تعلیم کا عمل ایک مستقل عمل ہے (۲)

2:58 PM nehal sagheer 0 Comments


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472
 
(گزشتہ سے پیوستہ)
مضمون کے پہلے حصے میں نام نہاد دینی مدارس اور سرکاری و پرائیویٹ ہندی و انگلش میڈیم اسکولوں کے بارے میں مختصراً اظہار خیال کیا گیا ہے۔ یہ تعلیمی ادارے اب تقریباً سبھی، ملک کی سب سے بڑی فاشسٹ تنظیم آرایس ایس کے زیراثر آچکے ہیں، جہاں عموماً راشٹریہ سیویم سیوک کے فکر و نظریات کی تبلیغ و تعلیم ہونے لگی ہے۔ خود آرایس ایس کے تعلیمی اداروں کا ملک بھر میں جال بچھا ہوا ہے، مختلف تنظیموں اور اداروں کے ناموں سے یہ ادارے کام کر رہے ہیں۔ ان اداروں میں جو خاص چیزیں پڑھائی اور سکھائی جاتی ہیں وہ ودیابھارتی کی سنسکرت، گیان ورک بک، سنسکار، جیسے کہ پرارتھنا، بندے ماترم، سوریہ نمسکار، والدین کے پاؤں چھونا وغیرہ سکھایا جاتا ہے۔ اب اگر ان اسکولوں میں مسلم بچے تعلیم حاصل کریں گے تو ظاہر ہے ان کا ایمان و عقیدہ جاتا رہے گا اور وہ نام کے تو مسلمان ہوں گے لیکن اپنی فکر و خیال میں آرایس ایس کے پیدا کردہ شردھالو ہی ہوں گے۔ 
سوچئے ذرا، جب ہمارے بچے ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کریں گے تو کیا چند ہی برسوں میں ان کے دل و دماغ میں توحید و شرک، پیغمبر و اوتار، عقیدہ و آخرت اور عقیدہ تناسخ کا فرق قائم رہ سکے گا؟ انہیں ہندو تہواروں، جینتیاں، دیوس اور ان کی تقریبات اور رسم و رواج کے بارے میں تو ضرور جانکاری ہوگی مگر اپنے مقدس دنوں اور پُرنور راتوں کا کوئی علم نہ ہوگا۔ انہیں برہما، وشنو، مہیش اور گنیش کی مہیما، کئی کئی دیومالی کہانیاں تو ازبر ہوں گی مگر صحابہ کرام کے مجاہدانہ کارناموں کا علم تو خیر کیا ہوگا ان کے ناموں تک کا بھی پتہ نہ ہوگا۔ بندے ماترم جیسے مشرکانہ گیت کے بول تو ان کے ذہن میں ہوں گے مگر کسی حمد و نعت کا ایک لفظ عرصہ تک کبھی ان کے لبوں پر نہ آیا ہوگا، آئے بھی تو کیسے، نہ گھروں میں ماحول، نہ بستی میں فضا، ملت کی ریڑھ کی ہڈی ابتدائی دینی تعلیم ہے۔ اپنا اسکول نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے بچے ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جہاں بیسک تعلیم میں پوجا سکھائی جاتی ہے، تو یہیں سے ہمارے عقیدے اور ایمان کی نسل کشی شروع ہوجاتی ہے۔ 
اب سوال یہ ہے کہ ہندوتوا اور مغربی تہذیبوں کی لعنت سے بچنے کے لیے کیا ہم اپنے بچوں کو پڑھانا ہی چھوڑ دیں؟ کیا انہیں جاہل ہی رہنے دیں؟ جبکہ جہالت تو خود ایک بڑی لعنت ہے۔ ضرورت ہے جہاں جہاں مسلمانوں کے دینی و عصری تعلیمی ادارے قائم ہیں انہی کی طرح اپنے علاقوں میں بھی دینی و عصری اداروں کا قیام عمل میں لے آئیں، جہاں کے نصاب میں ہر بچہ کے لیے قرآن و دینیات اور اردو لازمی سبجیکٹ ہو، تاکہ ان اسکولوں سے جب ہمارے بچے فارغ ہوکر نکلیں تو وہ آج کے زمانے کے جدید تقاضوں کے ساتھ دین کے تقاضوں کو بھی سمجھنے اور انہیں پورا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہوں۔ 
بچوں کے لیے دینی تعلیم کس قدر ضروری ہے اسے پروفیسر وصی احمد صدیقی کی زبان سے سنیے: 
’’بچوں کی دینی تعلیم تو ان کی زندگی کے لیے اور ان کی زندگی کی عمارت کے لیے ’خشتِ اول‘ ہوتی ہے۔ اس وقت مزاج بنتا ہے۔ پھر تو ساری عمر فکر معاش میں گزرتی ہے۔ نہ معلوم کتنے ایسے ہوتے ہیں جن کو بعد میں نہ عصری تعلیم ملتی ہے نہ دینی۔ بچپن میں جو سیکھ گئے سیکھ گئے، جو پاگئے پاگئے۔ ہمارے قدیم نظام تعلیم سے انسانیت کی خدمت، معاشرے کی اصلاح، شرافت، ایثار اور خدا سے تعلق میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جدید مغربی نظام تعلیم سے پیسے کی ہوس، فحاشی، عریانیت اور خود غرضی کا مادہ پیدا ہوتا ہے۔ ساری دنیا میں آج کل جو خوف ہے خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی، اس کی زیادہ تر ذمہ داری جدید مغربی نظام تعلیم پر ہے۔‘‘ (مقصود انور، کلکتہ کے مضمون اصلاح معاشرہ کا نقطۂ آغاز ’اقرا‘ سے ماخوذ) 
بے شک ہمارے دینی مدارس ہماری تاریخ کا روشن باب اور ہمارا نہایت قیمتی تہذیبی ورثہ ہیں، بلکہ انہوں نے اسلام کے ابدی پیغام کو زندہ رکھنے اور ملت کا باہمی، روحانی و فکری رابطہ و تعلق کو برقرار رکھنے میں بھی ایک کلیدی کردار انجام دیا ہے۔ آج عقیدہ و فکر اور تہذیب و اخلاق کے میدانوں میں جو کچھ اسلامی اثرات نظر آتے ہیں انہیں کی بدولت ہیں او راس حقیقت کا انکار کوئی مخالف بھی نہیں کرسکتا۔ 
کچھ پیچھے کی طرف لوٹ کر جائزہ لیجیے تو یہ صاف نظر آجائے گا۔ تقریباً چھ صدیوں سے اسلامی تہذیب و علم اپنے اثرات کا دائرہ سمیٹتے جارہے ہیں اور اگرچہ ابھی زمانہ قریب تک مسلمانوں کا سیاسی اقتدار اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود قائم رہا ہے لیکن ان کی تہذیبی اقدامیت بہت پہلے کند ہوچکی تھی، ایسے حالات میں یہ دینی مدارس ہی تھے جنہوں نے ملت کا رشتہ اپنے دین و علم اور اپنی تہذیب و ثقافت سے برقرار رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ 
آج ضرورت ہے ان دینی اداروں کو مستحکم اور فعال ہونے کی، کیوں کہ علم دین بہت بڑی نعمت ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کسی کسی کو سرفراز کرتا ہے۔ لیکن اس علم کی جتنی ناقدری خود علماء کے ہاتھوں ہو رہی ہے وہ بہت ہی افسوس ناک اور شرمناک ہے۔ کچھ قدیم اور مشہور دینی درس گاہیں تو پہلے سے قائم تھیں اور بہت سی نئی درس گاہیں کھل گئی ہیں۔ قدیم مشہور درس گاہوں میں پہلے قلیل تعداد میں طلبا کو نہایت محنت و عرق ریزی سے تعلیم و تربیت دی جاتی تھی جس کے نتیجے میں ان میں پاکیزہ کردار، ژرف نگاہی، کشادہ ذہنی اور گہرا علم و شعور پیدا ہوتا تھا اور وہ وہاں سے نکل کر پختہ کردار، غیرت مندی اور بالغ نظری کے ساتھ دین و علم دین کی روشنی پھیلاتے تھے۔ اب سارا دھیان کوالٹی کے بجائے کوانٹیٹی پر یعنی طلبا کی تعداد پر ہے۔ ہزارہا طلبا کی بھیڑ ہو یا قلیل تعداد، دونوں صورتوں میں مدرسہ کے حاضری رجسٹر میں ان کا وجود ہونا چاہیے۔ اس صورت میں نہ ان کی ڈھنگ سے تعلیم ہوتی ہے اور نہ ہی تربیت۔ پھر انہیں ناپختہ کاروں کو بڑی فیاضی سے ڈگریاں دے دی جاتی ہیں اور وہ جب میدان عمل میں قدم رکھتے ہیں تو بیشتر اپنی بے مائیگی، علمی بے بضاعتی، تنگ نظری، کج فہمی اور کردار کی ناپختگی کی وجہ سے علم دین کی روشنی پھیلانے کے بجائے نمونۂ عبرت بن جاتے ہیں۔ صحیح معنوں میں نہ انہیں دین کا علم ہوتا ہے نہ دنیا کا۔ اس لیے وہ کوئی مفید کام کر ہی نہیں سکتے۔ زیادہ سے زیادہ انہیں یہی نظر آتا ہے کہ کوئی نیا مدرسہ کھول لیں اور وقت کے تقاضوں اور کثیر اخراجات کی فراہمی کے لیے ہر جگہ دوڑ دھوپ کرلیں۔ (اس میں بہتیرے صرف رسید ہی سے کام لیتے ہیں مدرسہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا)۔ اس طرح وہ خود بھی اور علم دین کو بھی صاحب خیر کے آگے سرنگوں کرتے رہتے ہیں کیوں کہ ان کی خوشامد کے بغیر فنڈ کی فراہمی ممکن ہی نہیں۔ بہرحال اس تعلق سے ایک سبق آموز واقعہ پیش خدمت ہے کہ حضرت حسن بصری ؒ ایک مرتبہ کوفہ کے گورنر ابن ہبیرہ کے دروازے کے سامنے سے گزرے تو دیکھا کہ کچھ علماء دروازے پر موجود ہیں۔ آپ نے فرمایا: 
’’یہاں کس لیے بیٹھے ہو؟ خدا کی قسم تمہاری یہ مجلس نیکوکاروں کی مجلس نہیں ہے۔ یہاں سے منتشر ہوجاؤ، اللہ تعالیٰ تمہاری روحوں اور جسموں کو منتشر کرے، تم نے اپنے احساسات کو پامال کرلیا ہے، تم نے علماء کو رسوا کردیا ہے، خدا تمہیں رسوا کرے، خدا کی قسم اگر تم ان لوگوں کے مال و دولت سے بے نیازی اختیار کرتے تو انہیں تمہارے علم و دین میں کشش محسوس ہوتی، لیکن تمہیں تو ان کے مال و دولت میں کشش محسوس ہو رہی ہے، اس لیے انہیں تمہارے علم دین میں کوئی کشش محسوس نہیں ہوتی۔‘‘ 
مذکورہ بالا واقعہ یقیناًہم سب کے لیے باعث عبرت ہے کیوں کہ زکوٰۃ و خیرات و صدقات کی وصولیابی کی ذمہ داری صرف علماء و سفرائے مدارس کی ہی نہیں ہے، ملت کے اصحاب خیر کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دینی اداروں کی مدد کے لیے کوئی باعزت طریقہ اپنائیں او راپنا فریضہ سمجھ کر خود اپنے ذرائع سے انہیں مدد پہنچائیں۔ آخر زکوٰۃ و صدقات کی ادائیگی کے لیے کیا یہی ایک صورت ہے کہ مدرسوں کے سفرا، لائن لگاتے پھریں۔ خود ادا کرنے والوں کی کوئی ذمہ د اری نہیں بنتی؟ اہل خیر حضرات کے خود بڑھ کر اس امدادی کام میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے ہی آج سارے نام نہاد ادارے قائم ہوگئے ہیں، جس کے نتیجے میں ملت کی بہت بڑی رقم غلط جگہ پہنچ جاتی ہے اور مستحق ادارے وافراد محروم رہ جاتے ہیں۔ بہتر تو یہ تھا کہ علاقائی طور پر جس طرح قربانی کی کھالیں ایک اجتماعی نظم کے تحت جمع کی جاتی ہیں اور کسی مستحق ادارے تک پہنچادی جاتی ہیں، اسی طرح خیرات و زکوٰۃ کی رقوم کا بھی اہتمام ہوتا۔ (باقی آئندہ) 

0 comments: