امین کھنڈوانی مرحوم:جن کی پوری زندگی قوم کی خدمت سے عبارت ہے

4:30 PM nehal sagheer 0 Comments

آج کی تکنیکی انقلاب کی دنیا میں آپ کو کسی بھی جانکاری کی ضرورت ہو تو سیدھے انٹر نیٹ پر گوگل کے سرچ انجن کا سہارا لیتے ہیں ۔امین کھنڈوانی کے انتقال کے بعد ان کے لئے سمیع قریشی کے ذریعہ لکھے گئے ایک فیچر کے لئے مرحوم کے فوٹو کی ضرورت تھی ۔میں نے گوگل کی مدد لینے کی کوشش کی لیکن بڑی مشکل سے اس نے مجھے صرف تین تصاویر دکھائیں جس میں سے ایک کسی تقریب کی ہے جہاں وہ ربن کاٹ کر اس کا افتتاح کررہے تھے ۔دوسری تصویر شاید ان کے گھر کی تھی جس میں چند لوگ ان کے گرد بیٹھے تھے اور وہ خود کسی گہری سوچ میں گردن جھکائے بیٹھے تھے ۔شاید کسی قومی معاملہ میں کسی نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش میں تھے ۔یہ دیکھ کر سمیع قریشی کی تحریر کا وہ جملہ یاد آگیا جس میں سمیع قریشی نے لکھا ہے کہ ممبئی فساد پر پولس نے ان پر بھی اقدام قتل اور فساد پھیلانے کا مقدمہ بنایا تھا اور وہ آخری وقت تک کورٹ کے چکر لگاتے رہے۔بقول سمیع قریشی انہوں نے کہا کہ آپ اس وقت مقتدر ہیں سیاسی دباؤ کا استعمال کرکے خود کو مقدمہ سے الگ کروالیں ۔اس پر انہوں نے کہا کہ ہاں بھائی میں ایسا کرسکتا ہوں لیکن میری قوم کے جو لوگ مقدمات کا سامنا کررہے ہیں ان کا کیا ہوگا ۔میں مقدمہ لڑوں گا اور پولس والوں کو عدالت سے قصور وار ٹھہراؤں گا ،افسوس کہ وہ آزاد ہندوستان کی اس کڑوی سچائی کو دل میں لئے چلے گئے کہ اب یہاں انصاف نہیں ہوتا بلکہ آستھا اور اجتماعی ضمیر کی بنیاد پر فیصلے تھوپے جاتے ہیں۔امین کھنڈوانی کی خاصیت یہ تھی کہ وہ ایماندار تھے ایماندار آدمی بیباک بھی ہوتا ہے ۔اس لئے انہوں نے کبھی اس سے سمجھوتہ نہیں کیا ۔وہ خواہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد ممبئی میں پھوٹ پڑنے والے فسادات کے موقعہ پر سنگینوں کے سائے میں مسلمانوں کی دادرسی ہو یا مسلمانوں پرفائرنگ کے لئے پولس کے اٹھے ہاتھ کو نیچے کرکے اسے فائرنگ سے باز رکھنا یا میئر کی کی کرسی کی قربانی دے کر ’’وندے ماترم ‘‘ کی مخالفت کرنا ہو ۔یہ ان ہی کا حصہ تھا اور ان ہی کے ساتھ ختم بھی ہو گیا ۔شاید اسی لئے وہ ایک خاص امیج کے ساتھ ممبئی اور مہاراشٹر کے مسلمانوں کے دلوں میں خوشبو کی طرح بسے رہیں گے۔جس کا تذکرہ کئی لوگوں نے ان کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
؂ میں فضاؤں میں بکھر جاؤں گا خوشبو بن کر رنگ ہوگا نہ بدن ہوگا نہ چہرا ہوگا
عام طور پر شخصیات پر نہیں لکھا کرتا لیکن امین کھنڈوانی مرحوم کے بارے میں نہیں لکھنا خیانت ہوگی۔میری عادت ہے کہ نہ کسی کے کہنے پر میں کسی کو اچھا اور نہ ہی کسی کے کہنے پر اسے برا مان لیتا ہوں ۔بلکہ اللہ نے عقل و دماغ عطا کیا ہے جو رب کریم کا بہت بڑا احسان ہے ۔اس سے تحقیق کرتا ہوں ۔پھر فیصلہ کرتا ہوں ۔ایسا ہی میں نے امین کھنڈوانی کے بارے میں کیا ۔ایک شخص کے سوا کسی نے ان کے بارے میں کسی شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا ۔اس ایک شخص نے جس نے شبہ کا اظہار کیا تھاوہ کیوں کیا تھا اس کا تذکرہ بھی آگے آئے گا ۔ایک شخص جو کہ ایک اردو ہفتہ روزہ کا مالک و مدیر ہے کے بارے میں ممبئی میں دسیوں لوگ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ وہ بلیک میلر ہے ۔وہ لوگوں کے بارے میں الٹی سیدھی باتیں لکھ کر ان سے رقم اینٹھتا ہے ۔یہ سن سن کر میں بور ہو چکا تھا ۔ایک دن اسی طرح بات چلی مجھے بہت غصہ آیا کہ چلو آج اس کی تحقیق کرکے اس کا قصہ ہی پاک کردیتے ہیں ۔اس کے لئے میں نے کم از کم بیس لوگوں سے فون پر دریافت کیا کہ ذرا بتائیں کہ فلاں شخص کیا بلیک میلر ہے ۔اگر ہے تو آپ سے اس نے کتنے پیسے لئے یا کبھی پیسے کا مطالبہ کیا ؟لیکن ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جو یہ کہتا کہ ہاں اس نے مجھ سے رقم مانگے یا میں نے اسے اتنی رقم دی ۔سب افواہ اور سنی سنائی باتوں کو آگے بڑھانے کا کام کررہے تھے ۔اور اس کو بدنام کرنے میں لوگوں کی دلچسپی اس لئے تھی کہ وہ شخص کسی مروت کے بغیر قوم میں جعلی قیادت اور مذہبی ٹھیکے داروں کے خلاف اعلان جہاد کئے ہوئے تھا بلکہ اب بھی ہے ۔اور ایسے لوگوں کو ٹھکانے لگانے کا اس سے بہتر اور کیا حربہ ہو سکتا ہے کہ اسے بدنام کرو تاکہ اس کی باتوں پر کوئی دھیان نہ دے ۔ایک مشہور روزنامہ کے منیجنگ ایڈیٹر سے بھی میں نے ہفتہ روزہ کے مالک و مدیر کے تعلق سے تفتیش کی انہوں نے کھلے لفظوں میں اور صاف صاف بتایا کہ اردو اخباروں کی اگر کسی نے لاج بچائی ہے تو وہ صرف وہی ہے جو کسی ڈر خوف اور لالچ کے بغیر لکھتا ہے ۔
بہر حال ہفتہ روزہ کے مدیر و مالک کی باتیں تو برسبیل تذکرہ آگئی تھیں۔اسی طرح میں نے امین کھنڈوانی کے تعلق سے معلومات حاصل کیں ۔چونکہ میں ممبئی میں نو وارد ہوں ۔اور یہاں آتے ہی جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ مایوس کیا وہ ہے یہاں کے مسلمانوں کی زبوں حالی بظاہر تو یہاں کا مسلمان ہندوستان میں سب سے زیادہ معاشی طور پر مضبوط ہے ۔لیکن سیاسی اور معاشرتی طور پر بہت پسماندہ ہے ۔اس کی وجہ مجھے قدم قدم پر جعلی سیاسی اور مذہبی قیادت کی لائن میں نظر آئی ۔ایسے میں امین کھنڈوانی جو ایک عرصہ سے صاحب فراش تھے اور قوم نے اس کو یوں فراموش کردیا جیسے انہیں جیتے جی ہی مردہ سمجھ لیا حالانکہ سمیع قریشی کے مطابق وہ ضعیفی میں بھی اتنے ہی متحرک تھے جتنے جوانی میں ۔کوئی بھی کسی بھی وقت ان سے مل سکتا تھا اور اپنے مسائل کے بارے میں گفتگو کرسکتا تھا ۔وہ بنفس نفیس اس میں دلچسپی لیتے تھے ۔میں زیادہ نہیں لکھوں گا کیوں کہ سمیع قریشی نے اس کا حق ادا کردیا ہے ۔اردو اخباروں نے بھی ان کے انتقال کی خبر کو کوریج دیا اور بہتر انداز میں خراج عقیدت پیش کیا ان میں روزنامہ سہا را اور روز نامہ صحافت میں سب سے بہتر کوریج تھا ۔سہارا نے ذرا تفصیل سے ان کی خدمات اور کارنامے کو کور کیا ۔جبکہ روزنامہ ہندوستان جو غالبا ہندوستان کا سب سے پرانا اخبار ہے اس نے صرف ابو عاصم اعظمی کے بیان کو شائع کرنے تک ہی محدود رکھا ۔روزنامہ انقلاب نے اندرونی صفحات میں جگہ دی لیکن اس نے ایک سابق ایم ایل اے کا مضمون شائع کرکے اس کمی کو پورا کردیا ۔
جیسا کہ شروع میں بیان کیا کہ لوگوں سے امین کھنڈوانی کے بارے میں معلومات لیتے ہوئے ایک مشہور شخصیت نے کہا کہ وہ آدمی تو بھلے تھے لیکن ان کی تعریف فلاں سابق ایم ایل اے نے کی جو ٹھیک نہیں اس لئے وہ مشکوک ہیں ۔لیکن ان سے سوال کرنے پر کہ کیا کسی برے آدمی کا اچھے انسان کی تعریف کردینا اس کو مشکوک بنادیتا ہے ؟انہوں نے اپنی بات واپس لے لی اور کہا کہ نہیں میں تو مذاق کررہا تھا ۔بہرحال اس قحط الرجال میں جبکہ ملت میں مخلصین ڈھونڈے نہیں ملتے امین کھنڈوانی کا انتقال امت کا حقیقی خسارہ ہے ۔یقین جانئے بقیہ سیاسی لیڈر اور بعض سیاسی عالم کے کے انتقال پر لوگوں کا افسوس عام طور پر منافقانہ ہوتا ہے ۔لیکن امین کھنڈوانی جیسے لوگوں کے بارے میں لوگ حقیقی محبت سے مغلوب ہو کر ان کے لئے دعا کرتے ہیں اور انہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا اپنا کوئی اس دارفانی سے کوچ کرگیا ۔آخر ایساکیوں نہ ہو کہ ایسے دور میں جبکہ مسلم لیڈر شپ مسلمانوں کے نام پر کروڑ پتی اور ارب پتی بن رہے ہیں اور بے چاری قوم دلتوں سے بد تر زندگی گزارنے پر مجبور کردی گئی۔لیکن اسی دور میں امین کھنڈوانی جیسا صاف ستھرے شبیہ کا شخص بھی آتا ہے جو اپنی سیاست کو قوم و ملک کی خدمت کا ذریعہ بناتا ہے ۔وہ حقیقی معنوں میں کسی پارٹی کا نمائندہ نہ ہو کر پارٹی میں رہ کر قوم کا نمائندہ بنتا ہے ۔مرحوم امین کھنڈوانی کی زندگی میں سبق بھی ہے ان مسلم لیڈروں کے لئے جو اپنے آپ کو قوم کا نمائندہ تو قرار دیتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اپنی پارٹی کے چشم و ابرو پر نظر رکھتے ہیں اور وہی کام کرتے ہیں جو ان کی پارٹی کی پسند ہو یا اس کے مفاد میں ہو ۔جس کی انہیں قیمت بھی ادا کی جاتی ہے ۔اور مسلمانوں کا مفاد تو کہیں دور چھوٹ جاتا ہے۔ابھی حال ہی میں کسی نے سوشل میڈیا پرکسی کا ایک مختصر قول نقل کیا ہے۔جو ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کے حقیقی کردار کی طرف اشارہ کرتا ہے ’’سیاسی بریانی میں مسلمانوں کا کردار کسی گرم مسالے کا ہو تا ہے ،جو پکاتے وقت تو بہت ضروری ہوتا ہے،لیکن کھاتے وقت نکال کر پھینک دیا جاتا ہے ‘‘۔یاد آیا اس پر مبارک کاپڑی نے بھی ایک ڈرامہ لکھا تھا جو بہت مناسب تھا ۔
اوپر میں نے گوگل پر مرحوم امین کھنڈوانی کی تصویر کے بارے میں لکھا تھا ۔ان کی صرف تین تصویر ملی وہ بھی دھندلی ۔لیکن ان کی شخصیت اتنی صاف و شفاف رہی کہ وہ بھلائے نہیں جاسکیں گے۔لیکن ان کے ہی آس پاس ایسے لیڈروں کی تصویر سیاسی ایوانوں میں سلامی داغتے ہوئے سینکڑوں مل جائیں گی ۔جو ہمارے اردو اخبارات کی دین ہیں جنہوں نے ان کے ان کہے بیانات اور نادیدہ مطالبات پر ان کے فرضی بیانات شائع کرکے قوم کے سر پر بٹھا دیا ۔آج کے یہ جعلی قیادت کی تصویریں تو گوگل پر محفوظ ضرور ہو جائیں گی جس کی مدد سے ان کے چیلے چانٹے برسی اور سالگرہ منا کر ان کی یاد کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں گے لیکن میرا دعویٰ ہے کہ وہ کسی کے دل میں کسی کی دعائے نیم شب میں کبھی نہیں رہیں گے ۔انہوں نے دنیا کمانے کی حرص میں سیاست کے ایوانوں میں قدم رکھا تھا۔سو دنیا ان کو مل گئی لیکن آخرت میں شاید انہیں کوئی حصہ نہ ملے ۔دوسری طرف امین کھنڈوانی جیسی عبقری شخصیت کو گرچہ اردو صحافت یا عوام میں وہ جگہ نہ ملے پھر بھی جن لوگوں کے دلوں میں وہ رہیں گے وہ ان کے لئے رحمت و مغفرت کی دعا کرتے رہیں ۔یہی انسان کا مرنے کے بعد سب سے بڑا سرمایہ ہوتا ہے کہ لوگ جانے انجانے میں اس کے لئے دعا گو رہیں ۔کوئی ان کو یاد کرے تو اس سے پہلے یہ کہے کہ اللہ ان پر اپنی رحمتیں نازل کرے ۔ مجھے تاریخ اسلام سے ایک واقعہ یاد آرہا ہے ۔یہ دور فاروقی تھا جب ایران فتح ہو اتھا ۔اور اسی کے ساتھ یہ طے ہو گیا تھا کہ صرف عرب ہی نہیں اب دنیا کا مستقبل صرف مسلمان ہی طے کریں گے ۔فتح کی خبر لے ایک قاصد مدینہ دربار خلافت میں خوش خبری سنانے آرہا تھا ۔حضرت عمرؓ اس دوران کافی فکر مند تھے کئی دنوں سے محاذ جنگ سے کوئی خبر نہیں آئی تھی ۔وہ بے چینی کے عالم میں مدینہ سے باہر نکل جاتے اور قاصد کا انتظار کرتے ایک دن ایک قاصد آتا ہو انظر آیا ۔وہ سواری پر ہی رہا اور حضرت عمرؓ اس سے فتح کی خوش خبری سننے کے بعد محاذ جنگ کی ایک ایک تفصیل معلوم کرتے جاتے تھے ۔انہوں نے نام لے لے کر پوچھا ۔قاصد نے کسی کے شہادت کی خبر دی اور کسی کے زخمی ہونے کی اور پھر قاصد نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ ان میں بعض ایسے بھی تھے جنہیں نہ آپ جانتے ہیں اور نہ ہم لیکن انہیں وہ بخوبی جانتا ہے جس کے لئے انہوں نے اپنی جان دی ہے ۔قوموں کی تاریخ میں سنہرے ابواب کا اضافہ ایسے ہی لوگوں سے ہوتا ہے جو قوم کی عمارت کے بنیاد کی اینٹ بن کر اس کی مضبوطی کا سبب بنتے ہیں ۔اب دور تک کھنڈوانی صاحب جیسا خادم قوم تنہائی پسند اور نام و نمود سے کوسوں دور کہیں نظر نہیں آتا ۔
آخر میں اس روزنامہ میں چھپے سابق ایم ایل اے کا امین کھنڈوانی پر مضمون کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔بلا شبہ انہوں نے کھنڈوانی صاحب کو بہترین خراج عقیدت پیش کیا ہے ۔انہوں نے بھی وہی کچھ بیان کیا ہے جو اپنے مضمون میں سمیع قریشی نے پیش کیا ہے ۔انہوں نے سیاسی لیڈروں اور نوجوانوں کے لئے امین کھنڈوانی کو بہترین مثال کے طور پر پیش کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں کہ ’’ان کی زندگی کے چند اصولوں نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے اور میں ان کا گرویدہ بن کر رہ گیا ہوں ۔سب سے اہم بات یہ کہ وہ جس عہد پر فائز رہے انہوں نے ہمیشہ اس عہدے کے وقار کو قائم رکھا ‘‘۔کسی کے کسی شخصیت سے متاثر ہونے کا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ وہ ان کے اصولوں کو اپنی زندگی میں اتارے ۔یہ صاحب ان سے متاثر بھی ہیں ان کے گرویدہ بھی لیکن ان کے اصولوں کا ان کی زندگی میں کہیں عمل دخل نظر نہیں آتا ۔بھلا یہ کیسی گرویدگی ہے ؟ لیکن بہر حال مضمون نگار نے حوصلے سے کام لیتے ہوئے کم از کم سچائی بیان کرنے کی تو کوشش کی ہے ۔وہ لکھتے ہیں ’’میں بڑے وثوق اور پوری ذمے داری سے کہہ سکتا ہوں کہ مرحوم امین کھنڈوانی جیسا ایماندار ،مخلص ،دیانتدار،پاک و صاف اور بے داغ شبیہ کا شخص اب موجودہ سیاست میں ملنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے‘‘۔کتنا سچ لکھا ہے لیکن کاش کہ وہ بھی سچائی کا ادراک کرپاتے اور اپنے آپ کو انہی کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے صرف تقریر و تحریر سے قوموں کی تقدیر نہیں بدلا کرتی ! اس کے لئے ضرورت ہوتی ہے خلوص و ایثار کے ساتھ سچے جذبہ کی جو ہم میں اکثر لوگوں میں نہیں ہے ۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور قوم کو ا ن سے بہتر ،مخلص اور ایماندار رہنما عطا کرے ،آمین ۔شاید ایسے لوگوں کے بارے میں کسی شاعر نے کہا تھا کہ
؂ ہمارے بعد اندھیرا رہے گا محفل میں بہت چراغ جلاؤگے روشنی کے لئے ۔
نہال صغیر۔

0 comments: