تعلیم کا عمل ایک مستقل عمل ہے (۳)

3:10 PM nehal sagheer 0 Comments


جلال الدین اسلم، نئی دہلی
موبائل نمبر: 09868360472 

(گزشتہ سے پیوستہ)
مضمون کا بالائی حصہ عموماً ملک کے مختلف صوبوں خصوصاً مغربی اترپردیش اور بہار کے مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کے تعلق سے تھا۔ صوبہ بہار میں تو اردو اور دینی تعلیم کے ادارے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر قائم ہیں او رکسی حد تک کام بھی کر رہے ہیں، مگر اترپردیش کا مغربی حصہ اردو زبان سے بالکل ہی محروم ہے جب کہ یہاں دارالعلوم دیوبند جیسے کئی دینی ادارے موجود ہیں۔ مغربی اترپردیش کے بعض اضلاع کے دیہی علاقوں میں خاصے مسلمان آباد ہیں لیکن افسوس کہ ان علاقوں میں ابھی تک نہ صحیح طو رپر دین ہی پہنچا اور نہ ہی اردو زبان۔ اکثر علاقوں کے مسلمانوں میں دو دو نام پائے جاتے ہیں جو حسب حال استعمال ہوتے ہیں یعنی بقول علامہ اقبال کے ’با مسلماں اللہ اللہ۔ با بر ہمن رام رام۔‘ اس صورت حال کے ذمہ دار کون ہیں، آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں۔ 
مغربی اترپردیش سے متصل راجدھانی دہلی ہے، یہاں بھی کئی دینی و عصری تعلیمی ادارے موجود ہیں لیکن دہلی میں بڑھتی مسلمانوں کی آبادی خصوصاً نوآباد کالونیوں میں عصری تعلیمی اداروں کا فقدان ہے، جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں وہاں ہاں مساجد ہیں اور مساجد میں زیادہ ترناظرہ قرآن کی تعلیم ہوتی ہے۔ بہت سے علاقوں میں بڑی اور کشادہ مساجد بھی ہیں جہاں دینی و عصری تعلیمات کا اہتمام ہوسکتا ہے۔ ایسی جگہوں پر اگر ہماری دینی و ملّی جماعتیں دلچسپی لیں اور وہاں کے لوگوں میں تعلیم کی اہمیت و ضرورت کی ترغیب و ترہیب دیں تو انشاء اللہ یہ ایک بڑا کام ہوگا۔ مسلمانوں میں اللہ کے فضل سے کسی چیز کی کمی نہیں، اگر کمی ہے تو صرف مخلص مسلم قیادت اور نیک و صالح علما کی۔ ملت کے ہر مرض کے معالج یہی لوگ ہیں۔ ان کی حیثیت اس طبیب کی سی ہے جس کو مریض کے مرض کا پتہ ہوتا ہے۔ انہیں پتہ ہے قوم جہالت کے مرض میں مبتلا ہے، بے علم ہے، کس طرح اسے جہالت کے مرض سے اور جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی میں لایا جائے۔ ہمارے مدارس او رمساجد کے علماء و ائمہ اگر صدق دل سے چاہیں تو وہ پیام اقراء کو بخوبی عام کرسکتے ہیں او راس کے حقیقی معنی و مفہوم اور اس کے تقاضوں کو عوام میں بروئے کار لاسکتے ہیں، جسے اُمت مسلمہ چودہ سو سالوں سے بھلائے بیٹھی ہے اور جس کے سبب ہی پوری دنیا میں رسوا و ذلیل ہے۔ رسوائیوں کی اس دلدل سے ہماری یہی مخلص اور محترم شخصیات ہی نکال سکیں گے، انہیں یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ قوم کا میاب و سرخرو اسی وقت ہوسکتی ہے جب وہ زیورتعلیم سے آراستہ و پیراستہ ہوگی۔ آج تعلیم و تعلّم کا جو کچھ بھی شعور ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے انہی بزرگوں کی کوششوں اور محنتوں کے نتیجہ میں ہی مل رہا ہے۔ ان بزرگوں کے برعکس آج علماء کا ایک طائفہ بھی سرگرم ہے جو علم کے نام پر دین و ملت کے نام پر مسلمانوں کو ٹھگ رہا ہے۔ یہ لوگ مدارس اور مساجد کی انتظامیہ میں بھی پائے جاتے ہیں اور دینی، ملّی، سماجی اور سیاسی اداروں میں بھی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کے لیے گمراہی کا ہمیشہ ہی سبب بھی بنتے رہے ہیں اور ہمہ قسم کا نقصان بھی پہنچاتے رہے ہیں۔ جھوٹ اور منافقت ان کی خاص پہچان ہے۔ یہ اپنے مفاد کے لیے پوری ملت کو ایک ایسے اندھیرے میں ڈھکیل دیتے ہیں جہاں سے نکل پانا مشکل ہوجاتا ہے۔ 
مدارس او رمساجد اسلام کے قلعے ہیں، یہ امت مسلمہ کے لیے روشنیوں کے ایسے ٹاور ہیں جہاں سے مسلمانان عالم زندگی کے ہر موڑ پر روشنی حاصل کرتے ہیں اور یہیں سے اپنی زندگی کے رموز اور تخلیق کائنات کے اسرار سے بھی بہرہ ور ہوتے ہیں۔ یہ ربط باہم کے عالمی میڈیا ہیں، یہیں سے ایک دوسرے کو تسبیح کے دانے کی طرح پرونے کی ترغیب ملتی ہے۔ یہ وہ میڈیا ہیں جو دنیا کے کسی دوسری قوم کو میسر نہیں، مگر افسوس کہ ہم نے اللہ کی اس بخشی ہوئی نعمت سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے کے بجائے اس کی بے قدری کی انتہا ہی کرڈالی ہے۔ مسلمانوں کے محلے محلے میں یہ ٹاور موجود ہیں لیکن ان کی روشنیاں دن بہ دن نہ صرف مدھم ہی ہو رہی ہیں بلکہ جابجا بجھتی سی جارہی ہیں۔ ان علم کے چراغوں میں جب سے ہمارے مفادات اور بھانت بھانت کے اختلافات کے تیل جلنے لگے ہیں، نہ صرف آنکھوں میں جلن پیدا ہونے لگی ہے بلکہ دلوں میں کڑواہٹ اور دماغوں میں نفرت کا دھواں اٹھنے لگا ہے۔ اس کی ایک خاص وجہ ہمارے مدارس کے وہ ذمہ دار ہیں جن کا علم سے تو کوئی رشتہ نہیں ہوتا لیکن کسی بھی ذریعے سے دولت حاصل کرلی ہے تو وہ محض اپنی مالداری کی بنا پر مدرسہ کے کلیدی عہدہ پر قابض ہوجاتا ہے۔ اسی طرح مساجد کے اکثر ائمہ کرام اپنا قدم جمائے رکھنے کے لیے محلہ یا علاقہ کے لوگو ں میں دو گروپ پیدا کرتے ہیں، اس طرح کے ائمہ اپنا حقیقی فرض نبھانے کے بجائے فروعی کاموں میں لگ جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں مساجد جو مسلمانوں میں اتحاد اور اخوت باہمی کا منبع ہوا کرتی تھیں انتشار و افتراق کا سبب بننے لگی ہیں۔ اس طرح کے حالات مسلمانوں کے مختلف علاقوں میں راقم نے خود دیکھے ہیں اور شاید ایسے ہی حالات میں اور ایسے ہی امامو ں کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے فرمایا ہے کہ: 
قوم کیا چیز ہے قوموں کی امامت کیا ہے
اس کو کیا جانے یہ بیچارے دو رکعت کے امام
مگر حقیقی امام ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے منصب و مقام اور ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ قیادت و سیادت اور نیابت پیغمبرانہ مقام ہے۔ یہ منبر و محراب کا امین ہے، اس کے قول و عمل میں کوئی تضاد نہیں ہوتا۔ وہ صرف گفتار کا نہیں کردار کا غازی ہوتا ہے۔ یہ دنیا کے مادی اور پیشہ ورانہ خدمات کی طرح امامت کو محض ذریعہ معاش نہیں بلکہ اصلاح اُمت کی عظیم ذمہ داری نبھاتا ہے۔ اس کی نگہ بلند، سخن دلنواز اور جاں پرسوز ہوتی ہے اور ایسے ہی کو میر کارواں بننا زیب دیتا ہے اور اب ایسے امام خال خال ہی ملیں گے، ہمیں تو نہیں لگتا کہ آج کے مادہ پرست دور میں ایسے نیک دل لوگ مل سکیں۔ لیکن ضرورت تو ہمیں ایسے ہی لوگوں کی ہے۔ تو یہ لوگ کہاں ملیں گے کیسے ملیں گے؟ ظاہر ہے یہ جاننے کے لیے علم کی ضرورت پڑے گی اور یہ علم ہمیں اپنے منبع علم و حکمت مدارس و مساجد سے ہی مل سکے گا۔ اگر آپ کے علاقے میں کوئی مدرسہ یا اسکول نہیں تو فوراً حکم اقراء پر عمل کرتے ہوئے فریضۂ مرد و زن ادا کیجیے۔ اسی صورت میں ہماری دنیا و آخرت دونوں میں بھلائی ہے۔ 
یہ بھی یاد رکھیں کہ نوجوان نسل کی اسلامی نہج پر تعلیم و تربیت ایک جامع منصوبہ کے تحت اگر ملک کے کونے کونے میں نرسری سے اعلیٰ تعلیم تک کے مسلم بچوں کے لیے تعلیمی و تدریسی سہولت فراہم کی جائے تویقیناًایک صالح انقلاب کی راہ ہموار ہوسکے گی اور امت مسلمہ کے روشن مستقبل کی ضمانت بن سکے گی۔ راجدھانی میں فصیل بند شہر کے علاوہ مسلمان اطراف کے علاقوں میں بڑی تعداد میں پھیل گئے ہیں، لیکن ان علاقوں میں اوکھلا کے علاوہ کوئی بڑا مرکزی تعلیمی ادارہ نہیں ہے۔ مشرقی دہلی (جمناپار) میں مسلمانوں کی بہت بڑی آبادی ہے۔ غریب، امیر اور متوسط طبقے کے خاصے مسلمان آباد ہیں، یہاں لاتعداد مسجدیں ہیں اور ہر مسجد میں ناظرہ قرآن اور جزوی دینی تعلیم کا بندوبست ہے۔ مساجد سے الگ مدرسے بھی ہیں، مگر ان مدارس و مساجد میں بھی وہی لوگ قابض ہیں جن کے نجی مفادات ہیں۔ کوئی اجتماعی منصوبہ اور دور رس حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے عام مسلمانوں کا بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ اگر ملّی تنظیمیں آگے بڑھ کر کوئی دینی و ملّی تعلیمی مرکز قائم کرکے تمام پھیلے ہوئے مدارس کا اس سے الحاق کردیں تو یہ پورے جمناپار کے مسلمانوں پر عظیم احسان ہوگا۔ آج کے مادہ پرستی اور مفاد پرستی کے دور میں یہ کام تو بہت مشکل ہے لیکن کوشش تو کرنی ہی چاہیے۔ 
ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ دینی و عصری تعلیم الگ الگ ہونے کی وجہ سے ہمارا بڑا نقصان ہوا ہے اس لیے ہمیں ہر جگہ دونوں تعلیم ایک ساتھ دینے کا انتظام کریں، اس طرح ہمارے بچوں پر بے ضرورت بھار بھی نہیں پڑے گا اور والدین بھی بھاری فیس کے بوجھ سے بچ جائیں گے۔ لیکن ہے یہ کام بہت مشکل۔ مگر ارادوں میں خلوص و نیک نیتی ہو، عزم پیہم ہو اور عمل مسلسل ہو تو کوئی کام مشکل نہیں ہوتا۔ ہاں ایسے موقعوں اور ایسے کاموں میں رکاوٹ ڈالنے والوں میں اپنے نما بہت نظر آنے لگتے ہیں، انہیں پہچاننے اور ان سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ انہی لوگوں کی دخل اندازیوں سے ہمارے بہتیرے ادارے بند پڑے ہیں۔ 
ملک کے معروف ماہر تعلیم اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مرحوم سیّد حامد صاحب نے ایک دفعہ اپنے ایک مضمون میں ضلع اعظم گڑھ کے کسی گاؤں کے اسکول کا ذکر کیا تھا کہ وہاں کے لوگوں نے اسکول کے قیام کے لیے بڑے ہی جوش و جذبہ کا اظہار کیا اور اسکول کے ابتدائی مراحل تک اس کی انتظامیہ میں خاصی بڑی دلچسپی رہی، لیکن جیسے جیسے اسکول ترقیوں کے منازل طے کرتا رہا اور اس کی مالی امداد میں بھی اضافہ ہونے لگا تو علاقہ کے لوگوں میں انتظامیہ کے کلیدی عہدہ پر قبضہ کرنے کی دوڑ شروع ہوگئی اور نتیجتاً اسکول بندہوگیا۔ 
حامد صاحب نے اپنے مضمون میں اسکول اور علاقے کا نام نہیں لکھا تھا، لیکن ر اقم اپنے ہی گاؤں چاند پٹی کے دو اسکولوں کے حال سے بخوبی واقف ہے۔ ایک مدرسہ جو درس گاہ اسلامی کے نام سے معروف ہے، برسوں تک ایک مثالی درس گاہ کے طور پر پورے علاقہ میں معروف تھا اور برسوں تک اسے نیک نامی بھی حاصل رہی۔ اسے انتہائی نیک اور مخلص استاذ حافظ و مولوی شفیق احمد مدظلہ اور حد درجہ نیک و صالح مولانا قمرالزماں اصلاحیؒ جیسی عظیم شخصیات کی خدمات بھی حاصل رہیں، لیکن یہ بے مثل ادارہ بھی علم دشمنوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ اسی طرح ایک دوسرا ادارہ چاندپٹی کے شاہراہ اور مین بازار مہراں میں مولانا محمد علی جوہر انٹرکالج کے نام سے قائم ہے۔ یہ ادارہ بھی لوگوں کی خود غرضی کے نتیجہ میں کئی بار موت و حیات کے دور سے گزر کر ایک بار پھر زندہ ہونے کا ثبوت دے رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ علاقہ کے چند ہونہار نوجوانوں نے اسکول کو اس کے بانیان کے مقاصد کی تکمیل تک پہنچانے کا عزم کیے ہوئے ہیں اور وہ اس کے لیے ہر ممکن کوشش میں بھی ہیں۔ نوجوانوں کی اس ٹیم کے روح رواں محترم ماسٹر عالمگیر صاحب ہیں، ماسٹر صاحب بڑے سرگرم اور پرعزم آدمی ہیں، وہ اپنے وطن سے دور رہ کر بھی ادارے کے لیے بہت کچھ کر رہے ہیں، اگر ان جیسے دوچار لوگ اس ملّی فریضہ کے انجام دہی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تو مولانا محمد علی جوہر انٹرکالج ملک کے مایہ ناز سپوت مولانا محمد علی جوہر ہی کی طرح پورے ملک میں نمایاں مقام حاصل کرلے گا۔ او ریہ کام کوئی مشکل اس لیے نہیں کیوں کہ انتظامیہ کے لوگ مخلص ہیں، ان کے دل صاف ہیں اور یہی اوصاف اس عمارت کی بنیاد ہیں اور اسی بنیاد پر اونچی سے اونچی یہ عمارت تعمیر ہوتی رہے گی۔ اللہ ان نوجوانوں کے حوصلوں میں اضافہ کرے۔ شاید ایسے ہی نوجوانوں کے بارے میں علامہ اقبالؒ نے فرمایا ہے کہ: 
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ علاقہ کے متمول، ہمدرد اور اہل خیر حضرات کی توجہ اس طرف دلائی جائے اور عوامی طور پر بھی تحریک چلاکر اس کی اہمیت اور افادیت بتائی جائے۔ خصوصاً اللہ کا یہ حکم بھی سنایا جائے کہ ’’اے نبی! کہہ دیجیے کہ علم والے اور بے علم دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں؟ نصیحت تو عقل وا لے ہی قبول کرتے ہیں۔‘‘ (سورہ الزمر) 
جس وقت بھی عوام میں علم کی اہمیت اور اس کی افادیت کے تئیں بیداری پیدا ہوئی، اسکولوں کو ترقیوں کی منزلیں طے کرنے سے کوئی بھی رو نہیں سکتا۔ (باقی آئندہ) 

0 comments: