’خواہ مخواہ‘ کی باتیں

6:01 PM nehal sagheer 0 Comments


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472

قحط الرجال کا شکوہ عام ہے اور یہ شکوہ تقریباً ہر گزرنے والے دور میں اپنی منفرد معنویت کے ساتھ نہ صرف موجود ہی رہا ہے بلکہ ہر آنے والے دور میں اپنی دائمی ضرورت کو منتقل بھی کرتا رہا ہے۔ لہٰذا شکوہ کی اہمیت اور اس کی معنویت کو آپ یوں ہی نظر انداز نہیں کرسکتے کیونکہ یہ انسانی فطرت اور اس کی جبلت کا ایک لازمی جزو ہے۔ غور کیجیے، کیا آپ کے قول و عمل میں شکوہ کی عمل داری کی اجارہ داری نہیں ہے؟ اور اگر آپ شکوہ شکایت سے گریز بھی کرتے ہیں تو آپ کے بھائی بند آپ کو بخشنے والے نہیں، تو ایسے میں قحط الرحجال کا معنیٰ کیا بے معنیٰ نہیں ہوجاتا؟
پڑوس میں میرے ایک عزیز ساتھی سیّد نیاز احمد راجہ قیام پذیر ہیں۔ بڑ ے ہی وضعدار، ملنسار اور متواضع شخصیت ہیں۔ ہر ہفتہ اپنے دسترخوان پر دوستوں کو مدعو کرتے ہیں جس میں کچھ بن بلائے مہمان بھی شامل رہتے ہیں جو بعض وقت ناگواری کا سبب بھی بن جاتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو بے وقت پہنچ کر ان کے صبر و تحمل کا امتحان بھی لینے لگتے ہیں۔ انہی میں ایک صاحب ایسے بھی ہیں جنہیں راجہ صاحب نے ’بے وقت‘ نام دے کر حلقہ احباب میں ایک نئی شناخت دے دی ہے۔ ’بے وقت‘ کا نام آتے ہی لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ وہ کون بزرگ ہیں۔
بے وقت صاحب کی بے وقت آمد سے کئی دیگر گھر بھی متاثر تھے۔ اکثر تو موصوف کا نام سنتے ہی دروازہ بند کرلیتے تھے۔ مگر مجال نہیں کہ وہ بہ آسانی ٹل جائیں۔ دروازہ اس طرح پیٹتے جیسے کبھی رمضان میں سحری کے وقت رمضانی فرشتے اپنا فرض ادا کرتے تھے، اس طرح سارے محلے کے لوگ موصوف کی ہٹ دھرمی اور توسیع پسندی سے عاجز آگئے تھے۔ بے وقت صاحب انتہائی ذہین و فطین تھے، کسی بھی شخص کو زیر کرلینا اتنا ہی آسان تھا جتنا کہ ہماری خفیہ ایجنسیوں کو معصوم مسلم نوجوانوں کو دھر پکڑنے میں ملکہ حاصل ہے۔ کہتے ہیں کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ ایک دن راقم کو بھی بے وقت کی چھری تلے آنا ہی پڑگیا لیکن یہ قربانی بڑی سودمند رہی۔
چند ماہ گزرے تھے کہ راقم کے دروازے پر بھی ’بے وقت‘ کی دستک ہوئی۔ دروازہ کھلا، علیک سلیک ہوئی۔ عرض کیا، کیسے تکلیف فرمائی؟ فرمایا، ارے میاں پہلے بیٹھنے کی اجازت تو دو۔ اور بے وقت صاحب صوفے پر بلاتکلف دراز ہوگئے۔ مرتا کیا نہ کرتا کے مطابق چائے پانی کی رسم ادا کی او ربے وقت صاحب سے اپنی مصروفیت ظاہر کرکے ان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہا مگر ناکام رہا۔ موصوف گیسوئے دراز کی طرح دراز ہی ہوتے چلے گئے۔ ملکی اور غیر ملکی حالات پر اس طرح تبصرہ کرنے لگے جیسے ٹی وی اینکر پہلو بدل بدل کر خبروں کے بخیے ادھیڑتے ہیں۔ ان کی بے پناہ معلومات اور طاقت لسانی سے راقم بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور سوچنے لگا کہ موصوف کا نام نامی کیوں نہ بدل دیا جائے اور ’بے وقت‘ کے بجائے ’خواہ مخواہ‘ کے نام سے یاد کیا جائے کیونکہ ہر معاملے میں ان کا خواہ مخواہ کا دخل رہتا ہی ہے اس لیے اس سے بہتر اور کوئی نام نہیں ہوسکتا۔
مدت کے گھر دیکھ لینے کے مصداق خواہ مخواہ صاحب نے بھی میرا گھر دیکھ لیا اور جب چاہتے خواہ مخواہ وارد ہوجاتے۔ بس اتنی رعایت فرماتے کہ جب میں کچھ لکھتا پڑھتا رہتا تو کچھ دیر خاموش رہتے، پھر اس طرح گویا ہوتے کہ بڑے بڑوں کی گویائی گم ہوجاتی۔
ایک روز اچانک ہی ’خواہ مخواہ‘ آدھمکے۔ کہنے لگے ’’میاں! تم تو کہتے تھے کہ ہمارے یہاں قیادت کا بحران ہے اور صرف کہتے ہی نہیں بلکہ لکھتے بھی رہتے ہو۔‘‘
خواہ مخواہ صاحب نے مجھے خونخوار نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
تو ہم نے بھی اپنے دیدے نچاکر پوچھا۔ ’’ہاں تو کیا غلط کہتے تھے؟‘‘
کہنے لگے۔۔۔
’’ارے میاں! ہم نے تو ایک چینی کہاوت پر عمل کرتے ہوئے یہاں جو بھی پتھر اُلٹایا، اس کے نیچے سے کلبلاتا ہوا ایک قائد نکل آیا۔ جس کے نکل بھاگتے ہی اس کے بلبلاتے ہوئے نابینا مقلدین نے فی الفور حلق پھاڑ کر یہ نعرہ لگایا کہ ’جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے۔‘‘
اور پھر ہم نے خواہ مخواہ سے احتجاج کرتے ہوئے پوچھا۔
’’نابینا کیوں؟‘‘
فرمایا کہ ’’اگر دانا و بینا ہوتے تو کم از کم دیکھ سن لیتے کہ یہ جسے قائد قرار دے رہے ہیں وہ ہیؤں میں ہے؟ شیئوں میں ہے؟ یا نہ ہیؤں میں ہے یا نہ شیئوں میں؟ ‘‘
اب ہمیں بھی جلال آگیا اور دانت نکال کر پوچھا۔
’’کیوں؟ آپ نے کسی ٹی وی چینل پر ان کی کوئی ’پروفارمینس‘ د یکھ لی ہے؟‘‘
ہمارے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے فرمایا۔
’’ہم نے تمہارے یہاں یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ سیاست میں نئے چہروں کی ضرورت ہے۔ پہلے سیاست مجھ میں نہیں آئی تھی مگر جب ہم نے تمہارے ٹی وی پر تمہارے قائدین کو بچشمۂ خود دیکھا تو اس بات میں وزن محسوس ہوا۔ اچھا بتائو تمہارے یہاں پڑھے لکھے نوجوانوں سے کیا کام لیا جاتا ہے؟ یہ خواہ مخواہ کی بات ہے کون نہیں جانتا کہ پڑھے لکھے، بے پڑھے لکھے سبھی اپنے پیسوں کے لیے بینکوں اور اے ٹی ایم کی لائنوں میں لگ کر اپنی شب و روز گزارتے ہیں اسی لیے تو رین بسیروں کے بستر بھی اس ٹھٹھراتی سردی میں خالی پڑے رہتے ہیں۔ خواہ مخواہ صاحب اپنی نظروں کو چیک کروائیں، کافی کمزور ہوگئی ہیں۔ ابھی تو نوٹ بندی ہے آگے دیکھیے کن کن کی نس بندی ہوتی ہے۔ ہاں یاد آیا، اچھا تو یہ بھی بتاسکو تو بتائو، ٹی وی کے دور میں تمہارے فلمی اداکاروں کا کیا حال ہے؟ اب ان سے کیا کام لیا جاتا ہے؟‘‘
’’کیا آپ کو معلوم نہیں۔ سیاست ہمارے یہاں اداکاری کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ فلمی اداکار تو بہرحال اداکار ہیں سب کے سب کھپ گئے اور جو بچ گئے تھے وہ ملک کی بڑی کمپنیوں کے پروڈکٹ بیچنے لگے۔ شہرت کی ضرورت تو اس دور کی سب سے اہم ضرورت ہے جس کے لیے کوئی بھی کہیں تک جاسکتا ہے، ترقی کا یہ وہ زینہ ہے جس پر ہر شخص قدم رکھنا چاہتا ہے۔‘‘
’’ترقی کا کیا مطلب؟ کیا تمہارے خیال میں تشہیری پیشے، اداکاری اور سیاست کاری سب جدا جدا پیشے ہیں؟ میاں پیشہ ہمیشہ ایک ہی رہا ہے۔ صرف اسٹیج بدلتا رہتا ہے۔ مقصد سب کا ہم سب کا مال ہڑپ کر اپنا مال بنانا ہے چاہے وہ گلی کوچے میں چائے بیچنے والا ہی ہو، سب کا یہی اور بس یہی مقصد ہے، پیسہ کمانا اور اپنی نجی زندگی کو بلند سے بلند کرنا ہے۔‘‘
خواہ محواہ صاحب کی لن ترنی سے میں محظوظ ہو ہی رہا تھا کہ ایک صاحب نے دروازے پر دستک دے دی اور گفتگو یکایک تھم گئی۔ جب تک غیر متوقع مہمان موجود رہے خواہ مخواہ صاحب اپنا پہلو بدل بدل کر مہمان ذی وقار کو کوستے رہے۔ جونہی مہمان رخصت ہوئے خواہ مخواہ صاحب ایک لمبی سانس لے کر گویا ہوئے۔ ’’میاں تمہارے مہمان نے خواہ مخواہ دخل دے کر ہماری گفتگو کو بے مزہ کردیا۔‘‘
’’میں تمہارے یہاں اس لیے کبھی کبھی آتا ہوں۔‘‘ خواہ مخواہ صاحب نے پھر اپنی لن ترانی شروع کی۔
میں خاموش رہا۔
وقفہ صفر سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پھر گویا ہوئے۔
کہنے لگے ’’تم سے تو بدرجہا بہتر راجہ صاحب ہیں جو کھانا بھی کھلاتے ہیں اور چائے سے بھی نوازتے ہیں اور تم صرف چائے پر ہی ٹرخا دیتے ہو۔‘‘
خواہ مخواہ کی اس بات پر جب میں نے اعتراض کیا تو گفتگو کا رخ بدل دیا۔
فرمانے لگے۔ ’’اچھا تم یہ بتائو تم میں سے کوئی سیدنا عمرؓ کے سامعین کی طرح آج کے حکمرانوں سے کوئی سوال کرسکتا ہے؟ سوال حکمرانوں سے کرنا تو دور، اپنے پڑوس کے پیرجی سے کوئی یہ نہیں پوچھ سکتا کہ پیرمغاں کے مزار پر جو چادر چڑھائی تھی وہ کہاں سے آئی تھی، کس قیمت کی تھی اور اس میں کتنی کمائی ہوئی۔ او رنہ ہی یہ پوچھنے کی کوئی جرأت کرسکتا ہے کہ پچھلے دنوں جو صوفی کانفرنس منعقد ہوئی تھی اس پر کروڑوں روپے کس نے خرچ کیے اور کیوں کیے تھے۔ بھلا بتائو پیروں فقیروں کے جلسے جلوسوں پر جب کروڑوں روپے خرچ ہوں گے تو ہمارے حکمراں کیوں پیچھے رہیں۔ وہ بھی الیکشن جیتنے کے لیے اپنی ریلیوں پر کھربوں روپے ٹھکانے لگائیں گے اور کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا۔ کیونکہ ان کا تو موروثی حق بنتا ہے عوام کو لوٹنا اور انہیں بے زبان بنائے رکھنا۔‘‘
ہم نے ایک بار پھر احتجاج کیا۔
’’دیکھئے آپ ہمارے رہنمائوں اور بزرگوں کی بے توقیری کر رہے ہیں۔‘‘ ایک خاص انداز سے دانت نکال کر مسکراتے ہوئے پوچھا۔
آنکھیں پھیرتے ہوئے مخاطب ہوئے۔ ’’آخر تمہارے یہاں معیار توقیری کیا ہے؟ جو لچا، لفنگا، لمبی لمبی بلٹ پروف گاڑیوں میں بیٹھ کر، کلف لگے ہوئے کپڑوں میں ملبوس ہوکر چار پانچ بندوق برداروں کو بغل میں دباکر جو اِدھر اُدھر گھومے وہی تمہارے یہاں صاحبِ توقیر ٹھہرا؟ ایسے ہی کو تم نے اپنا قائد مانا، ایسے ہی کو لیڈر سمجھا اور ایسے ہی کو اپنا رہنما مانا۔ پھر اسی کو ووٹ دے کر سر پر مسلط بھی کرلیا۔ اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں پہنچاکر اپنی قسمت ان کے ہاتھوں میں تھمادی ۔ پھر انہیں کو حکمرانی کے مناصب بھی دے دیے تو اب رو نا کس بات کا؟
کون سا رونا؟
یہی کہ سیاست داں خود غرض ہیں، کرپٹ ہیں، حکمراں نا اہل ہیں، قوم اچھی ہے مگر قیادت کا بحران ہے۔‘‘
’’واہ خواہ مخواہ صاحب کتنی اچھی بات آپ نے کہی۔ لوگ خواہ مخواہ کہتے ہیں کہ قحط الرجال ہے۔ ظاہر ہے جب قوم ہی اندھی اور بہری ہوگی تو آئین ساز اداروں میں ایسے ہی خود غرض اور نا اہل ہی تو پہنچیں گے۔ تو قصور کس کا ہے؟ یہی ہمیشہ تم روتے ہو کہ قیادت کا بحران ہے، قیادت کا بحران ہے۔
پھر کون سا رونا؟‘‘
’’یہی کہ ارباب حل و عقد نااہل اور غدار قوم ہیں۔‘‘
’’کیسے کہہ دیں کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں۔ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ کیا اس رسوائی پر عوام رونا بھی نہ روئیں۔ کون کتنا روتا ہے یہ بھی دیکھنا ہوگا۔‘‘
’’میاں رونے دھونے سے کچھ نہیں ہوتا۔ میاں اصلاح کرو اصلاح۔‘‘
’’اصلاح کرتے کرتے ہی تو رو رہے ہیں۔‘‘
’’ارے میاں میں سیاست دانوں کی اصلاح کے لیے نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ تمہیں کہہ رہا ہوں تم سدھروگے تو سیاست داں، حکمراں بھی سدھریں گے۔ اسی صورت میں قومی بحران اور قیادت کے بحران سے بھی تمہیں نجات مل جائے گی اور قحط الرجال کا شکوہ بھی ایک حد تک ختم ہوجائے گا۔‘‘
’’واہ خواہ مخواہ صاحب۔ آپ تو معلومات کا پٹارا ثابت ہوئے۔‘‘ اور خواہ محواہ صاحب نے ایک کپ چائے پی اور یہ کہتے ہوئے رخصت ہوگئے کہ ’’تم نے چائے بڑی کڑک پلائی۔‘‘
او رمیں نے سر درد کی ایک گولی لی اور چادر اوڑھ کر سوگیا۔
٭٭٭

0 comments: