نسلوں کی تربیت اور کامیابی میں زبان اور تاریخ کا کردار

3:20 PM nehal sagheer 0 Comments

عمر فراہی

روسی مصنف حمزہ رسول کی کتاب " میرا داغستان" کے حوالے سے کسی نے بہت خوبصورت تبصرہ پیش کیا ہے کہ ایک بار حمزہ رسول ایک گاؤں سے گذر رہے تھے تو دیکھا کہ پہاڑی علاقوں میں رہنے والی دو قبائیلی عورتیں آپس میں جھگڑااور تکرار کر رہی ہیں - اسی تکرار کے دوران ایک عورت نے دوسری عورت کو بد دعا دیا کہ جا "اللہ تیرے بچوں کو اس انسان سے محروم کر دے جو انہیں ان کی زبان سکھانے والا ہے‘‘
اس کے بعد دوسری عورت کا بھی غصہ کافور ہو گیا اور پھر اس نے بھی وہی بد دعا دوسرے طریقے سے لوٹایا اور کہا کہ 
’’اللہ کرے تیرے یہاں ایک آدمی بھی ایسا نہ بچے جو تیرے بچوں کو ان کی زبان سکھا سکے‘‘ 
اپنی زبان اور تہذیب سے محبت اور اہمیت  کی یہ وہ علامت ہے جس کی جھلک غیرت مند اور خوددار قوموں کے آپسی جھگڑے اور تکرار میں بھی دکھائی دیتی ہے -ہو سکتا ہے اس واقعے کو ہم  پہاڑی اور قبائلی علاقوں کی قدیم زمانہ  تہذیب کہہ کر نظر انداز کر دیں مگر حقیقت یہ ہے کہ دوسری قوموں کی زبان اور تہذیب اختیار کر کے ایک قوم اصل قوم کی غلام یا اس کا مکمل حصہ  تو بن سکتی ہے لیکن اپنی ظاہری شناخت کے ساتھ اس ترقی یافتہ قوم  کا درجہ کبھی نہیں حاصل کر سکتی- لیکن خطہ ہند و پاک  میں بسنے والی مسلمان قوم تقریباً ایک صدی سے اسی مفروضے میں قید ہے کہ اس کی ترقی اور کامیابی مغربی تہذیب  اور ان کی زبان اختیار کرنے میں ہے-اس طرح اس خطے کے مسلمانوں کو یہ بھی احساس نہیں رہا کہ اس نے مغرب کی جس غیر فطری ترقی اور کامیابی کی دوڑ میں ان کی زبان و تہذیب کو اختیار کیا ہے اس کا اثر ان کی اپنی اولادوں کی سوچ اور فکر پر بھی ہوا ہے -نئی نسل یہ سوال اٹھا رہی ہے کہ جب اسے سب کچھ مغرب سے عطا ہو رہا ہے تو ہمیں مصر شام اور فلسطین کی تاریخ سے کیا مطلب اور اس بات کا تذکرہ کرنے سے کیا حاصل کہ اس خطے میں کبھی اس کی اپنی سیاسی, معاشی اور معاشرتی شناخت رہی ہے -مگر جنھیں یاد ہے  وہ اپنے اسلاف  کے اس ملی و قومی تہذیبی اثاثے کو اس امید کے ساتھ ایک بوجھ کی طرح ڈھو رہے ہیں کہ شاید اس راستے سے کوئی قافلہ گذرے اور کنویں میں دم توڑتے ہوےُ یوسف کو بادشاہ کے محل تک  پہنچا دے - مغرب کے لئے پھر بھی ان کی اپنی تہذیب اس لئے  بھی وقتی طورپر سودمند ہو سکتی ہے کیونکہ ان کی اپنی سوچ اور زبان میں یکسانیت اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے جبکہ خود مغرب کی اپنی مادہ پرستانہ تہذیب بھی دم توڑ رہی ہے -شاید وہ اپنا راستہ تلاش بھی کر لیں جیسا کہ تمام دہشت گردی کے منفی پروپگنڈے کے باوجود  مغرب میں اسلام تیزی کے ساتھ مقبول ہورہا ہے - مگر جس فکر اور سوچ کے ساتھ ہم نے ان کی زبان اور لباس کو اختیار کیا ہے اس میں ایک نقص ہے اور اسی نقص کی وجہ سے ہم ذہنی اور مادی طورپر ان کی غلامی کے اہل تو ہو سکتے ہیں ان کی قیادت کبھی نہیں کرسکتے-اگر ہم روئے  زمین پر کچھ ممالک کی ترقی اور کامیابی کا موازنہ کریں تو یہ دیکھتے ہیں کہ ہندوستان جیسا ملک جو کبھی عروج کی طرف گیا بھی تو وہ مسلمانوں کا دور تھا اور  مسلم حکمراں اپنی اسلامی تاریخ کے پابند رہے ہیں-جن قوموں کی اپنی تاریخ ہوتی ہے اور جو اپنی اس تاریخ کو یاد رکھتی ہیں ان کا اپنا نصب العین ہوتا ہےاور پھر یہی نصب العین ہی قوموں کے عروج کا سبب بنتا ہے -مگر اپنی زبان اور تہذیب کو بھلا دینے والے اپنی تاریخ اور نصب العین سے بھی محروم ہو جاتے ہیں-اب آذادی کے بعد ایک بار پھر ہندوستانی قومیں اپنے عروج سے زوال کی طرف مائل ہیں تو اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ مسلم اور انگریزی دور حکومت  کے بعد ہندوستان کے لوگوں کی کوئی خالص قومی اور تہذیبی شناخت نہیں رہی جو انہیں ان کے نصب العین کی طرف مائل کرے -شاید یہی وجہ ہے کہ اب یہاں ہر شخص اپنے ذاتی مفاد کو عزیز رکھتے ہوئے مغرب کے مادی فتنے کا غلام بن چکا ہے-آر ایس ایس نے آذادی کے بعد رام مندر کے نام پر ہندوؤں کو اپنی قدیم تاریخ یاد دلا کر ایک نصب العین دینے کی کوشس تو ضرور کی ہے لیکن جب اس خطے میں ایک اللہ کی عبادت کرنے والا مسلمان مغرب کے  مادی فتنے کی زد سے نہیں بچ سکا تو سیکڑوں خداؤں کی پوجا کرنے والوں کو تو حق ہے کہ وہ مغرب  کی ترقی کو لکشمی کا جدید اوتار تسلیم کرلیں - اس کے بر عکس امریکہ جو تقریباً پندرہویں صدی میں چند ملاحوں کی کھوج کی وجہ سے وجود میں آیا اور صرف تین سو سالوں میں تاریخ کے بلند مقام پر پہنچا تو اس کی ترقی بھی یورپ کی ان  مہاجر قوموں کی وجہ سے ہو سکی جو ایک قدیم تاریخ اور تہذیب کی پابند رہی ہیں اور انہوں نے برسہا برس سے پسماندہ مقامی سیاہ فام قوموں کی تقدیر بدل دی-اسی طرح اسراںُیل 1947 میں قائم ہوتا ہے جسے قاںُم کرنے میں برطانیہ نے اہم کردار اداکیا ہے -یہ بات بھی ساری دنیا کو پتہ ہے کہ یہودی دنیا کی ایک ذہین قوم ہے-انہیں یہ بھی پتہ تھا کہ دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہو رہی ہے اور اس گاؤں میں مغربی زبان و تہذیب کو ہی فوقیت حاصل ہونا ہے- وہ چاہتے تو عالمی طاقت برطانیہ اور امریکہ کو خوش کرنے کیلئے اسی طرح انگریزی کو  اسراںُیلی ریاست کی زبان قرار دے سکتے تھے جیسا کہ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں ہوا- اور ہندوستان میں ہندی  قومی زبان کا درجہ حاصل کرکے بھی انگریزی کی غلام ہی رہی  مگر اقبال کی جو بات جاوید اقبال نہیں سمجھ سکے کہ 
خودی نہ بیچ فقیری میں نام پیدا کر
میراطریق امیری نہیں فقیری ہے 
یہودیوں نے اپنی قومی اور تہذیبی خودداری کو برقرار رکھتے ہوئے  ایک نصب العین کے تحت اپنی دو ہزار سالہ قدیم زبان عبرانی کو ہی رائج کیا اور یورپ کے سر سبز شاداب علاقوں سے ہجرت کرکے فلسطین کے ریگستانوں سے محبت ظاہر کی تو اس لئے کہ ان کے عقیدے اور کتابوں کی پیشن گوئی  کے مطابق یہ ان کے نبی اور پرکھوں کی سر زمین ہے اور پھر آرماگیڈون کے ذریعے  دنیا پر غالب ہونے کا ان کا جو عزم اور عقیدہ ہے یہ اسی وقت پورا ہو سکتا ہے جب یہودی دوبارہ دنیا کے ہر خطے سے ہجرت کرکے فلسطین میں آباد ہوں -بات صرف امریکہ اور اسراںُیل کی نہیں بلکہ یہ ایک عالمی حقیقت ہے کہ دنیا کی ہر وہ قوم اور ملک جس کا کہ دوسری قوموں پر غلبہ رہا ہے جیسے کہ روم فارس یونان اور عرب کے بعد ایک بار پھر روس فرانس برطانیہ اور چین وغیرہ نے اپنے عروج کا مرحلہ طے کیا تو اس میں ان قوموں کی اپنی زبان اور تاریخ کا اہم کردار رہا ہے - حمزہ رسول کے اس اقتباس سے زبان کے ساتھ ایک سبق اور بھی ملتا ہے کہ قوموں کی ترقی میں نسلوں کی تربیت بھی بہت اہم ہوتی ہے اور اس تربیت میں بچے کی ماں اور اس کی سوچ کا جو کردار ہوتا ہے اس کا  اثر بھی پوری قوم پر پڑتا ہے -اقبال جو کہ شروع کے حالات میں مغرب سے بہت زیادہ مرعوب تھے جب انہوں نے مغرب کو بہت قریب سے دیکھا تو انہیں یہ احساس ہوا کہ  مغربی ماؤں نے اپنی جس زبان اور تہذیب کی وجہ سے مغرب کو عروج کا راستہ دکھایا تھا بعد کی نسلوں نے اپنی انہیں بیٹیوں کو جو کل اپنے بچے کی ماں بن سکتی تھیں انہیں بازار کی زینت بنانا شروع کر دیا ہے  اور پھر انہوں نے برجستہ کہا کہ 
تمہاری تہذیب خود اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی 
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار  ہوگا -
9/11 کے بعد اب یہ بات مغربی مفکرین نے بھی لکھنا اور سمجھنا شروع کر دیا ہے کہ Why the west is loosing war against terror
یعنی" مغرب دہشت گردی کے خلاف جنگ کیوں ہار رہا ہے"  دوسرے لفظوں میں مغربی ماؤں کی اپنی کوکھ کا غیر محفوظ رہنا بھی ان کے مستقبل کے خاندانی ورثہ کو  تباہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا - خاندان کی تباہی قوموں کی تباہی ہے قوموں کی تباہی تہذیبوں کی تباہی ہے -تہذیبیں تباہ ہوتی ہیں تو اس قوم کی تاریخ کبھی محفوظ نہیں رہتیں اور پھر ایسی قوموں کی جدوجہد کا نصب العین اس کے سوا اور کچھ نہیں رہ جاتا کہ وہ مادی ضروریات کی تکمیل کے لئے  زمین پر فساد برپا کرے -مغرب اس وقت اسی مادی اور تہذیبی بحران سے گذر رہا ہے اور مغربی ماؤں کے پاس اپنے بچوں کو بتانے کے لئے اس کا کوئی ٹھوس جواب نہیں ہے کہ عرب دنیا ان کی دشمن کیوں ہے اور ہم کیوں ان کی بستیوں کو تباہ کر رہے ہیں جبکہ عربوں کی نئی نسل کو سمجھانے کیلئے ان کی ماؤں کے پاس افغانستان سے لیکر ایران عراق لیبیا سومالیہ اور فلسطین جیسی سیکڑوں ظلم کی داستانیں ہیں - سچ تو یہ ہے کہ جب کسی قوم کی بیٹیاں بیدار ہوتی ہیں اور ان کی عصمتیں محفوظ ہوتی ہیں تو ایسی ماؤں کی کوکھ سے صلاح الدین ایوبی جیسے جانباز پیدا ہوتے ہیں -کہتے ہیں کہ صلاح الدین ایوبی کے والد نجم الدین ایوبی نے جب اپنی شادی میں تاخیر کی تو ان کے استاد نے کہا کہ اگر تم چاہو تو میں امیر سلطنت کی دختر سے تمہارے نکاح کی بات کروں -نجم الدین نے کہا وہ میرے لائق نہیں ہے -میں ایک ایسی لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں جس کی کوکھ سے ایک سپہ سالار پیدا ہو اور وہ بیت المقدس کو آذاد کرائے  -اسی دوران استاد کے گھر کی چوکھٹ پر کسی نے دستک دی وہ ایک نوجوان دوشیزہ تھی-اس نے کچھ کہا تو استاد نے جواب دیا کہ میں نے تمہارے لئے ایک رشتہ بھیجا تھا تم نے اسے کیوں ٹھکرا دیا- لڑکی نے کہا وہ میرے لائق نہیں تھا- مجھے تو ایک ایسا نوجوان چاہیے جس کی اولاد کو میں تربیت دوں اور بڑا ہوکر وہ بیت المقدس کو آذاد کرائے  - نجم الدین نے دروازے کی آڑ سے یہ بات سن لی -جب وہ لڑکی رخصت ہوگئی تو نجم الدین نے استاد سے کہا مجھے یہ لڑکی پسند ہے استاد نے کہا یہ بہت ہی غریب ہے نجم الدین نے کہا لیکن اس لڑکی میں میری بیوی ہونے کی ساری صفات موجود ہے- 2012 میں مصر اور شام کی بیٹیوں نے اپنے ہاتھوں میں  ہتھکڑیاں پہن کر دنیا کو بتا دیا ہے کہ ان کا نصب العین کیا ہے - حمزہ رسول نے اپنی اسی کتاب میں ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ پیرس کے سفر میں وہ ایک مصور نام کے اپنے ایک ہم وطن سے ملا جس کے بارے میں اس کے خاندان کو یقین تھا کہ وہ مر چکا ہے-واپسی پر جب اس نے مصور کے عزیزوں کو تلاش کیا اور مصور کی ماں سے ملا تو اسے  حیرت ہوئی کہ اس کا بیٹا زندہ ہے، مصور کے عزیز افسردہ چہروں کے ساتھ گاؤں کے ایک مکان میں اس کے اردگرد جمع اپنے اس سپوت کی کہانی سننے کے لئے جمع ہوئے  جس نے ہمیشہ کے لئے اپنا وطن چھوڑ دیا تھا ۔ مصور کے رشتہ داروں نے اس کے وطن عزیز چھوڑنے کا قصور تو معاف کر دیا تھا لیکن انہیں یہ جان کر مسرت ہوئی کہ ان کا کھویا ہوا بیٹا ابھی زندہ ہے۔ اچانک اس کی ماں نے حمزہ رسول سے سوال کیا کہ  ’’اس نے تم سے بات چیت تو اپنی زبان میں کی ہو گی نا‘‘  حمزہ رسول نے کہا نہیں۔ ہم نے ترجمان کے ذریعے بات چیت کی۔ میں روسی بول رہا تھا اور آپ کا بیٹا فرانسیسی زبان میں- ماں نے یہ سنتے ہی اسی طرح اپنے چہرے پر نقاب ڈال لیا جیسے کہ پہاڑی علاقوں میں مائیں اپنے بیٹے کی موت کی خبر سن کر اپنے چہروں کو ڈھک لیتی ہیں ۔ ایک طویل خاموشی کے بعد ماں نے کہا ’’ رسول تم سے غلطی ہوئی ہے میرے بیٹے کو مرے ہوئے ایک مدت بیت گئی جس سے تم ملے میرا بیٹا نہ رہا ہو گا کیونکہ میرا بیٹا اس زبان کو کبھی بھلا نہیں سکتا جو میں نے اسے سکھائی تھی"۔ذرا سوچئے  کہ ایک ماں کیلئے اپنے بیٹے کے  زندہ رہنے کی خبر خوشخبری کا باعث نہ بنی مگر جب اس نے یہ سنا کہ اس کے بیٹے نے اپنی مادری زبان کو ترک کر دیا ہے یہ خبر اس کے لئے حادثے کا سبب بن گئُی -سوال یہ ہے کہ اگر یہی واقعہ  ہندوپاک کے خطے میں مسلمان ماؤں کے ساتھ  پیش آجائے  تو کیا اس کا بھی ردعمل ایسا ہی ہوتا -شاید وہ خوش ہوکر اپنے رب کی بارگاہ میں دعا کرتی کہ اللہ تو بڑا مہربان اور کریم ہے کہ  تو نے میری دعا قبول کر لی اور میرا بیٹا امریکن انگلش بولنے لگا ہے-یہ حقیقت ہے اور یہی ہماری ماؤں اور بیٹیوں کی ترجیحات اور کامیابی کا تصور بن چکا ہے  جنھیں یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ کیا ہیں ,ان کا نصب العین کیا ہے اور انہیں اپنی اولادوں کو کیا بنانا ہے. ...!!!

0 comments: