کیش لیس ہندوستان دیوانے کا خواب

10:03 PM nehal sagheer 0 Comments

نہال صغیر


ہم نے بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک بندر کسی کو داڑھی بناتے ہوئے دیکھتا ہے ۔جب وہ شخص کسی کام سے وہاں سے ہٹ جاتا ہے تو بندر استرا اٹھا کر اس کی نقل اتارنا شروع کرتاہے ۔ یعنی اس نے اپنی داڑھی بنا نا شروع کی اور نتیجہ ہوا کہ وہ لہو لہان ہوگیا ۔کچھ ایسی حالت فی الحال ہماری بھی ہے کہ ہم نے امریکہ و یوروپ کی نقل اتارنے میں اپنے عوام کو لہولہان کردیا ہے۔کہتے ہیں کہ ہمارے نئے وزیر اعظم بھی امریکہ اور یوروپ کی طرح ہندوستان کو کیش لیس یعنی بغیر نقد رقم کے روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے والا ملک بنانا چاہتے ہیں ۔ ارادہ برا نہیں ہے ۔ لیکن ایسا کرنے سے پہلے ہمیں اپنے آپ کو ضرور دیکھنا چاہئے کہ کیا ہم اس کے لئے تیار ہیں کہ ہم یہ کرسکتے ہیں یاہم اچانک علا ء الدین کے چراغ والے جن سے کہیں گے کہ بھائی ہمیں کیش لیس ہندوستان چاہئے اور وہ کہے گا لیجئے حضور حاضر ہے آپ کی پسند کا کیش لیس ہندوستان ۔ ماہرین معاشیات ہندوستان کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ اب سے چالیس پچاس سال تک ایمانداری سے اس ضمن میں محنت کریں گے تب کہیں جاکر ہم اس قابل ہو پائیں گے کہ بغیر نقدی لین دین کے ضروریات زندگی کے سامان مہیا کرسکیں ۔ ابھی ہماری حالت یہ ہے کہ لاکھوں گاؤں اندھیرے میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔چند میٹرو شہروں کو چھوڑ کر بقیہ کے بھی حالات کوئی اچھے نہیں ہیں ۔سڑکیں آج بھی خستہ حال ہیں ۔انٹر نیٹ کی حالت عراق جیسے جنگ زدہ ملک کے برابر ہے اور ابھی صرف بیس فیصد آبادی ہی اسے استعمال کرتی ہے ۔ ایسے میں کیش لیس سوسائٹی کی بات کرنا دیوانے کے خواب کے علاوہ اور کیا کہلائے گا ۔ اس کو اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ کسی عمارت کی بنیاد اور دیوار غائب ہے لیکن ہم اس پر چھت ڈالنے کی بات کررہے ہیں

0 comments: