اسلام کا مقصدِجنگ ۔ نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی

6:51 PM nehal sagheer 0 Comments

 پروفیسر محسن عثمانی ندوی 
                           
       
    ہمیشہ ایسا ہوتا آیا ہے کہ جب بھی کوئی روشنی نمودار ہوتی ہے، تاریکی اس کو نگلنے کی کوشش کرتی ہے، جب بھی بہار کا موسم آتا ہے، اور کلیاں کھلتی ہیں اور پھول مہکتے ہیں تو خزاں کا بہار پر حملہ ہوتا ہے، جب بھی دنیا کے کسی گوشہ میں حق کا آوازہ بلند ہوتا ہے تو باطل اس پر حملہ آور ہوتا ہے، نور وظلمت کی یہ کشمکش بہار اور خزاں کی آویزش حق اور باطل کا معرکہ دنیا کی تاریخ میں موجود رہا ہے، اسلام تاریخ انسانی کی سب سے بڑی روشنی اور سچائی ہے، لیکن اسلام کو بھی باطل کے ساتھ کشمکش کا سامنہ کرنا پڑا ہے، کچھ لوگ اس نور حق کی حمایت کے لئے کھڑے ہوئے، اور انھوں نے ظلمت کی مخالفت میں امکان بھر حصہ لیا، اسی کوشش کا نام اسلام کی اصطلاح میں جہاد ہے، جہاد کا مقصد نہ تو ملک گیری ہے،اور نہ جہاں بانی کا حوصلہ دکھانا ہے ،نہ توسیع پسندانہ پالیسی اختیار کرنا ہے اور نہ نوک شمشیر سے ملکوں کے جغرافیے بدلنا ہے ،مقصد نہ مال غنیمت ہے نہ کشور کشائی ہے، بلکہ حق کی بلندی اور اس کی اشاعت کے لئے ہر قربانی اور ایثار کو گوارہ کرنا ہے، اور مخالفت کو توڑنا ہے، اور مخالفین کے حملوں کو روکنا ہے۔
    جن لوگوں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ کوئی بھی تحریک صرف اپنے حقانیت کے بل بوتے پر اور اصولوں کی پاکیزگی کی بنا پر کا میاب نہیں ہوتی ہے، بلکہ کامیابی کے پیچھے وہ جماعت ہوتی ہے ، جو حق کی حمایت کے لئے عیش وآرام اور جان ومال کو داؤ پر لگا دیتی ہے، یہی مجاہدانہ ذوق ہے جو حق کی تحریک کو کامیابی سے ہم کنار کرتا ہے، مسلمانوں نے مکہ میں سخت ترین مظالم کو برداشت کیا، پھر ایک وقت وہ آیا کہ انھیں ہجرت کرنا پڑی لیکن مدینہ پہونچ کرکے بھی تلواروں کے سائے میں انھیں زندگی بسر کرنی پڑی ،راتوںکو پہرہ دینا پڑا، اور انھیں اپنے مذہب اور اپنے سر زمین دونوں کا دفاع کرنا پڑا ، حقیقت یہ ہے کہ حق کی راہ کٹھن ہے، یہ پھولوں کی سیج نہیں ہے، اسی لئے انسان کو نرم وگرم دونوں قسم کی اخلاق کی حاجت ہوتی ہے، صبر اور ضبط ، عفو درگزر بڑی خوبصور ت اور قابل تعریف صفتیں ہیں، لیکن زندگی کے ہر نشیب وفراز میں کام نہیں دیتی ہیں، ایک انگریز مفکر نے بجا طور پر کہا ہے’’تحمل اپنی جگہ پر ایک اچھی چیز ہے لیکن تم اس کو تو برداشت نہیں کرسکتے جو تم کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، اور تمہاری گردن قلم کردینے کی کوشش میں لگا ہوا ہے‘‘۔نرم اخلاق ایک قابل تعریف اور مثبت صفت ہے، لیکن ہمیشہ زندگی کی باگ ڈور اس کے حوالے نہیں کی جا سکتی، انسان کو اور ہر جماعت کو اپنی تحریک کی کامیابی کے لئے نرمی کے بجائے سختی ، عدم تشدد کے بجائے تشدد کا طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے، دنیا کی تاریخ میں تلوار کو کبھی بالائے طاق نہیں رکھا گیا ہے، ہندو اوتاروں اور اسرائیلی سرداروں نے بھی اسے بے نیام کیا ہے، پیغمبروں کو بھی جنگیں لڑنی پڑی ہیں، یہ اس لئے کہ کبھی ایسی صورت حال پیش آتی ہے، کہ ہتھیار اٹھانا ایک اخلاقی ضرورت بن جاتا ہے، جب آزادی پر ہر طرف سے حملے ہونے لگیں ، جب عبادت گاہیں خطرے میں پڑ جائیں، جب آبرو اور جان ومال کی کوئی قیمت باقی نہ رہ جائے تو محض تماشائی بن کر کے بیٹھا نہیں جا سکتا۔
    اسلام نے حق کی حمایت اور باطل کی شکست کے کئے جنگ کرنا جائز قرار دیا ہے، یہ جنگ سلطنت وحکومت کی ہوس پوری کرنے کے لئے نہیں کی جاتی تھی، اسلام نے دین کی جبری اشاعت کی بھی ممانعت کی تھی، اور صاف کہہ دیا تھا کہ ’’لا اکراہ فی الدین‘‘(البقرہ) یعنی دین کے معاملے میں کوئی زبر دستی نہیں ہے، دوسری جگہ قرآن میں ہے، انما علی رسولنا البلاغ المبین (المائدہ) یعنی ہمارے نبی پر یہی فرض ہے کہ وہ صاف صاف پیغام پہونچا دیں، لیکن ہوا یہ کہ پیغمبر ﷺ کو طرح طرح کی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا، پر امن تبلیغ کی بھی اجازت نہیں دی گئی، مدینہ ہجرت کرنے کے بعد بھی باطل کی قوتیں باربار آپ پر اور آپ کے ماننے والوں پر حملہ آور ہوئیں، ایسی صورت میں بھی اگر آپ مقابلہ نہ کرتے اور تلوار نہ اٹھاتے تو دنیا کے لئے ایسی مثال پیش کرتے جس پر عمل کرنا ممکن نہ ہوتا، اس لئے اسلام نے ایک بلند مقصد کے لئے آخری تدبیر کے طور پر تلوار اٹھانے کی اجازت دی۔ اور ایک بار جب معرکہ گرم ہوگیا اور جنگ کی آگ بھڑک اٹھی تو باطل طاقتوں نے مسلسل سازش اور لڑائی کا وطیرہ اختیار کیا، چنانچہ فوجوں کو روانہ کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہوا، اللہ تعالی نے مسلمان فوجوں کو فتح یاب کیا، اور دنیا کے بہت سارے ملک اسلام کے زیر نگیں آگئے، مسلمانوں نے جذبہ جہاد او ر شوق شہادت کے ذریعہ دنیا کے بہت سے ملک فتح کئے ، ان فتوحات کی داستان اسلامی تاریخ کے حیرت انگیز واقعات ہیں۔اس بات کی ضرورت ہے کہ فاتحین ا سلام کے ایمان پرور اور جوش وحمیت سے لبریز واقعات کو مسلمانوں کی نئی نسل کے سامنے پیش کیا جائے ۔
    جہاد اسلام میں ایک فریضہ ہے ، جہاد میں سب سے زیادہ ضروری چیز ڈسیپلین ہے، انسان اگر غور کرے تو محسوس کر لے گا کہ اسلامی عبادات میں یہ ڈسپلین پورے طور پر ہے، نماز میں ڈسپلن اور فوجی تربیت کی شان موجود ہے، وقت کی پابندی فرض شناسی چستی اور محنت، صفوں کی ترتیب اور درستی اور ایک امام کی اطاعت یہ وہ ساری باتیں ہیں جن میں فوجی ڈسپلین موجود ہے، اور پھر جس طرح سے فوجی کیمپ لگتے ہیں اسی طرح سے جمعہ، عید اور حج کے موقع پر مسلمان ڈسپلین اور نظم وضبط کے ساتھ جمع ہوتے ہیں، اور جس طرح سے ایک فوجی تکلیف برداشت کرنے کی مشق کرتا ہے اسی طرح سے روزے میں بھی ایک مسلمان بھوک پیاس کی مشق کرتا ہے، گویا ایک مسلمان کی زندگی شروع سے آخر تک جہاد کی تربیت ہے، جہاد کا مقصد کسی سرزمین پر مخالفتوں کا زور توڑ کرکے دلوں پراللہ کی حکومت قائم کرنا ہے، اور دنیا سے ظلم اور زیادتی کو مٹا نا ہے، اور عدل وانصاف کو پھیلانا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اور صحابہ کرام نے تاریخ میں ایسے نمونے چھوڑے ہیں جن پر اگر دنیا عمل کرے تو ہمیشہ امن وامان قائم رہے، جہاد بمعنی قتال اگر چہ جنگ ہے لیکن اس کا مقصد خونریزی کا انسداد اور امن وامان کا قیام اور دین کے قبول کرنے کے معاملہ میں جبر کو ختم کرنا ہے ، آنحضرت ﷺ کی تربیت سے ایسے بہادر ، دلیر، جانباز سپہ سالار پید ا ہوئے جن کے کارنامے دنیا کی تاریخ میں مشعل ہدایت کا کام دیتے ہیں، یہ مجاہدین یہ فاتحین یہ سپہ سالار تلوار کے دھنی تھے اور راہ خدا میں جان کے زیاں کوکچھ ایسا زیاں نہیں سمجھتے تھے، لیکن یہ تلوار کے دھنی کوئی ظالم وجابر فاتح نہ تھے، بلکہ انسانیت کے خادم تھے، اور بندگان خدا کے لئے خیر خواہ اور ہمدرد تھے، ان کے ہاتھوں سے ضرور کچھ لوگ مارے گئے لیکن اس کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کے لوگ امن وامان کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں، زمین جور وستم سے پاک ہواور اپنی مرضی سے جودین اسلام قبول کرے اس پر ظلم نہ ہو ۔ اسلام نے جنگ کی اجازت ضرورت دی ہے لیکن صرف ان لوگوں سے جو مسلمانوں سے برسر جنگ ہوںیا آمادہ جنگ ہوں یعنی ارادہ جنگ رکھتے ہوںاور اشاعت دین میں مزاحم ہوںاور دین اسلام قبول کرنے والوں پراور اپنی رعایا پر ہر ظلم روا رکھتے ہوں حالت جنگ میں بھی کوئ صلح کی پیشکش کرے تو اسے قبول کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور حالت جنگ  کے بھی اسلام نے وہ اخلاقی قوانین طے کردئے ہیںجو اس وقت پوری دنیا میں کہیں نہیں پائے جاتے تھے اور اب بین الاقوامی قانون جنگ میں اس کا عکس پایا جاتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں ہوتا ہے ۔ حضرت ابو بکر نے حضرت یزید بن ابی سفیان کو شام کے علاقہ کی ایک مہم پر روانہ فرمایاتو یہ نصیحتیں کیں: کچھ لوگ اپنی عبادتوں میںمشغول ہوں گے ان سے تعرض نہ کرنا ، عورتوں کو ، بچوں کو اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا،کسی پھل دار درخت کو نہیںکاٹنا ،کسی آبادی کو نقصان نہیںپہونچانا( صرف فوج سے لڑنا)اگر تمہاری فوج کو غذا کی کمی نہ پیش آجائے اور مجبوری نہ ہوتو کسی کی بکری اور اونٹ کو ذبح نہ کرنا،کسی باغ کوآگ نہ لگانا ، کسی حال میں بدعہدی نہ کرنا  اور کسی لاش کا مثلہ نہ کرنا۔
     مسلمان فاتحین نے مفتوح ملکوں میںسب کو مذہبی آزادی دی، غیر مسلموں ے ساتھ بہیمانہ سلوک نہیں کیا، مسلمانوں نے اگر ایسا کیا ہوتا جیسا عیسائیوں نے اندلس میں کیا تو مفتوح ملکوں میں کوئی غیر مسلم نظر نہیں آتا ، بہت سے مفتوح ملکوں میں آج بھی اکثریت غیر مسلموں کی ہے ، جیسے ہندوستان میں ،یہ اسلام اور مسلمانوںکی رواداری کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔ مسلمانوں کا میدان جنگ میں قدم رکھنا شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا تھا اور اپنی جان ومال اوراپنے گھر اور عیش وآرام کواللہ کی راہ میں قربان کرنا تھا اوریہ صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے تھا،اسلام کے خلاف جبر وقہر کو ختم کرنے کے لئے تھا، جب وہ میدان جہاد کے لئے نکلتے  تھے تو زبان حال سے کہتے تھے
                           جلا کے مشعل جاں ہم جنوں صفات چلے
                            جو گھر کو آگ لگائے ہمارے ساتھ چلے

0 comments: