مسافر نے لومڑ کا شکریہ ادا کیا ۔ لومڑ مسافر سے بولا ! اےنیک دل مسافر مجھے پہلے ہی یقین تھا کہ ضرور یہ شیر تمہیں دھوکا دے رہا ہے اس لئے میں نے اسے سبق سکھانے کے لئے چال چلی جو کا میاب رہی اور ویسے بھی احسان فراموش اور وعدہ خلافی کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہوتے ۔
یہ کہانی اگر چہ بچوں کےلئے لکھی گئی ہے ۔ مگر اسے زیاد ہ وسیع پیرائے میں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ دماغ کا بند روشن دان کھول کر تازہ ہوا آنے کی اجاز ت دی جائے اور روایتی سوچ سے بغاوت کرنے کا حوصلہ ہو تو ہم اس کی معنویت اور سبق کو ذہن نشین کر کے حکمت عملی طے کر سکتے ہیں ۔
تھوڑاسا آگے بڑھیں دوسرے انداز سے موجودہ ماحول کو نظرو ں میں اتارنے اور دل سے اس کی گہرائی کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
معروف شاعر اسکرپٹ رائٹر اور مخصوص نقطہ فکر رکھنے والے دانشور کے طور پر شناخت رکھنے والے جاوید اختر نے حال ہی میں ایک ٹی وی پروگرام میں ایک نظم سنائی ۔ شاید اس نظم کا پیغام، منظر ،پس منظر اور بیان کیا گیا درد کسی وضاحت اور تشریح کا محتاج نہیں ہے ۔
کسی کا حکم ہے
ساری ہوائیں ہمیشہ چلنے سے پہلے بتائیں
کہ ان کی سمت کیا ہے ؟
ہواؤں کو بتانا یہ بھی ہوگا چلیں گی جب تو کیا رفتار ہوگی
کہ آندھی کی اجازت اب نہیں ہے
ہماری ریت کی سب یہ فصیلیں
یہ کاغذ کے محل جو بن رہے ہیں ،حفاظت ان کی کرنا ہے ضرور ی
اور آندھی ہے پرانی ان کےدشمن یہ سب جانتے ہیں
کسی کا حکم ہے دریا کی لہریں
ذرا یہ سرکشی کم کرلیں ،اپنی حد میں ٹھہریں
ابھرنا پھر بکھرنا اور ابھر کر پھر بکھرنا
غلط ہے یہ ان کا ہنگامہ کرنا
یہ سب ہے صرف وحشت کی علامت ،بغاوت کی علامت
بغاوت تو نہیں برداشت ہوگی
یہ وحشت تو نہیں برداشت ہوگی
اگر لہروں کو ہے دریا میں رہنا
تو ان کو ہوگااب  چپ چاپ بہنا
کسی کا حکم ہے اس گلستاں میں
بس ایک رنگ کے ہی پھول ہوں گے
کچھ افسر ہوںگے جو یہ طے کریں گے
گلستان کس طرح بننا ہے کل کا
کسی کو کوئی یہ کیسے بتائے
ہوائیں اور لہریں کب کسی کا حکم سنتی ہیں
ہوائیں حاکموں کی مٹھیوں میں
قید خانوں میں نہیں رکتیں
یہ لہریں روکی جاتی ہیں تو
دریا جتنا بھی ہو پرسکوں بیتاب ہوتا ہے
اور اس بے تابی کا اگلا قدم سیلاب ہوتی ہے
قلم جب کاغذ کی زنجیروں سے بندھا خوف و دہشت کی قبا اوڑھےبے نور آنکھوں سےتاک رہاہو تو سمجھ لیجئے کہ وہ سخت ترین آزمائش میں مبتلا ہے اسے ہمت اور سہارے کی ضرورت ہے کیونکہ قلم کی روشنائی شہید کےخون سے زیادہ قیمتی اور اہم ہوتی ہے جب تک یہ متحرک ہے معاشرہ میں جان باقی ہے ۔ اس کی آزادی باقی ہے تو سماج کی نسوں میں بھی آزادی کاخون دوڑتا محسوس ہوگا ۔ اس کا احترام کیاجارہا ہے تو عام آدمی کی توقیر کی جا رہی ہوگی ۔ اس لئے کہ آمرانہ جمہوریت میں سب سے پہلے قلم کی شہ رگ کاٹی جاتی ہےتاکہ اس کی حرارت ختم ہو جائے ۔ سوشل میڈیا پر چیخنے چنگھاڑنے والوں کو اندازہ ہی نہیں ہے معاملہ کس حد تک پہنچ چکا ہےاور کب تک خیر مناتے ہیں کوئی پیش گوئی کرنا مشکل ہے ۔ جب اختلاف رائے کو ملک دشمنی ، دیش دروہی میں بدل دیا جائےاور سوال کرنے والے کو شبہ کی نظر سے دیکھا جانے لگے اس کی عقل کی سلامتی پر سوالیہ نشان لگ جائے اور رد عمل ضیاء الحق ،مظفر نگر، دادری ،اونا،منہاج ،نجیب احمد کی صورت میں سامنے آئے تو ریڑھ کی ہڈی میں سر دلہر دوڑ جانا فطری ہے ۔ اگر گریبان پکڑا لیا جائے تو پیچھے حمایت میں کوئی نظر نہ آئے تواخلاقی ہمت و جرأت کا پیرا میٹر سمجھا جا سکتا ہے ۔ ہم سے بہادری کاثبوت دینے اور ڈٹے رہنے کا مطالبہ کیوں کیا جائے ۔ اپنی کم ہمتی بزدلی اور مصلحت کوشی کا اعتراف کرتے ہوئے کہانی اور شاعری میں بات کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ اگر قلم کے انتقال پر ملا ل کی خبر مل جائے اور ہمت ساتھ دے تو اظہار تعزیت کا حق تو بنتا ہے ۔
نوٹ بندی نے پورے ملک کے مزاج ، ماحول ، سرگرمیوں، سوچ اور عملی مصروفیات کو ہرطرف سے آزاد کرکے اپنی مٹھی میں قید کر لیا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ پہلے زبان بندی اور اس کے بعد نوٹ بندی کےاثرات صرف سماج پر ہی نہیں بلکہ ملک کی فکری ہیئت کو بدل کر رکھ دیں گے ۔ ذاکر نایک کا قضیہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے ۔ اور خاموشی چھائی ہوئی ہے ۔ آسام کے وزیر تعلیم نے مدارس میں جمعہ کی چھٹی پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے خلاف قانون قرار دیا ۔ سب مہر بہ لب ہیں قبرستان کا سا سناٹا چھایا ہوا ہے ۔ یہ ابتداء ہے ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر فیصلہ جلد آنے والاہے ۔ طلاق ثلاثہ پر ماحول سازی ہو رہی ہے ۔ حکمراں جماعت نے مسلم خواتین کو ’ظلم‘ سے نجات دلانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ اور ہم ٹکٹکی باندھے بے بسی کی نظروں سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں ۔ ہر ایک اپنی سلامتی کی فکرمیں لگا ہوا ہے ۔ اسے نہیں معلوم جب پڑوسی کا گھر جلتا ہے تو آگ کی لپٹیں اپنے گھرتک بھی پہنچتی ہیں اور آس پاس کی بستیاں کبھی کبھی جل کر خاک ہو جاتی ہیں ۔
ایڈولف ہٹلر کے مخالف مارٹن نے لکھا تھا ۔
پہلے وہ کمیونسٹوں کے لئے آئے لیکن میں چپ رہا ۔ کیونکہ میں کمیونسٹ نہیں تھا ۔ پھر وہ ٹریڈ یونین والوں کے لئے آئے لیکن میں چپ رہا ۔ کیونکہ میں ٹریڈ یونین والا نہیں تھا ۔ پھر وہ یہودیوں کے لئے آئے لیکن میں چپ رہا کیونکہ میں یہودی نہیں تھا ۔ پھر وہ میرے لئے آئے اور تب تک کوئی نہیں بچا تھا جو میرے لئے آواز اٹھا سکے ۔
 
qasimsyed2008@gmail.com


0 comments: