Muslim Issues

مسئلہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا

8:54 PM nehal sagheer 0 Comments


نہال صغیر

بہت دنوں سے میڈیا کے اس طبقہ کو جواسلام، مسلمانوں اور مسلم لیڈروں کے خلاف معاندانہ رویہ رکھتا ہے کوئی ایسا معاملہ نہیں مل رہا تھا جس سے وہ نوٹ کی منسوخی سے منجھدار میں گھری مودی حکومت کے لئے راحت کا سامان مہیا کراسکے ۔ واضح ہو کہ ایسے میڈیا ہائوس اور صحافیوں کی تعداد نوے فیصد سے بھی زائد ہے۔چنانچہ بیرسٹر اسد الدین اویسی نے حیدر آباد میں 12 ؍ربیع الاول کی مناسبت سے منعقد ایک جلسہ کو خطاب کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ نوٹ کی منسوخی کے بعد مسلمان سب سے زیادہ پریشان ہیں ۔مسلم علاقوں میں اے ٹی ایم خالی پڑے ہیں اس میں روپئے نہیں ڈالے جارہے ہیں ۔بس پھر کیا تھا ۔ایک ماہ سے بھی زیادہ دنوں کے بعد انہیں راحت کے چند لمحے میسر آگئے ۔انہوں نے کرنسی کرائسس کو مسلمانوں سے جوڑنے کے لئے اسدا لدین اویسی کے خلاف ایک مہم جیسی چلا دی ۔کئی چینلوں پر اسی خبر پر تبصرہ شروع ہو گیا بریکنگ نیوز اور مباحثہ شروع ہو گیا ۔ہر ایک کی کوشش یہ ہے کہ کسی بھی طرح سے اسدالدین کو گھیر کر کٹہرے میں کھڑا کیاجائے ۔لیکن مختار عباس نقوی کا بیان اس بات پر دال ہے کہ اسد الدین کے اس بیان سے جہاں بی جے پی نواز میڈیا اور صحافیوں نے اپنی چاپلوسانہ ذہنیت کا ثبوت دیتے ہوئے تنقید کرنا شروع کردیا ہے وہیں پارٹی کے لیڈر اس کوشش میں ہیں کہ اسدالدین اویسی کے بیان سے پارٹی کسی نئے تنازعے میں نہ پھنس جائے ۔اس لئے جہاں انہوں نے یہ کہا کہ اسد الدین نوٹ کی منسوخی کو فرقہ وارانہ رنگ دے رہے ہیں، وہیں مختار عباس نقوی نے کہا پارلیمنٹ کا سیشن ختم ہونے کے بعد ماہرین کی ٹیم مسلم اقلیتی علاقوں میں کیمپ لگا کر انہیں ٹریننگ دے گی تاکہ مسلم بھائیوں کو کو ئی پریشانی نہ ہو ۔چونکہ مختار عباس نقوی نے اویسی سے گذارش کی ہے کہ وہ ایسے علاقوں کی نشاندہی کریں جہاں کیش نہیں پہنچتا ہے ۔یقینا اویسی تو انہیں بتائیں گے ہی لیکن ہم اس کالم میں انہیں بتارہے ہیں کہ ممبئی کے مضافات میں مسلمانوں کی کثیر آبادی والی بستی ممبرا میں یہی پوزیشن ہے جس کی جانب اویسی نے اشارہ کیا ہے ۔صرف ممبرا ہی نہیں مالیگائوں اور بھیونڈی سے بھی ایسی ہی خبریں ہیں ۔خود ممبئی کے مسلم علاقوں میں اکثر اے ٹی ایم مشین خالی ہیں ۔ضرورت مند غیر مسلم علاقوں میں اے ٹی ایم کی تلاش کرکے وہاں سے رقم نکالتے ہیں ۔یہ وہ سچائی ہے جس سے مختار عباس نقوی کیا ان کی پارٹی کے بڑے بڑے لیڈر بھی واقف ہیں ۔اس لئے اب انہیں مدافعانہ رویہ اپنانا پڑ رہا ہے ۔ویسے بھی ڈیمونیٹائزیشن مودی حکومت کے گلے کی ہڈی بن چکا ہے ۔حکومت و انتظامیہ کا مسلمانون کے تئیں متعصبانہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ۔اسدالدین نے آج یہ بات کہی ہیں لیکن مسلم عوام اس کو پہلے دن سے محسوس کررہے ہیں ۔مسلم دشمنی میں کانگریس بھی کم نہیں ہے فرق صرف اتنا ہے کہ کانگریس نے مسلمانوں کے خلاف دھیرے دھیرے برسوں میں کام کیا ہے ۔بی جے پی اسی کام کو بڑی سرعت کے ساتھ بے ڈھنگے پن سے انجام دینا چاہتی ہے۔
بی جے پی کے لئے بھلائی اسی میں ہے کہ وہ سیدھے طور پر عوام کو ہو رہی مشکلات کیلئے ان سے معافی مانگیں کہ انہوں نے بغیر ہوم ورک کے اتنا بڑا فیصلہ کرلیا اور اب حالات یہ ہیں کہ پچاس سے ساٹھ فیصد گھریلو صنعتیں بند پڑی ہیں ۔لاکھوں مزدور بے روز گار ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں ۔اس لئے کسی بیان میں اپنے لئے کسی راحت کا سامان ڈھونڈنے کے بجائے عوام کے لئے سہولت کی راہ نکالیں ۔عوام کو مشکلات میں پھنسا کر بی جے پی کے وزیر خارجہ نے پھر پاکستان کا راگ الاپا کہ پاکستان ملک کو مذہبی بنیاد پر توڑنے کی سازش کررہا ہے ۔اس کے جواب میں راہل گاندھی نے ٹھیک ہی کہا کہ ’’ہاں پاکستان ایسا ہی کررہا ہے لیکن کیا آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے باس بھی یہی کررہے ہیں ‘‘۔اب اس کو حزب اقتدار واقعی میں فرقہ وارانہ صورتحال کی جانب موڑنا چاہتی ہے تاکہ لوگوں کا ذہن کرنسی بین کی پریشانیوں سے منتشر ہو جائے ۔لیکن بی جے پی کے لئے اب راہیں اتنی آسان نہیں ہیں ۔اس لئے وہ دفاعی پوزیشن میں آکر اسدالدین سے ایسے اے ٹی ایم مشین کا پتہ پوچھ رہے ہیں جہاں رقم نہیں پہنچ رہی ہے ۔کتنے بے خبر لوگ ہیں ۔انہیں پتہ نہیں کے ان کے غیر دانشمندانہ فیصلے سے کون کون اور کتنا پریشان اور ہراساں ہے ۔اس بے خبری کے بعد بھی کیا حکومت میں باقی رہنے کا کیا جواز بچتا ہے ۔

0 comments: