دشمن کے وار سے پہلے جلدی کیجئے

10:02 AM nehal sagheer 0 Comments

ممتاز میر ،برہانپور
اب نبیرہء اعلیٰ حضرت حضرت مولاناتوقیر رضا خان صاحب کے دیوبند کے سفر کو ایک ہفتہ ہو چکا ہے اور یہ کہنا بجا ہوگاکہ ان کے اس قدم کا ملت کے ۹۹ فی صد نے تہہ دل سے استقبال کیا ہے ۔ابھی تک اس تعلق سے مضامین آرہے ہیں۔ہمارے مطالعے میں اب تک جو مضامین آئے ہیں صد فی صد میں ان کے اس قدم کو سراہا گیا ہے ۔اسے ہندوستانی ملت کا نیا آغاز قرار دیا جا رہا ہے۔دعائیں مانگی جا رہی ہیں کہ خدا اس کوشش کو نظر بد سے بچائے۔کیونکہ امت مسلمہ کے اب تمام ہی لوگ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارے دشمن ہم سے زیادہ طاقتورباخبر اور ہوشیار و چالاک ہیں۔انھوں نے اپنے لاکھوں ایجنٹوں کو ہمارے درمیان داخل کر رکھا ہے۔پھر ملت میں بھی کمزور اور تھڑ دلے افراد کی کمی نہیں ۔وہ پہاڑ جیسی قوت ارادی کے ساتھ اٹھائے گئے مولانا توقیر رضا کے اس قدم کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کریں گے۔سازشیں شروع ہو چکی ہونگی۔اللہ ہمیں بھی نہلے پہ دہلے کے لئے تیار کرے۔آمین
ہم نے ۸؍۱۰ سال پہلے بمبئی میں اپنے قیام کے دوران اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان صاحب پر ایک مضمون اور ایک مراسلہ لکھا تھاکہ اعلیٰ حضرت جتنے وسیع العلم تھے ۔ علم کی جن جن شاخوں پرانھیں دسترس حاصل تھی ۔دنیا میں کوئی ان کا ہمسر نہ تھا۔ہم نے ان کے متبعین سے یہ شکایت بھی کی تھی کہ جس طرح مولانا مودودی کے شاگردوں اور ان کے متبعین نے ان کی فکر کو مولانا کے کام کو آگے بڑھایا ہے ایسا امام احمد رضا خان صاحب کے ساتھ نہ ہو سکا۔اگر یہ کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہو کہ ان کی فکرکوعام کرنے کی بجائے چھپایا گیا ۔فتاویٰ رضویہ جلد اول یا شاید دوم میں مولانا مودودی کے سیکریٹر ی ملک غلام علی کا پورے صفحے کا ایک تصدیق نامہ دیا گیا ہے جس میں ملک صاحب نے کہا ہے کہ امام محترم کے ۹۰ فی صد فتاویٰ وہی ہیں جو ہمارے عقائد سے مطابقت رکھتے ہیں جنھیں ہم قبول کرتے ہیں اور جو دس فی صد اختلاف ہے وہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ۔ایسے اختلافات صحابہء کرامؓ کے درمیان بھی موجود تھے۔
ہم نے فتاویٰء رضویہ جلد چہارم تک کا مطالعہ کر رکھا ہے ۔اس میں ایک سائل نے حضورﷺ کے نام پر انگوٹھے چومنے کے تعلق سے سوال کیا تھا۔امام محترم نے اپنے فتوے میں کہا ہے کہ جو چومے وہ بھی سنی جو نہ چومے وہ بھی سنی کیونکہ اس تعلق سے جو احادیث ملتی ہیں وہ درجہ استناد کو نہیں پہونچتی ۔افسوسناک بات یہ کہ اس مسئلے پر بمبئی میں مساجد میں قتل ہو چکے ہیں۔کیا یہ ظلم بالکل ویسا ظلم نہیں ہے جیسا دادری میں محمد اخلاق کے ساتھ ہوا ۔وہ جن کے پاس ایمان نہیں ہے ان سے شکایت کیسی؟ہم نے بھی تو ایمان والوں کو اتنا ہی عدم روادار بنا دیا ہے۔
بمبئی میں ایک ڈاکٹر صاحب ہیں ۔کٹر بریلوی۔ہمارے برادر خورد کے دوست۔ہم نے مذکورہ فتوے کا ان سے ذکر کیا۔انھیں یقین نہ آیاہم نے جلد چہارم انھیں لے جا کر دی۔انھوں نے اسے پڑھنے میں ۳؍۴ ماہ لگا دئے۔مگر پڑھ کر کہنے لگے ۔بھائی اب میں اگر اپنے لوگوں میں بات کروں گا تو کہیں گے کہ کیا ڈاکٹر صاحب آپ بھی بدل گئے۔ایسے ہی ایک جگہ اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں کہ بازار کی مساجد میں دوسری جماعت بنائی جا سکتی ہے۔شرط یہ ہے کہ پہلے امام کے مصلے پر نہ ہواس معاملے میں دیوبندی حضرات بھی جہالت ہی کا مظاہرہ کرتے ہیں بس بریلوی حضرات کی طرح بات پولس اورکورٹ کچہری تک نہیں پہونچاتے ۔ہمارا جتنا مطالعہ ہے اس کے مطابق ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ۹۰ فی صد مسائل میں بریلوی اوردیوبندی مسائل میں ہم آہنگی ہے مگر اعلیٰ حضرت کے بعد آنے والوں نے اپنے متبعین میں بالکل ویسی ہی عدم برداشت اور عدم رواداری بھردی ہے جیسی کہ آج وطن عزیز میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔اگر وہ غلط ہے تو اپنے ضمیر سے خدا کو حاضر و ناظر جان کر پوچھئے کہ آپ نے اپنے متبعین کے دماغوں میں دوسرے مسالک کے تعلق سے جو بھر رکھا ہے وہ کیا صحیح ہے؟
ایک اور مسئلہ جس کا بریلویوں اور دیوبندیوں کے مناقشے میں اہم کردار رہا ہے وہ مولانا اشرف علی تھانوی کا نماز کے دوران حضور ﷺکا خیال آجانے پر فتویٰ ہے ۔پہلے پہل جب ہم نے اس فتوے کو پڑھا تھا ہم کو بھی مولانا پر بہت غصہ آیا تھا مگر جب اس کی تشریح سامنے آئی تو انگشت بدنداں رہ گئے۔کیوں کہ ہمارا خود نماز کے دوران وہی رویہ تھا جس کی طرف مولانا اشرف علی تھانوی نے اشارہ کیا ہے ۔اس فتوے اور اس کی تفصیلات پڑھنے کے بعد ہم نماز میں حضور ﷺکا خیال پالنے کی بجائے نکالنے لگے۔ہر انسان کی نماز میں بہتیری خامیاں ہوتی ہیں درست رویہ یہ ہے کہ ہر لحظہ اسے بہتر بنانے کی کوشش کی جائے۔خیر ہمیں کہنا صرف یہ ہے کہ اب پہلی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ فریقین اپنے ماننے والوں کے دماغوں سے عدم برداشت اور عدم رواداری کو کھرچ کھرچ کر نکالیں۔اور یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ۔جتنا عرصہ ذہنیت بننے میں لگا ہے اس سے زیادہ عرصہ اسے درست ہونے میں لگے گااس دوران ہمارے دشمنوں کی کوششیں اور سازشیں بھی جاری رہیں گی۔مگر ہمیں اپنی ملت کو بنیان مرصوص بنانا ہے ۔ہر لمحہ دل میں یہ خیال جا گزیں رہے کہ بہترین منصوبہ ساز اللہ ہے۔حضرت مولانا توقیر رضا خان صاحب نے جو پہل کی ہے جو تاریخ بنائی ہے دیوبندیوں کا کام ہے کہ اس کا جواب اس سے بڑھ کر دیا جائے۔سوچ بچار میں وقت ضائع کر کے دشمن کو وار کرنے کا موقع فراہم نہ کیا جائے۔
ہم کئی بار لکھ چکے ہیں کہ اب مسلمانوں میں منافقوں کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے۔سارے دانشور مسلم ہوں یا غیر مسلم اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمانوں کو اس وقت تک نقصان پہونچانا ممکن نہیں جب تک سیندھ اندر سے نہ لگائی جائے اسی لئے ہمارے دشمنوں نے جی بھر کے ہم میں منافق پیدا کردئے ہیں۔خلافت عثمانیہ کا خاتمہ صرف دو منافقوں کے بل پر ممکن ہوا تھا۔ہم اس سے پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ بریلوی اور کسی حد تک اہلحدیث بھائیوں کے نزدیک سب سے بڑا سنی یا سلفی وہ ہے جو اپنے سوا تمام فرقوں کو کافر کہے۔تبلیغیوں کے نزدیک سب سے بڑا مسلمان وہ جو چلے لگائے۔جماعت اسلامی کے بارے میں کیا کہیں وہ تو Chosen people of God ہیں ان کے یہاں منافق گھس ہی نہیں سکتا!حالانکہ کے اب جماعت اپنی تاسیس کے مقابلے میں بہت زیادہ زوال یافتہ ہو چکی ہے۔ناقدین کو جماعت سے باہر کا راستہ دکھلایا جا رہا ہے ۔آج کل ماضی کو بھلانے کی باتیں بھی خوب ہو رہی ہیں ماضی دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ایک وہ جو بھلا دیا جانا چاہئے اور دوسرا وہ جس سے سبق حاصل کرکے غور وفکر کرکے مستقبل کی راہیں طے کی جانی چاہئے ۔
ہماری حتمی درخواست اکابرین ملت سے صرف اتنی ہے کہ پہاڑجیسی قوت ارادی کے ساتھ مولانا توقیر رضا صاحب نے جو قدم اٹھایا ہے اپنے اور بیگانوں کی جو مخالفت مول لی ہے اسے رائگاں نہ جانے دیجئے ۔دشمن تاک میں ہے آپ کی مومنانہ فراست اسے ناکام کر سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔07697376137 

0 comments: